خود سے بہت خفا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔ نوید صادق

نوید صادق

محفلین
غزل

خود سے بہت خفا ہوں میں، خود سے بہت جدا تھا میں
دیکھا نہیں کہ کیا ہوں میں، سوچا نہیں کہ کیا تھا میں

ٹوٹ گیا، بکھر گیا، اپنے لئے تو مر گیا
تیری طرف تھا گامزن، خود سے کٹا ہوا تھا میں

کیجے ملاحظہ ذرا، دفترِ ماہ و سالِ دل
میرا اسیر تھا یہ دل، اس میں پڑا ہوا تھا میں

یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

میرا ہی احتساب تھا، میں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا میں

دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں

تو بھی خبر کی لہر میں بہتا چلا گیا نوید
تیرے لئے تو ٹھیک تھا، اپنے لئے برا تھا میں

(نوید صادق)

احباب کی آراء کا انتظار رہے گا۔
 

جیا راؤ

محفلین
خود سے بہت خفا ہوں میں، خود سے بہت جدا تھا میں
دیکھا نہیں کہ کیا ہوں میں، سوچا نہیں کہ کیا تھا میں

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں

بہت اچھے لگے یہ اشعار !
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل؛ ہے نوید۔ ممکن ہے کہ تمہاری دوسری غزلیں جو دیکھی ہیں اب تک، ان کے پائے کی نہیں ہے یہہ اس لئے فرخ کو یہ احساس ہوا۔
یہ شعر بہر حال اسی نوید صادق کا ہے
یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ ملائکہ آپ نے ہائبرنیشن کا بہت اچھا ترجمہ کیا "سرمائی نیند" :) کیا یہ کہیں سے پڑھا تھا یا خود ہی خیال آیا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے نوید صاحب، لا جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں

تو بھی خبر کی لہر میں بہتا چلا گیا نوید
تیرے لئے تو ٹھیک تھا، اپنے لئے برا تھا میں


واہ واہ واہ لا جواب۔
 

محسن حجازی

محفلین
اقتباس از نوید صادق:
محسن بھائ!
صرف شکریہ سے کام نہیں چلنے کا۔
نوید بھائی فقط شکریے سے کام چلا کون رہا ہے؟ وہ تم ہم کل روزے سے نڈھال ہوئے پڑے تھے اور سحری کے وقت برتی جانے والی اپنی کوتاہ اندیشی کو خوب کوس رہے تھے :grin:

اقتباس از جیا راؤ:
انہیں نہ چھیڑا جائے۔ شاید ہائبرنیشن پر ہیں آجکل
نہیں بے شک ہائبرنیشن میں بھی چھیڑ لیا جائے مگر چھیڑنے کے ساتھ معقول وجہ بھی نتھی کی جائے :grin:

اقتباس از ملائکہ:
جیا راؤ یہ آپ نے کیا کہہ دیا سرمائی نیند میں اور یہ

اور غزل مجھے اچھی لگی
کیوں؟ آپ کی سہیلی مرک کے علاوہ دیگر کو سرمائی نیند منع ہے کیا؟ :grin:

اقتباس از سخنور:
واہ ملائکہ آپ نے ہائبرنیشن کا بہت اچھا ترجمہ کیا "سرمائی نیند" کیا یہ کہیں سے پڑھا تھا یا خود ہی خیال آیا؟
یہ سرمائی نیند کی بابت ہم ہی نے انکشاف کیا تھا ملائکہ صاحبہ کی سہیلی محترمہ مرک صاحبہ کے لیے۔ ادھر یہ ہتھیار ہمیں پر استعمال ہو رہا ہے! :grin:
ہم نے کہاں سے پڑھا؟ ہم نے اردو میڈیم میں ہی عمر بھر پڑھا ہے سو اردو سائنسی اصطلاحات سے قدرے واقف ہیں۔ پس وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہماری اختراع نہیں۔
پہلے کبھی کبھی والے دھاگے میں یہ بات ہوئی
اس کے بعد چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں والے دھاگے میں بھی ہم نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی تاہم کوئی خاطرخواہ تردید سامنے نہ آئی :grin:

اقتباس از جیاراؤ:
تو پھر Estivation پر ہونگے، اب یہ تو پتہ کرنا پڑے گا کہ اسلام آباد میں گرمی ہے یا سردی۔
خاتون ہمیں موٹی موٹی طبی اصطلاحات سے تو مت ڈرائيے۔۔۔ :grin:
ہم گرمائی نیند کے بھی قائل نہیں بلکہ گرمیوں میں تو ہم کو نیند ہی مشکل سے آتی ہے۔
 

مغزل

محفلین
ارے تو آپ بھی اردوواسطی کی کمتری کے شکار نصاب سے بہرہ مند ہوئی ہیں۔۔
اور محسن صاحب۔۔۔ خدا دا نا لیو۔۔ تسی روزا خراب کرنا اے کی ؟؟
 

مغزل

محفلین
غزل

خود سے بہت خفا ہوں میں، خود سے بہت جدا تھا میں
دیکھا نہیں کہ کیا ہوں میں، سوچا نہیں کہ کیا تھا میں

ٹوٹ گیا، بکھر گیا، اپنے لئے تو مر گیا
تیری طرف تھا گامزن، خود سے کٹا ہوا تھا میں

کیجے ملاحظہ ذرا، دفترِ ماہ و سالِ دل
میرا اسیر تھا یہ دل، اس میں پڑا ہوا تھا میں

یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

میرا ہی احتساب تھا، میں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا میں

دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں

تو بھی خبر کی لہر میں بہتا چلا گیا نوید
تیرے لئے تو ٹھیک تھا، اپنے لئے برا تھا میں

(نوید صادق)

نوید صادق صاحب۔۔۔
کیا بات ہے ۔۔ کرافٹنگ کی تو حد ہے ۔ نیا مصرع لکھنا اور وہ بھی روایت کی پابندی کے ساتھ ۔،۔۔
ایک ایک مصرع لاجواب ہے ۔۔ میری دانست میں آپ یہ غزل دیگر پر حاکمیت رکھتی ہے۔۔۔
خود کلامی ، خود فریبی، خود اذیتی کی داخلی و خارجی کیفیات کی آئنہ دار اس ملکوتی حسن کی حامل غزل پر ناچیز کی دااد اور مبارکباد ۔۔ میں اس طرح کا برتاؤ (ٹریٹمینٹ) دوسری بار پڑھا ہے آپ سے پہلے لیاقت علی عاصم کی غزل ۔۔۔ میں۔۔۔ (دو ایک شعر پیش کرتا ہوں ۔۔ باقی فرصت سے)

دکھ مرے عجیب ہیں سب مرے قریب ہیں
پھر یہ تذکرہ ہے کیا میں کہاں چلا گیا
خیمہ خیمہ صف بہ صف ہے یزید ہرطرف
اے زمین ِ کربلا میں کہاں چلا گیا
بن گیا سکوتِ دشت اک صدائے بازگشت
میں کہاں چلا گیا ، میں کہاں چلا گیا

آپ کے یہ تین شعر سب پر بھاری ہیں :

یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

میرا ہی احتساب تھا، میں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا میں

دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں

والسلام
 

محسن حجازی

محفلین
حضور کیا خوب لمبی چوڑی گتھی ہوئی غزل ہے ماشااللہ غزل میں گہرائی کا گو شکوہ کیا جا رہا ہے حالانکہ ہم کو تو پائینچے اٹھا کر اترنا پڑ رہا ہے اور پستہ قامتوں کے واسطے ڈوب مرنے کو کافی ہے۔:grin:

خود سے بہت خفا ہوں میں، خود سے بہت جدا تھا میں
دیکھا نہیں کہ کیا ہوں میں، سوچا نہیں کہ کیا تھا میں

ارے واہ۔۔۔ کیا بات ہے حضور۔۔۔ یہی معاملہ ہے۔۔۔ اسی طرح اپنی بھی گزرتی جاتی ہے کل بدھ تھا آج جمعرات ہے، آئندہ جمعے کی امید ہے۔۔

ٹوٹ گیا، بکھر گیا، اپنے لئے تو مر گیا
تیری طرف تھا گامزن، خود سے کٹا ہوا تھا میں

ارے واہ۔۔۔ پہلے مصرعے میں کیا زوربیان صرف ہوا ہے کہ جنگ عظیم میں لندن پر ہونے والی بمباری یاد آگئی :grin:
دوسرا مصرعہ بھی خوب ہے۔۔۔

کیجے ملاحظہ ذرا، دفترِ ماہ و سالِ دل
میرا اسیر تھا یہ دل، اس میں پڑا ہوا تھا میں

ارے واہ! کیا عمر بھر کی تاریخ اسیری سمیٹی ہے آپ نے دو سطروں میں!
ہم آپ کو مرد حر کا خطاب ضرور دیتے مگر اندیشہ ہے کہ اس خطاب کے بعد آپ ہمیں آسانی سے جانے نہیں دیں گے۔:grin:

یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

ارے واہ صاحب واہ! زنگ پڑے دریچے۔۔۔ کیا تخیل ہے!
گلی میں کون تھا، اس کا تو پتہ نہیں۔۔۔

میرا ہی احتساب تھا، میں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا میں

بہت خوب! خود پہ پہریدار ہوں میں۔۔۔ بس ایسا چوکیدار ہوں میں۔۔۔

دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں

اسی واسطے سونے پہلے آنکھیں ہی نہیں دروازہ بھی بند کر لینا چاہئے۔:grin:

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں

بہت خوب! مردم شناس ہی جو نہ تو ہوا تو امید وفا کیا اور حاصل جفا کیا۔۔۔۔ :rolleyes:

تو بھی خبر کی لہر میں بہتا چلا گیا نوید
تیرے لئے تو ٹھیک تھا، اپنے لئے برا تھا میں

حضور یہ ہم اور آپ سے لوگ اپنے ہی حق میں برے کیوں ہوتے ہیں۔۔۔۔ :confused:

لیجئے صاحب ہم کی گہری غزل سے پائینچے اٹھائے نکل آئے ہیں۔۔۔ بہت خوب کلام ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!:hatoff:
 

محمداحمد

لائبریرین
غزل

ٹوٹ گیا، بکھر گیا، اپنے لئے تو مر گیا
تیری طرف تھا گامزن، خود سے کٹا ہوا تھا میں

یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں

دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں

شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں

(نوید صادق)

نوید بھائی

ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔ پڑھ کر لطف آیا۔

خوش رہیے!
 

ملائکہ

محفلین
واہ ملائکہ آپ نے ہائبرنیشن کا بہت اچھا ترجمہ کیا "سرمائی نیند" :) کیا یہ کہیں سے پڑھا تھا یا خود ہی خیال آیا؟

آپکو کیا لگتا ہے میرے ذہن میں اتنے بڑے بڑے خیال آسکتے ہیں یہ محسن صاحب کے ہی کارنامے ہیں:blush::blush:

اور میری دوست کو ناحق کچھ نہ کہا جائے(تنبیہ):box:
 
Top