مجھے تو لگ رہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ وزیرستان، قبائلی علاقے، سوات اور سرحد کے دوسرے علاقے جہاں ان طالبان وغیرہ کا زور ہے انہیں اپنی راہ لینے دی جائے۔ جائیں اپنے علاقوں کو تباہ کریں پاکستان کی جان چھوڑیں۔ جتنے تیر مارنے ہیں اپنے ملک میں ماریں ہم بھی دیکھیں کتنا اچھا اسلامی ملک بناتے ہیں یہ لوگ۔
زیک ، آپ تو صوبہ سرحد سے بالکل متصل علاقے میں رہ چکے ہیں اس لئیے حالات کی خبر مجھ سے بہتر رکھتے ہوں گے۔ وزیرستان اور سوات کی صورت حال پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اب پاکستان سے نفرت کرتے ہیں اس لئیے پاکستان کو بھی ان سے پیچھا چھڑا لینا چاہئیے ، لیکن بنظر عمیق مطالعہ کریں تو منکشف ہو گا کہ باوجود اتنی خونریزی کے یہ لوگ وفاق پاکستان سے الگ ہونے کی بات نہیں کر رہے ۔ حتی کہ جنونی طالبان نے بھی ایسا کوئی مطالبہ ابھی تک نہیں کیا۔ اس سے دو نتائج تو بڑی آسانی سے اخذ کئیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ امریکہ کے بے جا دباؤ کی وجہ سے صورت حال زیادہ بگڑی ہے دوسرے یہ کہ مرکز میں کمزور اور غیر منتخب حکومت کے غلط فیصلوں نے صورت حال کو مزید ابتر بنایا ہے۔ آپ کا مطالعہ کافی وسیع ہے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ جب بھی مرکزی حکومت کمزور ہو گی تو مرکز گریز و مسلح افراد اور تحریکیں زور پکڑ لیتی ہیں۔ اب یہاں یہی صورت حال ہے کہ یہ طالبان حکومت کی کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ غلط لوگ ہیں ۔ بے رحم قاتل ہیں ، حتی کہ قبائلی لوگ بھی ان کے شاکی ہیں اور ان کے ظلم سے محفوظ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی عسکری طاقت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ کوئی قبائلی ان کو چیلنج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
پاکستانی فوج اور ایجنسیوں نے جس غلطی کا برسوں تک مسلسل ارتکاب کیا آج ہم اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ فوج بیرکوں میں آرام فرماتی رہی اور ان کو امریکی اسلحے اور خلیجی پیسے سے لیس کر کے ایک پراکسی وار لڑتی رہی ۔ اب اس بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے یہ بھی سب پہ عیاں ہے ۔
میں آج بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شورش زدہ علاقوں کے عوام پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے۔ لیکن ان کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ ان طاقتور مسلح گروہوں کو للکار بھی نہیں سکتے۔ ورنہ ان کے گھر جلا دئیے جاتے ہیں اور روزگار کے ذریعے چھین لئیے جاتے ہیں۔ اور کسی نے اڑنے کی کوشش کی تو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس ساری برائی کا محور ہیں ملک ، سردار اور مولوی۔ میری بات کسی کو بری لگے یا بھلی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان مسلح خونی طالبان کی اکثریت انہی مدرسوں سے تعلیم یافتہ ہے کہ جو نہ تو رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی اپنے حسابات چیک کرواتے ہیں۔ اور ابھی سوات کے حملے میں بھی دیکھئیے کہ مولوی فضل اللہ فرار ہو گیا۔ کس لئیے؟ ۔
فیروز بھائی نے بھی اپنی ایک پوسٹ میں انہی عناصر کو قبائلی علا قوں کی بری صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے ملکوں کے کردار پر بھی بہت کھری اور سچی بات لکھی تھی کہ ان لوگوں نے کس طرح سے وہاں ترقی نہیں ہونے دی۔
اور ان ساری مشکلوں کو مہمیز ملتی ہے قبائلی نظام کی ان روایات سے کہ جو جدید نظام سے بالکل بر عکس ہیں۔ قبائلی نظام میں آپ جرگے کے فیصلے سے اختلاف نہیں کر سکتے اور اگر ایسا کیا تو اس کی کم سے کم سزا موت ہے۔
اب اس ساری بحث سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قبائلیوں کے لئیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے نظام کے خلاف چل سکیں یا رائے دے سکیں ، بھلے ان کو یہ نظام پسند ہو یا نہ ہو وہ اسی کو ماننے پہ مجبور ہیں۔ دوسرے یہ کہ قبائلی نظام میں قوم کی جو تعریف ہے وہ تھوڑی مختلف ہے اور علاقے سے باہر کے کسی بھی آدمی کو اجنبی 0 قوم سے باہر کا) ہی سمجھا جاتا ہے تو اس صورت حال میں پاک آرمی کی وہاں موجودگی ان کے خیال میں وفاق پاکستان کی ان کے علاقوں میں در اندازی ہے اور یہ طالبان مقامی افراد میں اپنی پروپیگنڈہ مہم کو کامیاب بنانے کے لئیے اسی نقطے کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ ہمدردی جیتنے میں کامیاب نہ بھی ہو سکیں تو کم از کم مقامی لوگوں کو وسوسے میں ضرور ڈال دیتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے چارہ عام آدمی دونوں طرف سے مارا جاتا ہے ۔ آرمی اپنے آفیسرز کے حکم پر ان پر حملہ کرتی ہے تو طالبان محض شک کی بنیاد پر ان کو ذبح کر ڈالتے ہیں۔
ویسے وزیرستان میں موجودہ صورت حال کی خرابی کا سبب اگر آپ طالبان سے پوچھیں تو وہ امریکہ کا نام نہیں لیں گے بلکہ یہ کہیں گے کہ آرمی کی چیک پوسٹوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ خونریزی ہو رہی ہے اور اگر آرمی یہاں سے کُوچ کر جائے تو ہم اس پر حملے بند کر دیں گے۔ اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں آ کر سارا معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے۔ آخر ان کو آرمی کی چوکیوں پر اس قدر سخت اعتراض کیوں ہے؟ آرمی کسی دشمن ملک کی نہیں ان کی اپنی ہے۔ پھر بھی وہ اس کو وہاں برداشت کیوں نہیں کرتے ؟ یہ وہ معاملے ہیں جن کے سلسلے غیر قانونی اسلحے کی تجارت ، سمگلنگ ، مسروقہ گاڑیوں کی خرید و فروخت ، عسکری کیمپ اور ان لوگوں کو پناہ دینے سے جا ملتے ہیں جو جرائم کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔ ورنہ اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ آرمی سے الجھیں۔
اگر آرمی نے وہاں جہازوں سے بمباری کر کے عام شہریوں کو مارا ہے تو بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ تباہی تو یہ طالبان اپنے ہی لوگوں پر نازل کرتے ہیں۔ کبھی ان کے گھر جلا کر تو کبھی انہیں ذبح کر کے اور کبھی عورتوں پر تہمت لگا کر ان کے سر کاٹ کے۔ یہ شریعت کے نفاذ کے نام پہ جو ظلم ڈھا رہے ہیں وہ بھی قبائلیوں کے لئیے ایک عذاب سے کم نہیں۔ مجھے ٹھیک اعداد و شمار نہیں مل سکے لیکن جو کچھ میں نے پڑھا ہے اس کے مطابق آرمی کی نسبت ان کے ہاتھوں لوگوں کی زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ بہر حال مجھے یہ اعداد و شمار جمع کر کے کوئی خوشی ہرگز نہیں ہو گی کہ جان تو سب کی قیمتی ہے ۔ اور اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اپنوں کی ہلاکت کی جمع تفریق کا حساب کر کے اپنی قوم کی بے عزتی کا سبب کیوں بنوں۔ خدا کرے کہ اب یہ کشت و خون بند ہو جائے۔
ایک بات طے ہے کہ یہ معاملات اس وقت تک کبھی بھی نہیں سدھر سکتے جب تک ،
قبائلی علاقوں میں نافذ قوانین کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔
فاٹا کے منتخب اراکینِ اسمبلی کو صرف حکومتی نشستوں کی زینت ہی نہ بنایا جائے بلکہ ان کو اپنے علاقوں کی بہتری کا ذمہ دار بنایا جائے ۔
تعلیم ، روزگار اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا کام جنگی بنیادوں پر کیا جائے۔ اور ذرائع ابلاغ کی ترقی کے لئیے اپنے پورے وسائل صرف کئیے جائیں تا کہ عوام غلط پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کے عوام سے ان کا رابطہ بڑھے۔
حکومت اور فوج کو اپنے مفادات کے لئیے مسلح گروپوں کی حمایت سے ہاتھ فوری طور پہ اُٹھا لینا چاہئیے۔
مدرسوں کا آڈٹ اور ان کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ ان کو غیر ممالک سے ملنے والی امداد پر سخت پالیسی اپنائی جائے۔ بھلے کچھ دوست ممالک چیں بہ چیں بھی ہوں تو پرواہ نہ کی جائے۔
جرگہ سسٹم کے ہر فیصلے کو من و عن نافذ کئیے جانے سے روکا جائے کہ ان کے زیادہ تر فیصلے عوام میں بے چینی کا سبب بنتے ہیں۔
گھر جلانے اور محض مسلکی اختلاف پر قتل کئیے جانے پر ذمہ دار افراد کو سخت سزا دی جائے اور اس کام کے لئیے علماء کو ساتھ ملایا جائے۔
مجھے پتہ ہے کہ ان سب تجویزوں میں سے ایک پر بھی عمل نہیں ہونے والا کیوں کہ مشرف کے ہوتے تو کوئی کسی کی بات نہ تو سنے گا اور نہ کہہ سکے گا۔ جنرل صاحب کے پاس تو ہر مسئلے کا حل بندوق کی گولی اور توپ کا گولا ہے اور یہ معاملات بہتری کی طرف جانے کے لئیے تقاضا کرتے ہیں ایک مسلسل جاری رہنے والے سیاسی نظام کا۔ اور اس سیاسی نظام کے قیام میں نہ جانے ابھی کتنا وقت لگے گا۔
دوستوں سے گزارش ہے کہ موجودہ نازک حالات میں الزام اور تلخی کی بجائے حقائق کی تفہیم کی طرف توجہ فرمائیں۔ کہا جاتا ہے کہ تلوار کا لگا زخم تو بھر جاتا ہے لیکن زبان کا لگا نہیں بھرتا۔ اس لئیے صبر اور برداشت سے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔نہ طالبان دودھ کے دھلے ہیں اور نہ ہماری فوج ۔ اور اس پہ مصیبت یہ کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی عقل کو تکلیف نہیں دے رہا۔