خوبصورت نظمیں

ظفری

لائبریرین

میں نے اس سے پوچھا !
کیا دھوپ میں بارش ہوتی ہے؟
یہ سن کر وہ ہنسنے لگی۔۔۔
ہنستے ہنستے وہ رونے لگی۔۔
اور !
دھوپ میں بارش ہونے لگی
 

ظفری

لائبریرین
اس بے ثبات دُنیا میں
جب ثبات چاہو گے
آس ٹُوٹ جائے گی

کچّی گولیاں کھیلو
ایک دن ٹوٹیں گی
جان چُھوٹ جائے گی​
 

ظفری

لائبریرین
میرے دشمنوں سے کہو کوئی
کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے
کہ شکست یوں بھی قبُول ہے۔
کبھی حوصلے جو مثال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
میرے حرف حرف کے جسم پر جو معانی کے پروبال تھے
وہ نہیں رہے۔
میری شاعری جو جہان کو۔۔کبھی جُگنوؤں،کبھی تتلیوں سے
سجائے پھرتی جوان تھی۔۔وہ نہیں رہی۔
میرے دُشمنوں سے کہو کوئی۔
وہ جو شامِ سحرِ مثال میں کوئی روشنی سی لئے ہُوئے۔۔کسی لب پہ
جتنے سوال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
جووفا کے باغ میں وحشتوں کے کمال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
وہ کبھی جوعہدِ نشاط میں مُجھے خود پہ اِتنا غرور تھا۔۔کہیں کھو گیا!
جو فاتحانہ غرُور میں میرے سارے خواب نہال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
کسی دشتِ لشکرِ شام میں۔۔وہ جو سُرخرو ماہ و سال تھے۔۔وہ نہیں رہے۔
اور اب تو دل کی زبان پر۔۔فقط ایک قصہء حال ہے
جو نڈھال ہے۔
جو گئے دنوں کا ملال ہے۔۔
میرے دُشمنوں سے کہو کوئی۔۔کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے۔۔​
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت ناامیدی اور قنوطیت جھلکتی ہے اس نظم سے ۔ ۔ اور ظفری، آپکی طرف ایسی نظمیں ہمیں اچھی نہیں لگتیں ۔ ۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کی محبت اور خلوص سر آنکھوں پر محترم تلمیذ صاحب ۔۔۔ مگر نااُمیدیاں اور رنج و غم بھی تو زندگی کا حصہ ہیں‌ ۔ کبھی کبھی اس کا اظہار ضروری بھی ہوجاتا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
((( اُلجھن ))))

کس کس سے پیچھا چھڑاؤں
اور کس کس سے بھاگوں
خیالات کو جھٹکنا چاہوں
تو سینے در چلے آتے ہیں
اور دل کو دبوچ لیتے ہیں
اور اگر سوچیں نہ سوچنا چاہوں
تو اندر ہی اندر
روح میں اپنے اپنے پنجے گاڑ کر بیٹھ جاتی ہیں
اور خواہشات ۔۔۔۔
اور خواب ۔۔۔۔۔۔۔
اور خدشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کس کس سے ۔۔ ؟ ؟​
 

ظفری

لائبریرین
کچھ اُداس کچھ خاموش
کچھ بے بس سی لکیریں میرے ہاتھ کی
ڈھونڈتا رہتا ہوں ان لکیروں میں
ایک لکیر تیرے نام کی
کچھ معلوم بھی ہے
کچھ دل بھی جانتا ہے
کہ ان لکیروں میں نہیں
کوئی لکیر تیرے نام کی
پھر بھی نہ جانے کیوں ڈھونڈتا رہتا ہوں
ایک لکیر تیرے نام کی​
 

ظفری

لائبریرین
پُرسکون پانی پر
پتھر پھینک دیا
اب ان بے چین لہروں کو
کون سمجھائے
پتھر مارنے والا تو
کب کا جاچکا ہے​
 

ظفری

لائبریرین
بہت سی کتابیں
بہت سی سی ڈیز اور کیسٹس
بہت سی بے تُکی اپائنمنٹ
دوستوں سے فون پر لمبی باتیں
یا پھر اُلجھی راہوں پر چلتے
یوں ہی وقت بیتانا
بے سمت راستوں پر بے وجہ خاک اُڑانا
یا پھر نیٹ کے اُلجھاوں میں
بے طرح خود کو اُلجھانا
بے بات ہنسنے کے بہانے
بہت خوش ہوں
دُنیا کو دکھانے کو
کتنے بہانے ڈھونڈتا ہے دل
فقط اُسے بھلانے کو​
 

ظفری

لائبریرین
میں آڑے ترجھے خیال سوچوں
کہ بے ارادہ کتاب لکھوں
کوئی شناسہ غزل تراشوں
کہ اجنبی انتیساب لکھوں
گنوادوں ایک عمر کے زمانے
کہ ایک پل کا حساب لکھوں
میری طبعیت پر منحصر ہے
میں جس طرح کا نساب لکھوں
عذاب سوچوں ، ثواب لکھوں
طویل تر ہے سفر تمہیں کیا
میں جی رہا ہوں تمہیں کیا
مگر تمہیں کیا کہ تم تو کب سے
میرے ارادے گنوا چکی ہو
جلا کر سارے حرف اپنے
میری دُعائیں جلا چکی ہو
میں رات اُڑوں کہ صبح پہنوں
تم اپنی رسمیں اُٹھا چکی ہو
سُنا ہے تُم سب کچھ بھلا چکی ہو
تو اب میرے دل پہ جبر کیسا
یہ دل تو حد سے گذر چکا ہے
گذر چکا ہے مگر تمہیں کیا
خزاں کا موسم ٹہر چکا ہے
مگر تمہیں کیا اس خزاں میں
میں جس طرح کا خواب لکھوں
تمہیں کیا ۔۔۔۔ !!!
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
سخن شناس



میں جب شعر کہتا ہوں
دیوارِ فردا پہ میرا قلم
خون کے رنگ میں
پھول سے لفظ لکھتا ہے
لیکن کوئی یہ زبان پڑھنے والا نہیں !

احمد ندیم قاسمی
 

حجاب

محفلین
تمہارے پاس سے میں
اُٹھ کے آگیا ہوں مگر
ہر ایک شئے اُسی کمرے میں
چھوڑ آیا ہوں
وہ مُشک بار سی سانسیں
وہ دھیمی دھیمی مہک
وہ خوشگوار سی حدت
ہر ایک شئے
اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں
وہ میرے چہرے کو تکتی ہوئی
غزل آنکھیں
وہ جُھک کے اُٹھتی ہوئی
دلنواز پلکیں
وہ بےقرار نگاہیں
وہ سوگوار نظر
ہر ایک شئے
اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں
میرے لبوں پہ وہ گبھرا کے
ہاتھ رکھ دینا
وہ ان کہی میں ہر اِک بات
مجھ سے کہہ دینا
تمہارے پاس سے میں
اُٹھ کے آگیا ہوں مگر
ہر ایک شئے اُسی کمرے میں
چھوڑ آیا ہوں
کتابیں فیض کی بکھری ہوئی
سرہانے پر
نفی میں ہلتا وہ سر
بے خودی میں شانے پر
ہر ایک منظرِ زیبا
ہر ایک ساعتِ خوش
ہر ایک شئے
اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں
وہ مہکتے ہوئے لب
وہ ڈبڈبائی نظر
وہ الوداعی تبسم سا
زرد چہرے پر
ٹھہر گیا ہے نگاہوں میں
آخری منظر
تمہارے پاس سے میں
اُٹھ کے آگیا ہوں مگر
ہر ایک شئے اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں۔
(خلیل اللہ فاروقی )
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
ساقی نظر سے پنہاں ، شیشے تہی تہی سے
باز آئے ہم تو ایسی بے کیف زندگی سے

کس شوق ، کس تمنا ، کس درجہ سادگی سے
ہم آپ کی شکایت کرتے ہیں آپ ہی سے

اے میرے ماہ کامل پھر آشکار ہو جا
اُ کتا گئی طبیعت تاروں کی روشنی سے

نالہ کشو اُٹھا دو ، آہ و فغاں کی رسمیں
دہ دن زندگی ہے ، کاٹو ہنسی خوشی سے

دامن ہے ٹکڑے ٹکڑے ، ہونٹوں پہ ہے تبسم
اک درس لے رہا ہوں پھولوں کی زندگی سے

آگے خدا ہی جانے انجامِ عشق کیا ہو
جب اے شکیل اپنا یہ حال ہے ابھی سے

شکیل بدایونی
 
Top