حضور ادھر امریکیوں نے ٹل کا زور لگا لیا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کسی اور کے ہاتھ نہ لگے لیکن اس کے باوجود بچہ بچہ ایٹم بم کے بنیادی اصول سے واقف ہے کچھ تلاش کرنے پر آپ کو ری ایکٹر کی ڈایا گرامز بھی مل جائیں گی۔
پیسہ ہے تو انڈر ورلڈ سے ریکٹر کے پرزے بھی بازار سے بارعایت خرید فرمائیے۔
یہی میزائل ٹیکنالوجی کا ہے۔ ادھر کروز میزائل تک کی کاپی بنا لی گئی۔
1::::::تو یہ ٹیلی پیتھی بھی کسی کام کی ہوتی تو ضرور ادھر ادھر نکل چکی ہوتی۔
پھر امریکیوں کا تو آپ کو پتہ ہے کتنے ندیدے ہیں، فائدے کی بو جہاں سونگھ لیتے ہیں وہاں توپیں طیارے اور بالٹیاں بیلچے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
2::::::: یہی ہوتا تو خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو بھی گوانتاناموبے میں شرف مہمانی بخشتے کہ صاحب یہ قیدی آیا ذرا اس کی آنکھوں میں جھانکئے تو۔۔۔۔
3::::::فرہاد علی تیمور کے ناول پر اب ہم کیا کہیں اس میں تو اور بھی بہت کچھ ہے جو اہل نظر کے رونگھٹے کھڑے کر دینے کو کافی ہے۔
اسی طرح اقلیم علیم کا موت کے سوداگر۔ موصوف نے اسرائیل امریکہ بھارت کسی کو نہیں بخشا کشتوں کے پشتے لگا دیئے اور اتنی لمبی داستان کہ ہمیں خیال ہوا کہ ایک جنم کا قصہ نہیں ہے یقینا ساتوں جنم آواگون کے بیان ہو رہے ہیں جو ختم ہونے کو ہی نہیں آتے
بہرحال اس ناول میں ویرا اور سلطان شاہ کا کردار کافی دلچسپ ہے۔
4::::::پھر غزالہ۔۔۔ بے چاری۔۔۔