خونی وزیرستان

خرم

محفلین
اچھا پھر آپ سب لوگ ہی کوئی حل بتائیں۔ چلیں فوج نکال لیتے ہیں ان علاقوں سے۔ پھر کیا ان علاقوں کو پاکستان سے الگ کر کے طالبان کے سپرد کر دیا جائے؟ دیکھیں میں ایسے کسی بھی آپریشن کی حمایت نہیں کررہا جس میں بے گناہ عوام کی جانیں ضائع ہوں مگر یہ جو کچھ سوات میں ہو رہا ہے دوسرے علاقوں میں ہورہا ہے اس کا کیا حل ہے؟ آپریشن تو ابھی ہوا نہیں مگر یہ گذشتہ کئی ماہ سے وہاں جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ بھی فوج کر رہی ہے؟ اگر قبائلی علاقوں سے افغانستان کے اندر حملہ آور جانے بند ہو جائیں تو کیا پھر بھی فوج کی وہاں موجودی کا کوئی جواز ہوگا؟ اگر یہ حملہ آور وہاں نہ آتے تو کیا پھر بھی فوج آتی؟ کیا یہ حل ہے کہ طالبان کو ان علاقوں میں مکمل خودمختاری دے دی جائے کہ جسے چاہیں زندہ رہنے دیں، جسے چاہیں مار دیں؟ میرے خیال میں تو ساجد بھائی اگر 80 فیصد عوام طالبان کے حامی ہیں تو پھر تو سرحد کے عوام سے ریفرنڈم کروا کر پوچھ لینا چاہئے کہ وہ ایک الگ طالبانستان چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور جو بھی ان کا فیصلہ ہو اسے خوشدلی سے قبول کرلینا چاہئے۔ آخر پاکستان بھی تو ایک ملک کے دو ٹکڑے کرنے سے وجود میں آیا تھا۔ اب بھی اپنے بھائی بہنوں کو مارنے کی بجائے اگر وہ چاہتے ہیں تو انہیں ان کا ایک ملک دے دیں اور پھر باقی دُنیا جانے اور وہ جانیں۔
خاور - آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے پہلے کہا تھا نا کہ میری اپنی کچھ کمزوریاں ہیں جو مجھے روکے ہوئے ہیں اسی لئے ان معاملات پر تجاویز نہیں دیتا کہ لوگ کہیں گے کہ خود تو امریکہ بیٹھا ہے اور باتیں کرتا ہے۔ آپ کا اعتراض بالکل بجا ہے لیکن اگر اللہ تعالٰی نے مجھے اپنی کمزوریوں سے باہر نکلنے کی ہمت عطا فرمائی تو میں تو انشاءاللہ یہ کر گزروں گا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھ کر بیٹھنے سے کسی کی نامعلوم گولی کھا کر مرجانا شاید بہتر ہوگا کہ شاید بروزِ محشر یہ تو کہ سکوں گا کہ تیری مخلوق کی بھلائی کی کوشش میں جان دی۔
واللہ اعلم
 

فرضی

محفلین
ساجد بھائی اگر 80 فیصد عوام طالبان کے حامی ہیں تو پھر تو سرحد کے عوام سے ریفرنڈم کروا کر پوچھ لینا چاہئے کہ وہ ایک الگ طالبانستان چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور جو بھی ان کا فیصلہ ہو اسے خوشدلی سے قبول کرلینا چاہئے۔

طالبان نے یا قبائلیوں نے ابھی تک پاکستان سے علیحدہ ہونے کی بات نہیں کی نا ہی سرحد عوام پاکستان سے الگ ہونا چاہتی ہے۔ پاکستانی فوج وہاں پاکستان کے خلاف بغاوت کچلنے نہیں گئی صرف اور صرف امریکہ کی ایماء پر اپنے لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اگر افغانستان میں دراندازی ہورہی تھی تو پاکستان کو بارڈر پر فوج بٹھانا چاہیے تھی نہ کہ عوام پر ائیرئل بمباری کرکے۔ اب سوات کی واٹ لگ گئی ہے شاید۔ سوات کے عوام بھی ان خود کش حملوں سے تنگ ہیں لیکن اس کا حل طاقت کے ذریعے بالکل نہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ پاک فوج قبائلیوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا پاس رکھے اور قبائیلی عوام اور پشتونوں کا قتل عام روک دے۔ سوات میں فوجی کاروائی سے خود کش حملوں میں مزید شدت آئے گی۔
 

Dilkash

محفلین
میں نے کسی جگہ لکھا تھا کہ قبائییوں کو سیاست سے قطعا دلچسپی نہیں اور نہ الگ ہونے کا کبھی سوچھا ہے۔۔۔اصل وجہ اس فساد کا امریکہ کی اس خطے میں موجودگی ہے۔اگر امریکہ افغانستان سے نکل جاتا ہے یا پاکستان امریکہ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کہ طالبان اپکو کبھی بھی نظر نہیں ائیں گے؟
اب اسی بیلٹ پر(افعان قبائیلی) لوگ 30 سالوں سے جنگ لڑ رہے ہیں لوگوں کے خاندان تباه هوچکے هیں انفراسٹرکچر ختم ،تعلیمی ادارے بند ہیں۔کاروبار نہیں ہے،روزگار کھانا پینا سب ختم۔
لوگ جنگ کر کرکے تھک چکے ہیں۔۔اب وہ سوچتے ہیں کہ ایمان کے سوا کچھ بچا تو ویسے بھی نہیں،مرنا بھی ہے تو ایمان اور اسلام کے لئے ہی مرنا بہتر ہے۔

میں کہتا ہوں ۔۔۔دو حل ہیں۔۔۔۔۔



1:امریکہ نکل جائے
یا
2:پاکستان امریکہ کا ساتھ چھوڑ دیں
 

ساجداقبال

محفلین
میرے خیال میں تو ساجد بھائی اگر 80 فیصد عوام طالبان کے حامی ہیں تو پھر تو سرحد کے عوام سے ریفرنڈم کروا کر پوچھ لینا چاہئے کہ وہ ایک الگ طالبانستان چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور جو بھی ان کا فیصلہ ہو اسے خوشدلی سے قبول کرلینا چاہئے۔ آخر پاکستان بھی تو ایک ملک کے دو ٹکڑے کرنے سے وجود میں آیا تھا۔ اب بھی اپنے بھائی بہنوں کو مارنے کی بجائے اگر وہ چاہتے ہیں تو انہیں ان کا ایک ملک دے دیں اور پھر باقی دُنیا جانے اور وہ جانیں۔
ایسے کوئی خیالات فی الحال وہاں کسی کے نہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر یہی مسئلہ جاری رہا تو ایسے خیالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ حل سیدھے سے ہیں جو دلکش نے تحریر کر دئیے۔ یہ حل تسلیم کیے بغیر کبھی توقع نہ رکھیے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائیگا۔ آپ اور ہم صرف باتیں ہی کر سکتےہیں کہ فلاں بات سے مسئلہ حل ہو جائیگا یا فلاں سے۔عارضی حل یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت 2006 کیطرح جنگ بندی کر کے جیو اور جینے دو کا اصول اپنائے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو ختم کر کے مسئلہ حل ہو گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طالبان کوئی وکھری مخلوق نہیں جس کے سر پر سینگ ہوں اور پہچانے جائیں اور جنہیں چن چن کر مارا جا سکے۔طالبان اب ایک نظریہ بن چکا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہاں اگر لوگ حامی ہیں تو طالبانستاں بنا لیا جائے۔ ۔ ۔ جیسے میں عرض کر چکا ہوں کہ ایسی کوئی سوچ اول ہے نہیں۔ دوسرے طالبان کی حمایت کی کئی وجوہات ہیں۔ سرحد کے لوگوں کی قبائل سے خونی، دینی، علاقائی، لسانی رشتے ہیں اور پاکستان کے فرسودہ سرکاری نظام سے وہ اتنے تنگ آچکے ہیں(خیر وہ تو پورا پاکستان تنگ ہے) کہ وہ طالبان کی حمایت پر مجبور ہیں۔
درہ آدم خیل کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ بندوبستی علاقوں کے مجرم وارداتیں کرکے ایسے علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔ طالبان نے وہاں بڑے بڑے مجرموں کو ٹھکانے لگایا، اب وہاں صورتحال سدھری ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں وہ اس حکومت کی حمایت کریں جو 60سال سے ان مجرموں کو کچھ نہیں کہہ رہی یا ان طالبان کی جن نے انہیں ٹھکانے لگا کر اپنے تئیں انصاف کیا ہے۔ طالبان صرف امریکہ مخالف جذبات کی ہی نہیں اس فرسودہ نظام کیخلاف ایک آواز ہے۔
مشرف اگر خود ساختہ نعرے ”سب سے پہلے پاکستان“ کی اصل روح پر ہی عمل کر لے تو بہت بڑی بات ہو گی۔
 

خرم

محفلین
فیروز بھائی امریکہ کو نکلنے بھی تو دیں۔ پہلے بھی پوچھا تھا کہ امریکہ کی کتنی فوج ہے افغانستان میں؟ بالکل معمولی سی۔ اگر امریکہ ہے بھی افغانستان میں تو اس کے لئے افغانیوں کو کچھ کرنے دیں، ہم کیوں اپنے گھر میں آگ لگا رہے ہیں؟ نظم و ضبط بھی تو کوئی چیز ہے نا؟ دیکھیں حالات کو فراست سے بھی تو اپنے حق میں بدلا جاسکتا ہے۔ جنگ و جدل ضروری تو نہیں۔ میں شاید اپنا مطلب سمجھا نہیں سک رہا۔ دراصل یہ دو دھاری تلوار ہے۔ حکومت اور قبائل دونوں اطراف کو ہی اپنا آپ ٹھیک کرنا ہوگا۔ دیکھئے امریکا افغانستان میں آیا، طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور کرزئی آگیا۔ یہ معاملات افغانستان کے ہیں۔ انہیں افغان عوام کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ہماری یہ پالیسی ہمیشہ سے ہی غلط رہی ہے کہ ہم افغانستان کے معاملات میں دخیل رہے ہیں۔ یہ غلط رویہ ہے۔ دیکھیں بھائی وہ ایک الگ ملک ہے ہم الگ ملک ہیں۔ وہ تو ہم سے اتنے مخلص ہیں کہ آج تک سرحد کا تعین ہی نہیں ہونے دیا گیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان۔ اس سے بھی قطع نظر افغانستان کا دفاع اور اس کے داخلی معاملات افغانوں کا معاملہ ہیں پاکستانیوں کا نہیں۔ وجہ امریکہ ہو یا کچھ اور، آخر کیوں ہم افغانوں کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر لیں گے؟ انہیں اپنی ذمہ داری اٹھانے دیں۔ آخر کیوں ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ ہمارے قبائلی علاقوں میں تعلیم کی ضرورت ہے، طبی سہولیات کی ضرورت ہے ان کے خلاف جہاد کیوں نہیں کرتے ہم؟ کیا ہماری اپنی نسلوں کا ہم پر کوئی حق نہیں؟ کب تک آخر کب تک ہم اوروں کی لڑائی اپنے گھر میں لڑتے رہیں گے اور اپنا گھر برباد کرتے رہیں گے۔ کیوں ہم نہیں سمجھتے کہ ہمارا دُشمن امریکہ نہیں جہالت ہے۔ اس سے کیوں نہیں لڑتے ہم؟ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو، امریکہ کا افغانستان کے ساتھ بھی تو معاملہ ہے نا۔ کرزئی پر تو خودکش حملہ نہیں ہوتا، سوات، اسلام آباد، کراچی میں ہو جاتا ہے۔ امریکی ڈالر افغانستان میں نہیں چل رہے کیا؟ پھر پاکستان پر ہی یہ نظرِ کرم کیوں؟
اسی طرح فوج کو بھی عقل سے کام لینا چاہئے۔ بازاروں پر بمباری کوئی انتہائی فاتر العقل شخص ہی کر سکتا ہے اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ فوج کا کام عوام کی حفاظت کے لئے جان دینا ہوتا ہے۔ اگر ایک عام آدمی کی جان بچانے کے لئے سو فوجیوں کی جان جاتی ہے تو بھی اُس ایک آدمی کی جان بچائی جائے گی۔ یہ رویہ ہونا چاہئے اور فوج کو اگر یہ رویہ نہیں آتا تو اسے یہ سکھانا پڑے گا۔ مگر یہ سب سکھانے کے لئے گولی کی ضرورت نہیں۔ آخر یہی فوج تھی نا جو چیف جسٹس کے معاملہ پر چُپ کر کے بیٹھ گئی۔ فوج کوئی بھی ہو، عوامی رائے عامہ کے خلاف نہیں جا سکتی۔ خاص کر پاکستانی فوج جو ہے ہی عوام میں سے۔ میرے خیال میں تو اس مسئلہ کا یہی حل ہے کہ قبائلی عوام کو "جہاد" کے روکنے اور دیگر ملک کے عوام کو "فوج" کو قابو کرنے کے لئے متحرک کیاجائے۔ اس طرح ہی شاید ہم اپنا گھر بچا سکتے ہیں وگرنہ تو
بربادئی چمن کے لئے ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا
والا معاملہ ہے۔
باقی رہ گئی بات طالبان کی تو میرا اس معاملہ میں نقطہ نظر یہی ہے کہ یہ ایک عفریت ہے جس کا سر کُچلنا ضروری ہے اور امریکہ اگر افغانستان میں نہ بھی آتا تو بھی ہمیں یہ حالات دیکھنا پڑنے تھے۔ آخر چین نے تو ان کے ساتھ کچھ بُرا نہیں کیا تھا نا، انہوں نے تو وہاں بھی شورش شروع کر دی تھی۔
 

Dilkash

محفلین
خرم بھائی
دراصل اپ قبائیلیوں کی حثیت سے واقف نہیں۔قبائیلی بیلٹ کو اپ افغانستان سے جدا نہیں کرسکتے کہ ہر دو طرف سے انکو انے جانے کی ازادی ہے رہنے سہنے اور کاروبار اور حتی کہ گھر بار بھی کبھی یہاں کبھی وہاں ۔پاکستان کے ساتھ جو قبائیلی لیڈر Mna اسمبلیوں میں بیٹھے نظر اتے ہیں وہ قبائیلیوں کے نمائیندہ نہیں بلکہ یہ ان ملکوں اور خوانین کے اولاد ہیں جو صدیوں سے پہلے مغلوں پھر انگریزوں کے پٹو چلے ارہے ہیں،اور اب حکومت پاکستان کے چیلے ہیں ۔۔پورے ملک میں(تعزیرات پاکستان) الگ قانون ہے جبکہ ان ملکوں‌اور خوانین کے ایما پر قبایلیوں پر Fcrابھی تک نافذ ہے جو کہ انگریزوں کا قانون ہے۔
اس قانون کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کسی بھی شخص کو 40 Fcrمیں گرفتار کرے 20 سال بغیر مقدمہ چلائے قید کرسکتے ہیں۔
اور اپیل کا حق بھی نہیں ۔۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی مداخلت نہیں کرسکتا۔

قبائیلیوں کے خاندان اور قبیلے بارڈر کے دونوں طرف رھتے ہیں۔لہذا کسی بھی صورت افغانستان کی اگ سے پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔
اقبال نے بہت پہلے کہا تھا

آسیا یک پیکر اب و گل است
ملت افغان درایں پیکر دل است

باقی شعر یاد نہیں لیکن مقصد اس طرح کا ہے کہ اگر اسیا کی خوشی اور غمی اسی دل سے ہے۔۔اگر افغانستان میں امن ہوگا تو پورے اسیا میں امن رہے گا۔
 

خرم

محفلین
فیروز بھائی یہ جو پولیٹکل ایجنٹی والے قوانین ہیں یہ تو ہیں ہی سراسر ظلم۔ مگر سچی بات بتاؤں کہ آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ قوانین قبائلیوں کی خواہشات پر ایسے ہیں کہ حکومت نے ان پر مسلط کئے ہیں۔ خوانین کی بات آپ نے ٹھیک کی لیکن یہ خوانین بھی تو اپنی طاقت اپنے لوگوں سے ہی لیتے ہیں نا؟ اس معاملہ میں مجھے آپ کی رہنمائی چاہئے ہوگی۔ میرے علم میں تو یہ بات ہے کہ قبائلی تعزیراتِ پاکستان کے نفاذ کو اپنی آزادی میں مداخلت سمجھتے تھے اور ان کے مطالبہ پر ان کے ساتھ پولیٹیکل ایجنٹ کے قانون کے تحت معاملات طے کرنا قرار پائے۔ آپ کے پاس کیونکہ براہِ راست معلومات ہیں لہٰذا برائے مہربانی اس معاملہ میں میری جہالت کو دور فرمائیے۔

افغانستان میں رشتہ داریوں والی بات تو ٹھیک ہے لیکن کیا کوئی بھی گھر بغیر درودیوار کے ہوا کرتا ہے؟ آج بھی کئی گھرانے ہیں ایسے جو پاکستان اور بھارت میں بٹے ہوئے ہیں۔ اب کیا ان کے لئے بارڈر ختم کر دیا جائے؟ اگر قبائلیوں کی افغانستان میں رشتہ داریاں ہیں تو اس کے لئے باہمی آمدورفت کو ویزوں کے آسانی سے اجراء وغیرہ کے معاملات سے حل کیا جاسکتا ہے اور اگر معاملات زیادہ اچھے ہوں تو کینیڈا اور امریکہ کی طرح "سافٹ" بارڈر بھی رکھا جاسکتا ہے مگر ابھی تک تو وہاں بارڈر کا تعین ہی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ بھائی جب پاکستان اور افغانستان دو الگ الگ ملک ہیں تو پھر ان کے معاملات بھی الگ الگ ہوں گے نا۔ اب یہ بات مجھے تو کچھ زبردستی کی سی لگتی ہے کہ ویسے تو ہم دو الگ الگ ملک ہیں مگر ہم میں سے کچھ کے لئے ایک ہی ملک ہے۔ اور اگر قبائلی افغانستان کے معاملات سے الگ نہیں ہوسکتے تو کیوں نا پاکستان اور افغانستان کو مِلا کرایک ملک بنا لیا جائے؟ یا افغانستان کے وہ حصے جہاں ہمارے قبائلی علاقوں کے زیادہ مضبوط بندھن ہیں انہیں پاکستان میں شامل کر لیا جائے؟ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس معاملہ کا کوئی پائیدار حل ہونا چاہئے۔ فی الحال تو ایک عجیب سی صورتحال ہے جو نہ تو کسی معیار کی پابند ہے اور نہ کسی اصول کی۔ اسے کسی بھی طرح Institutionalize کرنا چاہئے۔ میرا تو یہی خیال ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
 

Dilkash

محفلین
سب کچھ خوانین اور ملکوں کی ایما ہر ہورہا ہے۔اگرایف سی ار ختم ہوگا تو قبائیلی ملکوں عیاشیاں ختم ہو جائینگی اپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر ملک کو حکومت پاکستان سالانہ لاکھوں روپے اعزازیہ دیتا ہے اور دسترخوان کے لئے الگ خرچہ مقرر ہے۔علاقے میں افین اور بھنگ کی کاشت کی تلفی کے عوض جو پیسہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک سے اتا ہے وہ ملکوں اور گورنر نیز فاٹا کے سرکاری افسروں میں تقسیم ہو کر ھضم کیا جاتا ہے۔۔پولیٹیکل ایجنٹ کا 1 سے لیکر 7 لاکھ روزانہ کے حساب سے خرچے کا صوابدیدی اختیار ہے۔انکی مرضی ہے کہ ملکوں کودیں یا ان کو کسی چیز کی پرمٹ دیں یاخود خرچ کریں۔اس پیسے کاکوئی اڈٹ نہیں ہے۔میں حقیقت بیا ن کرتا ہوں اپ کہیں سے بھی تصدیق کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ فاٹا میں انتظامیہ کی ہر پوسٹ کا قیمت ہے۔ سول افسر کوشش کرتا ہے کہ فلاں ایجنسی کا پوسٹ ملے۔اس پر وہ گورنر اور چیف سیکریٹری کو کروڑوں روپے کا رشوت دیتا ہے۔رشوت بھی مقامی ملک اور سمگلرز اپنے مرضی کے افسر کیلئے دیتے ہیں پھر ان سے کون پوچھ سکتا ہے؟ کہ سمگلنگ کے پیسے یا رشوت کیوں لیتے ہو؟ خیبرایجنسی ۔مھمند ،باجوڑاور کرم ایجنسی کے بارڈر چیک پوسٹوں پر کتنا مال سمگلنگ ہوتا ہے؟۔۔اربوں روپے کا مال روزانہ ادہر سے ادہر ہوتا ہے ۔۔اب تو اپکا گندم اور دوسری اشیا سنٹرل اشین ممالک تک سمگلنگ ہوتیں ہیں۔۔وہاں سے پٹرول اور گیس سمگلنگ ہو کر اتا ہے۔
مزے کی بات سنو۔افغان ٹرانزٹ پر جو سامان باھرسے حکومت افغاننستان پاکستان کی سی پورٹ کی وساطت سے برامد کرتا ہے یا پاکستان سےافغان تاجر کوئی چیز برامدکرتا ہے تو وہ سر حد کے اس پار نہیں یعنی افغانستان نہیں جاتا۔ بلکہ جمرود کے قریب بنے ہوئے بڑے بڑے گوداموں میں خالی ہوکر واپس پاکستان میں بکتا ہے۔۔کیونکہ اس پر ڈیوٹی نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے لھذا تاجر اسے واپس ہمارے ہاں ہماری ہی درامد شدہ چیز سستے داموں بیچتا ہے۔کیونکہ درامدات اور برامدات پر ڈیوتی کم لگتی ہے۔


جہاں تک ملکوں اور خوانین کا قبائیلی معاشرے میں مقام ہے تو وہ 0 درجے پر ہے۔۔ملک کا کوئی عزت نہیں نہ اسکا کوئی پرواہ کرتا ہے ،ملک کی مثال بکاؤ مال کی طرح ہے چونکہ عوام میں انکی طاقت اور عزت کوئی نہین لھذا حکومت کے کارندوں کے پاس بھی انکی کوئی عزت نہیں البتہ انکو مراعات اس لئے دیتے ہیں کہ یہی لوگ صدیوں سے ان کے وفادار ہیں اور حکومت کے لئے جاسوسی،مخبری کرتے ہیں اور بندر بانٹ میں شریک ہو کر حکام کے راز افشا نہیں کرتے۔ایک لحاظ سے یہ ملک انکے رازداں اور حواری ہیں۔اور ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہیں حالانکہ حکام کو بھی معلوم ہے کہ ملکوں کی پبلک سپورٹ کوئی نہیں۔

میں پچھلے سال ایک دوست ایم این اے(جو ملک بھی ہے) کے ساتھ پولیٹیکل افس گیا ۔چائے پینے کے بعد نکلتے وقت میرے جیب میں ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا رکھا گیا جس پر ایم ان اے صاحب نے لکھا تھا ۔5000 خرچے کی سفارش کرتا ہوں اور Pa صاحب نےچھوٹا سا انیشل کرکے او کے لکھا۔
باہر اکر دوست نے سامنے کیشئر کی جانب اشارہ کرکے کہا، وہاں یہ پرچی دیکھاؤ۔چونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کیا چیز ہوگی۔اس لئے شکریے کے ساتھ واپس کیا جس پر بے مجھے بے و قوف کاخطاب ملا۔
پھر یہی ام این اے صاحب نے کچھ دنوں کے بعد گورنر ہاوس میں مشرف سے قبائلی جرگے کی ملاقات میں ساتھ انے کا کہا۔۔ایم این اے صاحب نے میرے لئے پاس بنانے کا ایڑھی چھوٹی کا زور لگایا لیکن نہ مل سکا اور مجھے گورنر ہاوس کے گیٹ سے واپس انا پڑا۔میرے سامنے پی اے صاحب نے میرے دوست کو کہا کہ ملک صاحب۔۔۔۔اپ ضدکیوں کررہے ہیں ؟ان کا کیا بھروسہ ؟ مشرف کے جلسے میں کچھ بولے گا تو پیٹی اتر جائیگی۔
اور یقینا بعد میں جو کچھ میں نے سنا تو میرے لئے بھتر تھا کہ نہیں گیا ورنہ شائد میں جیل چلا جاتا۔

جہاں تک افغانستان میں قرابتداری کا تعلق ہے تو ھندوستان اور افغانستان کی سرحدوں میں واضح فرق ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے سرحد کے دونوں طر ف مسلمان اور پشتون رھتے ہیں۔ذیلی شاخیں بھی تقریبا ایک ہی ہے۔1893 میں ڈیورنڈ ٹریٹی کے تحت 100 سال کے لئے یہ بارڈر قائم کی گئی تھی جس کا معیاد ختم ہوچکا ہے۔۔اٹک بلکہ جہلم تک علاقے پر افغانستان کی حکومت دعوی داری کرتے ہیں جب بھی افغانستان کے اندر اگرکوئی سٹیبل حکومت بنی وہ ضرور اپنے علاقے کا تقاضہ کریگا۔اگر چہ اس پل کے نیچے بہت ساراپانی بہہ چکا ہے اور اب شائد یہاں کا پڑھا لکھا پشتون افغانستان کے ساتھ بخوشی الحاق نہیں چاھے گا مگر اگر حالات یوں ہی چلتے رہے اور حق تلفیاں جاری رہی تو شائد الگ پشتونستان کا سوچا جاسکتا ہے۔اور حالات یہی بتا رہے ہیں کیونکہ امریکی روڈ میپ جو جنوبی اشیا،میڈل ایسٹ،اور سنٹرل اشیا کے لئے ہے کہ ہر خطے میں لسانی اور نسلی بنیادوں پر ریاستوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اور جنرل مشرف اسی پر تندہی سے کام کرتا دیکھائی دے رہا ھے۔
جس طرح 1990 کے بعد پریڈیکٹیدکیا گیا تھا کہ 2015-20 تک(اللہ نہ کریں)دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نام نہیں ہوگا۔
(اس سے پہلے اللہ سبحان و تعالٰی امریکہ کو نیست و نابود کریں)لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے اگر یہی حکمران رہے۔

جہاں تک افغانستاں میں خود کش حملوں کا تعلق ہے تو وہاں پر ہم سے بھی زیادہ حملے ہو رہے ہیں کرزئی کابل سےباہر نہیں جاسکتا۔۔90 فیصد افغانستان انکے قبضے سے باہر ہے ۔۔امریکی فوج کے علاوہ نیٹو کی فوج بھی ہے ۔افغانی فوج اور وار لارڈ کا ملیشا الگ جنہیں ڈالروں میں تنخواہ ملتی ہے۔
اور بی 52 اور جنگی ھیلی کاپٹر اور جدید اسلحہ ہے۔۔۔ڈالروں کی بھر مار ہے۔۔قدم قدم پرجاسوسی کا جال پھیلا ہے۔
یاد رکھو
امریکہ کی تباہی یا تو مرد کوہستانی(افغان) یا بندہ صحرائی(عرب) کے ہاتھوں ہوگی۔۔جیسا کہ اقبال نے فرمایا تھا۔
ائیے ان کوھستانیوں اور صحرائیوں کے دعا کریں کہ یہی ہماری بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں
 

خرم

محفلین
سب کچھ خوانین اور ملکوں کی ایما ہر ہورہا ہے۔اگرایف سی ار ختم ہوگا تو قبائیلی ملکوں عیاشیاں ختم ہو جائینگی اپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر ملک کو حکومت پاکستان سالانہ لاکھوں روپے اعزازیہ دیتا ہے اور دسترخوان کے لئے الگ خرچہ مقرر ہے۔علاقے میں افین اور بھنگ کی کاشت کی تلفی کے عوض جو پیسہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک سے اتا ہے وہ ملکوں اور گورنر نیز فاٹا کے سرکاری افسروں میں تقسیم ہو کر ھضم کیا جاتا ہے۔۔پولیٹیکل ایجنٹ کا 1 سے لیکر 7 لاکھ روزانہ کے حساب سے خرچے کا صوابدیدی اختیار ہے۔انکی مرضی ہے کہ ملکوں کودیں یا ان کو کسی چیز کی پرمٹ دیں یاخود خرچ کریں۔اس پیسے کاکوئی اڈٹ نہیں ہے۔میں حقیقت بیا ن کرتا ہوں اپ کہیں سے بھی تصدیق کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ فاٹا میں انتظامیہ کی ہر پوسٹ کا قیمت ہے۔ سول افسر کوشش کرتا ہے کہ فلاں ایجنسی کا پوسٹ ملے۔اس پر وہ گورنر اور چیف سیکریٹری کو کروڑوں روپے کا رشوت دیتا ہے۔رشوت بھی مقامی ملک اور سمگلرز اپنے مرضی کے افسر کیلئے دیتے ہیں پھر ان سے کون پوچھ سکتا ہے؟ کہ سمگلنگ کے پیسے یا رشوت کیوں لیتے ہو؟ خیبرایجنسی ۔مھمند ،باجوڑاور کرم ایجنسی کے بارڈر چیک پوسٹوں پر کتنا مال سمگلنگ ہوتا ہے؟۔۔اربوں روپے کا مال روزانہ ادہر سے ادہر ہوتا ہے ۔۔اب تو اپکا گندم اور دوسری اشیا سنٹرل اشین ممالک تک سمگلنگ ہوتیں ہیں۔۔وہاں سے پٹرول اور گیس سمگلنگ ہو کر اتا ہے۔
مزے کی بات سنو۔افغان ٹرانزٹ پر جو سامان باھرسے حکومت افغاننستان پاکستان کی سی پورٹ کی وساطت سے برامد کرتا ہے یا پاکستان سےافغان تاجر کوئی چیز برامدکرتا ہے تو وہ سر حد کے اس پار نہیں یعنی افغانستان نہیں جاتا۔ بلکہ جمرود کے قریب بنے ہوئے بڑے بڑے گوداموں میں خالی ہوکر واپس پاکستان میں بکتا ہے۔۔کیونکہ اس پر ڈیوٹی نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے لھذا تاجر اسے واپس ہمارے ہاں ہماری ہی درامد شدہ چیز سستے داموں بیچتا ہے۔کیونکہ درامدات اور برامدات پر ڈیوتی کم لگتی ہے۔
فیروز بھائی یہ سب کچھ تو پاکستان کے کس حصہ میں نہیں ہو رہا ہے؟ بس نام اور مقام بدل جاتے ہیں باقی تو سب جگہ کی یہی کہانی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں نا کہ ہم ہتھیار اٹھا کر مزید خرابی شروع کردیں؟
جہاں تک افغانستان میں قرابتداری کا تعلق ہے تو ھندوستان اور افغانستان کی سرحدوں میں واضح فرق ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے سرحد کے دونوں طر ف مسلمان اور پشتون رھتے ہیں۔ذیلی شاخیں بھی تقریبا ایک ہی ہے۔1893 میں ڈیورنڈ ٹریٹی کے تحت 100 سال کے لئے یہ بارڈر قائم کی گئی تھی جس کا معیاد ختم ہوچکا ہے۔۔اٹک بلکہ جہلم تک علاقے پر افغانستان کی حکومت دعوی داری کرتے ہیں جب بھی افغانستان کے اندر اگرکوئی سٹیبل حکومت بنی وہ ضرور اپنے علاقے کا تقاضہ کریگا۔اگر چہ اس پل کے نیچے بہت ساراپانی بہہ چکا ہے اور اب شائد یہاں کا پڑھا لکھا پشتون افغانستان کے ساتھ بخوشی الحاق نہیں چاھے گا مگر اگر حالات یوں ہی چلتے رہے اور حق تلفیاں جاری رہی تو شائد الگ پشتونستان کا سوچا جاسکتا ہے۔اور حالات یہی بتا رہے ہیں کیونکہ امریکی روڈ میپ جو جنوبی اشیا،میڈل ایسٹ،اور سنٹرل اشیا کے لئے ہے کہ ہر خطے میں لسانی اور نسلی بنیادوں پر ریاستوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اور جنرل مشرف اسی پر تندہی سے کام کرتا دیکھائی دے رہا ھے۔
جس طرح 1990 کے بعد پریڈیکٹیدکیا گیا تھا کہ 2015-20 تک(اللہ نہ کریں)دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نام نہیں ہوگا۔
(اس سے پہلے اللہ سبحان و تعالٰی امریکہ کو نیست و نابود کریں)لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے اگر یہی حکمران رہے۔
دیکھیں بھائی اب تاریخ کی باتیں تو دُہرانے سے فائدہ نہیں۔ اگر افغانستان جہلم تک کا علاقہ مانگ سکتا ہے تو انڈیا کابل تک کا علاقہ مانگ سکتا ہے کیونکہ کابل سلطنتِ مغلیہ کا ایک صوبہ تھا۔ بارڈر اور ملک بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے انہی حقیقتوں کے ساتھ زندہ رہنا ہوتا ہے۔ آپ نے بات کی کہ بارڈر کے دونوں طرف پشتون رہتے ہیں، تو ہندوستان کی تقسیم کے وقت بھی تو یہی منظر تھا اور خونی رشتے جو ذات پات کے نظام کے ساتھ جُڑے ہیں وہ تو آج بھی انڈیا اور پاکستان میں ایک سے ہیں۔ بلکہ صاحبزادہ یعقوب خان نے کشمیر کی جنگ میں اپنے سگے بھائی کے زیر کمان علاقے پرحملہ کرکے اس پر قبضہ کیا تھا (ان کے بھائی انڈیا کی فوج میں افسر تھے)۔ بات یہ ہے کہ دو بھائیوں کے جب اپنے اپنے گھر ہوں‌تو ان گھروں کی حدود و قیود کا احترام بھی کرنا چاہئے اور ہر گھر کے فیصلے اسی گھر میں ہونے چاہئیں۔ یہی قانونِ قدرت ہے اور یہی انصاف ہے (کم از کم مجھ بے سمجھ کے لئے)۔ باقی رہ گئی الگ پشتونستان کی بات تو بھائی ملک ہم ایک چھوڑ کر ہزار بھی بنا لیں، کیا ہمارے حالات بدل جائیں گے؟ کیا یہ ملوک، خوانین، وڈیرے، چوہدری، سرداران ان ملکوں سے بے دخل کر دئے جائیں گے؟ کیا حکومت ان لوگوں کی اولادوں کے ہاتھوں‌سے نکل کر عوام کے ہاتھ میں‌آ جائیں گی؟ اگر نہیں تو پھر کیا فائدہ اور اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر ایسا ایک متحدہ پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ مرض تو نظام میں ہے نا، نام میں تو نہیں؟ تو نظام کو بدلنا چاہئے نا۔ وہی بات جو خاور نے تمثیلاً کہی تھی کہ بات تو کنویں میں سے کُتا نکالنے کی ہے۔ اگر کُتا وہیں ہے تو جتنا مرضی پانی نکالو، کنواں تو پاک نہیں ہوگا اور نہ ہی نکالا ہوا پانی پاک ہوگا۔ امریکہ یا تمام دُنیا جو مرضی پلان کرتے رہیں، ہوتا تو وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ لیکن اگر اُن کا یہ پلان ہے تو ہمارا کیا پلان ہے بھائی؟ وہ اپنی چال چل رہے ہیں ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں؟ مشرف ان کا مُہرا سہی، ہمارے مُہرے کون ہیں؟‌ مگر اس سے بھی پہلے یہ بات کہ ہمارا پلان کیا ہے؟ بھائی بات سخن گسترانہ سی ہے لیکن ہمارا حال تو اُن سردار جی جیسا ہے جو گھر سے باہر نکلے تو دروازے کے باہر ایک کیلے کا چھلکا پڑا دیکھا۔ سر پر ہاتھ مار کر کہنے لگے "کیا مصیبت ہے آج پھر پھسلوں گا"۔ تو ہمیں امریکہ کا پلان تو پتہ ہے اب کیا ہمیں یہ واویلا مچانا چاہئے کہ ہمارے نعوذ باللہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگے ہیں یا یہ کہ اللہ کا نام لے کر اور اس سے مدد طلب کر کے اس پلان کو ناکام کرنے کی تدابیر اختیار کرنا چاہیئں؟
اپنا ایمان بتاؤں؟ پاکستان کا قیام و بقا صرف اللہ تعالٰی اور اس کے پاک پیغمبر صل اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے ہے۔ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر خدانخواستہ ہم نے اللہ کو ناراض کر دیا تو اللہ کو ہمیں (پاکستان کو نہیں کہ وہ تو صرف ایک نام ہے) تباہ کرنے کے لئے امریکہ کی ضرورت نہیں۔ اس کے لئے ہم خود ہی کافی ہو جائیں گے۔
باقی رہ گئی بندۂ صحرائی و کوہستانی والی بات تو بھائی صحرا و کوہستان تو پاکستان میں بھی ہیں۔ اور ایسی بھی کیا کم ہمتی کہ ہم اپنی جنگ لڑے بغیر دوسروں کے سپرد کر دیں؟ ہماری تو جب بھی جنگ ہوئی ہم نے خود ہی لڑی ہاں‌اوروں کی جنگوں میں ہم ان کی مدد کرنے کو ضرور شریک رہے۔ 65، 67، 71 کی جنگوں کے حالات شاہد ہیں۔ جنگ ہم نے اپنی ہمیشہ خود لڑی ہے الحمد للہ (11/9 کے بعد بھی باقی تمام "اسلامی" ممالک نے یہی کہا تھا نا کہ جی آپ کا اپنا فیصلہ ہے یہ اور بات کہ ہمیں اپنے ہی ملک کا قصور نظر آتا ہے۔ اس وقت تو کسی عرب و ایران و افریقہ نے نہ کہا کہ جی ہم آپ کے ساتھ ہیں)۔ اللہ کا وعدہ صرف بندۂ صحرائی و کوہستانی سے نہیں تمام اہالیانِ ایمان سے ہے۔ اور سو باتوں کی ایک بات کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تو ٹھنڈی ہوائیں ہندوستان سے آتی تھیں اور کم از کم میرے لئے تو یہ کافی اطمینان و خوشی کی بات ہے میں اس ہندوستان میں قائم ہونے والے اس ملک کا باشندہ ہوں‌جس کی بنیاد اسلام پر ہے۔ ہاں ہم نے اس ملک کا جو بھی حشر کیا وہ ہمارا قصور ہے مگر اس کو سنوارنا بھی تو ہماری اپنی ذمہ داری ہے؟
اللہ ہم سب پر اپنا کرم کرے۔ آمین۔
 

Dilkash

محفلین
بہت اچھی باتیں اپ نے لکھی ہیں خرم بھائی،سب جان چکے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے؟اور ھم سب کو بیماری بھی معلوم ہے،اور تشخیص بھی۔
کہ ان لوگوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے؟
۔کب؟ کیسے اور کس طرح؟؟؟
اور وہ وقت کب ائیگا جب ان تمام برائیوں کا سدباب ہوجائے؟
اب شائد وقت کا تعین لوگوں نے کردیا ہے۔۔ہم لوگ چونکہ باہر بیٹھے ہیں اور صرف کچھ لمحوں کے لئے پریشان ہو جاتے ہیں ،پھر اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔
مگر کہتے ہیں کہ جگہ وہی گرم رھتی ہے جہاں پر اگ لگی ہو۔
انقلابات ہمیشہ خون کے دریا میں کھود کر لائے جاتے ہیں۔لوگوں کا پیمانہ صبر اب لبریز ہوچکا ہے۔
اب لاوہ باہر انا چاھتا ہے،
کیا پتہ یہی شروعات ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہو۔۔۔اور لوگوں کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہو کہ اب یہ ملک صحیح معنووں میں ازاد ہو۔کچھ لوگ اسلام کا نام اگے کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہوں!!!

کیا سب انسان صرف ہماری طرح روٹی کمانے اور پھر کھانے کیلئے زندہ ہیں؟؟ انسان کی ضرورت روٹی کپڑااور مکان تو ہوگی مگر مقصد تو نہیں۔
اب انسان اپنی 60-70 سالہ زندگی گزارنے کے بعد یہ بھی تو سوچتا ہوگا کہ میں صرف کمانے کا مشین تو نہیں۔اب لوگ تو اتنے ان پڑہ اور بے خبر بھی تو نہیں۔

اللہ سے خیر کی دعا کرنی چاہئے۔
 

زیک

مسافر
مجھے تو لگ رہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ وزیرستان، قبائلی علاقے، سوات اور سرحد کے دوسرے علاقے جہاں ان طالبان وغیرہ کا زور ہے انہیں اپنی راہ لینے دی جائے۔ جائیں اپنے علاقوں کو تباہ کریں پاکستان کی جان چھوڑیں۔ جتنے تیر مارنے ہیں اپنے ملک میں ماریں ہم بھی دیکھیں کتنا اچھا اسلامی ملک بناتے ہیں یہ لوگ۔
 

خرم

محفلین
ھم سب کو بیماری بھی معلوم ہے،اور تشخیص بھی۔
کہ ان لوگوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے؟
۔کب؟ کیسے اور کس طرح؟؟؟
اور وہ وقت کب ائیگا جب ان تمام برائیوں کا سدباب ہوجائے؟
بھائی اس کا صرف ایک طریقہ ہے۔ عوامی رائے عامہ کو بیدار و متحد کیا جائے۔ دیکھئے چیف جسٹس کیس ایک سامنے کی مثال ہے۔ یہی فوج تھی، یہی حکمران تھے، ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی چیف جسٹس کے حامیوں کی طرف سے اور صرف لوگوں‌کے اظہار نے ان حکمرانوں کو اپنی خواہش کے خلاف جانے پر مجبور کر دیا۔ دیکھئے ایسا کوئی جبر آج تک ایجاد نہیں ہوا جو جمہور کی آواز کو روک سکے۔ لیکن اس کے لئے فیروز بھائی لوگوں‌کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں‌نا انگریزی میں کہ live by your promise تو اس کی ضرورت ہے۔ یہ مارا ماری خون خرابہ تو صرف مزید انارکی لائے گا۔
اب شائد وقت کا تعین لوگوں نے کردیا ہے۔۔ہم لوگ چونکہ باہر بیٹھے ہیں اور صرف کچھ لمحوں کے لئے پریشان ہو جاتے ہیں ،پھر اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔
مگر کہتے ہیں کہ جگہ وہی گرم رھتی ہے جہاں پر اگ لگی ہو۔
انقلابات ہمیشہ خون کے دریا میں کھود کر لائے جاتے ہیں۔لوگوں کا پیمانہ صبر اب لبریز ہوچکا ہے۔
اب لاوہ باہر انا چاھتا ہے،
نہیں بھائی لوگ تو ابھی بھی مظلوم ہیں۔ بم دھماکوں‌میں مرتے ہیں، اپنے گھروں میں محبوس ہو کر بیٹھتے ہیں، اپنے پیاروں کی خیریت چاہتے ہیں۔ نہیں بھائی ہم ایسا انقلاب کیوں چاہیں جس میں ہمارے اپنوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا ہو؟ لوگوں‌کا پیمانہ لبریز ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، یہ چلن کسی بھی صورت ایک پُر امن اور بامقصد معاشرہ کو جنم نہیں دے سکتا۔ بھائی معاشرتی دباؤ تو انسان کو حیوانی کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اس معاشرتی دباؤ کو اچھے مقصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر بزورِ طاقت اپنے مقاصد حاصل کرنے کی لت پڑ گئی تو پھر پاکستان میں بھی وار لارڈز ہوں گے۔ کچھ دین کے نام پر تباہی پھیلائیں گے اور کچھ قومیت و حمیت کے نام پر۔ یہ راستہ صرف پیچھے جاتا ہے اور ہمیں آگے جانے کی ضرورت ہے۔
کیا پتہ یہی شروعات ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہو۔۔۔اور لوگوں کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہو کہ اب یہ ملک صحیح معنووں میں ازاد ہو۔کچھ لوگ اسلام کا نام اگے کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہوں!!!
بھائی اگر یہ ملک انگریز سے لڑے بغیر آزاد ہو گیا تھا تو ان حکمران ٹولوں سے بھی آزاد ہو جائے گا۔ مقصد کی اچھائی بھی طریقہ کار کی بُرائی کی دلیل نہیں ہوتی۔ اور یہ لوگ جو آج ایک قانون کے پابند نہیں وہ کل کو کیا ہوں گے؟ اسلام کا نام استعمال کرنا تو بھائی ویسے ہی انتہائی بڑا جرم و گناہ ہے۔ اس سے تو کبھی بھی کوئی خیر نہیں برآمد ہو سکتا کہ اللہ کی ناراضگی یقینی ہے۔
کیا سب انسان صرف ہماری طرح روٹی کمانے اور پھر کھانے کیلئے زندہ ہیں؟؟ انسان کی ضرورت روٹی کپڑااور مکان تو ہوگی مگر مقصد تو نہیں۔
یقیناً نہیں فیروز بھائی لیکن مقصد ضروری تو نہیں کہ آگ و خون کے دریا بہا کر ہی حاصل کیا جائے۔ بھائی میں جانتا ہوں کہ یہ وقتی جھنجھلاہٹ ہے جیسے زیک نے جھنجھلا کر چند باتیں لکھ دیں۔ اندر سے تو ہم میں سے کوئی بھی اسطرح نہیں چاہتا۔ اور ایک بات بتاؤں، سب سے اہم بات جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہ کہ اپنے ہر جاننے والے کو، سب دوستوں کو، سب کے ساتھ اپنے خیالات بانٹیں، سب کو اپنے ساتھ ملائیں۔ لوگوں کو آمادہ کریں کہ سچ اور انصاف پر چلیں‌اور اسی کا ساتھ دیں۔ بھائی اس میں وقت لگے گا مگر نتیجہ آئے گا۔ ضرور آئے گا۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ گھوڑا سدھانے کے لئے کہتے ہیں کہ اسے پیار سے سدھائیں ڈرا کر نہیں۔ وجہ یہ کہ اگر اسے آپ سے پیار ہے اور آپ پر اعتبار ہے تو وہ مشکل کے وقت بھی آپ کی طرف دیکھے گا اور آپ سے ہمت لے گا۔ لیکن اگر آپ نے گھوڑے کو ڈر سے سدھایا تو جیسے ہی وہ کسی ایسی چیز کے سامنے ہوگا جس کا اُسے آپ سے زیادہ ڈر ہوگا، وہ اُس چیز کی یا اپنی جبلت کی بات مانے گا اور آپ کو بھول جائے گا۔ یہی فرق انسانوں کا ہے بھائی۔ آئیں انہیں پیار دیں، مان دیں، حوصلہ دیں۔ مرنے کی نہیں جینے کی باتیں سکھائیں کہ یہی دین ہے اور یہی حقیقت۔ ہر اچھے کام کے لئے مشکلات کا برداشت کرنا فطری ہے لیکن بھائی کشت و خون کبھی بھی آرزو یا مقصد نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی قابلِ تعریف ہونا چاہئے۔ ویسے بھی ان حکمرانوں کی قید سے نکل کر اگر خدانخواستہ مُلا کی قید میں چلے گئے تو Out of the frying pan into the Fire والا معاملہ ہوگا۔
اب انسان اپنی 60-70 سالہ زندگی گزارنے کے بعد یہ بھی تو سوچتا ہوگا کہ میں صرف کمانے کا مشین تو نہیں۔اب لوگ تو اتنے ان پڑہ اور بے خبر بھی تو نہیں۔
یہی تو اچھی بات ہے بھائی کہ لوگ ان پڑھ نہیں ہیں۔ تو آئیں نا ان سے پڑھی لکھی بات کریں۔ یہ مارا ماری کیوں؟ اگر لوگ بے خبر نہیں تو انہیں یہ بھی تو بتائیں نا کہ دُنیا میں کہیں پر بھی اس طرح مارا ماری نہیں ہو رہی جیسے پاکستان میں ہو رہی ہے۔ لوگوں‌کو بتائیں نا کہ جو ممالک ترقی یافتہ ہیں وہ کیوں‌ہیں؟ آئیں انہیں خبر دیں اچھائی کی، ترقی کی، خوشحالی کی کہ یہ سب ہمارے اپنے لوگ ہیں۔
اللہ سے خیر کی دعا کرنی چاہئے۔

آمین۔
 

Dilkash

محفلین
مجھے تو لگ رہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ وزیرستان، قبائلی علاقے، سوات اور سرحد کے دوسرے علاقے جہاں ان طالبان وغیرہ کا زور ہے انہیں اپنی راہ لینے دی جائے۔ جائیں اپنے علاقوں کو تباہ کریں پاکستان کی جان چھوڑیں۔ جتنے تیر مارنے ہیں اپنے ملک میں ماریں ہم بھی دیکھیں کتنا اچھا اسلامی ملک بناتے ہیں یہ لوگ۔


اچھا جی ایسا ہی کرلیں گے۔۔
ویسے اپ پاکستان کے کونسے علاقے سے ہیں؟؟؟؟

اپنی ایک پہچان ہے پاکستان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی
شعر میں اگر غلطی ہو تو معزرت
 

Dilkash

محفلین
بھائی اس کا صرف ایک طریقہ ہے۔ عوامی رائے عامہ کو بیدار و متحد کیا جائے۔ دیکھئے چیف جسٹس کیس ایک سامنے کی مثال ہے۔ یہی فوج تھی، یہی حکمران تھے، ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی چیف جسٹس کے حامیوں کی طرف سے اور صرف لوگوں‌کے اظہار نے ان حکمرانوں کو اپنی خواہش کے خلاف جانے پر مجبور کر دیا۔ دیکھئے ایسا کوئی جبر آج تک ایجاد نہیں ہوا جو جمہور کی آواز کو روک سکے۔ لیکن اس کے لئے فیروز بھائی لوگوں‌کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں‌نا انگریزی میں کہ live by your promise تو اس کی ضرورت ہے۔ یہ مارا ماری خون خرابہ تو صرف مزید انارکی لائے گا۔

نہیں بھائی لوگ تو ابھی بھی مظلوم ہیں۔ بم دھماکوں‌میں مرتے ہیں، اپنے گھروں میں محبوس ہو کر بیٹھتے ہیں، اپنے پیاروں کی خیریت چاہتے ہیں۔ نہیں بھائی ہم ایسا انقلاب کیوں چاہیں جس میں ہمارے اپنوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا ہو؟ لوگوں‌کا پیمانہ لبریز ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، یہ چلن کسی بھی صورت ایک پُر امن اور بامقصد معاشرہ کو جنم نہیں دے سکتا۔ بھائی معاشرتی دباؤ تو انسان کو حیوانی کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اس معاشرتی دباؤ کو اچھے مقصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر بزورِ طاقت اپنے مقاصد حاصل کرنے کی لت پڑ گئی تو پھر پاکستان میں بھی وار لارڈز ہوں گے۔ کچھ دین کے نام پر تباہی پھیلائیں گے اور کچھ قومیت و حمیت کے نام پر۔ یہ راستہ صرف پیچھے جاتا ہے اور ہمیں آگے جانے کی ضرورت ہے۔

بھائی اگر یہ ملک انگریز سے لڑے بغیر آزاد ہو گیا تھا تو ان حکمران ٹولوں سے بھی آزاد ہو جائے گا۔ مقصد کی اچھائی بھی طریقہ کار کی بُرائی کی دلیل نہیں ہوتی۔ اور یہ لوگ جو آج ایک قانون کے پابند نہیں وہ کل کو کیا ہوں گے؟ اسلام کا نام استعمال کرنا تو بھائی ویسے ہی انتہائی بڑا جرم و گناہ ہے۔ اس سے تو کبھی بھی کوئی خیر نہیں برآمد ہو سکتا کہ اللہ کی ناراضگی یقینی ہے۔

یقیناً نہیں فیروز بھائی لیکن مقصد ضروری تو نہیں کہ آگ و خون کے دریا بہا کر ہی حاصل کیا جائے۔ بھائی میں جانتا ہوں کہ یہ وقتی جھنجھلاہٹ ہے جیسے زیک نے جھنجھلا کر چند باتیں لکھ دیں۔ اندر سے تو ہم میں سے کوئی بھی اسطرح نہیں چاہتا۔ اور ایک بات بتاؤں، سب سے اہم بات جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہ کہ اپنے ہر جاننے والے کو، سب دوستوں کو، سب کے ساتھ اپنے خیالات بانٹیں، سب کو اپنے ساتھ ملائیں۔ لوگوں کو آمادہ کریں کہ سچ اور انصاف پر چلیں‌اور اسی کا ساتھ دیں۔ بھائی اس میں وقت لگے گا مگر نتیجہ آئے گا۔ ضرور آئے گا۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ گھوڑا سدھانے کے لئے کہتے ہیں کہ اسے پیار سے سدھائیں ڈرا کر نہیں۔ وجہ یہ کہ اگر اسے آپ سے پیار ہے اور آپ پر اعتبار ہے تو وہ مشکل کے وقت بھی آپ کی طرف دیکھے گا اور آپ سے ہمت لے گا۔ لیکن اگر آپ نے گھوڑے کو ڈر سے سدھایا تو جیسے ہی وہ کسی ایسی چیز کے سامنے ہوگا جس کا اُسے آپ سے زیادہ ڈر ہوگا، وہ اُس چیز کی یا اپنی جبلت کی بات مانے گا اور آپ کو بھول جائے گا۔ یہی فرق انسانوں کا ہے بھائی۔ آئیں انہیں پیار دیں، مان دیں، حوصلہ دیں۔ مرنے کی نہیں جینے کی باتیں سکھائیں کہ یہی دین ہے اور یہی حقیقت۔ ہر اچھے کام کے لئے مشکلات کا برداشت کرنا فطری ہے لیکن بھائی کشت و خون کبھی بھی آرزو یا مقصد نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی قابلِ تعریف ہونا چاہئے۔ ویسے بھی ان حکمرانوں کی قید سے نکل کر اگر خدانخواستہ مُلا کی قید میں چلے گئے تو Out of the frying pan into the Fire والا معاملہ ہوگا۔

یہی تو اچھی بات ہے بھائی کہ لوگ ان پڑھ نہیں ہیں۔ تو آئیں نا ان سے پڑھی لکھی بات کریں۔ یہ مارا ماری کیوں؟ اگر لوگ بے خبر نہیں تو انہیں یہ بھی تو بتائیں نا کہ دُنیا میں کہیں پر بھی اس طرح مارا ماری نہیں ہو رہی جیسے پاکستان میں ہو رہی ہے۔ لوگوں‌کو بتائیں نا کہ جو ممالک ترقی یافتہ ہیں وہ کیوں‌ہیں؟ آئیں انہیں خبر دیں اچھائی کی، ترقی کی، خوشحالی کی کہ یہ سب ہمارے اپنے لوگ ہیں۔


آمین۔
محترم حرم صاحب
اس وقت تو دل سے اپ کے لئے دعا نکل رہی ہے۔۔اللہ اپکو اپکے اس نیک جذبے کیلئے اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔
 

Dilkash

محفلین
میں پاکستان میں واہ کینٹ، راولپنڈی اور اسلام‌آباد میں رہتا تھا۔

اور اب کہیں اور رہتے ہیں
گویا ایک جگہ پر نہیں ٹہرے۔۔مسلسل مہاجرت کی عالم ہے۔
اچھا
پھر کتنی اسانی سے اپ نے مجھے الگ کرنے کیلئے کہا۔واہ ۔کیونکہ اس وقت اپ سے میں مخاطب ہوں ،طالبان نہیں۔اور دوسری بات یہ ہے کہ اپ تو خود مہاجر یا سیٹلڈ ہے جہاں کہیں بھی ہو اور ان لوگوں کو اپ الگ کرنے کی کہہ رہے ہیں جنکے خاندان ختم ہوچکے ہیں۔
یاد رہے۔۔
یہاں کے لوگوں میں بدل کا رواج ھزاروں سالوں سے ہیں اپ اپنے بڑوں سے پوچھے ۔ایک کہاوت ہے۔کہ کسی نے اپنے رشتہ دار کا بدلہ 100 بعد لیا تھا تو دوسرے نے کہا تھا بہت جلدی نہیں کی۔

اپ اس فورم کے ایڈیٹر ہیں اپ بے شک کسی کی غلط پوسٹ پر قطع برید کرسکتے ہین،یا بلکل ڈیلیٹ کرسکتے ہیں مگر اس طرح کی بات کرکے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے اصلیت کا شک پیدا نہ کرو۔
میں غلطی پر ہوسکتا ہوں اپ میرا پوسٹ ڈیلٹ کریں،مگر بے جا تبصرہ شائد اپ کو زیب نہ دیں۔
 

زیک

مسافر
دلکش میں نے آپ کی پوسٹ پر اعتراض نہیں کیا اور نہ میں آپ سے مخاطب تھا۔ دوسرے میری پوسٹ میری ذاتی رائے ہے نہ کہ ایڈمن کی حیثیت سے۔

میرا روئے سخن تو بنیادی طور پر طالبان ہی تھے۔ اگر یہ لوگ اتنے ہی مقبول ہیں جتنا دعوٰی ہے تو پھر اپنا حساب خود ہی کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔

بدل کی بات ہے تو میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ بھی ان علاقوں کی ترقی نہ ہونے کی وجوہات میں سے ہے۔
 

بدتمیز

محفلین
اچھا پھر آپ سب لوگ ہی کوئی حل بتائیں۔ چلیں فوج نکال لیتے ہیں ان علاقوں سے۔ پھر کیا ان علاقوں کو پاکستان سے الگ کر کے طالبان کے سپرد کر دیا جائے؟ دیکھیں میں ایسے کسی بھی آپریشن کی حمایت نہیں کررہا جس میں بے گناہ عوام کی جانیں ضائع ہوں مگر یہ جو کچھ سوات میں ہو رہا ہے دوسرے علاقوں میں ہورہا ہے اس کا کیا حل ہے؟ آپریشن تو ابھی ہوا نہیں مگر یہ گذشتہ کئی ماہ سے وہاں جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ بھی فوج کر رہی ہے؟ اگر قبائلی علاقوں سے افغانستان کے اندر حملہ آور جانے بند ہو جائیں تو کیا پھر بھی فوج کی وہاں موجودی کا کوئی جواز ہوگا؟ اگر یہ حملہ آور وہاں نہ آتے تو کیا پھر بھی فوج آتی؟ کیا یہ حل ہے کہ طالبان کو ان علاقوں میں مکمل خودمختاری دے دی جائے کہ جسے چاہیں زندہ رہنے دیں، جسے چاہیں مار دیں؟ میرے خیال میں تو ساجد بھائی اگر 80 فیصد عوام طالبان کے حامی ہیں تو پھر تو سرحد کے عوام سے ریفرنڈم کروا کر پوچھ لینا چاہئے کہ وہ ایک الگ طالبانستان چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور جو بھی ان کا فیصلہ ہو اسے خوشدلی سے قبول کرلینا چاہئے۔ آخر پاکستان بھی تو ایک ملک کے دو ٹکڑے کرنے سے وجود میں آیا تھا۔ اب بھی اپنے بھائی بہنوں کو مارنے کی بجائے اگر وہ چاہتے ہیں تو انہیں ان کا ایک ملک دے دیں اور پھر باقی دُنیا جانے اور وہ جانیں۔
خاور - آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے پہلے کہا تھا نا کہ میری اپنی کچھ کمزوریاں ہیں جو مجھے روکے ہوئے ہیں اسی لئے ان معاملات پر تجاویز نہیں دیتا کہ لوگ کہیں گے کہ خود تو امریکہ بیٹھا ہے اور باتیں کرتا ہے۔ آپ کا اعتراض بالکل بجا ہے لیکن اگر اللہ تعالٰی نے مجھے اپنی کمزوریوں سے باہر نکلنے کی ہمت عطا فرمائی تو میں تو انشاءاللہ یہ کر گزروں گا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھ کر بیٹھنے سے کسی کی نامعلوم گولی کھا کر مرجانا شاید بہتر ہوگا کہ شاید بروزِ محشر یہ تو کہ سکوں گا کہ تیری مخلوق کی بھلائی کی کوشش میں جان دی۔
واللہ اعلم

خرم اگر آپ معاملے پر صرف حکومت یا آپریشن کا قصور نکالیں تو غلط بات ہو گی۔ ریفرینڈم ہونے اب بند ہونے چاہیے یہ صرف مذاق ہوتے ہیں۔ ان لوگوں‌کو صرف تین چیزیں چاہیٕے۔ تعلیم، انصاف اور اندرونی خودمختاری۔
دلکش کی باتیں دیکھ کر آپ بخوبی سمجھ جانیں چاہیے کہ ان لوگوں یا جرگوں پر باتوں‌کا اثر نہیں ہوتا۔ آپ امریکہ میں ہوں یا پاکستان میں آپ کی بات کا فورم پر یا اس علاقے میں جا کر ان لوگوں‌ پر اثر نہیں ہونا۔ ان لوگوں کو اقدامات چاہیے جو آپ کے بس کی بات نہیں۔ ہم میدانی علاقے کے لوگ صرف ووٹ سے قسمت بدل سکتے ہیں۔ آپ اپنے ارد گرد لوگوں‌میں شعور پیدا کریں کہ شخصیت پرستی کی سیاست (جیسے ابھی بینیظر کے لیے کچھ عقل مند لوگوں‌نے بہت افسوسناک حمایتی رویہ اختیار کیا) سے دور ہوں۔
آپ حل بتانے کے بجائے ان لوگوں سے حل پوچھیں۔ میں شرط لگاتا ہوں یہ کبھی تعمیری حل نہیں بتا سکیں گیں۔ علیحدہ ہونے کی گٹھی مت دیں۔ پاکستان ایک الگ قوم سے الگ ہو کر بنا تھا۔ ایک ہی قوم اب اگر الگ الگ ہوٕئی ہے تو یہ تخریبی عمل روکنا چاہئے نہ کہ کمزور کی طرح اس کو ہونے دو کی بات کرنی چاہئے۔ ان کا حل صرف اور صرف اندرونی خود مختاری ہے جس کا زکریا نے کہا کہ ان کے علاقے کا انتظام ان کو دے دیں کہ لڑو مرو یا ترقی کرو۔
اسی طرح ایک مولوی صاحب بھی ایسے تھے جنکا اپنا ریڈیو اسٹیشن تھا۔ حالانکہ اکثر جگہوں‌پر ذاتی ریڈیو اسٹیشن منع ہوتا ہے۔ اب بچو کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ہو تو یہ صاحب منع کر دیں۔ دس پندرہ سال بعد یہ علاقہ معذوروں کا علاقہ ہو جائے تب بھی حکومت ذمہ دار کہ کچھ کیا نہیں یا معذوروں کی فلاح و بہبود کے کام۔
آپ صرف دلکش سے پوچھ لیں کہ اپنی نیک کمائی سے انہوں نے 22 سالوں میں "اپنے" علاقے میں کوٕی اسکول ہسپتال بنایا کہ صرف کسی بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر باتیں کی؟
 

Dilkash

محفلین
خرم اگر آپ معاملے پر صرف حکومت یا آپریشن کا قصور نکالیں تو غلط بات ہو گی۔ ریفرینڈم ہونے اب بند ہونے چاہیے یہ صرف مذاق ہوتے ہیں۔ ان لوگوں‌کو صرف تین چیزیں چاہیٕے۔ تعلیم، انصاف اور اندرونی خودمختاری۔
دلکش کی باتیں دیکھ کر آپ بخوبی سمجھ جانیں چاہیے کہ ان لوگوں یا جرگوں پر باتوں‌کا اثر نہیں ہوتا۔ آپ امریکہ میں ہوں یا پاکستان میں آپ کی بات کا فورم پر یا اس علاقے میں جا کر ان لوگوں‌ پر اثر نہیں ہونا۔ ان لوگوں کو اقدامات چاہیے جو آپ کے بس کی بات نہیں۔ ہم میدانی علاقے کے لوگ صرف ووٹ سے قسمت بدل سکتے ہیں۔ آپ اپنے ارد گرد لوگوں‌میں شعور پیدا کریں کہ شخصیت پرستی کی سیاست (جیسے ابھی بینیظر کے لیے کچھ عقل مند لوگوں‌نے بہت افسوسناک حمایتی رویہ اختیار کیا) سے دور ہوں۔
آپ حل بتانے کے بجائے ان لوگوں سے حل پوچھیں۔ میں شرط لگاتا ہوں یہ کبھی تعمیری حل نہیں بتا سکیں گیں۔ علیحدہ ہونے کی گٹھی مت دیں۔ پاکستان ایک الگ قوم سے الگ ہو کر بنا تھا۔ ایک ہی قوم اب اگر الگ الگ ہوٕئی ہے تو یہ تخریبی عمل روکنا چاہئے نہ کہ کمزور کی طرح اس کو ہونے دو کی بات کرنی چاہئے۔ ان کا حل صرف اور صرف اندرونی خود مختاری ہے جس کا زکریا نے کہا کہ ان کے علاقے کا انتظام ان کو دے دیں کہ لڑو مرو یا ترقی کرو۔
اسی طرح ایک مولوی صاحب بھی ایسے تھے جنکا اپنا ریڈیو اسٹیشن تھا۔ حالانکہ اکثر جگہوں‌پر ذاتی ریڈیو اسٹیشن منع ہوتا ہے۔ اب بچو کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ہو تو یہ صاحب منع کر دیں۔ دس پندرہ سال بعد یہ علاقہ معذوروں کا علاقہ ہو جائے تب بھی حکومت ذمہ دار کہ کچھ کیا نہیں یا معذوروں کی فلاح و بہبود کے کام۔
آپ صرف دلکش سے پوچھ لیں کہ اپنی نیک کمائی سے انہوں نے 22 سالوں میں "اپنے" علاقے میں کوٕی اسکول ہسپتال بنایا کہ صرف کسی بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر باتیں کی؟


ہاہاہا
اپ واقعی بد تمیز ہیں۔۔ویسے یقین کریں اپ کی باتیں بلکل بری لگیں۔
جہاں تک تعلیم یا ہسپتال کی بات ہے تو ظاہرہے(حلال) نیک کمائی میں شائد ہی کوئی اتنا میگا پروجیکٹ کوئی کریں۔۔لیکن اگرکسی حد تک میں نے کیا ہو اور اس کو ثبوت بھی میں پیش کوں تو اپ پھر کیا کریں گے؟؟؟؟
یار نہ کرو ایسی باتیں جس کے جوابات ہمارے لئے باعث نمود ونمائش ہو۔
سمجھو کہ جو کچھ بھی حسب توفیق کیا۔اللہ اسے قبول فرمائیں۔
امین۔
 

ساجد

محفلین
مجھے تو لگ رہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ وزیرستان، قبائلی علاقے، سوات اور سرحد کے دوسرے علاقے جہاں ان طالبان وغیرہ کا زور ہے انہیں اپنی راہ لینے دی جائے۔ جائیں اپنے علاقوں کو تباہ کریں پاکستان کی جان چھوڑیں۔ جتنے تیر مارنے ہیں اپنے ملک میں ماریں ہم بھی دیکھیں کتنا اچھا اسلامی ملک بناتے ہیں یہ لوگ۔
زیک ، آپ تو صوبہ سرحد سے بالکل متصل علاقے میں رہ چکے ہیں اس لئیے حالات کی خبر مجھ سے بہتر رکھتے ہوں گے۔ وزیرستان اور سوات کی صورت حال پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اب پاکستان سے نفرت کرتے ہیں اس لئیے پاکستان کو بھی ان سے پیچھا چھڑا لینا چاہئیے ، لیکن بنظر عمیق مطالعہ کریں تو منکشف ہو گا کہ باوجود اتنی خونریزی کے یہ لوگ وفاق پاکستان سے الگ ہونے کی بات نہیں کر رہے ۔ حتی کہ جنونی طالبان نے بھی ایسا کوئی مطالبہ ابھی تک نہیں کیا۔ اس سے دو نتائج تو بڑی آسانی سے اخذ کئیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ امریکہ کے بے جا دباؤ کی وجہ سے صورت حال زیادہ بگڑی ہے دوسرے یہ کہ مرکز میں کمزور اور غیر منتخب حکومت کے غلط فیصلوں نے صورت حال کو مزید ابتر بنایا ہے۔ آپ کا مطالعہ کافی وسیع ہے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ جب بھی مرکزی حکومت کمزور ہو گی تو مرکز گریز و مسلح افراد اور تحریکیں زور پکڑ لیتی ہیں۔ اب یہاں یہی صورت حال ہے کہ یہ طالبان حکومت کی کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ غلط لوگ ہیں ۔ بے رحم قاتل ہیں ، حتی کہ قبائلی لوگ بھی ان کے شاکی ہیں اور ان کے ظلم سے محفوظ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی عسکری طاقت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ کوئی قبائلی ان کو چیلنج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
پاکستانی فوج اور ایجنسیوں نے جس غلطی کا برسوں تک مسلسل ارتکاب کیا آج ہم اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ فوج بیرکوں میں آرام فرماتی رہی اور ان کو امریکی اسلحے اور خلیجی پیسے سے لیس کر کے ایک پراکسی وار لڑتی رہی ۔ اب اس بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے یہ بھی سب پہ عیاں ہے ۔
میں آج بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شورش زدہ علاقوں کے عوام پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے۔ لیکن ان کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ ان طاقتور مسلح گروہوں کو للکار بھی نہیں سکتے۔ ورنہ ان کے گھر جلا دئیے جاتے ہیں اور روزگار کے ذریعے چھین لئیے جاتے ہیں۔ اور کسی نے اڑنے کی کوشش کی تو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس ساری برائی کا محور ہیں ملک ، سردار اور مولوی۔ میری بات کسی کو بری لگے یا بھلی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان مسلح خونی طالبان کی اکثریت انہی مدرسوں سے تعلیم یافتہ ہے کہ جو نہ تو رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی اپنے حسابات چیک کرواتے ہیں۔ اور ابھی سوات کے حملے میں بھی دیکھئیے کہ مولوی فضل اللہ فرار ہو گیا۔ کس لئیے؟ ۔
فیروز بھائی نے بھی اپنی ایک پوسٹ میں انہی عناصر کو قبائلی علا قوں کی بری صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے ملکوں کے کردار پر بھی بہت کھری اور سچی بات لکھی تھی کہ ان لوگوں نے کس طرح سے وہاں ترقی نہیں ہونے دی۔
اور ان ساری مشکلوں کو مہمیز ملتی ہے قبائلی نظام کی ان روایات سے کہ جو جدید نظام سے بالکل بر عکس ہیں۔ قبائلی نظام میں آپ جرگے کے فیصلے سے اختلاف نہیں کر سکتے اور اگر ایسا کیا تو اس کی کم سے کم سزا موت ہے۔
اب اس ساری بحث سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قبائلیوں کے لئیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے نظام کے خلاف چل سکیں یا رائے دے سکیں ، بھلے ان کو یہ نظام پسند ہو یا نہ ہو وہ اسی کو ماننے پہ مجبور ہیں۔ دوسرے یہ کہ قبائلی نظام میں قوم کی جو تعریف ہے وہ تھوڑی مختلف ہے اور علاقے سے باہر کے کسی بھی آدمی کو اجنبی 0 قوم سے باہر کا) ہی سمجھا جاتا ہے تو اس صورت حال میں پاک آرمی کی وہاں موجودگی ان کے خیال میں وفاق پاکستان کی ان کے علاقوں میں در اندازی ہے اور یہ طالبان مقامی افراد میں اپنی پروپیگنڈہ مہم کو کامیاب بنانے کے لئیے اسی نقطے کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ ہمدردی جیتنے میں کامیاب نہ بھی ہو سکیں تو کم از کم مقامی لوگوں کو وسوسے میں ضرور ڈال دیتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے چارہ عام آدمی دونوں طرف سے مارا جاتا ہے ۔ آرمی اپنے آفیسرز کے حکم پر ان پر حملہ کرتی ہے تو طالبان محض شک کی بنیاد پر ان کو ذبح کر ڈالتے ہیں۔
ویسے وزیرستان میں موجودہ صورت حال کی خرابی کا سبب اگر آپ طالبان سے پوچھیں تو وہ امریکہ کا نام نہیں لیں گے بلکہ یہ کہیں گے کہ آرمی کی چیک پوسٹوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ خونریزی ہو رہی ہے اور اگر آرمی یہاں سے کُوچ کر جائے تو ہم اس پر حملے بند کر دیں گے۔ اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں آ کر سارا معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے۔ آخر ان کو آرمی کی چوکیوں پر اس قدر سخت اعتراض کیوں ہے؟ آرمی کسی دشمن ملک کی نہیں ان کی اپنی ہے۔ پھر بھی وہ اس کو وہاں برداشت کیوں نہیں کرتے ؟ یہ وہ معاملے ہیں جن کے سلسلے غیر قانونی اسلحے کی تجارت ، سمگلنگ ، مسروقہ گاڑیوں کی خرید و فروخت ، عسکری کیمپ اور ان لوگوں کو پناہ دینے سے جا ملتے ہیں جو جرائم کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔ ورنہ اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ آرمی سے الجھیں۔
اگر آرمی نے وہاں جہازوں سے بمباری کر کے عام شہریوں کو مارا ہے تو بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ تباہی تو یہ طالبان اپنے ہی لوگوں پر نازل کرتے ہیں۔ کبھی ان کے گھر جلا کر تو کبھی انہیں ذبح کر کے اور کبھی عورتوں پر تہمت لگا کر ان کے سر کاٹ کے۔ یہ شریعت کے نفاذ کے نام پہ جو ظلم ڈھا رہے ہیں وہ بھی قبائلیوں کے لئیے ایک عذاب سے کم نہیں۔ مجھے ٹھیک اعداد و شمار نہیں مل سکے لیکن جو کچھ میں نے پڑھا ہے اس کے مطابق آرمی کی نسبت ان کے ہاتھوں لوگوں کی زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ بہر حال مجھے یہ اعداد و شمار جمع کر کے کوئی خوشی ہرگز نہیں ہو گی کہ جان تو سب کی قیمتی ہے ۔ اور اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اپنوں کی ہلاکت کی جمع تفریق کا حساب کر کے اپنی قوم کی بے عزتی کا سبب کیوں بنوں۔ خدا کرے کہ اب یہ کشت و خون بند ہو جائے۔
ایک بات طے ہے کہ یہ معاملات اس وقت تک کبھی بھی نہیں سدھر سکتے جب تک ،
قبائلی علاقوں میں نافذ قوانین کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔
فاٹا کے منتخب اراکینِ اسمبلی کو صرف حکومتی نشستوں کی زینت ہی نہ بنایا جائے بلکہ ان کو اپنے علاقوں کی بہتری کا ذمہ دار بنایا جائے ۔
تعلیم ، روزگار اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا کام جنگی بنیادوں پر کیا جائے۔ اور ذرائع ابلاغ کی ترقی کے لئیے اپنے پورے وسائل صرف کئیے جائیں تا کہ عوام غلط پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کے عوام سے ان کا رابطہ بڑھے۔
حکومت اور فوج کو اپنے مفادات کے لئیے مسلح گروپوں کی حمایت سے ہاتھ فوری طور پہ اُٹھا لینا چاہئیے۔
مدرسوں کا آڈٹ اور ان کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ ان کو غیر ممالک سے ملنے والی امداد پر سخت پالیسی اپنائی جائے۔ بھلے کچھ دوست ممالک چیں بہ چیں بھی ہوں تو پرواہ نہ کی جائے۔
جرگہ سسٹم کے ہر فیصلے کو من و عن نافذ کئیے جانے سے روکا جائے کہ ان کے زیادہ تر فیصلے عوام میں بے چینی کا سبب بنتے ہیں۔
گھر جلانے اور محض مسلکی اختلاف پر قتل کئیے جانے پر ذمہ دار افراد کو سخت سزا دی جائے اور اس کام کے لئیے علماء کو ساتھ ملایا جائے۔

مجھے پتہ ہے کہ ان سب تجویزوں میں سے ایک پر بھی عمل نہیں ہونے والا کیوں کہ مشرف کے ہوتے تو کوئی کسی کی بات نہ تو سنے گا اور نہ کہہ سکے گا۔ جنرل صاحب کے پاس تو ہر مسئلے کا حل بندوق کی گولی اور توپ کا گولا ہے اور یہ معاملات بہتری کی طرف جانے کے لئیے تقاضا کرتے ہیں ایک مسلسل جاری رہنے والے سیاسی نظام کا۔ اور اس سیاسی نظام کے قیام میں نہ جانے ابھی کتنا وقت لگے گا۔

دوستوں سے گزارش ہے کہ موجودہ نازک حالات میں الزام اور تلخی کی بجائے حقائق کی تفہیم کی طرف توجہ فرمائیں۔ کہا جاتا ہے کہ تلوار کا لگا زخم تو بھر جاتا ہے لیکن زبان کا لگا نہیں بھرتا۔ اس لئیے صبر اور برداشت سے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔نہ طالبان دودھ کے دھلے ہیں اور نہ ہماری فوج ۔ اور اس پہ مصیبت یہ کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی عقل کو تکلیف نہیں دے رہا۔
 
Top