خیالِ یار نے ہم کو بھی دیوانہ بنا ڈالا
ذرا سی دیر میں خود سے ہی بیگانہ بنا ڈالا
وفور ِشوق سے تھاما، لبوں سے پھرلگایا تھا
غمِ ہستی کو ہم نے آج پیمانہ بنا ڈالا
تری چاہت کی لو ہے اور آوارہ دلِ مضطر
طوافِ شمع کی خاطر یہ پروانہ بنا ڈلا
محبت کے لئے ہم نے، فقط اک جان ہی دی تھی
ذرا سی بات تھی جس کا یوں افسانہ بنا ڈالا
سنو اے ساقیء ِمحفل، سخن سے جام تو بھر دو
سرورِ حرف کو آخر، یہ میخانہ بنا ڈالا
سر الف عین ، جناب محمداحمد ، جناب فاتح ، جناب ابن رضا
صاحبہ کاوش اچھی ہے لیکن سچے سخن کیلیے کافی سفرطے کرنا ابھی باقی ہے۔ کچھ مزا نہیں ابھی اشعار کی بنت اور روانی کا ، الفاظ کی درست نشستوں نے غزل کا جمالیاتی حسن گہنا دیا ہے۔
مطلع میں پہلے مصرع میں "بھی" زبردستی اور دوسرے مصرع میں "ہی"کی نشست درست نہیں
دوسرے شعر میں پہلے مصرع میں "پھر "زبردستی اور "آج " بحر کی خانہ پری یا فارلیٹی ہے
تیسرے شعر کے دوسرے مصرع میں "یہ" بھی زبردستی
چوتھے شعر میں پہلے مصرع میں "ہی "اور دوسرے مصرع میں "یوں" زبردستی ہے
مقطع میں پہلے مصرع میں "تو"زبردستی اور دوسرے مصرع میں "یہ"زبردستی کا ہے
اگر یہ تنقید ی مذاق برا لگا تو معذرت لیکن صرف آپ کی بہتری کیلیے رائے ہے