اب آگے داستاں کا یوں بیاں ہے کہ اس جنگل میں سوا خدا کے اس کا کوئی خبر لینے والا نہ تھا ۔ پر ایک پکھیرو اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھا اس سے اس کا نام سکنتلا ہوا۔ وہاں پڑی ہوئی وہ روتی تھی ۔ آنسوؤں کے موتی پلکوں میں ںپرو تی تھی، دودھ کے لیئے منہ پسار رہی تھی ۔ ہاتھ پاؤں مار رہی تھی کہ پروردگار نے اپنا فضل کیا جو کن منی کہیں نہانے کو چلے تھے جوں اس طرف سے ہو نکلے دیکھا کہ یہ کیا قدرت الٰہی ہے جو اس صورت سے نظر آتی ہے۔
اس نوگل چمن کو گلستاں سے دور دیکھ حیراں برنگ بلبل تصویر ہو گئے غلطاں در یتیم سی تھی لیک خاک پر غلطانی اس کی دیکھ وے دلگیر ہو گئے، اسپر انہیں نہایت ترس آیا ۔ دوڑ کر خاک پر سے اٹھایا ، گودی میں لیکر کہنے لگے یہ پری جن یا کسی قوم کی ایسی خوبصورت لڑکی ہے کہ دیکھی نہ سنی ، کچھ کہا نہیں جاتا اور کچھ سمجھ نہیں آتا، کس نے اس جنگل میں لاکر خاک کے اوپر اس چاند کے ٹکڑے کو ڈال دیا تھا۔ اسے چھاتی سے لگا ئے ہوئے وے دل میں سوچ بچار کرتے گھر کو پھرے ، مکان میں پہنچتے ہی اپنی بہن گوتمی کو اس کی صورت دکھا کر پیار سے کہا کہ جی لگا کر بہت اچھی طرح پرورش کرتی رہیو، ایسا نہو کہ کسی طور سے کوتاہی ہو۔ لڑکی کی جو وہ صورت اس نے دیکھی اور بھائی کی اس کے حق میں یہ مہربانی کی باتیں سنیں ، پہلے اس کی بلائیں لیں پھر گود سے اپنے گلے لگا پالنے لگی، دن رات چھاتی پر اسے لٹا تی تھی، مہر و محبت سے دودھ پلواتی تھی ۔
وہ اس صورت سے پلتی تھی اور جتنے اس جنگل کے تپسوی تھے اس کو پیار کرتے تھے ، سب کی وہ پیاری تھی ، ان سبھوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ کن منی کی بیٹی ہے دن بدن و ہ بڑی ہوتی تھی اور تخم محبت ہر دل میں بوتی تھی۔ اور بھی دو لڑکیاں وہاں تھیں ایک کا نام انسویا تھا اور دوسری کا پریم ودا ، تینوں پرورش پا کر جب بڑی ہوئیاں آٹھ پہر ساتھ کھیلنے لگیاں ان سبھوں کو آپس میں ایسا پیار و اخلاص تھا گویا ان کی ایک جان اور جدا جدا قالب تھا ۔
ہر ایک ان میں تھی زہرہ و مہر و ماہ
جنہیں دیکھ کو ہووے یوسف کو چاہ
اگر چاہے شاعر کرے شاعری
بیاں ان کی ہووے نہ خوبی ذریٰ
خدا نے اپنے دست قدرت سے ان تینوں کے سراپا میں سراپا خوبیاں بھر دیں تھیں
بھویں جب کہ غصے میں تھیں تانتیں
جگر تیر مژگاں سے تھیں چھانتیں
تلطف سے جس دم کہ وے ہنستیاں
تو زاہد کو بھی سوجھتیں مستیاں
ہر ایک کا وہ پری سا چہرہ جو نظر آتا کوئی تو غش کھاتا اور کوئی دیوانہ ہو جاتا
جو زلفیں تھیں زنجیر پائے جنوں
کف پائے رنگیں تھی سرگرم خوں
اگرچہ ظاہر میں وے سبھی سر سے پاؤں تلک تمام حسن و جمال اور ناز و ادا تھیں لیکن حقیقت میں و ہ شعلہ بھبوکا کہ جس کا نام سکنتلا تھا اپنے ایک جلوے سے دل و جان دونوں اس جہان کا پھونک دیتی تھی ، شہرہ اس کی گرم بازاری کا، دھوم کہ حسن عالم، سوز کی ایسی تھی کہ آفتاب عالم تاب کو ایک ذرہ اس کے آگے تجلی نہ تھی
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں
سراپا تھیں اس میں خوش اسلوبیاں
القصہ کن منی نے ایکدن اس نازنیں سے یہ بات کہی کہ اب میں تیرتھ کو جاتا ہوں تھوڑے دنوں میں نہا کر پھر آتا ہوں تب تلک تو چین و آرام سے خوش رہیو ، جو کچھ مطلوب ہو گوتمی سے کہا کریو وہ تیری خاطر حاضر کیا کرے گی اور جان و دل سے صدقے قربان ہو کر سر سے پانوں تلک تیری بلائیں لیا کرے گی۔ پر جو کوئی تپسوی یہاں آوے آدر کرپاؤں پڑیو اور اس کی خدمت کیجئو ، جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوتاہی مت کیجئو۔
پس اسی طرح وہ اسے سمجھا سمجھا ، نصیحت دلاسا دے کر روانہ ہوا اور وہ آتش کا پرکالہ ، اندھیرے میں گھر کا اجالا ، شیریں منش ، لیلیٰ روش ، طلسم حسن و جمال کے گنج کا یعنی سکنتلا برنگ گل جس کی جگہ چاہیئے تھی چمن میں ، رہی اسی بن میں
شروع جوانی اور اس کا وہ جوبن
نیا عالم اپنا دکھا تا تھا بن بن
جتنے اس دشت کے چرند و پرند تھے ، وے اس کے دام محبت کے پابند تھے اور وہ خدمت میں منی لوگوں کی مشغول تھی ۔ جب کتنے دن گزرے ایک تازی وحشت آ اس سے دوچار ہوئی۔ چار و ناچار اپنے دل کو یوں بہلاتی تھی۔ کبھی ہرن کے بچوں کو دانہ کبھی درختوں کو پانی دیا کرتی اور خاطر اس کی ہر آن گوتمی ہر ہر طور سے کیا کرتی تھی۔ کن کی سفارش کے سوا وہ خود اس کی فرماں بردار بلکہ جاں نثار تھی اور وے دونوں سکھیاں اس کا منہ دیکھتی ہی رہتیاں تھیں۔
جب جوانی کی امنگ نے عالم کچھ اور دکھایا شوخیاں نئے نئے طور کی اس نازنیں میں سمانے لگیں ، دلداری اور دلربائی کے اختلاط ان ہمجولیوں سے شروع کئیے، ترچھی نگاہوں تیکھی نظروں سے اشاروں میں ان کے دلوں کو بے چین کرتی تھی، بگڑ بگڑ کر ہزاروں طرح چن چن کر ان کو نام دھرتی تھی۔
کبھی ہنس بول کر نہال کیا
کبھی ٹھوکر سے پائے مال کیا