خیال یار نے ہم کو ۔۔۔

La Alma

لائبریرین

خیالِ یار نے ہم کو بھی دیوانہ بنا ڈالا
ذرا سی دیر میں خود سے ہی بیگانہ بنا ڈالا

وفور ِشوق سے تھاما، لبوں سے پھرلگایا تھا
غمِ ہستی کو ہم نے آج پیمانہ بنا ڈالا

تری چاہت کی لو ہے اور آوارہ دلِ مضطر
طوافِ شمع کی خاطر یہ پروانہ بنا ڈلا

محبت کے لئے ہم نے، فقط اک جان ہی دی تھی
ذرا سی بات تھی جس کا یوں افسانہ بنا ڈالا

سنو اے ساقیء ِمحفل، سخن سے جام تو بھر دو
سرورِ حرف کو آخر، یہ میخانہ بنا ڈالا

سر الف عین ، جناب محمداحمد ، جناب فاتح ، جناب ابن رضا

 

اکمل زیدی

محفلین
بہت اچھی لکھی ...

برا مت مانئے گا اس پر مجھے وہ یاد آگیا

کسی بھولو کو جب چاہا یہاں گاما بنا ڈلا
کسی پتلون کو کھینچا تو پاجامہ بنا ڈالا
 

عباد اللہ

محفلین
بہت خوب غزل ہے داد قبول فرمائیے
رائے اقتباس میں شامل کر رہا ہوں
خیالِ یار نے ہم کو بھی دیوانہ بنا ڈالا
ذرا سی دیر میں خود سے ہی بیگانہ بنا ڈالا
کیا کسی اور کو بھی خیالِ یار نے دیوانہ بنا رکھا ھے؟
اگر ہاں تو اس شعر کے کینوس میں ان حضرات کی غیر موجودگی صراحت مانگتی ہے؟
کچھ تشنگی کا احساس ہوتا ہے مطلع کو پر اثر اور پر کشش ہونا چاہئے

وفور ِشوق سے تھاما، لبوں سے پھرلگایا تھا
غمِ ہستی کو ہم نے آج پیمانہ بنا ڈالا
پہلا مصرع چست نہیں ہر دو ٹکڑوں میں زمانہ بھی بدل رہا ھے
وفورِ شوق سے تھاما زمانۂ حال کا ذکر ہے لبوں سے پھر لگایا تھا ماضی گا
اسے دیکھ لیجئے

تری چاہت کی لو ہے اور آوارہ دلِ مضطر
طوافِ شمع کی خاطر یہ پروانہ بنا ڈلا
دوسرے مصرعے میں "یہ " بھرتی کا ہے

محبت کے لئے ہم نے، فقط اک جان ہی دی تھی
ذرا سی بات تھی جس کا یوں افسانہ بنا ڈالا
افسانہ بنانے پر اگر آپ شکوہ سنج ہیں تو یہ کیفیت شعر میں موجود نہیں!!
یہ شکوہ جس سے کیا جا رہا ہے اس کی غیر موجودگی بھی کھٹکتی ہے


سنو اے ساقیء ِمحفل، سخن سے جام تو بھر دو
سرورِ حرف کو آخر، یہ میخانہ بنا ڈالا
سخن سے جام بھرنا !
سرورِ حرف کو ،یا کیلئے میخانہ بنانا ؟
چلئے خیر
غزل بہت خوب ہے بہت داد
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
بہت خوب غزل ہے ۔۔۔:)

برا مت مانئے گا اس پر مجھے وہ یاد آگیا

کسی بھولو کو جب چاہا یہاں گاما بنا ڈلا
کسی پتلون کو کھینچا تو پاجامہ بنا ڈالا
اور ہمیں یہ یاد آ گیا۔

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
مری آوارگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا۔
 

La Alma

لائبریرین
بہت خوب غزل ہے داد قبول فرمائیے
رائے اقتباس میں شامل کر رہا ہوں


(خیالِ یار نے ہم کو بھی دیوانہ بنا ڈالا
ذرا سی دیر میں خود سے ہی بیگانہ بنا ڈالا
کیا کسی اور کو بھی خیالِ یار نے دیوانہ بنا رکھا ھے؟
اگر ہاں تو اس شعر کے کینوس میں ان حضرات کی غیر موجودگی صراحت مانگتی ہے؟)

اگر اس شعر کو حقیقی معنوں میں لیں گے تو پھر " بھی " نہیں کھٹکے گا


(وفور ِشوق سے تھاما، لبوں سے پھرلگایا تھا
غمِ ہستی کو ہم نے آج پیمانہ بنا ڈالا
پہلا مصرع چست نہیں ہر دو ٹکڑوں میں زمانہ بھی بدل رہا ھے
وفورِ شوق سے تھاما زمانۂ حال کا ذکر ہے لبوں سے پھر لگایا تھا ماضی گا
اسے دیکھ لیجئے)

جی ضرور ۔

(تری چاہت کی لو ہے اور آوارہ دلِ مضطر
طوافِ شمع کی خاطر یہ پروانہ بنا ڈلا
دوسرے مصرعے میں "یہ " بھرتی کا ہے)

اس معصوم کو تو ہم نے ترازو کے باٹ کے طور پر استمال کیا ہے ۔پڑا رہنے دیں ایک پلڑے میں ۔



(محبت کے لئے ہم نے، فقط اک جان ہی دی تھی
ذرا سی بات تھی جس کا یوں افسانہ بنا ڈالا
افسانہ بنانے پر اگر آپ شکوہ سنج ہیں تو یہ کیفیت شعر میں موجود نہیں!!
یہ شکوہ جس سے کیا جا رہا ہے اس کی غیر موجودگی بھی کھٹکتی ہے)


شاعر اپنی جان دے کر بھی یہی کہے جا رہا ہے کہ اس کے لیے جان سے جانا ذرا سی تو بات ہے ۔اس سے بڑھ کر بیچارگی کی کیا کیفیت ہو گی ۔
شکوہ ظاہر ہے زمانے سے ہی کیا جا رہا ہے جس نے اس بات کا افسانہ بنا ڈالا ۔



(سنو اے ساقیء ِمحفل، سخن سے جام تو بھر دو
سرورِ حرف کو آخر، یہ میخانہ بنا ڈالا
سخن سے جام بھرنا !)

علامت یا استعارہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔

(سرورِ حرف کو ،یا کیلئے میخانہ بنانا ؟)

مجھے پینے کے لیے پانی دو
مجھے پینے کو پانی دو
اتنی شعری رعایت تو ہونی چاہیے ۔
 

سدرہ نور

محفلین
اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دھُندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھُولنے والے، میں کب تک ترا رَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ، جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ، ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پھُول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھِل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے، اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
 
Top