نیلم
محفلین
" مسلمانوں کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ۔۔ جانتے نہیں ہو صلیبی سلطنت اسلامیہ کو چوہوں کی طرح کھا رہے ہیں۔۔ اور جانتے ہو کہ وہ کیوں کامیاب ہو رہے ہیں؟ صرف اس لئے کہ ہم نے پھولوں کی پتیوں پر چلنا شروع کر دیا ہے۔۔ ہم نے اپنی بچیوں کو ننگا کر کے ان کی عصمتیں روند ڈالی ہیں۔۔ میری نظریں فلسطین پر لگی ہوئی ہیں۔۔ تم میری راہ میں پھول بچھا کر مصر سے بھی اسلام کا پرچم اتروا دینا چاہتے ہو ؟؟"
صلاح الدین ایوبی نے سب کو ایک نظر دیکھا اور دبدبے سے کہا ۔۔ " اٹھا لو یہ پھول میرے راستے سے۔۔۔ میں نے ان پر قدم رکھا تو میری روح کانٹوں سے چھلنی ہو جائے گی ۔۔۔ ہٹا دو لڑکیوں کو میرے راستے سے ۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری تلوار ان کے اتنے دلکش سنہرے بالوں میں الجھ کے بیکار ہو جائے ۔۔ "
"حضور کی جاہ و حشمت ۔۔۔۔۔ "
"مجھے حضور نہ کہو ۔۔" صلاح الدین ایوبی نے بولنے والے کو یوں ٹوک دیا جیسے تلوار سے کسی کافر کی گردن کاٹ دی ہو۔۔
اس نے کہا۔ " حضور وہ تھے جن کا تم کلمہ پڑھتے ہو اور جن کا میں غلام بے دام ہوں۔ میری جان فدا ہو حضور ﷺ پر جن کے مقدس پیغام کو میں نے سینے پر کنندہ کر رکھا ہے۔۔ میں یہی پیغام لے کر مصر میں آیا ہوں ۔۔۔ صلیبی مجھ سے یہ پیغام چھین کر بحیرہ روم میں ڈبو دینا چاہتے ہیں۔۔ شراب میں غرق کر دینا چاہتے ہیں۔۔۔ میں باد شاہ بن کے نہیں آیا۔۔"
لڑکیاں کسی کے اشارے پر پھول پتیاں لے کر وہاں سے ہٹ گئیں۔۔۔ صلاح الدین ایوبی تیزی سے دروازے کے اندر چلا گیا۔۔
ایک وسیع کمرہ تھا ۔۔ اس میں ایک لمبی میز رکھی ہوئی تھی ۔۔۔ جس پر رنگا رنگ پھول بکھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان روسٹ کیے ہوئے بکروں کے بڑے بڑے ٹکڑے ۔۔ سالم مرغ اور جانے کیسے کیسے کھانے سجے ہوئے تھے ۔۔۔
صلاح الدین ایوبی رک گیا اور اپنے نائب سے پوچھا۔۔ " کیا مصر کا ہر ایک باشندہ اسی قسم کا کھانا کھاتا ہے ۔ ؟؟ "
"نہیں حضور۔۔" نائب نے جواب دیا۔۔ " غریب لوگ تو ایسے کھانے کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔۔ "
" تم سب کس قوم کے فرد ہو ۔۔؟ " صلاح الدین ایوبی نے پوچھا ۔۔ " کیا ان لوگوں کی قوم الگ ہے جو ایسے کھانوں کے خواب نہیں دیکھ سکتے۔۔ ؟"
کسی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے کہا ۔۔۔ " اس جگہ جس قدر ملازم ہیں اور یہاں جتنے سپاہی ڈیوٹی پر ہیں ان سب کو اندر بلاؤ۔۔ یہ کھانا انہیں کھلا دو۔۔۔ " اس نے لپک کر ایک روٹی اٹھائی۔۔۔ اس پر دو تین بوٹیاں رکھیں اور کھڑے کھڑے کھانے لگا۔۔۔
" داستان ایمان فروشوں کی از التمش " سے ایک اقتباس
صلاح الدین ایوبی نے سب کو ایک نظر دیکھا اور دبدبے سے کہا ۔۔ " اٹھا لو یہ پھول میرے راستے سے۔۔۔ میں نے ان پر قدم رکھا تو میری روح کانٹوں سے چھلنی ہو جائے گی ۔۔۔ ہٹا دو لڑکیوں کو میرے راستے سے ۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری تلوار ان کے اتنے دلکش سنہرے بالوں میں الجھ کے بیکار ہو جائے ۔۔ "
"حضور کی جاہ و حشمت ۔۔۔۔۔ "
"مجھے حضور نہ کہو ۔۔" صلاح الدین ایوبی نے بولنے والے کو یوں ٹوک دیا جیسے تلوار سے کسی کافر کی گردن کاٹ دی ہو۔۔
اس نے کہا۔ " حضور وہ تھے جن کا تم کلمہ پڑھتے ہو اور جن کا میں غلام بے دام ہوں۔ میری جان فدا ہو حضور ﷺ پر جن کے مقدس پیغام کو میں نے سینے پر کنندہ کر رکھا ہے۔۔ میں یہی پیغام لے کر مصر میں آیا ہوں ۔۔۔ صلیبی مجھ سے یہ پیغام چھین کر بحیرہ روم میں ڈبو دینا چاہتے ہیں۔۔ شراب میں غرق کر دینا چاہتے ہیں۔۔۔ میں باد شاہ بن کے نہیں آیا۔۔"
لڑکیاں کسی کے اشارے پر پھول پتیاں لے کر وہاں سے ہٹ گئیں۔۔۔ صلاح الدین ایوبی تیزی سے دروازے کے اندر چلا گیا۔۔
ایک وسیع کمرہ تھا ۔۔ اس میں ایک لمبی میز رکھی ہوئی تھی ۔۔۔ جس پر رنگا رنگ پھول بکھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان روسٹ کیے ہوئے بکروں کے بڑے بڑے ٹکڑے ۔۔ سالم مرغ اور جانے کیسے کیسے کھانے سجے ہوئے تھے ۔۔۔
صلاح الدین ایوبی رک گیا اور اپنے نائب سے پوچھا۔۔ " کیا مصر کا ہر ایک باشندہ اسی قسم کا کھانا کھاتا ہے ۔ ؟؟ "
"نہیں حضور۔۔" نائب نے جواب دیا۔۔ " غریب لوگ تو ایسے کھانے کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔۔ "
" تم سب کس قوم کے فرد ہو ۔۔؟ " صلاح الدین ایوبی نے پوچھا ۔۔ " کیا ان لوگوں کی قوم الگ ہے جو ایسے کھانوں کے خواب نہیں دیکھ سکتے۔۔ ؟"
کسی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے کہا ۔۔۔ " اس جگہ جس قدر ملازم ہیں اور یہاں جتنے سپاہی ڈیوٹی پر ہیں ان سب کو اندر بلاؤ۔۔ یہ کھانا انہیں کھلا دو۔۔۔ " اس نے لپک کر ایک روٹی اٹھائی۔۔۔ اس پر دو تین بوٹیاں رکھیں اور کھڑے کھڑے کھانے لگا۔۔۔
" داستان ایمان فروشوں کی از التمش " سے ایک اقتباس