بہت خوب غزل ہے داد قبول فرمائیے
رائے اقتباس میں شامل کر رہا ہوں
(خیالِ یار نے ہم کو بھی دیوانہ بنا ڈالا
ذرا سی دیر میں خود سے ہی بیگانہ بنا ڈالا
کیا کسی اور کو بھی خیالِ یار نے دیوانہ بنا رکھا ھے؟
اگر ہاں تو اس شعر کے کینوس میں ان حضرات کی غیر موجودگی صراحت مانگتی ہے؟)
اگر اس شعر کو حقیقی معنوں میں لیں گے تو پھر " بھی " نہیں کھٹکے گا
(وفور ِشوق سے تھاما، لبوں سے پھرلگایا تھا
غمِ ہستی کو ہم نے آج پیمانہ بنا ڈالا
پہلا مصرع چست نہیں ہر دو ٹکڑوں میں زمانہ بھی بدل رہا ھے
وفورِ شوق سے تھاما زمانۂ حال کا ذکر ہے لبوں سے پھر لگایا تھا ماضی گا
اسے دیکھ لیجئے)
جی ضرور ۔
(تری چاہت کی لو ہے اور آوارہ دلِ مضطر
طوافِ شمع کی خاطر یہ پروانہ بنا ڈلا
دوسرے مصرعے میں "یہ " بھرتی کا ہے)
اس معصوم کو تو ہم نے ترازو کے باٹ کے طور پر استمال کیا ہے ۔پڑا رہنے دیں ایک پلڑے میں ۔
(محبت کے لئے ہم نے، فقط اک جان ہی دی تھی
ذرا سی بات تھی جس کا یوں افسانہ بنا ڈالا
افسانہ بنانے پر اگر آپ شکوہ سنج ہیں تو یہ کیفیت شعر میں موجود نہیں!!
یہ شکوہ جس سے کیا جا رہا ہے اس کی غیر موجودگی بھی کھٹکتی ہے)
شاعر اپنی جان دے کر بھی یہی کہے جا رہا ہے کہ اس کے لیے جان سے جانا ذرا سی تو بات ہے ۔اس سے بڑھ کر بیچارگی کی کیا کیفیت ہو گی ۔
شکوہ ظاہر ہے زمانے سے ہی کیا جا رہا ہے جس نے اس بات کا افسانہ بنا ڈالا ۔
(سنو اے ساقیء ِمحفل، سخن سے جام تو بھر دو
سرورِ حرف کو آخر، یہ میخانہ بنا ڈالا
سخن سے جام بھرنا !)
علامت یا استعارہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔
(سرورِ حرف کو ،یا کیلئے میخانہ بنانا ؟)
مجھے پینے کے لیے پانی دو
مجھے پینے کو پانی دو
اتنی شعری رعایت تو ہونی چاہیے ۔