خود کش حملوں کے جواز میں طالبان کے دلائل

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس سے پہلے کہ آپ افغانستان کے "مقدس آزادی کے سپاہيوں" کی کاميابی کے ليے دعا گو ہوں اور اپنے وطن کی آزادی کے نعرے کے تحت ان کے خود ساختہ جہاد کے ضمن ميں کلمہ خير کہيں، بہتر ہو گا کہ آپ ايک نظر ان مظالم پر بھی ڈاليں اور بے گناہ شہريوں کے دانستہ قتل کے اعداد وشمار کو بھی ملحوظ رکھيں جنھيں يہ لوگ اسلام کا نام لے کر جائز قرار دے رہے ہيں۔ ميں يہ بات واضح کر دوں کہ ہمارا افغان عوام کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہيں ہے۔ امريکی حکومت کا اس خطے کے حوالے سے اپنی بالا دستی قائم کرنے کا نہ ہی کوئ عزم ہے اور نہ ہی کوئ کوشش۔ ہماری لڑائ، عزم اور تمام تر کاوشيں ان پرتشدد عناصر کے خلاف ہيں جو دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کے ليے خطرہ بنے ہوئے ہيں۔ يہ کوئ اتفاق نہيں ہے کہ ہميں عالمی برادری، اقوام متحدہ اور سعودی عرب سميت اکثر اسلامی ممالک کی سپورٹ اور حمايت حاصل ہے۔ دوسری جانب آپ جن مجرموں کی حمايت کر رہے ہیں ان کی طرف سے جس مسخ شدہ نظريات کا پرچار کيا جا رہا ہے ان کو تو تمام اہم مسالک اور مذہبی رہنماؤں نے يکسر مسترد کر ديا ہے۔

کچھ عرصہ قبل 18 ممالک کے 250 سے زائد مذہبی سکالرز نے سيرت کانفرنس کے دوران دہشت گردی کی سوچ کی سخت مذمت کی ہے۔

يہ بات حيران کن ہے کہ بعض رائے دہندگان ابھی تک سرحد کے دونوں جانب طالبان اور دہشت گردوں کی کاروائيوں اور ان کے مجموعی رويے کے حوالے سے تذبذب اور ابہام کا شکار ہيں اور اس پر بحث کرتے رہتے ہيں۔ بدقسمتی سے يہ دہشت گرد اپنے طرزعمل کے ضمن ميں ايسے کسی مخمصے کا شکار نہيں ہيں۔ يہ اپنی مخصوص سوچ اور نظريے پر کامل اور پختہ يقین رکھتے ہیں۔

يہ اپنے آپريشنز کی تکميل ميں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہيں کرتے اور بے گناہ انسانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کی مہم کو جاری رکھنے ميں انھيں کوئ پيشمانی نہيں ہے۔

خود کو انسانيت کے خير خواہ اور حريت پسند کہلوانے کے شوقين مجرموں کی جانب سے يہ ايک مربوط حکمت عملی اور تسلسل کے ساتھ جاری مہم کا حصہ ہے۔ آپ ان روزانہ کے واقعات کو نظرانداز کرنے پر کيونکر آمادہ ہيں؟

جو رائے دہندگان مخصوص واقعات کو بنياد بنا کر دہشت گردوں کی کاروائيوں کے حوالے سے شکوک اور شبہے کا اظہار کرتے ہیں انھيں چاہيے کہ وہ مجموعی صورت حال اور زمين پر موجود حقائق کا جائزہ لیں اور اس حقیقت کا ادراک کريں کہ بے گناہ شہريوں، عورتوں اور بچوں کی حفاظت ان کے لائحہ عمل کا حصہ نہيں ہے۔ اس کے برعکس وہ انسانی جانوں کے ضياع کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہيں تا کہ ان تصاوير کے ذريعے اپنی خونی سوچ کا پرچار کريں اور اپنی صفوں ميں مزيد افراد کو شامل کريں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
یہ آپ کی رائے ہے، میں اس کا احترام کرتا ہوں لیکن میں متفق نہیں ہوں۔ آپ نے انسانی جانوں کے ضیاع پر فائدہ اٹھانے کی بات کی، یہ ایک سوچ ہے۔ میرے خیال سے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
 

ساجد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس سے پہلے کہ آپ افغانستان کے "مقدس آزادی کے سپاہيوں" کی کاميابی کے ليے دعا گو ہوں اور اپنے وطن کی آزادی کے نعرے کے تحت ان کے خود ساختہ جہاد کے ضمن ميں کلمہ خير کہيں، بہتر ہو گا کہ آپ ايک نظر ان مظالم پر بھی ڈاليں اور بے گناہ شہريوں کے دانستہ قتل کے اعداد وشمار کو بھی ملحوظ رکھيں جنھيں يہ لوگ اسلام کا نام لے کر جائز قرار دے رہے ہيں۔ ميں يہ بات واضح کر دوں کہ ہمارا افغان عوام کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہيں ہے۔ امريکی حکومت کا اس خطے کے حوالے سے اپنی بالا دستی قائم کرنے کا نہ ہی کوئ عزم ہے اور نہ ہی کوئ کوشش۔ ہماری لڑائ، عزم اور تمام تر کاوشيں ان پرتشدد عناصر کے خلاف ہيں جو دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کے ليے خطرہ بنے ہوئے ہيں۔ يہ کوئ اتفاق نہيں ہے کہ ہميں عالمی برادری، اقوام متحدہ اور سعودی عرب سميت اکثر اسلامی ممالک کی سپورٹ اور حمايت حاصل ہے۔ دوسری جانب آپ جن مجرموں کی حمايت کر رہے ہیں ان کی طرف سے جس مسخ شدہ نظريات کا پرچار کيا جا رہا ہے ان کو تو تمام اہم مسالک اور مذہبی رہنماؤں نے يکسر مسترد کر ديا ہے۔

کچھ عرصہ قبل 18 ممالک کے 250 سے زائد مذہبی سکالرز نے سيرت کانفرنس کے دوران دہشت گردی کی سوچ کی سخت مذمت کی ہے۔

يہ بات حيران کن ہے کہ بعض رائے دہندگان ابھی تک سرحد کے دونوں جانب طالبان اور دہشت گردوں کی کاروائيوں اور ان کے مجموعی رويے کے حوالے سے تذبذب اور ابہام کا شکار ہيں اور اس پر بحث کرتے رہتے ہيں۔ بدقسمتی سے يہ دہشت گرد اپنے طرزعمل کے ضمن ميں ايسے کسی مخمصے کا شکار نہيں ہيں۔ يہ اپنی مخصوص سوچ اور نظريے پر کامل اور پختہ يقین رکھتے ہیں۔

يہ اپنے آپريشنز کی تکميل ميں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہيں کرتے اور بے گناہ انسانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کی مہم کو جاری رکھنے ميں انھيں کوئ پيشمانی نہيں ہے۔

خود کو انسانيت کے خير خواہ اور حريت پسند کہلوانے کے شوقين مجرموں کی جانب سے يہ ايک مربوط حکمت عملی اور تسلسل کے ساتھ جاری مہم کا حصہ ہے۔ آپ ان روزانہ کے واقعات کو نظرانداز کرنے پر کيونکر آمادہ ہيں؟

جو رائے دہندگان مخصوص واقعات کو بنياد بنا کر دہشت گردوں کی کاروائيوں کے حوالے سے شکوک اور شبہے کا اظہار کرتے ہیں انھيں چاہيے کہ وہ مجموعی صورت حال اور زمين پر موجود حقائق کا جائزہ لیں اور اس حقیقت کا ادراک کريں کہ بے گناہ شہريوں، عورتوں اور بچوں کی حفاظت ان کے لائحہ عمل کا حصہ نہيں ہے۔ اس کے برعکس وہ انسانی جانوں کے ضياع کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہيں تا کہ ان تصاوير کے ذريعے اپنی خونی سوچ کا پرچار کريں اور اپنی صفوں ميں مزيد افراد کو شامل کريں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
یہ آپ کی سی آئی اے ہی کے تو ایجنٹ ہیں جو پاکستانیوں کو مرواتے ہیں اور اس کے علاوہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں ۔ اسی اردو محفل پر پہلے بھی درجنوں بار مختلف اراکین نے ذاتی طور پر اس کے حوالے پیش کر کے اور دستاویزی ثبوت فراہم کر کے آپ کی تسلی کی لیکن آپ نے چونکہ حرام نہیں کھانا اس لئے شوق سے اپنی تنخواہ حلال کیجئے ۔
 

فراز اکرم

محفلین
پہلے مرتبہ طالبان کے آفیشل ویب سائیٹ سے خود کش حملوں کے جواز میں دلائل پڑھنے کو ملے کہ جس کو طالبان کے حمایت یافتہ حضرات کافی فخر سے نیٹ پر پیش کرتے نظر آئے۔

مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ دلائل خاصے بوگس ہیں، اور کوئی بھی ذی الشعور شخص اگر پہلے طالبان اور خود کش حملوں کے معاملے میں کسی شک و شبہ کا شکار ہو گا بھی، تو طالبان کے ان دلائل کو پڑھنے کے بعد اسے طالبان کے گمراہ ہونے میں ہرگز کوئی شک باقی نہیں رہ جائے گا۔

آپ نے جو اتنا لمبا مضمون پیسٹ کیا اس میں کام کے الفاظ صرف درج ذیل ہیں جو کوئی دلیل دے رہے ہیں۔

"انہوں نے خود کش حملوں کو حلال ثابت کرنے کے لیے ٣ روایات کیں، مگر یہ تین روایات کسی بھی طرح خود کش حملوں میں معصوم شہریوں کو مارنے کے متعلق نہیں بلکہ صرف میدان جنگ مسلحہ حربی کفار سے لڑنے سے متعلق ہیں۔"

آپ نے رد میں جو دلیل دی وہ بذات خود خودکش حملوں کو جائز قرار دیتی ہے۔ یعنی دشمن پر خودکش حملہ کرنے میں تو کوئی مضائقہ نہیں، ہاں معصوم شہریوں کو مارنا جائز نہیں، یعنی خود کش حملوں پر بذات خود کوئی اعتراض نہیں، اعتراض معصوم شہریوں کو مارنے پر ہے۔

اب آ جاتے ہیں معصوم شہریوں پر

معصوم شہریوں کو مارنا تو "غیر خودکش حملے" میں بھی جائز نہیں، اور یہ بات طالبان کو بھی نا صرف معلوم ہے بلکہ وہ اس کا پورے شدومد کے ساتھ پرچار کرتے ہیں، آپ کو امارت اسلامیہ کی ویب سائٹ پر یہ مضمون تو مل گیا لیکن تعجب ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ مضامین جو شہریوں کی حفاظت سے متعلق ہیں وہ کیوں دکھائی نہ دیے؟؟؟؟

مثلا

میڈیا پر جھوٹاپروپیگنڈہ دشمن کی ناکام کوشش ہے

یوناماکےجانبدارانہ رویہ کی بابت امارت اسلامیہ کاکھلاخط

سویلین نقصانات کےبارےمیں یوناماکی حالیہ رپورٹ کےمتعلق امارت اسلامیہ کاردعمل

افغان معززخاندان اور امریکی افواج کی وحشت

Zabihullah Mujahid dismisses irrational media reports over torching houses

Who is killing the civilian? ......... and why?

War crimes of the invaders and their internal stooges inside Afghanistan (December 2013)



صرف یہی نہیں کہ وہ عوامی مقامات پر دھماکوں سے برات کا اعلان کرتے ہیں بلکہ وہ جنگی اخلاق کا پرچار بھی کرتے اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں

اسلام کے جنگی اخلاق اور قیدیوں کے احکام

عید الاضحی1434ھ کی مناسبت سے عالیقدر امیر المومنین حفظہ اللہ کا پیغام



چونکہ آپ کا اعتراض خودکش حملہ نہیں بلکہ حربی اور غیر حربی ہونا ہے اس لیے اس معاملے پر وضاحت کیجیے کہ آپ کے خیال میں حربی کسے کہا جاتا ہے؟؟؟ کیا امریکی و دیگر نیٹو افواج جو افغانستان پر حملہ آور ہوئی ہیں اور غاصب افواج کی حیثیت رکھتی ہیں آپ انھیں حربی تسلیم کرتی ہیں یا نہیں؟ اور نیٹو کے وہ مقامی اہلکار جو اس حملے میں نیٹو کی معاونت کر رہے ہیں کیا وہ حربی نہیں؟

آپ کے جواب کا شدت سے انتظار رہے گا، امید ہے کہ آپ وضاحت فرمائیں گی؟

 

Fawad -

محفلین
اصل بات یہ ہے افغان طالبان غاصب فوج اور کفر کے اتحاد سے برسرپیکار ہیں، مزاحمت کی کوئی بھی تعریف اٹھا کر دیکھ لیجیے ان کا عمل درست ہی ٹھہرے گا۔ غیر ملکی قابض فوج کا مقابلہ کرنا بنیادی انسانی حق ہے اور آزادی انسان کی بنیادی ضرورت۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بے شمار شواہد اور طالبان کی قيادت کی جانب سے بارہا تسليم کيے جانے کے باوجود اب بھی ايسے تجزيہ نگار اور رائے دہندگان موجود ہيں جو نا صرف يہ کہ ان گروہوں کو مختلف اکائياں گردانے پر بضد ہيں بلکہ اپنے تصورات کو وسعت دے کر ان دہشت گرد گروہوں کی خود ساختہ آزادی کی تحريک ميں خير کے ان پہلوؤں کو تلاش کرتے رہتے ہيں جن کا سرے سے وجود ہی نہيں ہے۔

اس بحث سے جو سب سے واضح سوال ابھرتا ہے وہ يہ ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف متحرک ان گروہوں کی غير متزلزل اور عدم برداشت پر مبنی غير انسانی اور سفاکانہ سوچ ميں اتنی مماثلت کيوں ہے، جو اپنے ايجنڈے کی تکميل کے ليے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ انسانی اذيت اور بے گناہ شہريوں کی ہلاکت پر انحصار کرتی ہے۔

جو رائے دہندگان اس بنياد پر ان کی حمايت کے ليے حيلے بہانے تراشتے ہيں کہ افغانستان پر غير ملکی طاقتوں کا قبضہ ہے، ان کے ليے وضاحت کر دوں کہ اقوام متحدہ کا افغانستان ميں انسانی حقوق سے متعلق ادارہ ہيومن رائٹس يونٹ آف دا يونائيٹٹ نيشنز اسسٹنس مشن ان افغانستان (يو اين اے ايم اے) سرکاری طور پر افغانستان میں جاری مسلح تنازعے کو کوئ بين الاقوامی مسلح تنازعہ نہيں بلکہ افغانستان کی حکومت اور غير رياستی مسلح گروہوں کے مابين مسلح جدوجہد قرار ديتا ہے جس ميں بين الاقوامی عسکری قوتيں افغان حکومت کو تعاون فراہم کر رہی ہیں۔

اس کے علاوہ اس تھريڈ پر بعض رائے دہندگان کی رائے کے برخلاف افغانستان ميں طالبان نے کئ بار عوامی سطح پر يہ بيان جاری کيا ہے کہ وہ ہر اس عنصر کے خلاف حملے کريں گے جو ان کی سوچ اور نظريے سے اختلاف کرے گا اور اس ميں وہ افراد اور گروہ بھی شامل ہيں جو بين الاقوامی قانون کے تحت "سويلين" يا عام شہری کے زمرے ميں آتے ہيں۔

گزشتہ کئ برسوں کے دوران طالبان اور ان سے منسلک عناصر نے کئ حکومتی عہديداروں، قبائلی عمائدين، سرکاری اہلکاروں، اجرت پر کام کرنے والوں، ڈرائيورز، مترجم اور ديگر شہريوں کو نا صرف يہ کہ نشانہ بنايا ہے بلکہ کھلم کھلا ان شہريوں کو قتل يا اغوا کرنے کا عنديہ بھی ديا ہے۔

سال 2011 اکتوبر ميں حکومت کی جانب سے لويا جرگہ کے انعقاد کے اعلان کے بعد طالبان نے اپنے بيان ميں يہ واضح کيا کہ وہ اس جرگے میں شموليت اختيار کرنے والے مختلف شہريوں اور حکومت سے متعلق عہديداروں کو نشانہ بنانا درست تصور کرتے ہيں۔
ايسے شہريوں پر دانستہ حملے اور ان کا قتل عالمی انسانی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے جس کے تحت کسی بھی مسلح تنازعے ميں محض عسکری مقاصد کے ليے کيا جانے والا حملہ ہی قانونی تصور ہوتا ہے۔

ايک منصفانہ تحريک جو عوامی مفاد کے حصول کی دعويدار ہو اس ميں کسی بھی صورت ميں شہريوں کو جائز عسکری ہدف قرار نہيں ديا جا سکتا ہے۔

افغانستان ميں دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے دانستہ شہریوں کو نشانہ بنانے اور قتل و غارت پر مبنی شرمناک مہم کے طفيل انسانی زياں اور جانی نقصان سے متعلق اعداد وشمار ہر گزرتے سال کے ساتھ بتدريج بڑھتے ہی چلے جا رہے ہيں۔

ادارہ ہيومن رائٹس يونٹ آف دا يونائيٹٹ نيشنز اسسٹنس مشن ان افغانستان (يو اين اے ايم اے) کی پيش کردہ دستاويز کے مطابق سال 2011 ميں تين ہزار اکيس (3021) شہری ہلاک ہوئے جو سال 2010 کے مقابلے ميں آٹھ فيصد زيادہ ہيں جب دو ہزار سات سونوے (2790) شہری ہلاک ہوئے اور يہ اعداد وشمار سال 2009 سے 25 فيصد زيادہ ہيں جب کل دو ہزار چار سو بارہ (2412) شہری ہلاک ہوئے۔

ريکارڈ سطح پر افغان بچوں، خواتين اور مردوں کی ہلاکت حکومت مخالف گروہوں کی ترميم شدہ حکمت عملی کی مرہون منت ہے۔ ہر گزرتے برس کے ساتھ متعدد افغان طالبان گروہ اور ان کے ساتھی تواتر کے ساتھ خود ساختہ دھماکہ خيز آلات يعنی آئ ای ڈيز کا استعمال کر رہے ہيں اور نا صرف يہ کہ ملک بھر ميں اپنی کاروائيوں کا دائرہ کار بڑھا رہے ہيں بلکہ خودکش حملوں ميں بھی اضافہ کيا جار ہا ہے جس کے نتيجے ميں زيادہ ہلاکتيں بھی ہو رہی ہيں اور اس کے ساتھ ساتھ غيرقانونی طور پر شہريوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

سال 2011 ميں افغان بچوں، خواتين اور مردوں کی ہلاکت کا سب سے بڑا سبب خود ساختہ دھماکہ خيز آلات يعنی آئ ای ڈيز کا استعمال تھا جن کی تعداد 967 رہی يعنی کہ مجموعی طور پر اس تنازعے ميں 32 فيصد ہلاکتيں يا ہلاک ہونے والے ہر 3 ميں سے ايک شہری انھی آئ ای ڈيز کی زد ميں آئے۔

اسی طرح سال 2011 ميں خود کش حملوں کے نتيحے ميں ہلاک ہونے والے شہريوں کی تعداد ميں بھی ڈرامائ اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر خودکش حملوں کے نتيجے ميں 431 شہری ہلاک ہوئے جو کہ سال 2010 کے مقابلے ميں 80 فيصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
ان اعداد وشمار کا ايک سرسری جائزہ اور پاکستانی ميں اسی ضمن ميں موجود اعداد وشمار کے ساتھ ايک غير جانب دارانہ تقابلی جائزہ اس امر کو ثابت کرنے کے ليے کافی ہے کہ ہم ايک مشترکہ دشمن کے خلاف برسرپيکار ہيں اور ان کے مقاصد ميں عظمت، خير اور انصاف کا کوئ پہلو نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس تھريڈ پر موجود کالم اور اس ميں بے رحم قاتلوں کی جانب سے غير حقيقی، تناظر سے ہٹ کر اور بعض معاملات ميں تو دانش کے تمام اصولوں سے عاری جو دلائل پيش کيے گئے ہيں وہ انسانيت کے خلاف اپنے جرائم کی توجيہہ پيش کرنے کی ناقابل فہم کوشش ہے۔

کوئ بھی غير جانب دار اور بنيادی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص ان کی غلط بيانيوں اور فريب کو بآسانی ديکھ سکتا ہے جسے يہ انتہائ مايوسی کے عالم ميں مذہب کا لبادہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہيں۔


اس کمزور تاويل ميں سے سب سے حيران کن حقيقت جسے ہذف کيا گيا ہے وہ يہ ہے کہ خود ساختہ بہادری کے يہ "عظيم کارنامے" بسا اوقات بے يارومددگار کم سن بچوں سے کروائے جاتے ہيں جن کی برين واشنگ کی گئ ہوتی ہے اور وہ بھی درحقيقت ان حملوں کےمتاثرين ميں شامل ہوتے ہيں۔


ان افراد کی سوچ پر ماتم ہی کيا جا سکتا ہے جو بچوں کو بطور ہتھيار استعمال کرتے ہيں اور پھر تاريخ سے مثاليں کر يد کريد کر اپنے جرائم کی توجيہہ پيش کرنے کی کوشش کرتے ہيں، يہی نہيں بلکہ اپنی "بے مثال کاميابی" پر اترانے کی ہمت بھی رکھتے ہيں۔


يہ کوئ حاليہ رجحان نہيں ہے بلکہ حقيقت تو يہ ہے کہ کئ برسوں سے افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گرد گروہ بچوں کو ہرکارے کے طور پر استعمال کر رہے ہيں۔


ذيل ميں ايک رپورٹ کا لنک موجود ہے جس ميں سباؤن نامی ايک تنظيم کی کاوشوں کو اجاگر کيا گيا ہے جو ان بچوں کو دوبارہ معاشرے کا حصہ بنانے پر مامور ہے جنھيں برين واش کر ديا گيا ہے۔


http://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/asia/pakistan/9590838/Pakistan-school-offers-hope-for-children-rescued-from-the-Taliban.html


اس تنظيم کی کاوشوں سے اب تک 188 طالب علم بحالی اور خطرے کے ادارک سے متعلق پروگرام ميں شرکت کر چکے ہيں۔

ان طالب علموں کی گرفتاری سے نا صرف يہ کہ پاکستانی معاشرے ميں مخدوش ہوتی ہوئ امن کی صورت حال اجاگر ہوتی ہے بلکہ اس بات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ دہشت گرد گروہ بدستور بچوں کو استعمال کر رہے ہيں۔

يہ تمام بچے فوج اور پوليس کی کاروائيوں کے دوران طالبان کے مختلف تربيتی مراکز سے گرفتار کيے گئے تھے۔ يہ لڑکے سباؤن ميں 6 ماہ سے 2 سال تک رہتے ہيں۔ کچھ نے تو بحالی کے دوران 3 سال يہاں گزارے ہيں۔

پاکستان ميں ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ان بچوں کو استعمال کرنے ميں کسی تامل کا مظاہرہ نہيں کيا جاتا۔ بلکہ "بھرتی" کی اصطلاح تو اس ضمن ميں استعمال کرنا درست ہی نہيں ہے۔ مختلف ذرا‏ئع سے پيش کی جانے والی تفصيلی رپورٹوں ميں يہ واضح کيا گيا ہے کہ ان بچوں کی بھرتی کے عمل ميں ان کی اپنی رضا شازونادر ہی شامل ہوتی ہے۔

کم سن بچوں کے ليے ممکن نہيں ہوتا کہ وہ دہشت گردوں کو انکار کر سکيں کيونکہ ايسی صورت ميں انھيں اپنے اور اپنے گھر والوں کی جانوں کے لالے پڑ جاتے ہيں۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے دھوکے بازی اور فريب کے ذريعے سے بچوں کی بھرتی کے جو طريقہ کار وضع کيے گئے ہيں ان کی روشنی ميں پاکستان ميں متشدد انتہا پسندی کے واقعات ميں بچوں کی شرکت کے روکنے کے عمل کو محض انسداد دہشت گردی قرار نہيں ديا جا سکتا ہے۔

بلکہ اس عمل کو بچوں کے بنيادی تحفظ سے متعلق چيلنج سے عبارت کيا جا سکتا ہے۔


خودکش حملے کے ليے تيار اس کم سن بچے کی کہانی پڑھيں جسے برين واش کر کے يہ باور کروايا گيا تھا کہ وہ اس حملے ميں محفوظ رہے گا اور پھر ان افراد کے بارے ميں سوچيں جو ان اعمال کو درست قرار دينے پر بضد ہيں۔


http://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/asia/afghanistan/9014282/Afghan-boy-suicide-bombers-tell-how-they-are-brainwashed-into-believing-they-will-survive.html


دہشت گردوں کے نقطہ نظر سے بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا آسان ہوتا ہے اورانھيں بھی لڑکيوں کی طرح بغير کسی شک کے چيک پوسٹس سے گزارا جا سکتا ہے۔


خودکش حملہ آوروں کی عمريں سات سے لے کر 40 برس تک ہو سکتی ہيں ليکن اکثر ان کی عمريں 18 برس سے کم ہوتی ہيں۔

بدقسمتی سے ان بچوں کی بھرتی کا عمل نا صرف يہ کہ بہت منظم اور وسيع پيمانے پر جاری ہے بلکہ اس ميں اضافہ ہو رہا ہے۔


http://al-shorfa.com/en_GB/articles/meii/features/main/2011/04/23/feature-01


ليکن ان خودساختہ "عظيم جہاديوں" کی جانب سے بچوں کو اس مکروہ انداز ميں استعمال کرنا کوئ اتنے اچنبے کی بات بھی نہيں ہے کيونکہ انھی دہشت گرد گروہوں نے ماضی ميں نا صرف يہ کہ ذہنی طور پر معذور بچوں بلکہ خواتين کو بھی خودکش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کيا ہے۔


اين پی آر کی اس رپورٹ کے مطابق افغانستان ميں ہونے والے 80 فيصد خودکش حملوں يا دوسرے لفظوں ميں ہر 5 ميں سے 3 خودکش حملوں ميں جو بچے استعمال کيے گئے وہ کسی نا کسی ذہنی يا جسمانی معذوری کا شکار تھے۔


http://www.npr.org/templates/story/story.php?storyId=15276485


اور آخر ميں دس سال افغان بچی کا حاليہ واقعہ جو خود کش حملے کے ليے ايک پوليس اسٹيشن کی جانب گامزن تھی۔ اسے بھی يہی بتايا گيا تھا کہ وہ حملے ميں محفوظ رہے گی۔


http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?227842-%D8%AE%D9%88%D8%AF%DA%A9%D8%B4-%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9-%D9%BE%DB%81%D9%86%DB%8C-10-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%A8%DA%86%DB%8C


جس کسی ميں بھی انسانيت کی کوئ رمق باقی ہو گی وہ اس سارے عمل کی حقيقت سے انکار نہيں کر سکتا۔ يہ مجرموں کی جانب سے بچوں کو استعال کرنے کا قبيح اور ظالمانہ فعل ہے،جو محض اپنے عزائم کی تکمیل ميں دلچسپی رکھتے ہيں۔


کسی بھی قسم کی جذباتی فقرے بازی، مذہبی حوالہ جات اور مختلف تناظر ميں پيش آنے والے تاريخی واقعات کی پڑتال سےاس واضح سچ کو چھپايا نہيں جا سکتا کہ ذہنی طور پر معذور اور برين واش کيے گئے بچوں کو ہتھيار کے طور پر استعمال کرنا نا تو بہادری کے زمرے ميں آتا ہے اور نا ہی دنيا کے کسی بھی مذہب کی جانب سے اس کو درست قرار ديا جا سکتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بے شمار شواہد اور طالبان کی قيادت کی جانب سے بارہا تسليم کيے جانے کے باوجود اب بھی ايسے تجزيہ نگار اور رائے دہندگان موجود ہيں جو نا صرف يہ کہ ان گروہوں کو مختلف اکائياں گردانے پر بضد ہيں بلکہ اپنے تصورات کو وسعت دے کر ان دہشت گرد گروہوں کی خود ساختہ آزادی کی تحريک ميں خير کے ان پہلوؤں کو تلاش کرتے رہتے ہيں جن کا سرے سے وجود ہی نہيں ہے۔

اس بحث سے جو سب سے واضح سوال ابھرتا ہے وہ يہ ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف متحرک ان گروہوں کی غير متزلزل اور عدم برداشت پر مبنی غير انسانی اور سفاکانہ سوچ ميں اتنی مماثلت کيوں ہے، جو اپنے ايجنڈے کی تکميل کے ليے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ انسانی اذيت اور بے گناہ شہريوں کی ہلاکت پر انحصار کرتی ہے۔

جو رائے دہندگان اس بنياد پر ان کی حمايت کے ليے حيلے بہانے تراشتے ہيں کہ افغانستان پر غير ملکی طاقتوں کا قبضہ ہے، ان کے ليے وضاحت کر دوں کہ اقوام متحدہ کا افغانستان ميں انسانی حقوق سے متعلق ادارہ ہيومن رائٹس يونٹ آف دا يونائيٹٹ نيشنز اسسٹنس مشن ان افغانستان (يو اين اے ايم اے) سرکاری طور پر افغانستان میں جاری مسلح تنازعے کو کوئ بين الاقوامی مسلح تنازعہ نہيں بلکہ افغانستان کی حکومت اور غير رياستی مسلح گروہوں کے مابين مسلح جدوجہد قرار ديتا ہے جس ميں بين الاقوامی عسکری قوتيں افغان حکومت کو تعاون فراہم کر رہی ہیں۔

اس کے علاوہ اس تھريڈ پر بعض رائے دہندگان کی رائے کے برخلاف افغانستان ميں طالبان نے کئ بار عوامی سطح پر يہ بيان جاری کيا ہے کہ وہ ہر اس عنصر کے خلاف حملے کريں گے جو ان کی سوچ اور نظريے سے اختلاف کرے گا اور اس ميں وہ افراد اور گروہ بھی شامل ہيں جو بين الاقوامی قانون کے تحت "سويلين" يا عام شہری کے زمرے ميں آتے ہيں۔

گزشتہ کئ برسوں کے دوران طالبان اور ان سے منسلک عناصر نے کئ حکومتی عہديداروں، قبائلی عمائدين، سرکاری اہلکاروں، اجرت پر کام کرنے والوں، ڈرائيورز، مترجم اور ديگر شہريوں کو نا صرف يہ کہ نشانہ بنايا ہے بلکہ کھلم کھلا ان شہريوں کو قتل يا اغوا کرنے کا عنديہ بھی ديا ہے۔

سال 2011 اکتوبر ميں حکومت کی جانب سے لويا جرگہ کے انعقاد کے اعلان کے بعد طالبان نے اپنے بيان ميں يہ واضح کيا کہ وہ اس جرگے میں شموليت اختيار کرنے والے مختلف شہريوں اور حکومت سے متعلق عہديداروں کو نشانہ بنانا درست تصور کرتے ہيں۔
ايسے شہريوں پر دانستہ حملے اور ان کا قتل عالمی انسانی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے جس کے تحت کسی بھی مسلح تنازعے ميں محض عسکری مقاصد کے ليے کيا جانے والا حملہ ہی قانونی تصور ہوتا ہے۔

ايک منصفانہ تحريک جو عوامی مفاد کے حصول کی دعويدار ہو اس ميں کسی بھی صورت ميں شہريوں کو جائز عسکری ہدف قرار نہيں ديا جا سکتا ہے۔

افغانستان ميں دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے دانستہ شہریوں کو نشانہ بنانے اور قتل و غارت پر مبنی شرمناک مہم کے طفيل انسانی زياں اور جانی نقصان سے متعلق اعداد وشمار ہر گزرتے سال کے ساتھ بتدريج بڑھتے ہی چلے جا رہے ہيں۔

ادارہ ہيومن رائٹس يونٹ آف دا يونائيٹٹ نيشنز اسسٹنس مشن ان افغانستان (يو اين اے ايم اے) کی پيش کردہ دستاويز کے مطابق سال 2011 ميں تين ہزار اکيس (3021) شہری ہلاک ہوئے جو سال 2010 کے مقابلے ميں آٹھ فيصد زيادہ ہيں جب دو ہزار سات سونوے (2790) شہری ہلاک ہوئے اور يہ اعداد وشمار سال 2009 سے 25 فيصد زيادہ ہيں جب کل دو ہزار چار سو بارہ (2412) شہری ہلاک ہوئے۔

ريکارڈ سطح پر افغان بچوں، خواتين اور مردوں کی ہلاکت حکومت مخالف گروہوں کی ترميم شدہ حکمت عملی کی مرہون منت ہے۔ ہر گزرتے برس کے ساتھ متعدد افغان طالبان گروہ اور ان کے ساتھی تواتر کے ساتھ خود ساختہ دھماکہ خيز آلات يعنی آئ ای ڈيز کا استعمال کر رہے ہيں اور نا صرف يہ کہ ملک بھر ميں اپنی کاروائيوں کا دائرہ کار بڑھا رہے ہيں بلکہ خودکش حملوں ميں بھی اضافہ کيا جار ہا ہے جس کے نتيجے ميں زيادہ ہلاکتيں بھی ہو رہی ہيں اور اس کے ساتھ ساتھ غيرقانونی طور پر شہريوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

سال 2011 ميں افغان بچوں، خواتين اور مردوں کی ہلاکت کا سب سے بڑا سبب خود ساختہ دھماکہ خيز آلات يعنی آئ ای ڈيز کا استعمال تھا جن کی تعداد 967 رہی يعنی کہ مجموعی طور پر اس تنازعے ميں 32 فيصد ہلاکتيں يا ہلاک ہونے والے ہر 3 ميں سے ايک شہری انھی آئ ای ڈيز کی زد ميں آئے۔

اسی طرح سال 2011 ميں خود کش حملوں کے نتيحے ميں ہلاک ہونے والے شہريوں کی تعداد ميں بھی ڈرامائ اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر خودکش حملوں کے نتيجے ميں 431 شہری ہلاک ہوئے جو کہ سال 2010 کے مقابلے ميں 80 فيصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
ان اعداد وشمار کا ايک سرسری جائزہ اور پاکستانی ميں اسی ضمن ميں موجود اعداد وشمار کے ساتھ ايک غير جانب دارانہ تقابلی جائزہ اس امر کو ثابت کرنے کے ليے کافی ہے کہ ہم ايک مشترکہ دشمن کے خلاف برسرپيکار ہيں اور ان کے مقاصد ميں عظمت، خير اور انصاف کا کوئ پہلو نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
امریکی افواج کے حملوں میں کیا آج تک شہری ہلاکت نہیں ہوئی؟ اور اقوام متحدہ کے بقول یہ ایک ملک کی حکومت اور باغیوں کی جنگ ہے تو امریکا اور نیٹو افواج وہاں کیا کر رہی ہیں؟ اور جو آج کے باغی ہیں کل ان کی حکومت بھی تھی، پھر ان کی حکومت گرانے کے لیے اس وقت کے باغیوں کی حمایت اور امداد کرنا مستحسن اقدام کیسے ٹھہرا؟
جو امریکا بہادر کہے وہی سچ باقی سب جھوٹ! جیے یوایس سٹیٹ ڈیپاٹمنٹ اور جیے یوایس ایڈ!
 

Fawad -

محفلین
امریکی افواج کے حملوں میں کیا آج تک شہری ہلاکت نہیں ہوئی؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ سياسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے بے گناہ افراد کی ہلاکت سے امريکہ کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ اس کے برعکس بےگناہ شہريوں کی ہلاکت سےدہشت گردوں کو جذبات بھڑکانے اور واقعے کو "استعمال" کرنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے ليے آپ ان تنظيموں کے پوسٹرز، بينرز، ويب سائٹس اور ديگر اشتہاری مواد کا جائزہ ليں۔ يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ دہشت گردوں کے پراپيگينڈے کا بنيادی مرکز اور خيال ہميشہ وہ تصاوير ہوتی ہيں جن ميں عورتوں اور بچوں کو ظلم کا شکار دکھايا جاتا ہے۔ يہ بات غور طلب ہے کہ ايک طرف تو يہ دہشت گرد ان تصاوير کو بنياد بنا کر اپنی کاروائيوں کو جائز قرار دينے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کی قريب تمام کاروائياں دانستہ عورتوں، بچوں اوربے گناہ لوگوں کے خلاف ہوتی ہيں جس کے نتيجے ميں ظلم کی مزيد داستانيں لکھی جاتی ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
اور اقوام متحدہ کے بقول یہ ایک ملک کی حکومت اور باغیوں کی جنگ ہے تو امریکا اور نیٹو افواج وہاں کیا کر رہی ہیں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔ ميں آپ کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ پوری دنيا ميں صرف تين ممالک نے کابل ميں افغانستان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔

ستمبر 11 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ افغانستان ميں ہونے والی ناگزير فوجی کاروائ کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عوامی سطح پر عالمی براداری کے ساتھ ان دہشت گردوں کی بيخ کنی کرنے کے ليے تعاون سے انکار کر ديا تھا جو صرف امريکہ کے خلاف ہی نہيں بلکہ ہر اس فريق کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے جو ان کے غير انسانی طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
امریکا اور نیٹو افواج وہاں کیا کر رہی ہیں؟


امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔ ان تمام کوششوں ميں ناکامی کے بعد ہی اجتماعی سطح پر جنگ کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ حالات چاہے جيسے بھی ہوں، جنگ کی ايک بھاری سياسی قيمت بھی ہوتی ہے جو برسراقتدار حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی جنگ کی ايسی حقيقتيں ہيں جن سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔


يہ تمام عوامل اس بحث اور حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جن پر جنگ کے حتمی فيصلے سے قبل سب کو اعتماد ميں لیا جاتا ہے۔ ليکن اس سارے عمل کے باوجود ملک اور قوم کے دفاع کو درپيش واضح خطرات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ جب کچھ تجزيہ نگار 911 کے بعد امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو غير منطقی اور انتہائ جذباتی ردعمل قرار ديتے ہيں تو وہ ان حقائق اور خطرات کو نظرانداز کر ديتے ہيں جن کا سامنا امريکی حکومت کو اس حادثے کے فوری بعد کرنا تھا۔ اس وقت حقائق کچھ يوں تھے۔


القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے بعد قريب 10 سال کے عرصے ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کرنے کے بعد يہ تنظيم اتنی فعال اور منظم ہو چکی تھی کہ امريکہ کے اہم شہروں سميت اس کے عسکری مرکز پينٹاگان پر براہراست حملہ کيا گيا۔


اس واقعے کے بعد امريکہ سميت دنيا کے کئ ممالک ميں القائدہ کی جانب سے مزيد ايسی ہی کاروائياں کرنے کی يقين دہانی بھی ريکارڈ پر موجود ہے۔


حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا۔


ان حالات ميں امريکہ کے سامنے کيا متبادل راستہ باقی رہ گيا تھا؟


آپ يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں رکھ سکتے کہ وہ ملکی سلامتی کے اہم ترين فوجی فيصلے رائے عامہ کے رجحانات اور مقبوليت کے گراف کی بنياد پر کرے۔


جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ سياسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے بے گناہ افراد کی ہلاکت سے امريکہ کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ اس کے برعکس بےگناہ شہريوں کی ہلاکت سےدہشت گردوں کو جذبات بھڑکانے اور واقعے کو "استعمال" کرنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے ليے آپ ان تنظيموں کے پوسٹرز، بينرز، ويب سائٹس اور ديگر اشتہاری مواد کا جائزہ ليں۔ يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ دہشت گردوں کے پراپيگينڈے کا بنيادی مرکز اور خيال ہميشہ وہ تصاوير ہوتی ہيں جن ميں عورتوں اور بچوں کو ظلم کا شکار دکھايا جاتا ہے۔ يہ بات غور طلب ہے کہ ايک طرف تو يہ دہشت گرد ان تصاوير کو بنياد بنا کر اپنی کاروائيوں کو جائز قرار دينے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کی قريب تمام کاروائياں دانستہ عورتوں، بچوں اوربے گناہ لوگوں کے خلاف ہوتی ہيں جس کے نتيجے ميں ظلم کی مزيد داستانيں لکھی جاتی ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
عجیب بات ہے امریکا کو بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا فائدہ نہیں ہوتا اور طالبان ان کو قتل کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں۔۔۔۔انوکھی منطق نہیں ہے؟
جناب! طالبان کی کاروائیاں بھی غاصب امریکی فوج اور ان کے معصوم ایجنٹوں کے خلاف ہی ہوتی ہیں۔
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔ ميں آپ کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ پوری دنيا ميں صرف تين ممالک نے کابل ميں افغانستان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔

ستمبر 11 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ افغانستان ميں ہونے والی ناگزير فوجی کاروائ کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عوامی سطح پر عالمی براداری کے ساتھ ان دہشت گردوں کی بيخ کنی کرنے کے ليے تعاون سے انکار کر ديا تھا جو صرف امريکہ کے خلاف ہی نہيں بلکہ ہر اس فريق کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے جو ان کے غير انسانی طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
آپ کی یہ پوسٹ اپنا جواب خود ہے۔ صرف افغانستان کی بات کریں تو 1999ء میں امریکا میزائل حملے بھی کر چکا ہے اس وقت کون سا 9/11 ہوا تھا؟
ذمہ داری تو یقینا طالبان پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے امریکا کی چودھراہٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکا جسے دہشت گرد کہہ دے اس کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت تو نہیں ہے نا۔۔۔۔۔۔۔طالبان خواہ مخواہ ثبوت پیش کرنے پر اڑ گئے۔ صاحب بہادر کی شان میں اتنی گستاخی!!!! اب بھلا ثبوت ہو تو پیش کریں۔
 
امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔ ان تمام کوششوں ميں ناکامی کے بعد ہی اجتماعی سطح پر جنگ کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ حالات چاہے جيسے بھی ہوں، جنگ کی ايک بھاری سياسی قيمت بھی ہوتی ہے جو برسراقتدار حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی جنگ کی ايسی حقيقتيں ہيں جن سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔


يہ تمام عوامل اس بحث اور حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جن پر جنگ کے حتمی فيصلے سے قبل سب کو اعتماد ميں لیا جاتا ہے۔ ليکن اس سارے عمل کے باوجود ملک اور قوم کے دفاع کو درپيش واضح خطرات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ جب کچھ تجزيہ نگار 911 کے بعد امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو غير منطقی اور انتہائ جذباتی ردعمل قرار ديتے ہيں تو وہ ان حقائق اور خطرات کو نظرانداز کر ديتے ہيں جن کا سامنا امريکی حکومت کو اس حادثے کے فوری بعد کرنا تھا۔ اس وقت حقائق کچھ يوں تھے۔


القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے بعد قريب 10 سال کے عرصے ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کرنے کے بعد يہ تنظيم اتنی فعال اور منظم ہو چکی تھی کہ امريکہ کے اہم شہروں سميت اس کے عسکری مرکز پينٹاگان پر براہراست حملہ کيا گيا۔


اس واقعے کے بعد امريکہ سميت دنيا کے کئ ممالک ميں القائدہ کی جانب سے مزيد ايسی ہی کاروائياں کرنے کی يقين دہانی بھی ريکارڈ پر موجود ہے۔


حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا۔


ان حالات ميں امريکہ کے سامنے کيا متبادل راستہ باقی رہ گيا تھا؟


آپ يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں رکھ سکتے کہ وہ ملکی سلامتی کے اہم ترين فوجی فيصلے رائے عامہ کے رجحانات اور مقبوليت کے گراف کی بنياد پر کرے۔


جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
اب تو بقول آپ کے امریکا نے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا تو مذاکرات کی بھیک کس سے مانگی جا رہی ہے؟ اب مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پہلے کیوں نہیں ہو سکتے تھے؟
صاحب بہادر نے پہلے آنکھیں دکھا کر اور کف اڑا کر دھمکانے کی کوشش کی، کامیابی نہ ہوئی تو بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا اور جب ابابیلوں نے اوقات یاد دلا دی تو صلح و امن کا نعرہ!!!!!!!!
 

دوست

محفلین
محفل کے ایک تجربہ کار اور دوسرا ابھرتے ہوئے سپامر حضرات ٹکرو ٹکری ہو رہے ہیں۔
منصور پائین یوسف 2 والی آئیڈی سے بھی یہاں پوسٹیں زیادہ امپریشن پڑے گا۔
 

فراز اکرم

محفلین
امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu


فواد صاحب پہلے تو آپ یہ واضح کریں کہ آپ جو کچھ یہاں لکھ رہے ہیں یہ امریکیوں(جن کے آپ تنخواہ دار ملازم ہیں) کا سرکاری موقف ہے یا آپ کی ذاتی آراہ ہیں؟؟
تا کہ اس کے مطابق بات کی جا سکے۔ یہ سوال کئی وجوہات کی وجہ سے اہم ہے مثلا اگر یہ امریکی سرکاری موقف ہے تو آپ پر اسلامی دلائل کارگر نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کو آپ مانتے نہیں، سو وہ دینا بیکار ہے ، ۔۔ وغیرہ وغیرہ


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اور آخر ميں دس سال افغان بچی کا حاليہ واقعہ جو خود کش حملے کے ليے ايک پوليس اسٹيشن کی جانب گامزن تھی۔ اسے بھی يہی بتايا گيا تھا کہ وہ حملے ميں محفوظ رہے گی۔

جس کسی ميں بھی انسانيت کی کوئ رمق باقی ہو گی وہ اس سارے عمل کی حقيقت سے انکار نہيں کر سکتا۔ يہ مجرموں کی جانب سے بچوں کو استعال کرنے کا قبيح اور ظالمانہ فعل ہے،جو محض اپنے عزائم کی تکمیل ميں دلچسپی رکھتے ہيں۔
===================================
ہلمندمیں شہیدی حملےکےالزام میں دس سالہ بچی کی گرفتاری اینٹلی جنس ڈرامہ ہے

اس سےقبل بھی کرزئی رژیم کی شکست خوردہ فورسزنےاپنی فضحیت وسقوط چھپانےکی غرض سےامارت اسلامیہ کےخلاف اس نوعیت کےنامعقول اور ناقابل فہم پروپیگنڈہ نماڈرامےرچائیں، انہوں نے کبھی ہلمندمیں سات سالہ بچے کوپھانسی دیناطالبان سےمنسوب کی،کبھی بچوں پرجنسی تشدداورکبھی فدائی حملوں میں ان کےبھرتےہونےکی الزامات لگاتےرہے۔ سپوژمئی نامی دس سالہ بچی کی گرفتاری کامثال بھی انہی نامعقول پروپیگنڈوں کی سلسلےکامرتب شدہ ڈرامہ ہے، جس کاکوئی حقیقت نہیں ہے۔

اسلامی ارشادات کی روسے نابالغ بچے ہرقسم کی شرعی ذمہ داری سے بری ہے،امارت اسلامیہ بھی اس اسلامی اصل اورتعہدسےوفادارہوتےہوئےجہادی صفوف میں ان کابھرتی نہیں چاہتا،کیونکہ استعماراوران کےایجنٹوں سےمقابلہ کےلیے امارت اسلامیہ کےصفوف نوجوانوں سےایسےبھرے ہوئےہیں،کہ کبھی بھی بچوں کوبھرتی کرنےکی ضرورت پیش نہیں آتی ہے اورنہ ہی بچے جہادی معاملات میں بھرتی کےقابل ہیں۔

امارت اسلامیہ جس طرح فوجی معاملات میں بچوں کی بھرتی کودرست نہیں سمجھتی، اسی طرح پروپیگنڈانہ ڈراموں میں ان کےکام اوران کےمعصومیت سے ناجائز فائدہ اٹھانابھی تمام انسانی اوراخلاقی اصولوں سےکرزئی خفیہ ادارےکی مفسدوں کی خلاف ورزی تصورکرتی ہے۔

ہلمندکےرہائشی دس سالہ بچی اوران کےوالدین کےرضامندی سےان کےبھائی کی جانب سےشہیدی حملے میں بچی کی بھرتی پروپیگنڈہ،مطلق افتراء اور حقیقت سے دورکی بات ہے، اس افتراء کےشائع ہونےکےبعدفوراہلمندمیں ذمہ دارمجاہدین حرکت میں آکرواقعہ کی تحقیقات شروع کی، ذمہ داری سونپنےوالےمجاہدین کی مکمل تحقیقات کے بعد معلوم ہوا،کہ نہ یہ عمل انجام ہواہےاور ہلمندبھرمیں امارت اسلامیہ کےمجاہدین میں ظاہرنامی ذمہ دارشخص ہےاورنہ ہی امارت اسلامیہ اپنےمجاہدین کو اس نوعیت کےنارواعمل انجام دینےکی اجازت دیتی ہے،کرزئی انتظامیہ کےہلمندکےصوبائی عہدیداروں نے ذرائع ابلاغ کوبتایاکہ گرفتارہونےوالی بچی کی گفتگو میں تناقص وتضادہے،تاہم وہ تحقیقات جمع کروانے میں مصروف ہیں۔

والسلام

قاری محمدیوسف احمدی ترجمان

امارت اسلامیہ افغانستان

===================================

العربیہ نیوز: طالبان نے 10 سالہ بچی کو خودکش مشن پر بھیجنے کی تردید کردی
 

دوست

محفلین
ہاہ
لو فیر جہادسٹ ایسوسی ایشن آف افغانستان کے آفیشل ترجمان بھی آگئے.
یک نہ سپیمر سہ سپیمر
 

Fawad -

محفلین
فواد صاحب پہلے تو آپ یہ واضح کریں کہ آپ جو کچھ یہاں لکھ رہے ہیں یہ امریکیوں(جن کے آپ تنخواہ دار ملازم ہیں) کا سرکاری موقف ہے یا آپ کی ذاتی آراہ ہیں؟؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں جب کسی موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں تو وہ اس موضوع پر يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس کا موازنہ آزاد ميڈيا پر کسی نيوز رپورٹ يا اخباری کالم سے نہيں کيا جا سکتا۔ آپ يقينی طور پر ميری رائے سے اختلاف کر سکتے ہيں۔ آپ اس بات کا حق رکھتے ہيں کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے اپنی آزاد رائے قائم کريں۔

آزاد ميڈيا، صحافی اور کالم نگار اپنی رائے کے اظہار کا حق رکھتے ہيں۔ وہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنياد پر اپنی سوچ اور خيالات کا اظہار کرتے ہيں


ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا طريقہ کار اس سے قطعی مختلف ہے۔ ہماری ٹيم براہراست يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے منسلک ہے۔ لہذا اس حوالے سے کسی موضوع پر ميری رائے امريکی حکومت کے سرکاری موقف کو واضح کرتی ہے۔ اس کی مثال ايسے ہی ہے جيسے پاکستان کے دفتر خارجہ يا کسی اندرونی وزارت کے دفتر سے جاری کردہ کسی بيان کا موازنہ اخبار ميں شائع ہونے والی کسی ايسی خبر سے نہيں کيا جا سکتا جسے کسی صحافی نے اپنی ذاتی حيثيت ميں رپورٹ کيا ہو۔


اس میں کوئ شک نہيں ہے کہ جب رائے دہندگان بے بنياد اور حقائق سے عاری ميڈيا رپورٹس يا محض افواہوں کو بنياد بنا کر مختلف سازشی کہانيوں کا ذکر کرتے ہيں اور اس حوالے سے سوالات اٹھاتے ہيں تو ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يقينی طور پر امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرنے کی سعی کرتی ہے۔ کيا آپ نہيں چاہيں گے کہ امريکی حکومت کا موقف بھی سنا جائے اور ايک معتبر سرکاری ذريعے سے وضاحت حاصل کی جائے؟ خاص طور پر ايک ايسے فورم پر جس کا وجود ہی اس اصول پر قائم ہے کہ درست اور مصدقہ معلومات کی تشہير کی جائے تا کہ پڑھنے والے گفت وشنيد، تعميری بحث اور درست معلومات کی بنياد پر کسی بھی ايشو کے حوالے سے اپنی ايک رائے قائم کر سکيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
آپ پر اسلامی دلائل کارگر نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کو آپ مانتے نہیں، سو وہ دینا بیکار ہے ،


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا کام امريکی خارجہ پاليسی کا دفاع کرنا نہيں بلکہ اس کی صحيح وضاحت کرنا ہے تاکہ منفی پراپيگنڈے کی بجائے صحت مند بحث کی جا سکے۔

ميرے لیے يہ بات خاصی حيران کن ہے کہ اکثر تھريڈز پر دلائل اور بحث کا رخ اس نہج پر پہنچ جاتا ہے جہاں کچھ دوست ميرے مذہب پر سوال اٹھانا شروع کر ديتے ہيں اور يہ قياس کرتے ہيں کہ آيا ميں پانچ وقت کی نماز بھی پڑھتا ہوں کہ نہيں۔

بحث کا يہ رخ اور دليل کا يہ زاويہ دراصل اس غلط گمان کا نتيجہ ہے کہ امريکی حکومت کی پاليسياں کسی بھی لحاظ سے ايک مخصوص مذہب کی نمايندگی کرتی ہيں، جس سے لامحالہ يہ نتيجہ اخذ کيا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے لیے کام کرنے والے ہر شخص کا اس مخصوص مذہب کی ضروريات اور ديگر لوازمات سے منسلک ہونا ضروری ہے۔

يہ سوچ بالکل غلط ہے۔

ميں مختلف موضوعات پر امریکی حکومت کا موقف اعلی عہديدران اور سفارت کاروں کے بيانات، تاريخی دستاويزات اور قابل تحقيق اعداد وشمار کی روشنی ميں آپ کے سامنے پيش کرتا ہوں۔ مجھ سميت امريکی حکومت کے ليے کام کرنے والے کسی بھی فرد کی مذہبی وابستگی يا اس کی مذہبی سوچ کا امريکی حکوت کی پاليسی سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

امريکی حکومت اور امريکی معاشرہ عمومی طور پر کسی ايک مذہب کی آئينہ دار نہيں ہے۔

يہ ايک حقيقت ہے کہ امريکہ ميں حکومتی سطح پر فيصلہ سازی کے عمل کا اختيار مسلمانوں، عيسائيوں، يہوديوں يا کسی اور عقيدے يا سوچ سے وابستہ کسی مخصوص گروہ کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔ يہ تمام فيصلے امريکی شہری اپنے مذہبی عقائد سے قطع نظر بحثيت مجموعی امريکی قوم کے مفادات کے تحفظ کے ليے اپنی مخصوص حيثيت ميں سرانجام ديتے ہيں۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت ميں کام کرنے والا ميں واحد مسلمان نہيں ہوں۔ اس وقت امريکی کانگريس، اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ، امريکی فوج، نيوی، وائٹ ہاؤس اور فيصلہ سازی کے حوالے سے تمام فورمز پر مسلمان موجود ہيں۔ ليکن بحثيت مسلمان ان کی موجودگی نہ ہی انھيں کوئ فائدہ ديتی ہے اور نہ ہی ان کے فرائض کی ادائيگی ميں ان کے راستے ميں کسی رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ امريکہ ميں جو بھی پاليسياں تشکيل پاتی ہيں، ان کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں ہوتی۔

امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوانسانی تاريخ کے ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔

اسلام اور امريکہ کے تعلقات کو جانچنے کا بہترين پيمانہ امريکہ کے اندر مسلمانوں کو ديے جانے والے حقوق اور مذہبی آزادی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ دنيا پر ايک خاص سوچ يا مذہب کے بارے ميں ايک رائے رکھتے ہيں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے کريں گے۔

جہاں تک ميرے مذہبی عقائد اور ان کی پابندی کے حوالے سے آپ کے براہراست سوال يا رائے کا تعلق ہے تو اپنی ذات کے حوالے سے کچھ باتوں کی وضاحت کر دوں جو ميں پہلے بھی اس فورم پر پيش کر چکا ہوں۔۔ ميں ايک امريکی مسلمان ہوں ۔ مجموعی طور پر 20 سے ذائد عمروں کے علاوہ حج کی سعادت بھی حاصل کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ گزشتہ 25 برسوں سے باقاعدگی سے روزے رکھ رہا ہوں۔ ۔ دنيا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کی طرح پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں جس ميں ظہر کی نماز بھی شامل ہے جو ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی عمارت کے اندر ديگر مسلمان بھائيوں کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

ابن عادل

محفلین
مجھے خوشی ہے کہ فواد صاحب پہلی دفعہ انسانی جذبات کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ محسوس ہورہا ہے کہ کوئی مشین نہیں بلکہ انسان مخاطب ہے ۔ مجھے خطرہ ہے کہ صرف یہی انسانی جذبات ہی برقرار رہے تو کہیں مخالفین کی دلیل انہیں چوٹ کرجائے ۔ اور ان کے بقول وہ خاصے عملی مسلمان بھی ہیں تو پھر انہیں اپنی ملازمت پر ہی کچھ عرصے بعد نظر ثانی نہ کرنا پڑجائے ۔
تفنن برطرف ویسے بحث یہ تھی کہ امریکہ افغانستان میں آیا کیوں تھا ؟؟؟ اور کیا اپنے محبت بھرے ہتھیاروں کے استعمال اور لاکھوں کو زندگی کے بوجھ سے آزاد کروا کر اپنے مقاصد حاصل کرچکا ؟؟؟ اور کاونٹر سوال کہ وہ ویت نام اورعراق وغیرہ میں کیوں آیا تھا ذرا یاددہانی ہوجائے ۔
 
Top