وہ ویت نام اورعراق وغیرہ میں کیوں آیا تھا ذرا یاددہانی ہوجائے ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
يہ کوئ ايسا غير معمولی امر نہيں ہے کہ کچھ رائے دہندگان دہشت گردی کے عالمی خطرے کے ضمن ميں امريکہ کے مصمم ارادے کے خلاف سوال اٹھانے کے ليے کئ دہائيوں پرانے واقعات کا ذکر لے کر بيٹھ جاتے ہيں، باوجود اس کے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی کاوش کو کسی بھی حوالے سے فقط امريکہ کی جنگ قرار نہيں ديا جا سکتا کيونکہ تمام عالمی برادری نے اس عفريت سے نبردآزما ہونے کے ليے ہاتھ باندھ ليے ہيں۔
ميں نے ماضی ميں بھی يہ باور کروايا تھا کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح امريکہ بھی خانہ جنگی سميت ايسی مسلح جنگوں کا حصہ رہا ہے جن پر آج تعليمی بحث، تاريخی تناظر ميں مشاہدہ اور متضادات آراء ہو سکتی ہيں۔ ليکن يہ تاريخ دانوں پر ہے کہ وہ واقعات کے اس تسلسل، معروضی حالات اور دیگر متعلقہ معاملات پر بحث کريں جو ان جنگوں کا سبب بنے اور پھر فيصلہ کريں ۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ پاکستان کے آج کے اقدامات کو کئ دہائيوں پرانی مسلح جنگوں کی بنیاد پر پرکھا جانا درست يا منصفانہ قرار ديا جا سکتا ہے، ايسی صورت ميں جبکہ ان ادوار کے مخصوص حالات اور متعلقہ جغرافيائ سياسی ماحول اور سياسی فضا کو دانستہ نظرانداز کر ديا جائے؟
ميں نہيں سمجھ سکا کہ آپ کس منطق اور دليل کے تحت گزشتہ سو برسوں کے دوران امريکہ کی مختلف جنگوں ميں شموليت کو دہشت گردی کے اس عالمی عفريت سے جوڑ رہے ہيں جس نے امريکہ سميت پوری دنيا کو متاثر کيا ہے۔ يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ آج دہشت گرد امريکيوں سے زيادہ مسلمانوں کے قتل عام ميں مصروف ہيں۔ کوئ بھی شخص جو عراق، افغانستان اور پاکستان سے آنے والی خبروں پر نظر رکھتا ہے، وہ اس حقيقت کا ادارک رکھتا ہے کہ يہ معصوم مسلمان شہری ہی ہيں جو عالمی دہشت گردی کے ہاتھوں زيادہ نقصان اٹھا رہے ہيں ۔
جب آپ دہشت گردی سے متعلق موجودہ ايشو کے تناظر ميں جاری بحث ميں ويتنام جنگ کا حوالے ديتے ہيں تو لامحالہ يہ تاثر ابھرتا ہے کہ دہشت گرد آج عام شہريوں کو ہلاک کرنے ميں حق بجانب ہيں اور امريکہ کو کوئ حق نہيں پہنچتا کہ وہ ان شہريوں کی مدد کو پہنچے کيونکہ چار دہائياں قبل ہم ويتنام کی جنگ ميں ملوث تھے اور آج امريکہ ديگر ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کرنے کے ليے جو بھی اقدامات اٹھائے ان کی حمايت نہيں کی جانی چاہیے کيونکہ بحثيت ملک امريکہ کبھی نا کبھی کسی جنگ کا حصہ رہ چکا ہے۔
اگر جارح قوت کو روکنے کے ليے يہ اصول عالمی سطح پر بطور پيمانہ اور لازمی شرط کے طور پراستعمال ہونے لگے تو پھر تو يقين رکھيں کہ دنيا کو کوئ بھی ملک محفوظ نہيں رہے گا کيونکہ دنيا کے اکثر ممالک اپنی تاريخ کے کسی نہ کسی طور ميں کسی نہ کسی جنگ کا حصہ رہ چکے ہيں۔
دہشت گردی آج کی حقيقت ہے۔ کئ دہائيوں قبل ہونے والے جنگی معرکوں کے درست يا غلط ہونے کا تعين کرنا تاريخ دانوں يا علمی بحث ميں شامل ماہرين کا کام ہے۔ ليکن ان کو بنياد بنا کر آج کے دور ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کا حوالہ دينا حقيقت سے لاتعلقی اور اس ناقابل ترديد سچ کو رد کرنے کے مترداف ہے کہ دہشت گردی صرف امريکہ کا ہی مسلہ نہيں ہے بلکہ ايک عالمی معاملہ ہے جس کے حل کے ليے تمام فريقين کی جانب سے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu