خوبصورت نظمیں

حجاب

محفلین
کبھی بارش کے موسم میں
ہوائیں شور کرتی ہیں
خیالوں کا موسم بھی
جب ابر آلود ہو جائے
کوئی اُمید کا تارا کہیں
چمکنے سے پہلے ہی بجھ جائے
کسی ویران رہ گزر پر
آہٹ کا ہر امکان مٹ جائے
سکوت مضمحل فضا میں ہر طرف گُھل جائے
گزرتا وقت بھی ٹھہر جائے
اُسی لمحے اُداسی دہلیز پر اُترتی ہے
ہوا تھم سی جاتی ہے
حبسِ جاں اور بڑھتا ہے
دل کسی صورت پھر بہلتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سارہ خان

محفلین
حجاب نے کہا:
کبھی بارش کے موسم میں
ہوائیں شور کرتی ہیں
خیالوں کا موسم بھی
جب ابر آلود ہو جائے
کوئی اُمید کا تارا کہیں
چمکنے سے پہلے ہی بجھ جائے
کسی ویران رہ گزر پر
آہٹ کا ہر امکان مٹ جائے
سکوت مضمحل فضا میں ہر طرف گُھل جائے
گزرتا وقت بھی ٹھہر جائے
اُسی لمحے اُداسی دہلیز پر اُترتی ہے
ہوا تھم سی جاتی ہے
حبسِ جاں اور بڑھتا ہے
دل کسی صورت پھر بہلتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت خوب۔۔۔۔۔ :)
 

حجاب

محفلین
پلٹ کے دیکھنا چاہو تو نفرتوں سے اُدھر
دِنوں کی راکھ پہ راتوں کی یخ ہتھیلی پر
ہوا کے ناچتے گِرداب میں کہیں
بجھا ہوا کوئی لمحہ کسی چراغ کا داغ
نظر پڑے تو سمجھنا کہ میں بھی زندہ ہوں
کہ میں بھی زندہ ہوں اپنے اُجڑے دل کی طرح
اُجڑا دل کہ جہاں آج بھی تمہارے بغیر
ہر ایک شام دھڑکتے ہیں خواہشوں کے کواڑ
ہر ایک رات بکھرتی ہے آرزو کی دھنک
ہر ایک صبح دہکتے ہیں زخم زخم گلاب
اُجڑا دل کہ جہاں آج بھی تمہارے بغیر
ہر ایک پل میری آنکھوں میں ڈھل کے ڈھلتا ہے
ٹپکتی رُت کی تپش سے بدن پگھلتا ہے
اُجڑا دل کہ جہاں ڈوبتا ہوا سورج
جبینِ وقت پر لکھتا ہے دوریوں کا پیام
پلٹ کے دیکھنا چاہو تو نفرتوں سے اُدھر
پسِ غبار درخشاں ہے کب سے ایک ہی نام
وہ نام جس پہ ہے مسلسل اعتماد مجھے
وہ نام لوحِ جاں پر اُبھر کے بولتا نام
نظر پڑے تو سمجھنا کہ تم ہو یاد مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
گذرے ہوئے لمحوں کی اُلجھی ہوئی ڈور کے اُس طرف
خواب میرے جہاں دفن مٹی میں تھے
بارشوں نے وہاں گھاس اتنی اُگا دی
کوئی رہنما سی علامت ، نشانی کوئی ، کچھ بچا ہی نہیں
کچھ بچا ہی نہیں کہ کسی کی یاد کی
کوئی اُلجھی ہوئی ایک گرہ کھولتے !
وہ سِرا ڈھونڈتے !
ایک بھیدوں بھرا ، اور زمانوں پر پھیلا ہوا !
وہ سِرا ڈھونڈتے !
جو کہیں خواب اور اس کی تعبیر کے درمیان میں کھو گیا !
ہوچکی بہت ہجر کی بارشیں
دن بہت جا چکے !
خواب میرے جہاں دفن مٹی میں ہیں
اب وہاں ہر طرف گھاس ہی گھاس ہے
اور اس گھاس میں سرسراتا ہوا
سانپ سا ایک ڈر ہے
کہیں یہ نہ ہو !
ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سِرا بھی مل جائے
وہ گِرہ کُھل جائے
تو لمحوں کی اُلجھی ہوئی ڈور کے اُس طرف
کچھ نہ ہو !!!!!
 

ظفری

لائبریرین

چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
ميرے خدايا
ميں زندگي کے عذاب لکھوں
کہ خواب لکھوں
يہ ميرا چہرہ، يہ ميري آنکھيں
بُجھے ہوئے سے چراغ جيسے
جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
جنہوں نے پيماں کيے تھے مجھ سے
رفاقتوں کے، محبتوں کے
کہا تھا مجھ سے
کہ اے مسافر رِہ وفا کے
جہاں بھي جائے گا
ہم بھي آئيں گے ساتھ تيرے
بنيں گے راتوں ميں چاندني ہم
تو دن ميں تارے بکھير ديں گے
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
وہ اپنے پيماں
رفاقتوں کے، محبتوں کے
شکست کرکے
نہ جانے اب کس کي رہ گزر کا
مينارہِ روشني ہوئے ہيں
مگر مسافر کو کيا خبر ہے
وہ چاند چہرہ تو بجھ گيا ہے
ستارہ آنکھيں تو سو گئي ہيں
وہ زلفيں بے سايہ ہو گئيں ہيں
وہ روشني اور وہ سائے مري عطا تھے
سو مري راہوں ميں آج بھي ہيں
کہ ميں مسافر رہِ وفا کا
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
ہزاروں چہروں، ہزاروں آنکھوں، ہزاروں زلفوں کا
ايک سيلابِ تند لے کر
ميرے تعاقب ميں آرہے ہيں
ہر ايک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہيں ساري آنکھيں ستارہ آنکھيں
تمام ہيں مہرباں سايہ دار زلفيں
ميں کِس کو چاہوں، ميں کس کو چُوموں
ميں کس کے سايہ ميں بيٹھ جاؤں
بچوں کہ طوفاں ميں ڈوب جاؤں
کہ ميرا چہرہ، نہ ميري آنکھيں
ميرے خدايا ميں زندگي کے عذاب لکھوں، کہ خواب لکھوں​
 

ظفری

لائبریرین

وہ تو یوں تھا کہ ہم
!اپنی اپنی ضرورت کی خاطر ملے
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے اِرادوں کی تکمیل میں
تیرہ و تار خواش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کِھلے
!! وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے
ورنہ یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
! سب ضدیں چھوڑ دو
اور اگر یوں نہ تھا تو یونہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
یاد آؤ مجھے
بھول جاؤ مجھے !!!!​
 

الف عین

لائبریرین
طفری کیا یہ دونوں نظمیں عبیداللہ علیم کی ہیں؟ شاعر کا نام لکھنے میں کیا اعتراض ہے تم لوگوں کو۔ علیم کا مجموعہ میرے پاس حیدرآباد میں ہے ورنہ چیک کر لیتا۔
 

ظفری

لائبریرین
اُستادِ محترم میں اس کوفت کے لیئے بہت معذرت خواہ ہوں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ زیادہ تر نظمیں اور غزلیں ‌میرے پاس گِف (GIF) فائل کی صورت میں موجود ہے جو بہت پہلے میں نے اُردولائف پر کاپی کیں تھیں ۔ اچھی اور معیاری ہونے کی صورت میں ، میں نے گِف فائل کی صورت میں محفوظ کر لیں مگر شاعر کا نام اس لیئے نہیں جان سکا کہ وہاں کوئی ایسا حوالہ نہ تھا ۔

میں کوشش تو کرتا ہوں کہ شاعر کا نام بھی لکھوں مگر زیادہ تر مجھے اس کا علم نہیں ہوتا ۔۔۔ اگر ہوتا ہے تو میں ضرور حوالہ دیتا ہوں ۔

بہرحال آئندہ پوری کوشش کروں گا کہ شاعر کا نام دریافت کر کے شاعری کے حوالے سے کوئی پوسٹ کروں ۔
 

الف عین

لائبریرین
میرا مطلب یہ تھا ظفری کہ اگر کسی مخصوص شاعر یا شعراء کا کلام یہاں یا پسندیدہ تحریریں میں جمع ہو جائے تو ان کو بھی کتاب کے طور پر ترتیب دے کر بطور ای بک پبلش کیا جا سکتا ہے۔ اگر تصویر میں حوالہ نہ ہو تو پریشان پونے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھا تھا کہ ارکان کتابوں اور رسالوں سے یہاں ٹائپ کر رہے ہیں
 

ظفری

لائبریرین
جی اُستادِ محترم ۔۔۔ مجھے بھی کچھ کچھ اندازہ تھا کہ آپ یہی سوچ رہے ہوں گے ۔۔۔ عرصہِ دراز سے یہاں مقیم ہوں اور میں‌ جہاں رہتا ہوں وہاں اُردو کی کتابیں دستیاب ہونا بہت مشکل ہے ۔ شکاگو ، نیویارک اور لاس اینجیلس میں تو پھر بھی کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہیں ۔ اس لیئے میری پاس کتابوں کا بہت ہی کم ذخیرہ ہے ۔ زیادہ تر میں انٹر نیٹ سے ہی استفادہ کرتا ہوں ۔
 

ظفری

لائبریرین
کس کو فرصت ہے
کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ
میرا وجود زندگی کے لیئے
ضروری ہے

(جان ایلیا )​
 

دوست

محفلین
محبت
اسے ریشم نہ تم سمجھو
نہ اس کی ڈور میں الجھو
بہت نازک سی کلی ہے
اسے محسوس کردیکھو
بہاروں سے خزاں تک کے سفر کو جانتی ہے یہ
اسے نہ تم غلط سمجھو
نہ یہ تم کو غلط سمجھے
اسے کوئی یقین مت دو
محبت جانتی سب ہے
کسی کی بے وفائی کےسبب پہچانتی ہے یہ
اسے خالی نہ تم سمجھو
اسے باقی نہ تم سمجھو
یہ ہوتی ہے تو ہوتی ہے
مگر یہ کُل نہیں ہوتی
کہ دل سے دل کو جاننے کے سبھی گرجانتی ہے یہ
اسے کوزہ نہ تم سمجھو
اسے قطرہ نہ تم سمجھو
سمندر کی شکل ہے یہ
بہت پرزور موجیں ہیں
کبھی جو جوش میں‌ آئے چٹانوں سے ٹکرانا جانتی ہے یہ
اسے خواہش نہ تم سمجھو
اسے آشیانہ تم سمجھو
یہ اک خواب جیسی ہے
چراغ آب جیسی ہے
لگا کے آگ سینوں‌ میں جلانا جانتی ہے یہ
اسے لمحہ نہ تم سمجھو
اسے آخر نہ تم سمجھو
ازل سے یہ ابد تک ہے
کبھی یہ مر نہیں سکتی
دھواں بن کے پھر لمحوں میں سمٹنا جانتی ہے یہ
 

ظفری

لائبریرین
برسوں پہلے کسی نے
طویل عمر کی دُعا دی تھی
اور ساتھ یہ بھی کہا تھا
کہ تُم ہنستے اچھے لگتے ہو
شاید اسی لیئے ہی
زندہ بھی ہوں اور خوش بھی
کہ جینے کا تو شوق نہیں
مگر یہ حوصلہ بھی نہیں
کہ اُس کی بات ٹال سکوں

(خالد شریف)​
 

ظفری

لائبریرین
دوست نے کہا:
محبت
اسے ریشم نہ تم سمجھو
نہ اس کی ڈور میں الجھو
بہت نازک سی کلی ہے
اسے محسوس کردیکھو
بہاروں سے خزاں تک کے سفر کو جانتی ہے یہ
اسے نہ تم غلط سمجھو
نہ یہ تم کو غلط سمجھے
اسے کوئی یقین مت دو
محبت جانتی سب ہے
کسی کی بے وفائی کےسبب پہچانتی ہے یہ
اسے خالی نہ تم سمجھو
اسے باقی نہ تم سمجھو
یہ ہوتی ہے تو ہوتی ہے
مگر یہ کُل نہیں ہوتی
کہ دل سے دل کو جاننے کے سبھی گرجانتی ہے یہ
اسے کوزہ نہ تم سمجھو
اسے قطرہ نہ تم سمجھو
سمندر کی شکل ہے یہ
بہت پرزور موجیں ہیں
کبھی جو جوش میں‌ آئے چٹانوں سے ٹکرانا جانتی ہے یہ
اسے خواہش نہ تم سمجھو
اسے آشیانہ تم سمجھو
یہ اک خواب جیسی ہے
چراغ آب جیسی ہے
لگا کے آگ سینوں‌ میں جلانا جانتی ہے یہ
اسے لمحہ نہ تم سمجھو
اسے آخر نہ تم سمجھو
ازل سے یہ ابد تک ہے
کبھی یہ مر نہیں سکتی
دھواں بن کے پھر لمحوں میں سمٹنا جانتی ہے یہ

بہت خوب
 

ظفری

لائبریرین

اب میرے پاس آئی ہو تو کیا آئی ہو
میں نے مانا کہ تم ایک پیکرِ رعنائی ہو
چمنِ دہر میں روحِ چمنِ آرائی ہو
طلعتِ مہر ہو ، فردوس کی برنائی ہو
بنتِ مہتاب ہو یا گردور سے اُتر آئی ہو
مجھ سے ملنے میں اب اندیشہِ رسوائی ہے
میں نے خود اپنے کیئے سزا پائی ہے

اُن دنوں مجھ پہ قیامت کا جنوں طاری تھا
سر پر سرشاری وعشرت کا جنوں طاری تھا
مہہ پاروں سے محبت کا جنون طاری تھا
شہر یاروں سے رقابت کا جنوں طاری تھا
بسترِ مخمل و سنجاب تھی دُنیا میری
ایک رنگین و حسیں خواب تھی دُنیا میری
کیا سنوگی میری مجروح جوانی کی پکار
میری فریاد ِ جگر دوز میرا نالہِ زار
شدتِ کرب ڈوبی ہوئی میری گفتار
میں کہ خود اپنے مذاقِ طرب آرائی کا شکار
وہ گدازِ دل ِمرحوم کہاں سے لاؤں
اب میں وہ جذبہِ معصوم کہاں لاؤں


اب میرے پاس آئی ہو تو کیا آئی ہو​
 

ظفری

لائبریرین
( بچوں جیسی باتیں )

آج کا کام کل پر نہ ٹالو
جو کچھ بھی لکھنا ہے لکھ ڈالو
اِدھر اُدھر کی جھوٹی باتیں
ذرا ذرا سی جیتیں ، ماتیں
جانے پھر کب موت آجائے
دل کی دل میں ہی رہ جائے
 

دوست

محفلین
ساڈی یاری نبھنی اوکھی
او اتھری تے میں منہ زور
میں اپنی مرضی دا مالک
اونے ٹورنی اپنی ٹور
دو گھڑیاں وی ٹِک کے کدھرے
کٹھیاں بہہ نہیں سکدے
ایہہ گل وکھرّی
وکھریاں ہو کے اک دوجے توں
زندہ رہ نئیں سکدے
 
کیا تلاس کرتے ہو؟

ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاش کرتے ہو؟

ان فضول باتوں میں
کس لئے الجھتے ہو؟

جس کو ملنا ہوتا ہے
بن لکیر دیکھے ہی
زندگی کے رستوں پر
ساتھ ساتھ چلتا ہے

پھرکہاں بچھڑتا ہے
جو نہیں مقدر میں

کب ہمیں وہ ملتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کب وہ ساتھ چلتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاس کرتے ہو؟


(فاخرہ بتول)
 

شائستہ

محفلین
ہم نے جسطرح صُبو توڑا ہے، ہم جانتے ہیں
دلِ پُر خون کی مئے ناب کا قطرہ قطرہ:جوئے الماس تھا،
دریائے شبِ نیساں تھا
ایک اک لفظ کے دامن میں تھی موجِ کوثر
ایک ایک حرف حدیثِ حرمِ ایماں تھا
ایک ہی راہ پہونجتی تھی تجلّی کے حضور:
ہم نے اُس راہ سے منہہ موڑا ہے، ہم جانتے ہیں
چاند تاروں کے طلسمات میں تیرا افسوں:
شیوہ و شعبدہ و حکم و حکایات میں، تُو
حرف و تقریر میں تُو، رمز و کنایات میں تُو:
خواب کی بزم تیری، دیدۂ بے خواب تیرا
دل کی دھڑکن کا تیرے قُرب کے لمحوں پہ مدار
:ہم نے جس طرح تُجھے چھوڑا ہے، ہم جانتے ہیں​
 
Top