میں آڑے ترجھے خیال سوچوں
کہ بے ارادہ کتاب لکھوں
کوئی شناسہ غزل تراشوں
کہ اجنبی انتیساب لکھوں
گنوادوں ایک عمر کے زمانے
کہ ایک پل کا حساب لکھوں
میری طبعیت پر منحصر ہے
میں جس طرح کا نساب لکھوں
عذاب سوچوں ، ثواب لکھوں
طویل تر ہے سفر تمہیں کیا
میں جی رہا ہوں تمہیں کیا
مگر تمہیں کیا کہ تم تو کب سے
میرے ارادے گنوا چکی ہو
جلا کر سارے حرف اپنے
میری دُعائیں جلا چکی ہو
میں رات اُڑوں کہ صبح پہنوں
تم اپنی رسمیں اُٹھا چکی ہو
سُنا ہے تُم سب کچھ بھلا چکی ہو
تو اب میرے دل پہ جبر کیسا
یہ دل تو حد سے گذر چکا ہے
گذر چکا ہے مگر تمہیں کیا
خزاں کا موسم ٹہر چکا ہے
مگر تمہیں کیا اس خزاں میں
میں جس طرح کا خواب لکھوں
تمہیں کیا ۔۔۔۔ !!!