خود کلامی - من کی باتیں

جاسمن

لائبریرین
آپ کا سوال اتنا سادہ بھی نہیں۔
تازہ ترین صورت جو بنی ہے میں اس کو بت پرستی کہا کرتا ہوں۔ جتنے بڑے بڑے نام سیاست میں ہیں، سب کسی نہ کسی انداز میں بُت ہیں اور ان کے پجاری ’’سچے‘‘ عابدوں کی طرح سب کچھ بھول بھال کر اپنے اپنے بتوں کی ’’عظمت‘‘ پر مر رہے ہیں۔ ملک تو خیر چھوٹی سی چیز ہو گی، یہاں ملت کی کسی کو پروا نہیں، شعور تک نہیں رہا کہ ہم کون ہیں، ہمارا معاہدہ کس کے ساتھ ہوا ہے اور کیا معاہدہ ہوا ہے۔ اجنبیت کا عالم بھی عجیب ہے، کبھی ہاں، کبھی نہیں!
میڈیا کی بات کرتے ہوئے میں نے کہیں کہا بھی تھا ’”صحافت کی قوسِ قزح‘‘ مگر کوئی میرے نکتے کو شاید پا ہی نہیں سکا۔ حال آنکہ میں نے اشارے بھی دیے تھے: سیاہ صحافت، نیلی پیلی ہری صحافت، سرخ صحافت۔ جب اخبار ’’مساوات‘‘ جاری ہوا، اس کے کچھ عرصے بعد میں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔
مہربانی فرما کر جاری رکھیے۔۔۔اور وقت نکال کر اپنے دل کی باتیں اور خیالات سے ہمیں آگاہ رکھیے۔
 
مہربانی فرما کر جاری رکھیے۔۔۔ اور وقت نکال کر اپنے دل کی باتیں اور خیالات سے ہمیں آگاہ رکھیے۔
بات پوری ہو گئی، مادام! دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔

پھر کبھی کوئی بات ہوئی تو ۔۔ ۔۔۔ بات سے بات تو نکل ہی آتی ہے۔
 
بات پوری ہو گئی، مادام! دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔

پھر کبھی کوئی بات ہوئی تو ۔۔ ۔۔۔ بات سے بات تو نکل ہی آتی ہے۔
محترم آسی صاحب، بات تو شروع ہو گئی ہے آپ نے جو میڈیا والی بات کی ہے اس پر تو بات کی جانے کی اشد ضرورت ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں سوالات پیش کرنا چاہوں گا، بلکہ میرا خیال ہے کہ ایک نئی لڑی شروع کی جا سکتی ہے ،ذاتی مکالمے میں کچھ گزارشات ہیں از راہ کرم ملاحظہ کریں
 
اگر ان سے بات کرو اسلام کی
تو کہتے ہیں سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے
ہم لوگوں نے خود کو مذہب کی زنجیروں میں باندھ کر تنگ نظری کا ثبوت دیا ہے۔
لیکن پھر جب ان سے بات کرو شام، برما ، فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی
تو فوراً وطنیت کے دائرہ میں محصور ہوجاتے ہیں۔
از
قاضی محمد حارث
 
" ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف الحاد کی محنتیں عروج پر ہوں اور جدید سیکولر تہذیب کی چمک دھمک آنکھیں خیرہ کررہی ہو اور دوسری طرف خود مذہب کا یہ حال ہو کہ کئی قسم کے مسالک و مکاتب فکر پیدا کردیے گئے ہوں، بانت بانت کی بولیاں بولی جارہی ہوں اور کتابیں تصنیف کی جارہی ہوں۔، اس افراتفری کے ماحول میں اپنی مرضی سے چند اچھے، برے رائٹرز کی اہم دینی موضوعات پر کتابیں منتخب کرکے انکا مطالعہ شروع کردینا، ہر گری پڑی کتاب پڑھ لینا، کتاب کا محض ٹائٹل اور پرنٹنگ خوبصورت دیکھ کر اسے پڑھنے بیٹھ جانا، نا کتاب کے انتخاب میں کسی مربی اصلاح، اچھے علم والے سے مشورہ کرنا اور نا شکوک و شبہات پیدا ہونے کی صورت میں کسی علم والے کی راہنمائی کی سہی کرنا' ایسی کنفیوزین ، خشکی اور بوریت ہی پیدا کرسکتا ہے جو مذہب سے ہی بددل یا بیزار کردے۔"
 
" یونان میں ایک شخص سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہا ، ’’ میں تمہیں تمہارے ایک دوست کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں !‘‘ سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور کہا، ’’ اس سے قبل کہ تم مجھے یہ بات بتاؤ، میں چاہوں گا کہ تم ایک چھوٹا سا امتحان پاس کرو، یہ تہری تقطیر(three filters test) کا ٹیسٹ ہے…
’’ جو کچھ تم مجھے بتانے جا رہے ہو، اس کے بارے میں تمہیں پورا یقین ہے کہ وہ سچ ہے؟ ‘‘
’’ نہیں … ‘‘ اس آدمی نے کہا، ’’ اصل میں، میں نے کسی سے یہ سنا ہے! ‘‘

’’ اچھا!‘‘ سقراط نے کہا، ’’ تو گویا تم پہلے سوال کو پاس نہیں کر سکے، اس لیے کہ تم نے فقط سنا ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہ رہے ہو، کوئی اچھی بات ہے؟ ‘‘
’’نہیں… ‘‘ اس نے کہا ’’ اس کے الٹ! ‘‘
’’ تو گویا تم مجھے میرے دوست کے بارے میں کچھ ایسا بتانا چاہ رہے ہو جو کہ اچھا بھی نہیں اور تمہیں اس کے سچ ہونے پر بھی یقین نہیں؟ ‘‘ سقراط رکا، ’’ چلو… پھر بھی میں تم سے ٹیسٹ کا تیسرا سوال پوچھوں گا، کیا معلوم کہ تم پہلے دو سوالوں میں پاس نہیں کر سکے مگر تیسرے سوال میں پاس کر لو! ‘‘ اس آدمی نے سوالیہ نظروں سے سقراط کو دیکھا۔

’’ کیا جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہتے ہو، سچ یا جھوٹ اور اچھا بھی نہیں… اس بات کے جاننے سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا اور نہ جاننے سے کوئی نقصان؟‘‘’’ نہیں … ‘‘ وہ بولا، ’’ حقیقت میں نہیں، تمہیں اس کے جاننے سے کوئی فائدہ ہو گا نہ اس کے نہ جاننے سے کوئی نقصان !‘‘
’’ اچھا !‘‘ سقراط نے مسکرا کر پوچھا، ’’ جو کچھ تم مجھے بتانا چاہتے ہو، نہ وہ سچ ہے، نہ اچھا، نہ اس کے جاننے کا مجھے کوئی فائدہ ، نہ لاعلمی سے کوئی نقصان تو میں تمہاری اس بات کو کیوں سنوں !! ‘‘
آپ کے پاس کوئی آئے، پراسرار انداز میں آپ سے کوئی بات کہنا چاہے تو اس سے تین سوال پوچھیں، اس تقطیری ٹیسٹ سے اگر وہ شخص پاس ہو جائے تو ہی اس کی بات کو اہمیت دیں۔
… جو بات تم مجھے بتانے والے ہو ، وہ سچ ہے؟
… کیا یہ کوئی اچھی بات ہے کسی کے بارے میں جو تم بتاؤگے؟
… کیا اس کا جاننا میرے لیے فائدہ مند یا نہ جاننا نقصان دہ ہے؟
سب سے اہم بات… صرف دوسروں کو ہی اس ٹیسٹ سے نہ گزاریں بلکہ جب کسی کو کوئی بات بتانے لگیں تو خود سے بھی پوچھیں کہ آیا وہ بات سچ ہے، کوئی اچھی بات ہے اور اس کے بتانے کا اس شخص کو کوئی فائدہ ہے جسے آپ بتا رہے ہیں اور نہ بتائیں تو نقصان؟؟؟
اس ٹیسٹ سے کسی کو گزارنا اتنا مشکل کام نہیں، مگر ہم بہت سی ایسی برائیوں سے بچ جائیں گے جو بظاہر بڑی معلوم نہیں ہوتیں ، مگر ہم غلط اور جھوٹی باتوں پر یقین کر کے، ان کے carrier بن کے، ان جھوٹی اورناقص معلومات کو پھیلا کر اپنے لیے آخرت میں بڑے بڑے عذاب مول لینے کا سود ا کرتے ہیں!! "
شیریں حیدر
 
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک کتا کنویں میں گر کر مر گیا.. چونکہ گاؤں میں وہ واحد کنواں تھا اس لئے لوگ بھاگے بھاگے اپنے علاقے کے مولوی صاحب کے پاس گئے اور ان سے سوال کیا کہ کنواں پاک کیسے کیا جائے..؟ مولوی صاحب نے فرمایا.." آپ لوگ کنوئیں سے چالیس بالٹیاں نکال کر پھینک دیں کنواں پاک ہو جائے گا.." ایک دو دن بعد پھر گاؤں والے مولوی صاحب کے پاس پہنچے اور بولے.."حضرت پانی تو ویسے کا ویسا ہی ہے.. آپ کے حکم کے مطابق چالیس بالٹیاں پانی نکال کر پھینک دی تھیں.." مولوی صاحب نے یہ بات سن کر پوچھا.."کیا آپ لوگوں نے کتے کو نکال کر بالٹیاں پھینکی تھیں..؟" اس پر سب بولے.."حضرت ! آپ نے بالٹیاں نکالنے کا کہا تھا 'کتا نکالنے کا نہیں.." سو ! ہم بھی گاؤں والوں کی طرح کرتے ہیں..
بغض' نفرت' تعصب اور لالچ کے کتے دل میں رہنے دیتے ہیں اور کچھ نمازیں' تسبیحات پڑھ کر سمجھتے ہیں دل پاک ہو گیا ۔
 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کچھوئوں کے ایک خاندان نے پکنک منانے کا فیصلہ کیا۔ کچھوے بنیادی اور قدرتی طور پر انتہائی سست واقع ہوئے ہیں ،لہٰذا اُنہوں نے سات سال کا پروگرام بنایا کہ وہ سات سال کے عرصے میں پکنک منا کر واپس گھر آجائیں گے۔ خاندان نے کسی اچھی جگہ کی تلاش میں اپنا سفر شروع کیا اور گھومتے گھومتے دو سال بعد اُن کو اپنے لیے مناسب و موزوں جگہ مل ہی گئی۔ چھ ماہ کے عرصے میں اُنہوں نے اُس جگہ کو صاف سُتھرا کیا اور اپنی پکنک کا سامان نکال کر وہاں سیٹ کیا۔ سب تیاریاں مکمل کرنے کے بعد اُنہیں پتہ چلا کہ نمک تو وہ گھر ہی بھول آئے ہیں اور اُن سب کا کہنا تھا کہ نمک کے بغیر پکنک کا سارا مزہ کر کرا ہو جائے گا۔ ایک لمبی بحث کے بعد ایک نوجوان کچھوا گھر سے جا کر نمک لانے پر تیار ہو گیا۔ یہ نوجون کچھوا باقی ماندہ کچھوئوں سے قدرے تیز بھی تھا، لیکن وہ ایک شرط پر جانے کیلئے تیار ہو ا کہ جب تک وہ واپس نہیں آئے گا کوئی خوراک کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا اور کچھ نہیں کھائے گا۔ خاندان والے اُس کی شرط مان گئے اور وہ نوجوان کچھوا چلا گیا۔ تین سال بیت گئے، لیکن وہ کچھوا واپس نہیں آیا۔۔۔ پانچ سال۔۔۔۔۔ چھ سال۔۔۔۔۔ بالآخر سات سال گزر گئے لیکن اُس نوجون کچھوے کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ تھک ہار کر خاندان کے سب سے بوڑھے کچھوے نے فیصلہ کیا کہ ہم مزید بھوکے نہیں رہ سکتے اور یہ فیصلہ ہوتے ہی اُنہوں نے کھانا کھولنا شروع کیا کہ اچانک ایک پیڑ کے پیچھے سے وہی نوجوان کچھوا نمودار ہوا اور بولا:دیکھا! مجھے علم تھا کہ تم لوگ میرا انتظار نہیں کرو گے۔ اب میں نمک لینے نہیں جاؤںگا۔ بالکل اسی طرح ہم میں سے کچھ لوگ اس انتظار میں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں کہ کوئی دوسرا غلطی کرے اور ہم اُس کو پکڑیں۔ ہمارا دھیان خود اپنی ذات اور اپنے اعمال پرہونے کی بجائے دوسروں پر رہتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ہم اپنا وقت، طاقت اور ذہانت برباد کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں منفی عوامل کو بھی داخل کر لیتے ہیں۔
 
ایک پریشان حال خاوند ڈاکٹر کے پاس گیا ۔
" ڈاکٹر جی! میرا خیال ہے کہ میری بیوی بالکل بہری ہوگئ ہے، مجھے کئ کئ بار اپنی بات دہرانی پڑتی ہے۔ تب وہ جواب دیتی ہے۔ بتائیں کیا کروں ؟"
ڈاکٹر نے کہا کہ پہلے اس بات کا یقین کرلو کہ کیا وہ واقعی بہری ہے اور
اونچا سنتی ہے۔ پھر اس کو یہاں لے آنا، چیک اپ کرلیں گے، اس کے بعد اس کا علاج شروع کردیں گے۔ تم ایسا کرو کہ آج گھر جا کر بیوی کو کوئی بات 15 فٹ کے فاصلے سے کہنا۔ اور اس کا ردعمل دیکھنا۔ اگر وہ کوئی جواب نہ دے تو دس فٹ کے فاصلے سے وہی بات کہنا۔ پھر بھی نہ سنے تو 5 فٹ کی دوری سے وہی بات کہنا۔ پھر بھی نہ سنے تو بالکل پاس آکر کہنا۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چل جائے گا کہ بہرہ پن کی شدت کی نوعیت کیا ہے؟ علاج میں آسانی رہے گی۔
خاوند گھر آیا تو دیکھا کہ بیوی کچن میں سبزی کاٹ رہی ہے۔ اس نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق 15 فٹ کی دوری سے پوچھا، بیگم آج کھانے میں کیا ہے؟
بیوی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا
اس نے اب دس فٹ کی دوری سے اپنا سوال دہرایا
بیوی کی طرف سے پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔ وہ سر جھکائے سبزی کاٹنے میں مشغول رہی۔
میاں اور نزدیک آگیا۔ صرف 5 فٹ کی دوری سے پوچھا
اب کی بار بھی بیوی اسی طرح سر جھکائے اپنا کام کرتی رہی۔
میاں پریشان ہوگیا۔ وہ بالکل سامنے کھڑا ہوگیا اور کوئی تین انچ کی دوری سے پوچھا۔" بیگم! میں نے پوچھا ہے کہ آج کیا پکارہی ہو؟"
بیوی نے سر اٹھایا اور کہا، " بہرے ہو کیا....... چوتھی بار بتارہی ہوں کہ سبزی گوشت: :-D:)
 
موﻻﻧﺎ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﻭﻣﯽ ﺭﺣﻤﺔ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻧﭩﺎ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﻠﺤﺎﺀﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﺘﺎﺭ ﺍﻟﻌﯿﻮﺏ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﯿﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻧﭩﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﯿﺐ ﮐﻮﻥ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺭﻭﻣﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﻨﮑﮭﮍﯼ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﭼﮭﭙﺎﻟﮯ۔ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﺍﻥ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﻍ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﺎﻟﺘﺎ‘ ﺑﺎﻍ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﻧﮑﺎﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﺎﻟﺺ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﻮﮞ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯽ‘ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﮍﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻮ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﺳﮯ ﺟﮍ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
 

جاسمن

لائبریرین
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک کتا کنویں میں گر کر مر گیا.. چونکہ گاؤں میں وہ واحد کنواں تھا اس لئے لوگ بھاگے بھاگے اپنے علاقے کے مولوی صاحب کے پاس گئے اور ان سے سوال کیا کہ کنواں پاک کیسے کیا جائے..؟ مولوی صاحب نے فرمایا.." آپ لوگ کنوئیں سے چالیس بالٹیاں نکال کر پھینک دیں کنواں پاک ہو جائے گا.." ایک دو دن بعد پھر گاؤں والے مولوی صاحب کے پاس پہنچے اور بولے.."حضرت پانی تو ویسے کا ویسا ہی ہے.. آپ کے حکم کے مطابق چالیس بالٹیاں پانی نکال کر پھینک دی تھیں.." مولوی صاحب نے یہ بات سن کر پوچھا.."کیا آپ لوگوں نے کتے کو نکال کر بالٹیاں پھینکی تھیں..؟" اس پر سب بولے.."حضرت ! آپ نے بالٹیاں نکالنے کا کہا تھا 'کتا نکالنے کا نہیں.." سو ! ہم بھی گاؤں والوں کی طرح کرتے ہیں..
بغض' نفرت' تعصب اور لالچ کے کتے دل میں رہنے دیتے ہیں اور کچھ نمازیں' تسبیحات پڑھ کر سمجھتے ہیں دل پاک ہو گیا ۔
واقعی ایسا ہے۔ نفرت،بغض،کینہ وغیرہ سے دل کتنا گندہ ہو جاتا ہے۔اپنا آپ برا لگنے لگتا ہے۔ میری تو یہی کیفیت ہوتی ہے۔پھر میں دعائیں مانگتی پھرتی ہوں۔ اللہ میرے دل کو پاک صاف کر دے۔میرا دل گندہ ہو گیا ہے اللہ!مجھے ٹھیک کر دے۔میرے روّیے دوسروں کی طرف ایسے کر دے جیسا کہ تو چاہتا ہے کہ وہ ہوں اور لوگوں کہ روّیے میری طرف ایسے کر دے جیسا کہ تو چاہتا ہے کہ وہ ہوں۔اور اللہ تعالیٰ یہ دعا فوراََ قبول کرتا ہے۔ دل ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔ سب کے لئے دل میں نرمی اور گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔جس بندے کو دیکھنے کو جی نہیں کرتا تھا اب دل سے اس کے لئے دعائیں نکل رہی ہیں۔اللہ ہم سب کے دلوں کو ان آلائشوں سے پاک صاف رکھے۔آمین!
 
نادیدہ عشق
حضرت نظام الدین اولیاءؒ اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ہی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا‘‘۔ پھر غش کھا جاتے- ایک دن ان کے مریدوں نے پوچھ لیا کہ حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرا ہے؟

آپؒ نے فرمایا ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑ ے دھلنے آیا کرتے تھے اور وہ میاں بیوی کپڑ ے دھو کر پریس کر کے واپس محل پہنچا دیا کرتے تھے، ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو جوان ہوا تو کپڑ ے دھونے میں والدین کا ھاتھ بٹانے لگا، کپڑ وں میں شہزادی کے کپڑ ے بھی تھے، جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہو گیا، محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعد اس کے اطوار تبدیل ہو گئے، وہ شہزادی کے کپڑ ے الگ کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا، انہیں استری کرنے کے بعد ایک خاص نرالے انداز میں تہہ کر کے رکھتا، سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ یہ تو لگتا ہے سارے خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے، والد نے بیٹے کے کپڑ ے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر جب تک لڑکا محبت کے زیر اثر محبوب کی کوئی خدمت بجا لاتا تھا، محبت کا بخار نکلتا رہتا تھا، مگر جب وہ اس خدمت سے ہٹایا گیا تو لڑکا بیمار پڑ گیا اور چند دن کے بعد فوت ہو گیا۔
ادھر کپڑوں کی دھلائی اور تہہ بندی کا انداز بدلا تو شہزادی نے دھوبن کو بلا بھیجا اور اس سے پوچھا کہ میرے کپڑے کون دھوتا ہے؟ دھوبن نے جواب دیا کہ شہزادی عالیہ میں دھوتی ہوں، شہزادی نے کہا پہلے کون دھوتا تھا؟ دھوبن نے کہا کہ میں ہی دھوتی تھی، شہزادی نے اسے کہا کہ یہ کپڑا تہہ کرو، اب دھوبن سے ویسے تہہ نہیں ہوتا تھا، شہزادی نے اسے ڈانٹا کہ تم جھوٹ بولتی ہو، سچ سچ بتاؤ ورنہ سزا ملے گی، دھوبن کے سامنے کوئی رستہ بھی نہیں تھا دوسرا کچھ دل بھی غم سے بھرا ہوا تھا، وہ زار و قطار رونے لگ گئی، اور سارا ماجرا شہزادی سے کہہ دیا، شہزادی یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آ گئی۔
پھر اس نے سواری تیار کرنے کا حکم دیا اور شاہی بگھی میں سوار ہو کر پھولوں کا ٹوکرا بھر کر لائی اور مقتول محبت کی قبر پر سارے پھول چڑھا دیے، زندگی بھر اس کا یہ معمول رہا کہ وہ اس دھوبی کے بچے کی برسی پر اس کی قبر پر پھول چڑ ھانے ضرور آتی۔
یہ بات سنانے کے بعد کہتے، اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہوسکتی ہے تو بھلا اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟ ایک انسان سے محبت اگر انسان کے مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے اور وہ اپنی پوری صلاحیت اور محبت اس کے کپڑ ے دھونے میں بروئےکار لا سکتا ہے تو کیا ہم لوگ اللہ سے اپنی محبت کو اس کی نماز پڑ ھنے میں اسی طرح دل وجان سے نہیں استعمال کر سکتے؟ مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے انداز کو پہچان سکتی ہے تو کیا رب کریم بھی محبت سے پڑھی گئی نماز اور پیچھا چھڑانے والی نماز کو سمجھنے سے عاجز ہے؟

حضرت نظام الدین اولیاءؒ پھر فرماتے وہ دھوبی کا بچہ اس وجہ سے کامیاب ہے کہ اس کی محبت کو قبول کر لیا گیا جبکہ ہمارے انجام کا کوئی پتہ نہیں قبول ہو گی یا منہ پر ماردی جائے گی، اللہ جس طرح ایمان اور نماز روزے کا مطالبہ کرتا ہے اسی طرح محبت کا تقاضا بھی کرتا ہے، یہ کوئی مستحب نہیں فرض ہے! مگر ہم غافل ہیں ۔
پھر فرماتے اللہ کی قسم اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل اسی طرح پھٹ جاتے جس طرح دھوبی کے بچے کا دل پھٹ گیا تھا، یہ ساری ساری رات کی نماز ایسے ہی نہیں پڑھی جاتی کوئی جذبہ کھڑا رکھتا ہے، فرماتے یہ نسخہ اللہ پاک نے اپنے نبیﷺ کے دل کی حالت دیکھ کر بتایا تھا کہ آپ نماز پڑھا کیجئے اور رات بھر ہماری باتیں دہراتے رھا کیجئے آرام ملتا رہے گا، اسی وجہ سے نماز کے وقت آپ فرماتے تھے ’’أرحنا بها يابلال۔ اے بلال ہمارے سینے میں ٹھنڈ ڈال دے اذان دے کر‘‘
 
کہتے ہیں کہ ایک دن شیطان بیٹھا رسیوں کے پھندے تیار کر رہا تھا.. کچھ موٹی موٹی رسیوں کے پھندے تھے'کچھ باریک اور کمزور رسیوں کے پھندے تھے.. وہاں سے ایک علم والے کا گذر ہوا تو اس نے شیطان سے پوچھا.."ارے او دشمن انساں ! یہ کیا کر رے ہو..؟"

شیطان نے سر اٹھا کر دیکھا اور اپنا کام جاری رکھتے ہوئے بولا.."دیکھتے نھیں حضرت انسانوں کو قابو کرنے کے لیے پھندے تیار کر رہا ہوں.."

ان حضرت نے پوچھا.."یہ کیسے پھندے ہیں کچھ موٹے کچھ ہلکے..؟"

شیطان نے جواب دیا.."پھندے ان لوگوں کے لیے ہیں جو شیطان کی باتوں میں نہیں آتے.. لہذا مختلف قسم کے پھندے تیار کرنے پڑتے ہیں.. کچھ خوشنما' کچھ موٹے' کچھ باریک.."

ان حضرت کے دل میں تجسس پیدا ہوا.. پوچھا.."کیا میرے لیے بھی کوئی پھندا ہے..؟"

شیطان نے سر اٹھا کر مسکراتے ہوئے کہا.."آپ علم والوں کے لیے مجھے پھندے تیار نہیں کرنے پڑتے.. آپ لوگوں کو تو میں چٹکیوں میں گھیر لیتا ہوں.. علم کا تکبر ہی کافی ہے آپ لوگوں کو پھانسے کے لیے.."

ان حضرت نے حیران ہو کر پوچھا.."پھر یہ موٹے پھندے کس کے لیے ہیں..؟"

شیطان نے کہا.."موٹے پھندے اخلاق والوں کے لیے ہیں جنکے اخلاق اچھے ہیں.. ان پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے.. اسی لیے حدیث شریف میں ہے کہ اعمال میں سب سے زیادہ وزنی چیز اخلاق ہو گا.."

الله ہم سب کو بہترین اخلاق والا بنا دے..

طارق جمیل صاحب کے بیان سے ماخوذ۔۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
زبردست سے زیادہ کی ریٹنگ۔
اچھا اخلاق کتنے ہی مسائل اور جھگڑوں کا حل بھی ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر علم والے لوگ تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ علم تو عاجزی سکھاتا ہے۔
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر ابن آدم خطاکار ہے، اور خطاکاروں میں بہتر وہ لوگ ہیں جو توبہ شعار ہیں۔‘‘
1۔ ’’ہر ابن آدم خطا کار ہے۔‘‘ یعنی انسان میں فطرتاً ایسی کمزوریاں موجود ہیں کہ اُس سے اللہ کی نافرمانی کا صدور ہوسکتا ہے، اور اگر اللہ کی خاص نگرانی شاملِ حال نہ ہو تو انسان کے دامن کا اس گندگی سے بالکل پاک رہنا سخت مشکل ہے۔ اس ارشاد سے دو باتوں کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ ایک تو یہ کہ کوئی انسان اپنی حالت پر مطمئن اور اپنے احتساب سے غافل نہ ہو۔ اُسے یہ حقیقت بخوبی یاد رہے کہ اُس سے ہر آن غلطی ہوسکتی ہے، اور اگر وہ چوکنا اور ہوشیار نہ رہے تو نفس کی کمزوری اور شیطان کی وسوسہ اندازی سے اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ دوسری بات جو ذہن نشین کرانی ہے وہ یہ ہے کہ انسان سے اگر غلطی ہوجائے تو وہ اپنے آپ سے مایوس نہ ہوجائے اور اپنی اصلاح سے دل برداشتہ ہوکر جی چھوڑ نہ بیٹھے۔ اس ارشاد میں گنہگاروں کے لیے تسلی کا پیغام ہے، ان سے کہا جارہا ہے کہ اگر تم سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی تو تمہیں اپنے سے مایوس نہ ہونا چاہیے، غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے اور انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ اس لیے اپنے آپ سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ غلطی کا تدارک کرو اور اپنی شخصیت اور اپنے مستقبل سے پوری طرح پُرامید رہو۔
بہتر انسان:
2۔ ’’اور خطاکاروں میں بہتر وہ لوگ ہیں جو توبہ شعار ہیں۔‘‘ یعنی انسان کا معیار مطلوب یہ نہیں ہے کہ اُس سے گناہ سرزد ہی نہ ہو۔ انسان سے تو کوئی نہ کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے۔ بہترین اور معیاری انسان وہ ہے کہ جب بھی اُس سے غلطی ہوجائے وہ فوراً اللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرے، ہر لغزش اُس کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہو، وہ اپنی کمزوریوں پر مطلع ہوکر ان کے ازالے کی طرف شدت سے متوجہ ہو، جب بھی اس کے ہاتھ سے اللہ کی رسّی چھوٹ جائے، وہ لپک کر پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اُسے تھام لے، جب بھی اللہ کی ناخوشی کا کوئی کام اُس سے ہوجائے، وہ رو رو کر اور گڑگڑا کر اپنے آقا کو خوش کرنے اور پہلے سے زیادہ اُس کی خوشنودی کے کاموں میں لگ جائے۔ باَلفاظِ دیگر توبہ کرنا اس کی مستقل صفت ہو۔ ایسے ہی انسان اللہ کو محبوب ہیں اور ایسے ہی لوگ نوعِ انسانی کا بہترین عنصر ہیں۔
 
ایک دیہاتی کو اپنی پالتو گائے سے بہت محبت تھی۔ دن رات اس کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا اور ہر دم اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا۔ ایک دن وہ گائے کو باڑے میں باندھ کر اچانک ضروری کام سے چلا گیا۔ اتفاق سے اس دن دیہاتی باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔ جنگل کا شیر کئی دنوں سے گائے کی تاک میں تھا۔ اس دن اسے موقع مل گیا۔ شیر رات کی تاریکی میں دبے پائوں آیا، باڑے کے اندر گھسا اور گائے کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کر گیا۔ شیر گائے کو کھانے کے بعد وہیں باڑے میں بیٹھ گیا۔ دیہاتی رات گئے گھر واپس آیا اور گائے کو دیکھنے کے لیے پہلے سیدھا باڑے میں گیا۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ شیر گائے کو کھا کر مست بیٹھا ہوا تھا۔ دیہاتی نے شیر کو اپنی گائے سمجھ کر پیار سے پکارا۔ پھر اس کے پاس بیٹھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ دیہاتی احمق کو اگر پتا چل جاتا کہ وہ جسے اپنی گائے سمجھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا ہے وہ آگے بیٹھا ہوا جنگل کا بادشاہ شیر ہے تو مارے دہشت کے اس کا جگر پھٹ جاتا اور دل خون ہوجاتا۔
درسِ حیات:
٭ تیرا نفس اس خونخوار شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہے جسے تُو اندھے پن میں فریب خوردہ ہوکر اور گائے سمجھ کر پال رہا ہے۔ اس کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔ ابھی وقت ہے اپنی اصلاح کرلے۔
 
ایک عالم کا ایک ملحد کے ساتھ مناظرہ ہوگیاعالم نے اس بے دین کے سامنے ہار مان لی اور پیچھے ہٹ گیا ، کسی نے اس عالم سے پوچھا کہ جناب باوجود آپ علم وفضل رکھنے کے ایک ملحد سے مناظرے میں ہار گئے اور اس پردلائل کے ذریعے قابو نہ پاسکے ؟عالم نے جواب دیا کہ میرا علم تو قرآن ، حدیث اور فقہاء ومشائخ کے اقوال ہیں وہ ملحد ان سے عقیدت ہی نہیں رکھتا تو مجھے اس کا کفر سننا کس کام آئیگا؟بس اسی لیے میں نے ہار ماننے میں ہی عافیت جانی
 
بہ سلسلہ سائنس و ٹیکنالوجی دور جدید کے مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے…
ایک گروہ کے نزدیک یہ دنیاوی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ ہے۔
دوسرا اسے مادہ پرستی اور ہوَا و ہوس کا نشان سمجھتا ہے۔
ہمارے مذہب کے مطابق دین و دنیا،دونوں اہم ہیں۔مگر انھیں برتتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنانی ضروری ہے۔ایک مسلم یہ سوچ کر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہ بیٹھے کہ اللہ دینے والا ہے۔قران و سنت کی رو سے یہ فکر ناپسندیدہ ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ ایک مسلمان سادگی،قناعت و تقوی اختیار کرتے ہوئے تحقیق و تجربے(محنت)کرے تاکہ بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے…اس لیے نہیں کہ اعلی ملازمت،لاکھوں روپے تنخواہ،عالیشان کوٹھی اور بیش قیمت کار مل جائے!
مغرب میں عموماً سائنس داں و موجد اس بات پہ صحت مند مقابلہ کرتے ہیں کہ کون کتنے مقالے لکھتا،نظریات سامنے لاتا اور ایجادات پیش کرتا ہے۔اسلامی ملکوں میں بالعموم بلند عہدے پانے اور زیادہ سے زیادہ آسائشیں پانے کی خاطر مقابلہ ہوتا ہے۔اسی باعث بیشتر مسلم ماہرین مغربی سائنس و ٹیکنالوجی کے محض نقّال ہیں۔ یہی وجہ ہے،تقریباً ’’100فیصد‘‘ سائنسی مقالہ جات،نظریات اور ایجادات غیراسلامی ممالک میں جنم لیتی ہیں۔
اسپین،جہاں کبھی مسلمانوں کی حکومت رہی ،وہاں صرف ایک برس میں ہسپانوی زبان میں اتنی زیادہ کتب کے ترجمے ہوتے ہیں،جتنے پورے عالم اسلام میں کئی برسوں بعد انجام پاتے ہیں۔حالانکہ اسپین جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بلند مرتبہ نہیں رکھتا۔
آخر میں یہ لکھنا ضروری ہے کہ ہمارا عظیم مذہب زوال امت کا قطعاً ذمے دار نہیں۔جب بیشتر اسلامی ملکوں میں حکمران طبقہ اپنی کرسیاں بچانے اور تجوریاں بھرنے میں لگا رہے،عوام زندگی کو صرف کھیل تماشا سمجھ لیں اور نوجوان اس لیے علم حاصل کریں کہ دولت کما سکیں ،تو قدرتاً علوم و فنون اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھے۔قران پاک میں بلاوجہ نہیں فرمایا گیا،(مفہوم):’’ ایک قوم کی حالت اسی وقت بدلتی ہے جب وہ خود ارادہ کر لے۔‘‘(13۔11)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
خاک نشیں کو پرواز کا تخیل بھی عجب ہے۔
علم کی بنیاد پیمانہ خالی رکھنے پر ہے۔ صاحب علم کے سامنے جوں جوں ادراک کی گرہیں کھلتی ہیں، اس کو اپنا پیمانہ اور بھی خالی نظر آنے لگتا ہے۔ ہوس بڑھتی ہے کہ مزید کچھ اس پیمانے میں ڈالا جائے۔ جوں جوں آگہی کے باب کھلتے ہیں اپنی کم علمی کھل کر سامنے آتی جاتی ہے۔ دل مزید کی تمنا کے لیے تڑپتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی معاملے پر بلند پروازی اس کو عجب نظر آتی ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ آگہی کے فلک پر کتنے ہی ضیغم ہیں جو اس کو زیر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ صاحب علم ان کی بلند پروازی کے مشاہدے میں غرق ہو جاتا ہے اور یوں علم اس کے اندر انکساری کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہ انکساری خشیت اور الہی کی اطاعت لے کر آتی ہے۔ کہ علمی ذہن جب مظاہر کے مطالعہ میں غرق ہوتا ہے۔ تو اس کو اپنی ذات تنکا نظر آتی ہے۔ جبکہ کسی معاملے پر اپنی رائے حرف آخر ثابت کرنا تکبر کو جنم دیتا ہے۔ اور تکبر پستی ہے۔ جوں جوں انسان ہر معاملے کو محض اپنی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کا پیمانہ بھرتا جاتا ہے۔ اور اس میں مزید کی گنجائش نہیں نکلتی۔ اسی بات کو مختصراً بیان کیا جائے تو وہ یہ کہ "خاک نشین کو پرواز کا تخیل بھی عجب ہے۔"
از قلم نیرنگِ خیال
 
Top