خون کا عطیہ

فاتح

لائبریرین
Compatibility%20Chart-thumb-331x316-3936.png
 

ملائکہ

محفلین
یونیورسل ڈونر O بلڈ گروپ نہیں ہوتا بلکہ O- ہوتا ہے۔ :) :) :)
اگر کسی فرد کو فوری خون کی ضرورت ہو تو اس وقت خون کا گروپ دیکھ کر خود دیا جاتا ہے جبکہ اب عموماً بلڈ بینکوں میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی گروپ کا تازہ صحت مند خون دے کر کسی بھی گروپ کا خون حاصل کر سکتے ہیں (بشرطیکہ ان کے اسٹاک میں موجود ہو۔) :) :) :)
ہم نے کبھی خون کا عطیہ نہیں دیا۔ کیوں کہ کبھی اتفاق ہی نہیں ہوا۔ ایک دفعہ لکھنؤ میں ایک دوست کے عزیز کو خون کی ضرورت تھی تب ہم خون دینے کے لیے بلڈ گروپ وغیرہ جانچ کرا کے آئے تھے لیکن اس سے پہلے ہی ان کی ضرورت پوری ہو گئی تھی۔ :) :) :)
میں نے بھی کبھی خون نہیں دیا۔۔۔۔:)
 

ملائکہ

محفلین
ڈاکٹرز کے پاس جاو تو وہ آپ کو ٹیبلٹ دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسی خوراک کا استمعال بھی کرنا چایئے جس سے خون بڑھتا ہے ۔جن میں
ساگ
کلیجی
انار
وغیرہ شامل ہیں ۔
اور میں کھانے پینے کی بہت چور ہوں ۔بہت کم کھاتی ہوں ۔ایک پوری چپاتی میں نے کبھی نہیں کھائی ہمیشہ ایک سے کم ہی کھاتی ہوں فروٹ دودھ وغیرہ سے بھی بھاگتی ہوں ۔چاول مجھے صبح دوپہر شام جتنی بار بھی ملے میں کھاتی ہوں؟بریانی موسٹلی :p
سبزیوں سے بھی میری کم ہی بنتی ہے گوشت خور اور چاول خور ہوں میں

سب سے پہلے ہماری خوراک اچھی ہونی چایئے ۔تو خون بچارہ تب ہی بڑے گا کچھ :p
اللہ معاف کرے نیلم ۔۔۔تمھارے اوپر بڑی ہی سختی کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
سال میں اک بار خون کا عطیہ دینے سے کوئی کمزوری کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔
بذات خود دو بار خون دینے کی کوشش کی لیکن " بری عادات " کے باعث یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی ۔
لیکن دل مطمئن ضرور ہوا کہ کوشش کی تو سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی بارے محترمہ جویریہ صاحبہ کی لکھی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہر سال ہزاروں نیک دل لوگ خون کا عطیہ دے کر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ خیرات کے دیگر کاموں کے برعکس خون عطیہ کرنا ایسے ہے جیسے خود کا ایک حصہ دے کر کسی کی جان بچانا۔ بلکہ خون عطیہ کرنا ، اپنا گردہ عطیہ کرنے سے زیادہ اہم اور مشکل کام ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد جسم کو خون کی مقدار بحال کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ پلازما لیول تو ۲۴ گھنٹے تک بحال ہو جاتا ہے تاہم خون کے سرخ ذرات کو بحال ہونے میں پانچ ہفتے لگ سکتے ہیں، علاوہ ازیں خون میں آئرن کی مقدار بحال ہونے کے لیے آٹھ ہفتے تک لگ سکتے ہیں۔ نیچے چند اہم تجاویز دی گئیں ہیں جو خون عطیہ کرنے کےبعد جسمانی نظام کی بحالی میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔
http://www.ehow.com/how_5064650_recover-after-donating-blood.html
ایک
خون عطیہ کرنے سے ایک گھنٹہ قبل ایک سے دو گلاس پانی پی لیں۔ ایسا کرنے سے عطیہ کرنے کے دوران خون کے بہاو اور دباو کو متعدل درجہ پر رکھنا ممکن ہو تا ہے۔
http://www.ehow.com/how_5064650_recover-after-donating-blood.html
دو
خون عطیہ کرنے کے بعد اسی دن میں مشروبات کے استعمال میں اضافہ کر دیں۔ غیر مسلم الکوحل والے مشروبات سے پرہیز کریں۔ اس سلسلے میں پیشاب کا رنگ ایک بنیادی پیمانہ رکھا جا سکتا ہے۔ اگر اس کا رنگ گہرا ہو تو اس کا مطلب ہے جسم میں پانی کی مزید ضرورت ہے۔
http://www.ehow.com/how_5064650_recover-after-donating-blood.html
تین
خون عطیہ کرنے کے چند گھنٹے بعد مکمل کھانا کھائیں۔ کھانے میں موجود صحت بخش اجزاء جسم کو پلازما مقدار بڑھانے اور خون میں آئرن کی مقدار بڑھانے میں مدد کریں گے ۔
http://www.ehow.com/how_5064650_recover-after-donating-blood.html
چار
خون عطیہ کرنے کے بعدکئی ہفتوں تک آئرن سے بھرپور غذا کا استعمال کریں۔ جیسے گوشت، گہرے سبز رنگ کے پتوں والی سبزیاں اور خشک میوہ جات اور خالص گندم۔ پروٹین سے بھرپور غذا بھی جسم کی بحالی میں بہت مفید ہے۔
http://www.ehow.com/how_5064650_recover-after-donating-blood.html
پانچ
خون عطیہ کرنے کے بعد دو دن تک بھاری وزن اٹھانے سے گریز کریں۔ اور ذرا سی تھکن کی صورت میں فوری آرام کریں۔ انسانی جسم زیادہ تر پیداوری کام نیند کے دوران کرتا ہے، چنانچہ نیند کے معاملے میں لاپرواہی نہ کریں۔

خون کا عطیہ اور اس کی بینکاری
ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے، ہر تندرست فرد ، ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے۔ جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے ۔ تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آ جاتا ہے ، اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ انہیں جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوتی ہے۔ لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے۔ کیونکہ بہت سی مہلک بیماریاں جیسے ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض انتقال خون کی وجہ سے ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتے ہیں۔

ڈونر کا انتخاب:

ڈونر کی عمر کم از کم اٹھارہ سال ہو۔
ڈونر کا وزن کم از کم 50kg ہو۔
اسے کبھی یرقان(Jaundice) نہ ہوا ہو۔ (پیدائشی یرقان اس سے مثتثنٰی ہے)
گذشتہ چھہ ماہ میں ملیریا نہ ہوا ہو۔
دل کی بیماری، بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ نہ ہو۔
کبھی خون نہ لگا ہو
اگر میجر سرجری ہوئی ہو تو اسے کم از کام ایک سال گزر چکا ہو
اگر اس سے پہلے خون دیا ہو تو دوبارہ خون دیتے وقت کم از کم 3 ماہ کا وقفہ رکھا جائے۔
خون کی کمی نہ ہو (Hb > 12.5 mg/dl)
خون دیتے وقت بخار یا کسی قسم کا کوئی انفیکشن نہ ہو
بغیر کچھ کھائے خون نہ دیا جائے
ڈونر کوئی دوا لے رہا ہو تو اس کے بارے میں مکمل معلومات لی جائیں
نشہ آور ادویات استعمال نہ کرتا ہو

ان تمام باتوں کی تسلی کر لینے کے بعد ڈونر سے خون لے لیا جاتا ہے جسکی مقدار تقریبا 540 ملی لیٹر ہوتی ہے
(ایک صحت مند شخص مین تقریبا 5 لیٹر خون موجود ہوتا ہے)
جس بیگ میں خون لیا جاتا ہے اس میں خون اور anticoagulantکی مقدار:
anticoagulant = 75ml
Blood = up to 450 ml

Anticoagulant وہ کیمیکل ہے جو خون کو جمنے سے بچاتا ہے اور اس کے خلیات کو زندہ رہنے کے لئے بنیادی غذا فراہم کرتا ہے۔

ڈونرسے خون حاصل کرنے بعد مختلف بیماریوں کے لئے اس کی اسکریننگ کی جاتی ہے مثلا ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی،syphilis ،ملیریا اور دیگر منتقل ہونے والی بیماریوں کے لئے۔

خون کے اجزاء:

خون کے مختلف اجزاء کو الگ الگ کر لیا جاتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں

خون کے سرخ خلیات (packed cells)
پلیٹیلیٹس Platelets
پلازما Plasma
فیکٹرز (factor concentartes) مثلا فیکٹر VIII، فیکٹر IX وغیرہ

مکمل خون کی منتقلی کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اب مریض کو خون کا وہی جز دیا جاتا کہ جس کی اسے ضرورت ہو۔ بہت کم صورتوں میں مریض کو مکمل خون لگایا جاتا ہے۔

خون کے اجزاء اور ان کا استعمال

مکمل خون:
خون کے بہت زیادہ بہہ جانے کی صورت میں مکمل خون لگایا جاتا ہے۔ مثلا کسی ایکسڈینٹ کے بعد
سرخ خلیات(Packed Cells):
اگر مریض کا ہیموگلوبن خطرناک حد تک کم ہو گیا ہو۔
پلیٹیلیٹس (Platelets):
جب خون میں پلیٹیلیٹس کی تعداد معمول سے بہت کم ہو جائے مثال کے طور پر ڈینگی یا ڈینگی ہیمرجک فیور میں
پلازما (Fresh Frozen Plasma): مریض کا خون کسی وجہ سے بہت گاڑھا ہو گیا ہو۔
فیکٹرز (Factor Concentrates): یہ خون کو جمانے والے مختلف فیکٹرز کی کمی کو پورا کرنے کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ مثلا

1۔ ہیموفیلیا اے میں فیکٹر VIII کی شدید کمی ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے Factor VIII concentrates دیئے جائیں گے۔
2۔ ہیموفیلیا بی میں فیکٹر IX کی کمی ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے لئے Factor IX concentrates د یئے جاتے ہیں۔

خون کے تجزئیے:

سب سے پہلے خون کا گروپ معلوم کیا جاتا ہے۔
خون کے مندرجہ ذیل چار بنیادی گروپس ہیں:
بلڈ گروپ "اے"
بلڈ گروپ" بی"
بلڈ گروپ" اے بی"
بلڈ گروپ "او"

اس کے ساتھ ہی خون میں Rh اینٹی باڈی کی موجودگی یا غیر موجودگی دریافت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی گروپ کو بالترتیب مثبت یا منفی کہا جاتا ہے۔
مریض اور ڈونر کے خون کا گروپ خواہ ایک ہو مگر پھر بھی اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ ڈونر کا خون مریض کے جسم میں داخل ہو کر مضر رد عمل ظاہر کر دے، اس امکان کو ختم کرنے کے لئے بلڈ بینک میں ڈونر کے خون کو مریض کے خون کے ساتھ ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہ ہونے کی صورت میں یہ خون مریض کو لگا دیا جاتا ہے۔
خون کے مذکورہ تجزئیے کو کراس میچ (Cross-match) کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مریض کے پلازما میں ایسی اینٹی باڈیز دریافت کی جاتی ہیں جو کسی بھی صورت میں ڈونر کے سرخ خلیات کے ساتھ ردِ عمل کر کے انہیں توڑ پھوڑ سکتی ہیں۔ خون کے طلب کئیے جانے کے بعد یہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
خون اور اس کے اجزاء کی ذخیرہ کاری:
خون اور اس کے اجزاء کو مختلف درجہ حرارت پر ان کی معینہ مدت تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
مکمل خون: 6-2 ڈگری سینٹی گریڈ پر 35-28 روز کے لئے
سرخ خلیات: 6-2 ڈگری سینٹی گریڈ پر 35-28 روز کے لئے
پلیٹیلیٹس: کمرے کے درجہ حرارت (25-20 ڈگری سینٹی گریڈ) پر 5 روز کے لئے۔ اس دوران پلیٹیلیٹس کو ایسی سطح مہیا کی جاتی ہے جو انہیں مسلسل حرکت میں رکھے، اسے agitator کہا جاتا ہے۔
پلازما: 35- سے 80- ڈگری سینٹی گریڈ پر تقریبا ایک سال کے لئے
فیکٹرز: 35- سے 80- ڈگری سینٹی گریڈ پر تقریبا ایک سال کے لئے
Cross-match کیا ہوا خون بغیر Cross-match کئیے خون سے الگ رکھا جاتا ہے۔ اگراس خون کا اجراء ایک ہفتے تک نہ ہو تو اسے واپس بغیر Cross-match کئیے خون میں رکھ دیا جاتا ہے۔
روزانہ خون کے ہر بیگ کی expiry date دیکھی جاتی ہے۔ وہ بیگ جو ایکسپائر ہو چکے ہوں یا جن میں اسکریننگ کے دوران کسی انفیکشن کے شواہد ملے ہوں، انہیں فوری طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔
معیاری بلڈ بینکس خون کی خرید و فروخت کی مذمت کرتے ہیں اور "خون کے بدلے خون" کے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔ ایک بلڈ بینک کی ساکھ بنیادی طور پر ڈونر کی فراہم کردہ معلومات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر ڈونر خون دیتے وقت غلط بیانی سے کام لے تو بلڈ بینک کے عملے کے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں جو اس کے بیان کی صداقت کو پرکھ سکے۔
پاکستان کے اچھے بلڈ بینکس اور اسپتالوں میں بھی فقط چند بیماریوں کے لئے خون کی اسکریننگ کی جاتی ہے جبکہ اکثر جگہوں پر اس کی سہولت میسر نہیں، ایسے میں ڈونر کی فراہم کردہ معلومات پر ہی مریض کی صحت کا سارا دار و مدار ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر
کسی شخص کو کبھی یرقان(Viral Jaundice) ہوا اور پھر وہ مکمل طور پر صحتیاب ہو گیا، زندگی کے کسی حصے میں اسے خون دینے کی ضرورت پڑی مگر بلڈ بینک میں ہسٹری دینے کے دوران وہ اس بات سے بات سے انکاری ہو گیا کہ اسے کبھی یرقان ہوا ہے۔ اب بلڈ بینک میں کوئی ایسا نہیں کہ جو اس کے انکار کو چیلنج کر سکے، لہٰذا اس سے خون لے لیا جاتا ہے۔ اس خون کی اسکریننگ کے دوران کسی وائرس کی موجودگی کا ثبوت نہیں ملتا۔ اب یہ خون مریض کو لگا دیا جاتا ہے جس کے کچھ عرصہ کے بعد مریض کو انفیکشن ہو جاتا ہے۔
یہ اس لئے ہوا کہ وائرس اکثر انفیکشن ٹھیک ہو جانے بعد جسم میں چھپ کر (in inactivate form) زندگی کزارتے ہیں اور اسکریننگ کے دوران بھی شناخت نہیں ہوتے اسے وائرس کی لائف سائیکل کا window phase کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی اس وائرس کو سازگار ماحول (مثلا بیمار جسم جس کا مدافعتی نظام کمزور پڑ چکا ہو) میسر آتا ہے یہ دوبارہ activate ہو کر انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت کی ہے کہ جب خون کی مکمل اسکریننگ کی گئی ہو، جہاں یہ سہولت میسر نہیں وہاں صورتحال کس قدر گھمبیر ہو گی !
بلڈ بینک کی بنیاد ہی ڈونر کی ایمانداری پر ہے اس لئے اگر آپ خون کا عطیہ دینے جا رہے ہیں تو پہلے اس بات کا اطمینان کر لیں کہ آیا آپ کا دیا ہوا خون کا عطیہ مریض کو زندگی ہی بخشے گا یا اس کے لئے وبالِ جان بن جائے گا۔
 

سید ذیشان

محفلین
میں تو گاہے بگاہے خون دیتا رہتا ہوں۔ ابھی کل ہی ریڈ کراس والوں کی طرف سے میسج آیا تھا کہ ان کے پاس میرے بلڈ گروپ کے خون کی کمی ہے، تو ابھی پھر جا کر دوں گا۔
 

ملائکہ

محفلین
دو مرتبہ خون دیا ہے جوانی میں
ایک مرتبہ ہمارے لیب میں ہمارے باس کی بیٹی جو میڈیکل کالج میں پڑھتی تھی نے بلڈڈونیشن کے لیے کمیپ لگایا۔ ظاہر ہے ہم نے انکار نہیں کیا۔
دوسری بار ایک کولیگ کی وائف کو ضرورت تھی ہمارا گروپ او پازیٹو ہے جو ہر ایک کو لگ جاتا ہےیا شاید ان کا بیوی کا بھی او پازیٹو تھا۔ ابھی ادھی بوتل بھری تھی کہ ہم بے ہوش ہوگئے۔ اس کے بعد کسی کو خون کا عطیہ دینے سے توبہ کی۔
کیا آپ کمزور تھے جو بےہوش ہوگئے
 

ملائکہ

محفلین
ہمارے خون کا گروپ O+veہے۔ تقریباً چھ -سات بار خون کا عطیہ دے چکے ہیں۔
لیکن اب خون کا عطیہ دینے کے قابل نہیں رہے۔ اب ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر سے خود ہی پریشان ہیں۔
ہممم نوجوانی میں ہی خون کا عطیہ دے پاتے ہیں اکثر لوگ پھر تو بیماریاں لگ جاتی ہیں۔۔۔
 

طالوت

محفلین
ابھی میں نے زبیر مرزا صاحب کا اوتار دیکھا جس میں لکھا تھا 14 جون کو خون کا عطیہ دینے کا عالمی دن ہے۔۔۔ تو میں نے ذرا سرچ کیا تو پتہ چلا کہ خون وہ لوگ دے سکتے ہیں جو:
1۔ 17 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہوں۔
2۔ زیابطیس کا شکار نہ ہوں۔
3۔ نزلہ وغیرہ نا ہو۔
4۔ ایڈز کے مریض نہ ہوں۔
5۔ وہ عورت جو نہ حاملہ ہو۔
6- پچھلے 12 مہینے میں آپ نے خون کا عطیہ نہ دیا ہو۔
7- آپ اورآل صحت مند ہوں۔۔۔
8۔ آپکا وزن مناسب ہو۔
خون کا عطیہ دینے سے پہلے آپ ایک مکمل کھانا ضرور کھائیں۔ آپکا دیا ہوا خون کسی حاملہ عورت ، تھیلیسیما کے مریض، کوئی ایسا مریض جسکا بہت برا ایکسیڈینٹ ہوا ہو، یا کسی ایسے مریض جس میں خون کی کمی ہو۔۔۔ اسکے کام آسکتا ہے۔

وہ لوگ جنکا خون کا ٹائپ A ہے وہ لوگ ٹائپ A اور O سے خون لے سکتے ہیں۔
وہ لوگ جنکا خون کا ٹائپ B ہے وہ لوگ ٹائپ B اور O سے خون سے لے سکتے ہیں۔
وہ لوگ جنکا خون کا ٹائپ ہے وہ لوگ صرف ٹائپ O سے ہی خون کا عطیہ لے سکتے ہیں۔
اور وہ لوگ جنکا ٹائپ AB ہے وہ لوگ ٹائپ A، B، O یا AB سے خون کا عطیہ لے سکتے ہیں۔۔

تو اب آپ لوگ بتائیں کہ کون کون سے لوگوں نے خون کا عطیہ دیا ہوا ہے۔۔۔ اور اسکے علاوہ کونسی ایسی بات ہے جو ذہن میں رکھنی چائیے خون کا عطیہ دیتے ہوئے۔۔۔

میرا ٹائپ O ہے تو میرا خون کسی کو بھی لگایا جاسکتا ہے اور اوپر لکھی گئی تمام چیزوں کے مطابق میں پرفیکٹ ہوں خون دینے کے لئے تو کیا خیال ہے اس سال میں خون کا عطیہ دوں کیا؟؟؟

ٹائپ O عالمی خون کا عطیہ دینے والا ٹائپ ہے۔۔۔
او منفی یعنی (O-) خون والے افراد ہی سب کو خود دے سکتے ہیں ، او پازیٹو سب کو نہیں دے سکتے۔ میرا او نیگٹو ہے کچھ بار خون عطیہ کیا ہے مگر نزلے کے باوجود دیا ہے ، یہ میری لئے نئی بات ہے کہ نزلے میں خونہ عطیہ نہ کرنا چاہیے۔خون عطیہ کرنے کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور محض ٹیسٹ کے لئے پانچ دس سی سی خون دے کر گرتے لوگوں کو بھی دیکھا ہے:) مگر ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہر چار سے چھ ماہ بعد خون عطیہ کرنے سے صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔
 

ملائکہ

محفلین
او منفی یعنی (O-) خون والے افراد ہی سب کو خود دے سکتے ہیں ، او پازیٹو سب کو نہیں دے سکتے۔ میرا او نیگٹو ہے کچھ بار خون عطیہ کیا ہے مگر نزلے کے باوجود دیا ہے ، یہ میری لئے نئی بات ہے کہ نزلے میں خونہ عطیہ نہ کرنا چاہیے۔خون عطیہ کرنے کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور محض ٹیسٹ کے لئے پانچ دس سی سی خون دے کر گرتے لوگوں کو بھی دیکھا ہے:) مگر ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہر چار سے چھ ماہ بعد خون عطیہ کرنے سے صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔
ہمم نزلہ زکام شاید اس لئے ہو کہ جراثیم کی منتقلی نا ہو میں یہی پڑھا تھا خیر یہ بس جنرل معلومات دینے کی کوشش کی ہے۔۔۔
 

طالوت

محفلین
:) مثبت کوشش ہے اور میری معلومات میں نزلے کے حوالے سے اک نئی بات کا اضافہ ہوا ہے۔ زندگی بچانے سے متعلق معلومات کا اعادہ ہوتے رہنا چاہیے۔
 

سید ذیشان

محفلین
او منفی یعنی (O-) خون والے افراد ہی سب کو خود دے سکتے ہیں ، او پازیٹو سب کو نہیں دے سکتے۔ میرا او نیگٹو ہے کچھ بار خون عطیہ کیا ہے مگر نزلے کے باوجود دیا ہے ، یہ میری لئے نئی بات ہے کہ نزلے میں خونہ عطیہ نہ کرنا چاہیے۔خون عطیہ کرنے کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور محض ٹیسٹ کے لئے پانچ دس سی سی خون دے کر گرتے لوگوں کو بھی دیکھا ہے:) مگر ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہر چار سے چھ ماہ بعد خون عطیہ کرنے سے صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔


نزلہ زکام اگر موسمی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر اس کیساتھ بخار بھی ہو یعنی کہ flu ہو تو اس کے پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لئے فلو کے دوران خون دینے سے منع کیا جاتا ہے۔
 
Top