یوں تو مطالعے کا شوق مجھے ورثے میں ملا اور کتابیں پالنےمیں، جب سے پڑھنا سیکھا تب سے عمرو عیاروٹارزن سے شروع کیا اور وقت کےسفر کے ساتھ چھٹی کلاس میں ایک کتابچہ ہاتھ لگا کہ ٹیلی پیتھی سیکھیں، تب تک دیوتا سے یاری پکی ہو چکی تھی اور اس کے علاوہ بھی ہپناٹزم کے اسرار سے بھی کچھ نہ کچھ آگاہی ہو چلی تھی۔ اس کتابچے کو بہت سنبھال کر رکھا اور پڑھتا رہا مگر کبھی کوئی مشق نہ کر سکا تبھی میٹرک کے دوران جادو کے کرتب نامی کتاب سے نظر بندی اور کمالات کے بارےمیں پڑھا تو یہ علم کچھ حقیقی لگا اور وہ طاق پر رکھا کتابچہ یاد آ گیا تو ابو کی چوری سے کچھ عملی مشقیں شروع کر دیں۔ دھاگے کو اپنی قوت ارادی سے ہلانا یا بالٹی کے ٹھہرے ہوئے پانی کو قوت ارتکاز سے مرتعش کرنا یا پھر ایک دھاگے سے کوئی دھاتی گولی باندھ کر گھنٹوں اسے تکتے رہنا اور من ہی من میں اسے دائیں بائیں ہلنے کی سجیشن دیتے رہنا، سب ہی کرتا رہا آخر ایک دن ابو نے یوگا کے سٹائل میں دھاگےکے سامنے بیٹھا دیکھ لیا، (اس کے بعد کی نہ پوچھیں
( اور اس کتاب کے جلنے اور ابو کے منع کرنے پر سب ایک یاد بن کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔ ہائے رے حسرت، نہیں تو لوگ آج دوسرے فرہاد کے چرچےکر رہے ہوتے
کالج کے زمانے میں شمس الدین عظیمی صاحب سے یاری ہوئی (یک طرفہ، ان کی تحریروں کے ذریعے
( روحانی ڈائجسٹ کے سفر کے دوران مراقبے کے اسرارورموز سمجھنے کے کوسش کرتا رہا مگر باقاعدہ جاری نہ رکھ سکا۔ اردو محفل میں اس دھاگے پر نظر پڑی تو بہت خوشی ہوئی، اس بجے کی طرح جو پانی کے کنارے کھڑا چھلانگ لگانے سے ڈر بھی رہا ہو اور پانی سے کھیلنے کے لیے مچل بھی رہا ہو، کچھ لکھنے کی ہمت نہ کرسکا۔ لیکن آج ہمت کر ہی لی
وجہ مصروفیت اور پھر مذید مصروف ہونے کا ڈر۔