خودی اور "میں" کا فرق
کچھ عرصہ پہلے کسی صاحب سے "میں" کو ختم کرنے کے متعلق بات ہو رہی تھی کہ سارے جھگڑے اسی "میں" کے پیدا کئے ہوئے ہیں کہ
ہم کو بھی میں نے مارا
تم کو بھی میں نے مارا
ہم سب کو میں نے مارا
اس "میں" کو مار ڈالو۔
لیکن اسی دوران ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس مصرعے نے توجہ اپنی طرف کھینچ لی کہ
"خودی" کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے۔۔۔
نکتہ واقعی بڑا دلچسپ تھا کہ جب "میں" کو مار دیں گے تو پھر "خودی" کا کیا ہو گا۔۔۔
دراصل کنفیوزن یہ ہے کہ ہم خودی کو میں سے گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔۔۔ اس لئے پہلے ہم میں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ،میں کیا ہے۔ اور چونکہ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں تو اسی میں کی پہچان سے خودی کی پہچان بھی ہو جائے گی۔۔۔ ان شاءاللہ عزوجل۔۔۔
وہ "میں" جس کو مارنے کا کہا جاتا ہے اس کا دوسرا نام انا ہے۔ جس کو انگریزی میں ایگو کہتے ہیں۔ اور عربی میں بھی جب اپنی ذات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو انا کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی میں۔۔۔ بذات خود۔۔۔
قرآن مجید میں سے اس کی کچھ مثالیں لیتے ہیں۔۔۔ ۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی نے قرآن مجید میں اپنے لئے زیادہ تر ہم کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔ کہ شہنشاہوں کے یہی انداز ہوتے ہیں۔۔۔ اور وہ جو سب شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے، اور سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ جو جل جلالہ ہے اور لا شریک لہ کی شان والا ہے اور جس کی نہ کوئی مثل ہے نہ مثال۔ اور جو سب سے بے نیاز ہے اور زمین و آسمانوں میں سب اس کے محتاج ہیں۔ وہی زیادہ حقدار ہے کہ اس لفظ کو اپنی شان ربوبیت اور شان بے نیازی کے اظہار کے لئے استعمال فرمائے۔۔۔ ارشاد ہوتا ہے۔۔۔
وما ارسلناک الا رحمت اللعالمین۔۔۔ اور ہم نے آپ علیہ الصلاہ والسلام کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔۔۔
اور سورہ الحجر آٰیت ٢٣ میں ارشاد ہوتا ہے۔۔۔
وانا لنحن نحی ونمیت ، ونحن الوارثون۔۔۔ اور ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث و مالک ہیں۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
لیکن جب اس وحدہ لا شریک لہ نے اپنی شان جلالت و وحدانیت اور شان کبریائی کا اظہار فرمانا چاہا تو یوں ارشاد ہوا۔۔۔
لا الٰہ الّا انا ، فاعبُدنی۔۔۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے میرے، تو بس میری ہی عبادت کرو۔۔۔
ذرا غور فرمائیں کہ اس جملے سے کیسی جلالت ٹپک رہی ہے۔۔۔ لا الٰہ الّا انا ، فاعبُدنی۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔
(سبحانک یا ربنا۔۔۔ لا الٰہ الا انت۔۔۔ نعبدک ونستغفرک۔۔۔ اے ہمارے رب! تو پاک ہے۔۔۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔۔۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں۔۔۔ )۔
اور جب فرعون نے اپنی باطل ربوبیت کا دعوٰی کیا تھا تو اس نے بھی یہی لفظ "میں" استعمال کیا۔ اور قرآن مجید نے اس کو یوں بیان کیا۔۔۔
فقال انا ربکم الاعلٰی۔۔۔ اس فرعون نے کہا کہ میں ہی تمہارا بلند و بالا رب ہوں۔۔۔
اور جب اللہ سبحانہ وتعالٰی نے ابلیس کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو اس نے انکار کرتے ہوئے یہی لفظ میں استعمال کیا اور جواب دیا۔۔۔ کہ
انا خیر منہ۔۔۔ میں اس (آدم علیہ السلام ) سے بہتر ہوں۔۔۔
اب ان جملوں میں جو "میں" ہے بس اسی کو مارنا مقصود ہے کہ جس کے اندر یہ میں ہوتی ہے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ لفظ استعمال کرنا ناجائز ہے۔۔۔ کہ الفاظ بذات خود اچھے یا برے نہیں ہوتے بلکہ ان کا استعمال انہیں اچھا یا برا بناتا ہے۔۔۔
ہمارے خیال میں اوپر والے ریفرنسز سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ خودی، یہ اوپر والی میں نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
اب خودی کیا ہے۔۔۔ تو اس کے بارے میں مختصراً اتنا کہہ سکتے ہیں کہ خودی نام ہے خود شناسی کا۔ اپنے آپ کو پہچان لینے کا۔ کہ میں کیا ہوں۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ یہاں بھی ایک "میں" ہے۔ لیکن یہ میں خود پرستی والی میں نہیں، بلکہ خود شناسی والی میں ہے۔ کہ جب بندہ جان لیتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ تو یہی میں ، خودی بن جاتی ہے۔۔۔ بس یہی باریک سی لائن ہے ان دونوں کے درمیان۔۔۔ کہ جب ابلیس و فرعون کہتے ہیں کہ میں یہ ہوں اور میں وہ ہوں۔ تو یہ میں ہوتی ہے۔۔۔ اور جب بلھا کہتا ہے کہ ، بلھا کی جاناں میں کون۔۔۔ تو یہی میں خودی بن جاتی ہے۔۔۔ اور پھر یہ اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ اپنے رب سے جا ملتی ہے۔۔۔ اسی لئے تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ
من عرف نفسہ ، فقد عرف ربہ۔۔۔ جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔۔۔
کہ جب کوئی بندہ جان لیتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ بس وہ ہی وہ ہے۔ تو پھر اس بندے کی میں ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی اپنی کوئی خواہش باقی نہیں رہ جاتی۔ اور رب کی رضا ہی اس کی رضا بن جاتی ہے۔ اور اس کی ساری چاہتیں رب کی چاہت میں فنا ہو جاتی ہیں۔ اور جب رب اور بندے، دونوں کی چاہتیں ایک ہی چاہت بن جاتی ہے۔ تو پھر بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جہاں۔۔۔
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔۔۔
عشق و ادب میں ڈوب کر میں کو ختم کر دینے کی ایک خوبصورت مثال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مبارک زندگی سے لے لیتے ہیں کہ جو صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے۔ کہ
جب ایک مرتبہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کسی معاملے کو نمٹانے کے لئے کہیں تشریف لے گئے اور نماز کا وقت آن پہنچا تو صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے مصلّے پر کھڑا کر دیا اور آپ رضی اللہ عنہ امامت فرمانے لگے۔۔۔ اسی دوران ہمارے من ٹھار آقا علیہ الصلاۃ والسلام تشریف لے آئے اور پہلی صف میں کھڑے ہو گئے۔ صحابہ کرام نے نماز میں ہاتھ پر ہاتھ مار کر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو توجہ دلائی کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام تشریف لے آئے ہیں۔۔۔ آپ رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے اشارہ کیا کہ نماز پڑھاتے رہیں۔۔۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بات پر اللہ عزوجل کی حمد کی اور شکر ادا کیا کہ حضور نے انہیں نماز پڑھاتے رہنے کا حکم فرمایا۔۔۔ لیکن اس کے بعد پیچھے ہٹ کر صف میں مل گئے اور پھر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے آگے بڑھ کر نماز مکمل فرمائی۔۔۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ’’اے ابو بکر! جب میں نے تمہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا تو کس چیز نے تمہیں اپنی جگہ پر قائم نہ رہنے دیا۔۔۔ تو ذرا عشق و محبت کے اس شہسوار کا جواب سنیئے کہ یہ نہیں فرمایا کہ میری کیا مجال۔۔۔ کہ "میں" تو کب کی فنا فی الرسول ہو چکی تھی۔ بلکہ عرض کی۔ ’’ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے‘‘۔ سبحان اللہ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
کاش اس ادب اور عشق صدیق کا ایک ذرہ اللہ اپنے کرم سے ہمیں بھی نصیب فرمادے۔۔۔ کہ جن کے بارے میں امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میرے سارے اعمال ابو بکر کے ایک دن کے عمل کے برابر ہو جائیں۔۔۔
.....