گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ریختہ صفحہ 246
اگر حقّہ عنایت ہو تو دو گھونٹ ہم بھی پی لیں۔میں نے کہا آؤ بیٹھ جاؤ تُم بھی پی لو۔وہ دونو بیٹھ گئے ایک حقّہ پینے لگا اور ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ سے کچھ علیٰحدہ عرض کرنا ہےمیں سمجھا یہ مسافر ہیں کچھ سوال کریں گےمیں اُس کا ہاتھ پکڑ کے علیٰحدہ لے گیا اور پوچھا کیا اُس نے چپکے سے کہا تمہاری مدد آ گئی ہے مگر دروازہء شہر بند ہے اندر کس طرح آ سکتے ہیں۔ میں سمجھا سو پچاس سوار آئے ہوں گے۔ پھر میں نے پوچھا کس قدر جمیعّت تمہارے ساتھ ہے۔اس نے بیان کیا پانچہزار سوار تو اس وقت موجود ہے اور جیسے کا توپ خانہ اور پیدل فوج عقب سے آئے گی۔ یہ سُنتے ہی ایک بار تو میرے ہوش پرواز کر گئےمیں سمجھا یہ ہنسی کرتا ہے پھر میں نے کہا کیا یہ بات سچ ہےیا از راہِ ہنسی اُس نے کہا اب آنکھ سے دیکھ لینا مگر ترکیب اندر آنے کی بتاؤمیں نے کہا دروازہ کے سامنے سے چکر کاٹ کر شمالی دروازہ سے آنا چاہئیے وہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس طرح دور سے گھوڑے اُٹھا کر آنا چاہئیے کہ دروازہ بند نہ کرنے پائیں اور میں اُس دروازہ پر جا موجود ہوں گادروازہ بند نہ ہونے دوں گا۔ تُم جاؤ بسم اللہ کرو اُن دونوں کو تو میں نے اُدھر روانہ کیا اور اپنی جمیّعت کو الگ بُلوا کر چُپکے سے کہہ دیا کمر بندی کر کے مسلّح ہو جاؤ، دس آدمی تو مندر کی حفاظت پر رہو اور باقی دروازے تک پھیل جاؤ ۔ جس وقت کچھ فساد ہوتا دیکھو دروازے پر دوڑ آؤ۔میں ٹہلتا ہوا دروازے پر جاتا ہوں غرضکہ سب جلدی سے تیار ہو گئے اور میں تلوار ہاتھ میں لے کر اور ایک ہاتھ میں حقّہ پیتا ہوا دروازے کی طرف کو چلا۔ خدمتگار کاندھے پر بندوق وہ میرے عقب میں تھا اور ٹہلتا ہوا دروازے پر پہنچا ۔ دروازے پر کوئی
ریختہ صفحہ 247
ڈیڑھ سو دو سو آدمی کی جمیّعت میں وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے مجھے سلام کیا اور کہا آج تھانہ دار جی ادھر کیسے تشریف لائےمیں نے جواب دیا بھئی ہم تو تمہارے قیدی ہیں کہیں جا تو سکتے نہیں شہر میں پھر کر جی بہلاتے ہیں۔ سپاہیانِ دروازہ نے کہاتھانیدار جی تم کو کون قید کر سکتا ہے تُم پھر بھی راج کے نوکر ہو ۔یہ بھی کوئی دن کا ہلہ غلہ ہے۔ میری ان کی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ میں نے دیکھا یکایک دروازہ کے سامنے سے ایک رسالہ کا نائب رسالدار گھوڑا دوڑائے ہوئے بے تحاشہ چلا آتا ہے اور اُس کے پیچھے ہی سواران کا غٹ ہے اور اُس نے آتے ہی کمر سے تلوار کھینچ کر علم کی اور بولی قواعد کی بولی اور سب سواروں نے تلواریں کھینچ لیں نگہبان دروازہ سہمکر سکتہ کے عالم میں ہک دھک رہ گئے اور نائب رسالدار نے ڈانٹ کر دروازہ والوں سے کہا کہ خبردار اگر اپنی جا سے جنبش کی تو مارے تلواروں کے ٹکڑے اڑا دئیے جائیں گے۔جیسے بیٹھے ہو یوں ہی بیٹھے رہو۔ پھر کس کا مقدور تھا کہ چوں کر سکے۔اور افسر نے گھوڑا بڑھا کر کہا کہ آؤ مردود آ جاؤ۔ بس پھر کیا تھا ایک ریلہ سواروں کا ایسے داخل ہوا کہ دروازے میں سے بمشکل برآمد ہوئے اور سواروں کے غٹ کے غٹ چلے آتے ہیں اور سامود میں داخل ہوتے جاتے ہیں اُن کے عقب میں نقارے پر چوٹ دیتا ہوا نقارچی داخل ہوا اور احمد میاں نے آ کر مجھ سے سلام علیک کی اور پیچھے ان کے خاص رسالے آٹھوں رسالے نقاروں پر چوٹ دیتے ہوئے داخل ہو گئے ان کے عقب میں تین ہزار جاگیرداروں کا خیل داخل ہو گیا ۔ اب سامود میں تِل دھرنے کو جا نہ رہی۔ تمام شہر سواروں سے بھر گیا۔ اُس وقت احمد میاں نائب سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے کہا کہ وہ تمہارے قیدی کہاں ہیں لاؤ اُن کو میں نے کہا موجود ہیں مندر
ریختہ صفحہ 248
میں قید ہیں۔ اُسی وقت سامود میں سے ایک گاڑی بیگار میں پکڑی اور قیدیوں کو مندر سے برآمد کر کے چھکڑے پر سوار کیا اور مجھ سے کہا کہ چلو۔ میں نے کہا کہ ایک پانچ منٹ اور توقّف کیجئیے کہ میں ذرا بھائی جی کے مدارراول جی صاحب سے چل کر دو دو باتیں کر لوں احمد میاں بولے اچھا میں نے کہا ایک امر اور ہے ذرا نقارچیوں کو میرے ہمراہ کر دو۔ غرضکہ نقارے گھوڑے ہمراہ لے کر میں کامدار صاحب کے مکان پر پہنچا تو دروازہ کو تیغا لگا ہوا پایا میں نے اس وقت بآواز بلنددیا بھائی جی کا نام لے کر آواز دی کہ دروازہ کُھلوا کر مجھ سے دودو باتیں کر لو۔ ہر چند میں نے اور میرے سپاہیوں نے پکارا مگر دروازے میں سے صدائے برخواست کا عالم پایا۔ اُس وقت میں نے بہت بڑی آواز سے پکار کر کہا کہ دیا بھائی جی آپ کہتے تھے کہ بیسوں تھانہ دار چلا دئیے ہیں کسی نے آج تک ٹھکانے کی آن نہیں توڑی ہے اُس کے جواب میں مینے آپ سے کہا تھا کہ کوئی تھانہ دار نمک حلال نہ آیا ہو گا۔ ورنہ ڈنکے کی چوٹ گرفتار کر کے لے جائے گا تو دیکھ مرد جو بات زبان سے نکالتے ہیں اُسے پورا کر کے دکھا دیتے ہیں ۔ لو دیکھ لو۔ میں ڈنکے کی چوٹ ان کو گرفتار کر کے لئے جاتا ہوں اگر ہم سے چھوڑانا چاہتے ہو چھڑا لو۔یہ کہہ کر میں نے نقارچیوں کو حکم دیا ہاں بھائی اب تُم نقارے پر چوب دو ۔ یکبارگی دس بارہ نقاروں پر چوب پڑی۔ تمام شہر اور پہاڑ گونج اٹھا اور ہم سب افسر قیدیوں کو لے کر شہر سے باہر ہوئے اور شہر سے ایک کوس کے فاصلہ پر راول جی کا ایک باغ تھا وہاں جا کر فوج کا ڈیرہ کیا احمد میاں نے دیا بھائی سے کہلا بھیجا کہ اگر اپنی خیر منظور ہو تو سرکاری لشکر کے لئے بہت جلد رسد کا سامان اور بنیوں کی دکانیں روانہ کرو۔ میں نے یہ ٹھکانے کا لحاظ کیا ہے کہ فوج کو شہر کے
ریختہ صفحہ 249
باہر لے آیا ہوں۔ ورنہ سامود لُٹ جاتی۔اس پیغام کے تھوڑی دیر بعد رسد وغیرہ سب آ موجود ہوا اور لشکر نے دن بھر اپنا کھانا وانا کیا۔رات کو وہیں شب باش ہوئے صبح کو سہانے وقت کوچ ہوا گیارہ بجے دن کے مقام ہرمارہ پر جہاں میرا تھانہ تھا پہنچے۔وہاں درختوں کے سایہ میں سواروں نے آرام کیا۔گھوڑوں کو پانی پلوایا ۔ اب کچھ چنا چبینا وغیرہ جو کچھ دستیاب ہوا ، لے کر ناشتہ کیا۔ ادھر میرے آدمیوں نے ماساوال وغیرہ کی تیاری کی۔ احمد میاں اور گرداور اورتھانہ داران ہمراہی اور افسران سوار نے وہ ناشتہ کیا بعد دو بجے وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب ہم امانی شاہ پر پہنچے تو شہر کی خلقت کا ایک اژدحام پایا جیسے کوئی میلہ ہوتا ہے۔شہر کے تماشائیوں کا میلہ امانی شاہ سے لے کر حبیب چوک تک وہ اژدحام تھا کہ سواروں کو رستہ نہ ملتا تھا۔ غرضکہ ہم سب اُن قیدیوں کو لئے حبیب چوک میں پہنچے تو مہاراج صاحب اور مہاراجہ جسونت سنگھ بہادر فرمانروائے جودہ پور اُس وقت ہوا محل کے دروازہ کی سیڑھیوں کے برابر کے بُرج میں بیٹھے ہوئے منتظر تھے اور تمام اہلکار محکمہ جات حبیب چوک میں راہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے اور احمد میاں نے اور افسروں نے جا کر سلام کیا۔ مہاراجہ صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا تو کہاں جا پھنسا تھا میں نے کہا حضور سرکار کی نوکری ہے ایسا اتفاق بھی ہو جاتا ہے۔ فرمایا شاباش نمک حلال ایسے ہی ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو سپرد فوجداری کر کے جاؤ مکان پر کمر کھولو تمہاری نوکری ہو گئی۔ میں تعمیلِ حکم کر کے اور فوجداری سے رسید لے کر گھر کو روانہ ہوا اور جب لوگ اپنے اپنے قیام گاہ کو گئے۔ میں گھر پر پہنچا ہوں تو سب برّیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ دیکھتے ہی خوش ہو گئے۔ صدقے سیلے اتارے گئے۔ اسی طرح
ریختہ صفحہ 250
ایک اور معاملہ ٹھاکر گوہند سنگھ جی کے گاؤں میں واقع ہوا تھا اگر اُس کی تشریح کی جائے تو ایک دفتر ہو جائے۔ خلاصہ یہ کہ ایک سوامی کہ سب خلقت کو صاحبِ نسبت ہونے کا گُمان تھا۔ اور مہاراجہ صاحب کو اس کے ساتھ حُسنِ عقیدت بدرجہ غایت تھی اُس کی ایک بھینس چوری ہوگئی تھی اس نے خود جا کر مہاراج سے عرض کی کہ آپ کیا راج کرتے ہیں آپ سے میری ایک بھینس تو منگائی جاتی ہی نہیں۔ مہاراجہ صاحب نے سنتے ہی سپرنٹنڈنٹ پر دس روپے روز کی دستک جاری رکھنے کا حکم دیا اور ایک روپیہ یومیہ کی دستک جاری ہوئی۔ میں نے جاکر مدعی سے کہا۔کہ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی مہاراج سے کیوں فریاد کی۔ سوامی جی نے مجھ سے کہا کہ بابا تیرے بس کی بات نہیں میری بھینس بہت بڑے ٹھکانے میں گئی ہے تو نہیں لا سکتا۔ مجھے سب حقیقت معلوم ہے میں نے سوامی جی سے کہا کہ اچھا تم مجھے نشاندہی کرو میں گرفتار کر لاؤں گا سوامی جی نے کہا ایک اشتہاری مجرم کا قصور معاف کرا دے تو وہ تیرے ساتھ جا کر نشاندہی کرا دے۔ میں یہ بات سُن کر کونسل میں پہنچا اور حکام سے عرض کی کہ ایک اشتہاری مجرم کا قصور معاف کیا جائے تو مال مجرم پیدا کر سکتے ہیں چونکہ مہاراج کا حکم باور میں صادر ہو چُکا اُسی وقت معافی قصور کا پروانہ بایں شرط کہ اگر مال مجرم گرفتار کرا دے تو مجرم کا قصور معاف کیا جائے میں وہ پروانہ لے کر پھر سوامی جی کے پاس پہنچا اور سوامی نے بیجناتھ اشتہاری کو میرے سامنے بلوا کر موجود کر دیا۔ وہ مجرم میرے علاقے کا نہیں تھا غرضکہ اُس کے دوسرے دن دس سوار خاص رسالے کے میں ہمراہ لے کر روانہ ہوا۔ بیجناتھ میرے ہمراہ تھا۔ وہ ایک گاؤں جاگیر ٹھاکر گوبند سنگھ جی میں مکھے لے کر پہنچا وہ
ریختہ صفحہ 251
گاؤں جے پور سے چودہ کوس تھا۔ شام کوہم وہاں جا کر پہنچے۔ تعلقداردیہ سے سربراہ کے واسطے کہلا بھیجا گیا کہ ہم واسطے کارِ سرکار کے آئے ہیں تُم سربراہ بھجوا دو اور خود آؤ جو کچھ سرکار سے کام ہے اس کی تعمیل کرو۔ اس کے جواب میں تعلقدار نے کہلا بھیجا کہ سربراہ دینے کا ہماری سرکار سے حکم نہیں ہےاور مجھے اس وقت فرصت نہیں صبح کو ملوں گا۔پھر میں نے ایک سوار بھیج کر کہلا بھیجا کہ سربراہ نہ دو مگر حکم تو سُن جاؤ۔ کہا صبح کو آؤں گا۔ میں نے مخبر سے کہا کہ پولیس کی نشاندہی کر۔ بھینس تو گرفتار کر لی جائے بعد میں دیکھا جائے گا وہ اُٹھ کر گیا اور تھوڑی دیر میں آ کر جواب دیا کہ جس مکان میں بھینس بندھی ہوئی دیکھ گیا تھا ، اب وہاں نہیں ہے اور میں بھینس کی پونچھ پر ہاتھ پھیر کر گیا تھا۔ اور تعلقہ دار جی کو جتا کر گیا تھا کہ یہ بھینس جانے نہ پائے۔ اور یہ مجرم اور زمینداروں کو بھی کہہ گیا تھا بھینس ابھی ابھی انہوں نے یہاں سے چلا دی ہے اور اسی واسطے تعلقدار نہ آیا۔ غرضکہ اس شب کو تو گھوڑوں کا دانہ گھاس اور دیہات سے منگوا کر کیا مگر آدمی سب بھوکے پیاسے رہے صبح کو تعلقدار صاحب آئے تو دیکھتا کیا ہوں کہ بڑے موٹے تازے لحیم شحیم آدمی ہیں۔خیر سلام علیک ہو کر آکے بیٹھے مین نے اِن سے کہا کہ تعلقدار صاحب خاص مہاراجہ صاحب کا تو حکم اور میں نے اس کی تعمیل کے واسطے آپ کو بُلوایا اور آپ نے عذر کیا اس حکم عدولی کا تو مجھے جواب دیجئیے پھر اور کچھ کہوں گا جواب دیا کہ یہ نہ معلوم تھا کہ خاص حکم حضور سے ہے۔ پھر میں نے کہا وہ چوری کی بھینس اور کالی ناتھ سارق میرے حوالہ کرو۔ تعلقدار: کیسی بھینس ۔ کون کالی ناتھ۔ میں: اینجانب سدسے والے سوامی کی بھینس اور کالی ناتھ چور جس کو تم نے گاؤں میں آباد کیا اور
ریختہ صفحہ 252
جس سے چوریاں کراتے ہو اور مال حراممکا کھا کر موٹے ہوئے ہو۔ تعلقدار: کالیا کوئی ہمارے گاؤں میں نہیں آیا نہ بھینس آئی۔ میں نے مخبر سے کہا کہ جواب دے۔ بیجناتھ نے کہا کہ تعلقدار جی میں خود بھینس دیکھ کر گیا تھا اور آپ سے کہہ گیا تھا کہ بھینس جانے نہ پائے یہ چوری کی ہے اور کالیا بھی موجود تھا دونوں کے واسطے آپ سے یہ کہا تھا۔ اور تاکید کر کے گیا تھا کہ خبردار دونو جانے نہ پائیں۔
تعلقدار: جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ پھر میں نے تعلقدار سے کہا کہ تعلقدار صاحب میں آپ سے دوستانہ فہمائش کرتا ہوں کہ آپ اپنی خیر چاہیں تو بھینس منگا دیں۔ ورنہ آپ تو کیا ہیں ٹھاکر صاحب کو بُری بن جائے گی۔ یہ خاص حُکم ہے۔
تعلقدار: اجی حضرت بیسوں افسر گرائی دیکھ لئے ہیں۔ ٹھاکر صاحب پر بُری بنوانےوالا کون ہے۔ اینجانب۔ افسر گرائی کو بھی نہیں دیکھا ہو گا ارنہ اب تک کبھی کی بیڑیاں پڑ گئی ہوتیں۔
تعلقدار : انشاءاللہ اگر میں افسر گرائی ہوں تو کل اتنے وقت آپ کو زیور پہنا دوں گا۔ یہ کہہ کر میں نے گھوڑے پر چار جامے بندھوائے اور وہاں سے روانہ ہوا۔ چار بجے جے پور داخل ہوا۔ اور سیدھا کونسل میں پہنچا۔ اور مخبر اور دو سواران ہمراہی کو اپنے ساتھ لیتا گیا اور جا کر حکام کو سلام کیا۔ نواب فیض علیخاں صاحب نے پوچھا بھینس لائے میں نے ساری کیفیت بیان کی۔ سواران سے دریافت کیا انہوں نے بھی میرے بیان کی تائید کی۔ بیجناتھ مخبر کو بُلوا کر پوچھا
ریختہ صفحہ 253
کہ تُو نے بچشمِ خود بھینس کو دیکھا تھا۔ بیجناتھ مخبر خود بھینس کے پُٹھے پر ہاتھ پھیر کر تعلقدار اور زمینداران کے سپرد کر کے آیا تھا۔ اُس کا اظہار لیا گیا اُس نے اظہار میں بھی یہی بیان کیا۔ نواب صاحب کونسل سے اُٹھ کر مہاراج صاحب کے پاس گئے اور گھڑی بھر کے بعد آ کر حکم سُنایا کہ چہار دبیست جائیں اور ٹھاکر صاحب کے دھوئیں کو گھیر لیں اور کہہ دیں کہ جب تک بھینس اور کالی ناتھ مجرم جے پور نہ آئیگا آپ یہاں سے کہیں نہ جا سکینگے۔ حکم پہنچتے ہی ٹھاکر صاحب نے سوار اور شترسوار دوڑانے شروع کئے کہ دن نکلتے بھینس اور چور تعلقدار اور زمیندار مسل پٹواری سب حاضر ہو جائیں۔ کونسل سے تو یہ کاروائی ہوئی۔ میں اپنے گھر میں آ کر تھکا تھکایا کھانا کھا کر سو رہا۔ دوسرے روز صبح کو چار گھڑی دن چڑھے تک سوتا رہا۔ ہنوز نیند میں تھا کہ ہرکارہ محکمہ گرائی کا پہنچا کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب بلاتے ہیں۔ خیر منہ ہاتھ دھوئے پگڑی باندھی تلوار اور چادر بغل میں دبا کر گرائی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میر احمد علی خاں صاحب کچہری کر رہے ہیں اور وہ تعلقدار صاحب اور پٹیل پٹواری سب موجود ہیں۔میں نے جا کر سپرنٹنڈنٹ صاحب کو سلام کیا ۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے پوچھا تم سےاور تعلقدار صاحب سے کیا گفتگو ہوئی تھی۔ میں نے سب بیان کی۔
سپرنٹنڈنٹ : تم نے کیا کہا تھا
اینجانب : میں نے کہہ دیا تھا کہ اگر میں افسر گرائی ہوں تو کل آپ کو زیور پہنا دوں گا۔
سپرنٹنڈنٹ صاحب: اچھا تو یہ زیوار موجود ہے، اس میں سے جو تعلقدار صاحب کے شان کے موافق ہو وہ اُن کو پہنا دو۔ تم اپنا وعدہ پورا کرو۔ اور بیڑیاں میرے آگے
ریختہ صفحہ 254
ڈلوا دیں میں نے اس میں سے ایک بھاری ڈنڈے دار بیڑی لے کر تعلقدار صاحب کی نذر غزرانی آہنگر نے فوراً پاؤں ڈال کر حلقہ میں کیل مستحکم ٹھونک دی۔ مابقی سب زمینداروں کے بھی بیڑیاں پڑ گئیں، کچہری میں اظہارات ہونے لگے۔ آخر تعلقدار صاحب قبولے کہ وہ بھینس ٹھاکر رنجیت سنگھ جی اجرول کے گاؤں میں ہم نے چلا دی تھی اب بھی وہیں ہے۔ یہ بات سُن کر میں کونس کو پھر دوڑا گیا اور تمام کیفیت بیان کی کہ ابتک بھینس ٹھاکر رنجیت سنگھ جی حاکم کونسل کے گاؤں میں موجود ہے۔ اور ٹاھکر صاحب خود سرِ اجلاس کونسل میں موجود تھے۔ نواب فیض علیخاں صاحب بہادر نے ٹھاکر صاحب سے کہا ۔ واہ واہ ٹھاکر صاحب آپ کونسل کے سردار ہو کر چوروں کی پناہ دہی کرتے ہیں۔ ٹھاکر رنجیت سنگھ جی نے مجھ سے کہا کہ اچھا بھایا اگر میرے گاؤں میں بھینس ہو گی تو کل تیرے گھر پہنچ جائے گی، خاطر جمع کر۔ یہ سُنکر میں حکام کو سلام کر کے گھر کو آیا ۔ دوسرے دن دوپہر کو پھر مجھے گرائی میں بُلوایا گیا۔ جب میں گرائی میں پہنچا تو سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کہا کہ لو بھینس سنبھال لو اور ٹھاکر رنجیت سنگھ کے آدمیوں کو رسید لکھ دو۔میں نے رسید لکھ کر بھینس گرائی میں بھجوا دی اور کونسل میں جا کر نواب صاحب سے عرض کی کہ وہ گاؤ میش مہاراج کے اقبال سے میرے پاس آ گئی ہے۔ اب سرکار کو اختیار ہے جسے چاہے حوالہ کر دیں۔ نواب صاحب میرا اتھ پکڑ کر مہاراجہ صاحب کے پاس لے گئے۔ میں نے جا کر سلام کیا پوچھا بھینس لے آئے ۔ میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔ حضور کے اقبال سے موجود ہے۔ مہاراجہ صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ نواب صاحب میں نے پہلے آپ سے کہہ دیا تھا کہ وہ بھینس پیدا کر کے لائے گا۔ بعد حکم ہوا کہ اُس سوامی کے
ریختہ صفحہ 255
حوالہ کر کے راضی نامہ لے لو۔ سوامی جی کو بلا کر کہا کہ لو تم بھینس لو اور ٹھاکر گوبند سنگھ جی کے نام راضی نامہ کردو۔ سوامی نے راضی نامہ سے انکار کیا۔ اب ٹھاکر صاحب کے وکیل منّت کرت ہیں اور روپیہ دیتے ہیں مگر سوامی کسی طرح راضی نامہ نہیں دیتا۔ اور نہ بھینس لیتا ہے۔ ٹھاکر صاحب نہایت تنگ ہیں غرضکہ میں نے پھر سوامی سے جا کر کہا بھینس تمہاری آ گئی۔ اب تُم راضہ نامہ کیوں نہیں دیتے اُس نے کہا میری بھینس کے سینگ اور دم کاٹ ڈالی ہے۔ بچہ مار ڈالا ہے۔ میں نے کہا کہ اُسی کا تاوان اسّی روپیہ دلاتا ہوں،
سوامی: راضی نامہ نہ دینے کا ایک سبب یہ ہے مجھے کچھ بھینس کی پرواہ نہیں دس بھینس میری چوری جائیں تو میں کبھی فریاد نہ کرتا مگر میرے پاس تمام زمیندارہ کی روز فریاد آتی ہے۔ کسی کے بیل چوری ہو جاتے ہیں کسی کا اونٹ کسی کی بھینس۔ کسی کا غلّہ۔ جب میں نے تنگ آ کر نالش کی ہے جب تک زمیندارہ کی چوری کا بندوبست نہیں ہو گا میں راضی نامہ ہر گز نہ دوں گا۔ یہ کالیا مینہ جس نے میری بھینس چورائی ہےیہی چوری کرتا پھرتا ہے۔ اور کہور کے قصبہ کے اردگرد دیہات میں چوری کرتا ہے۔ اور گاؤں والوں کو تنگ کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قصبہ کہور کے چوکیدارہ میں وہ بھی شامل ہے اس کے بھائی بندوں نے اُسے وراثت سے خارج کر کے نکال دیا۔ اُس کی جو جائداد اور آمدنی۔ غلّہ وغیرہ ہل پیچھے مقرر تھی وہ اوروں نے چھین لی۔ اب وہ انکے چوکیدارہ سے جو دیہات ہیں وہ ان کو لوٹتا ہے اور بڑے بڑے حمایتی دیہات میں رکھتا ہے کبھی علاقہ الور میں بیٹھکر چوری کرتا ہے یا تو سرکار اُسے گرفتار کرے یا اُس کو بٹھا کر اُس کا حصّہ دلائے کہ وہ چوری نہ کرے اور رعیّت
اگر حقّہ عنایت ہو تو دو گھونٹ ہم بھی پی لیں۔میں نے کہا آؤ بیٹھ جاؤ تُم بھی پی لو۔وہ دونو بیٹھ گئے ایک حقّہ پینے لگا اور ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ سے کچھ علیٰحدہ عرض کرنا ہےمیں سمجھا یہ مسافر ہیں کچھ سوال کریں گےمیں اُس کا ہاتھ پکڑ کے علیٰحدہ لے گیا اور پوچھا کیا اُس نے چپکے سے کہا تمہاری مدد آ گئی ہے مگر دروازہء شہر بند ہے اندر کس طرح آ سکتے ہیں۔ میں سمجھا سو پچاس سوار آئے ہوں گے۔ پھر میں نے پوچھا کس قدر جمیعّت تمہارے ساتھ ہے۔اس نے بیان کیا پانچہزار سوار تو اس وقت موجود ہے اور جیسے کا توپ خانہ اور پیدل فوج عقب سے آئے گی۔ یہ سُنتے ہی ایک بار تو میرے ہوش پرواز کر گئےمیں سمجھا یہ ہنسی کرتا ہے پھر میں نے کہا کیا یہ بات سچ ہےیا از راہِ ہنسی اُس نے کہا اب آنکھ سے دیکھ لینا مگر ترکیب اندر آنے کی بتاؤمیں نے کہا دروازہ کے سامنے سے چکر کاٹ کر شمالی دروازہ سے آنا چاہئیے وہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس طرح دور سے گھوڑے اُٹھا کر آنا چاہئیے کہ دروازہ بند نہ کرنے پائیں اور میں اُس دروازہ پر جا موجود ہوں گادروازہ بند نہ ہونے دوں گا۔ تُم جاؤ بسم اللہ کرو اُن دونوں کو تو میں نے اُدھر روانہ کیا اور اپنی جمیّعت کو الگ بُلوا کر چُپکے سے کہہ دیا کمر بندی کر کے مسلّح ہو جاؤ، دس آدمی تو مندر کی حفاظت پر رہو اور باقی دروازے تک پھیل جاؤ ۔ جس وقت کچھ فساد ہوتا دیکھو دروازے پر دوڑ آؤ۔میں ٹہلتا ہوا دروازے پر جاتا ہوں غرضکہ سب جلدی سے تیار ہو گئے اور میں تلوار ہاتھ میں لے کر اور ایک ہاتھ میں حقّہ پیتا ہوا دروازے کی طرف کو چلا۔ خدمتگار کاندھے پر بندوق وہ میرے عقب میں تھا اور ٹہلتا ہوا دروازے پر پہنچا ۔ دروازے پر کوئی
ریختہ صفحہ 247
ڈیڑھ سو دو سو آدمی کی جمیّعت میں وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے مجھے سلام کیا اور کہا آج تھانہ دار جی ادھر کیسے تشریف لائےمیں نے جواب دیا بھئی ہم تو تمہارے قیدی ہیں کہیں جا تو سکتے نہیں شہر میں پھر کر جی بہلاتے ہیں۔ سپاہیانِ دروازہ نے کہاتھانیدار جی تم کو کون قید کر سکتا ہے تُم پھر بھی راج کے نوکر ہو ۔یہ بھی کوئی دن کا ہلہ غلہ ہے۔ میری ان کی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ میں نے دیکھا یکایک دروازہ کے سامنے سے ایک رسالہ کا نائب رسالدار گھوڑا دوڑائے ہوئے بے تحاشہ چلا آتا ہے اور اُس کے پیچھے ہی سواران کا غٹ ہے اور اُس نے آتے ہی کمر سے تلوار کھینچ کر علم کی اور بولی قواعد کی بولی اور سب سواروں نے تلواریں کھینچ لیں نگہبان دروازہ سہمکر سکتہ کے عالم میں ہک دھک رہ گئے اور نائب رسالدار نے ڈانٹ کر دروازہ والوں سے کہا کہ خبردار اگر اپنی جا سے جنبش کی تو مارے تلواروں کے ٹکڑے اڑا دئیے جائیں گے۔جیسے بیٹھے ہو یوں ہی بیٹھے رہو۔ پھر کس کا مقدور تھا کہ چوں کر سکے۔اور افسر نے گھوڑا بڑھا کر کہا کہ آؤ مردود آ جاؤ۔ بس پھر کیا تھا ایک ریلہ سواروں کا ایسے داخل ہوا کہ دروازے میں سے بمشکل برآمد ہوئے اور سواروں کے غٹ کے غٹ چلے آتے ہیں اور سامود میں داخل ہوتے جاتے ہیں اُن کے عقب میں نقارے پر چوٹ دیتا ہوا نقارچی داخل ہوا اور احمد میاں نے آ کر مجھ سے سلام علیک کی اور پیچھے ان کے خاص رسالے آٹھوں رسالے نقاروں پر چوٹ دیتے ہوئے داخل ہو گئے ان کے عقب میں تین ہزار جاگیرداروں کا خیل داخل ہو گیا ۔ اب سامود میں تِل دھرنے کو جا نہ رہی۔ تمام شہر سواروں سے بھر گیا۔ اُس وقت احمد میاں نائب سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے کہا کہ وہ تمہارے قیدی کہاں ہیں لاؤ اُن کو میں نے کہا موجود ہیں مندر
ریختہ صفحہ 248
میں قید ہیں۔ اُسی وقت سامود میں سے ایک گاڑی بیگار میں پکڑی اور قیدیوں کو مندر سے برآمد کر کے چھکڑے پر سوار کیا اور مجھ سے کہا کہ چلو۔ میں نے کہا کہ ایک پانچ منٹ اور توقّف کیجئیے کہ میں ذرا بھائی جی کے مدارراول جی صاحب سے چل کر دو دو باتیں کر لوں احمد میاں بولے اچھا میں نے کہا ایک امر اور ہے ذرا نقارچیوں کو میرے ہمراہ کر دو۔ غرضکہ نقارے گھوڑے ہمراہ لے کر میں کامدار صاحب کے مکان پر پہنچا تو دروازہ کو تیغا لگا ہوا پایا میں نے اس وقت بآواز بلنددیا بھائی جی کا نام لے کر آواز دی کہ دروازہ کُھلوا کر مجھ سے دودو باتیں کر لو۔ ہر چند میں نے اور میرے سپاہیوں نے پکارا مگر دروازے میں سے صدائے برخواست کا عالم پایا۔ اُس وقت میں نے بہت بڑی آواز سے پکار کر کہا کہ دیا بھائی جی آپ کہتے تھے کہ بیسوں تھانہ دار چلا دئیے ہیں کسی نے آج تک ٹھکانے کی آن نہیں توڑی ہے اُس کے جواب میں مینے آپ سے کہا تھا کہ کوئی تھانہ دار نمک حلال نہ آیا ہو گا۔ ورنہ ڈنکے کی چوٹ گرفتار کر کے لے جائے گا تو دیکھ مرد جو بات زبان سے نکالتے ہیں اُسے پورا کر کے دکھا دیتے ہیں ۔ لو دیکھ لو۔ میں ڈنکے کی چوٹ ان کو گرفتار کر کے لئے جاتا ہوں اگر ہم سے چھوڑانا چاہتے ہو چھڑا لو۔یہ کہہ کر میں نے نقارچیوں کو حکم دیا ہاں بھائی اب تُم نقارے پر چوب دو ۔ یکبارگی دس بارہ نقاروں پر چوب پڑی۔ تمام شہر اور پہاڑ گونج اٹھا اور ہم سب افسر قیدیوں کو لے کر شہر سے باہر ہوئے اور شہر سے ایک کوس کے فاصلہ پر راول جی کا ایک باغ تھا وہاں جا کر فوج کا ڈیرہ کیا احمد میاں نے دیا بھائی سے کہلا بھیجا کہ اگر اپنی خیر منظور ہو تو سرکاری لشکر کے لئے بہت جلد رسد کا سامان اور بنیوں کی دکانیں روانہ کرو۔ میں نے یہ ٹھکانے کا لحاظ کیا ہے کہ فوج کو شہر کے
ریختہ صفحہ 249
باہر لے آیا ہوں۔ ورنہ سامود لُٹ جاتی۔اس پیغام کے تھوڑی دیر بعد رسد وغیرہ سب آ موجود ہوا اور لشکر نے دن بھر اپنا کھانا وانا کیا۔رات کو وہیں شب باش ہوئے صبح کو سہانے وقت کوچ ہوا گیارہ بجے دن کے مقام ہرمارہ پر جہاں میرا تھانہ تھا پہنچے۔وہاں درختوں کے سایہ میں سواروں نے آرام کیا۔گھوڑوں کو پانی پلوایا ۔ اب کچھ چنا چبینا وغیرہ جو کچھ دستیاب ہوا ، لے کر ناشتہ کیا۔ ادھر میرے آدمیوں نے ماساوال وغیرہ کی تیاری کی۔ احمد میاں اور گرداور اورتھانہ داران ہمراہی اور افسران سوار نے وہ ناشتہ کیا بعد دو بجے وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب ہم امانی شاہ پر پہنچے تو شہر کی خلقت کا ایک اژدحام پایا جیسے کوئی میلہ ہوتا ہے۔شہر کے تماشائیوں کا میلہ امانی شاہ سے لے کر حبیب چوک تک وہ اژدحام تھا کہ سواروں کو رستہ نہ ملتا تھا۔ غرضکہ ہم سب اُن قیدیوں کو لئے حبیب چوک میں پہنچے تو مہاراج صاحب اور مہاراجہ جسونت سنگھ بہادر فرمانروائے جودہ پور اُس وقت ہوا محل کے دروازہ کی سیڑھیوں کے برابر کے بُرج میں بیٹھے ہوئے منتظر تھے اور تمام اہلکار محکمہ جات حبیب چوک میں راہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے اور احمد میاں نے اور افسروں نے جا کر سلام کیا۔ مہاراجہ صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا تو کہاں جا پھنسا تھا میں نے کہا حضور سرکار کی نوکری ہے ایسا اتفاق بھی ہو جاتا ہے۔ فرمایا شاباش نمک حلال ایسے ہی ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو سپرد فوجداری کر کے جاؤ مکان پر کمر کھولو تمہاری نوکری ہو گئی۔ میں تعمیلِ حکم کر کے اور فوجداری سے رسید لے کر گھر کو روانہ ہوا اور جب لوگ اپنے اپنے قیام گاہ کو گئے۔ میں گھر پر پہنچا ہوں تو سب برّیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ دیکھتے ہی خوش ہو گئے۔ صدقے سیلے اتارے گئے۔ اسی طرح
ریختہ صفحہ 250
ایک اور معاملہ ٹھاکر گوہند سنگھ جی کے گاؤں میں واقع ہوا تھا اگر اُس کی تشریح کی جائے تو ایک دفتر ہو جائے۔ خلاصہ یہ کہ ایک سوامی کہ سب خلقت کو صاحبِ نسبت ہونے کا گُمان تھا۔ اور مہاراجہ صاحب کو اس کے ساتھ حُسنِ عقیدت بدرجہ غایت تھی اُس کی ایک بھینس چوری ہوگئی تھی اس نے خود جا کر مہاراج سے عرض کی کہ آپ کیا راج کرتے ہیں آپ سے میری ایک بھینس تو منگائی جاتی ہی نہیں۔ مہاراجہ صاحب نے سنتے ہی سپرنٹنڈنٹ پر دس روپے روز کی دستک جاری رکھنے کا حکم دیا اور ایک روپیہ یومیہ کی دستک جاری ہوئی۔ میں نے جاکر مدعی سے کہا۔کہ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی مہاراج سے کیوں فریاد کی۔ سوامی جی نے مجھ سے کہا کہ بابا تیرے بس کی بات نہیں میری بھینس بہت بڑے ٹھکانے میں گئی ہے تو نہیں لا سکتا۔ مجھے سب حقیقت معلوم ہے میں نے سوامی جی سے کہا کہ اچھا تم مجھے نشاندہی کرو میں گرفتار کر لاؤں گا سوامی جی نے کہا ایک اشتہاری مجرم کا قصور معاف کرا دے تو وہ تیرے ساتھ جا کر نشاندہی کرا دے۔ میں یہ بات سُن کر کونسل میں پہنچا اور حکام سے عرض کی کہ ایک اشتہاری مجرم کا قصور معاف کیا جائے تو مال مجرم پیدا کر سکتے ہیں چونکہ مہاراج کا حکم باور میں صادر ہو چُکا اُسی وقت معافی قصور کا پروانہ بایں شرط کہ اگر مال مجرم گرفتار کرا دے تو مجرم کا قصور معاف کیا جائے میں وہ پروانہ لے کر پھر سوامی جی کے پاس پہنچا اور سوامی نے بیجناتھ اشتہاری کو میرے سامنے بلوا کر موجود کر دیا۔ وہ مجرم میرے علاقے کا نہیں تھا غرضکہ اُس کے دوسرے دن دس سوار خاص رسالے کے میں ہمراہ لے کر روانہ ہوا۔ بیجناتھ میرے ہمراہ تھا۔ وہ ایک گاؤں جاگیر ٹھاکر گوبند سنگھ جی میں مکھے لے کر پہنچا وہ
ریختہ صفحہ 251
گاؤں جے پور سے چودہ کوس تھا۔ شام کوہم وہاں جا کر پہنچے۔ تعلقداردیہ سے سربراہ کے واسطے کہلا بھیجا گیا کہ ہم واسطے کارِ سرکار کے آئے ہیں تُم سربراہ بھجوا دو اور خود آؤ جو کچھ سرکار سے کام ہے اس کی تعمیل کرو۔ اس کے جواب میں تعلقدار نے کہلا بھیجا کہ سربراہ دینے کا ہماری سرکار سے حکم نہیں ہےاور مجھے اس وقت فرصت نہیں صبح کو ملوں گا۔پھر میں نے ایک سوار بھیج کر کہلا بھیجا کہ سربراہ نہ دو مگر حکم تو سُن جاؤ۔ کہا صبح کو آؤں گا۔ میں نے مخبر سے کہا کہ پولیس کی نشاندہی کر۔ بھینس تو گرفتار کر لی جائے بعد میں دیکھا جائے گا وہ اُٹھ کر گیا اور تھوڑی دیر میں آ کر جواب دیا کہ جس مکان میں بھینس بندھی ہوئی دیکھ گیا تھا ، اب وہاں نہیں ہے اور میں بھینس کی پونچھ پر ہاتھ پھیر کر گیا تھا۔ اور تعلقہ دار جی کو جتا کر گیا تھا کہ یہ بھینس جانے نہ پائے۔ اور یہ مجرم اور زمینداروں کو بھی کہہ گیا تھا بھینس ابھی ابھی انہوں نے یہاں سے چلا دی ہے اور اسی واسطے تعلقدار نہ آیا۔ غرضکہ اس شب کو تو گھوڑوں کا دانہ گھاس اور دیہات سے منگوا کر کیا مگر آدمی سب بھوکے پیاسے رہے صبح کو تعلقدار صاحب آئے تو دیکھتا کیا ہوں کہ بڑے موٹے تازے لحیم شحیم آدمی ہیں۔خیر سلام علیک ہو کر آکے بیٹھے مین نے اِن سے کہا کہ تعلقدار صاحب خاص مہاراجہ صاحب کا تو حکم اور میں نے اس کی تعمیل کے واسطے آپ کو بُلوایا اور آپ نے عذر کیا اس حکم عدولی کا تو مجھے جواب دیجئیے پھر اور کچھ کہوں گا جواب دیا کہ یہ نہ معلوم تھا کہ خاص حکم حضور سے ہے۔ پھر میں نے کہا وہ چوری کی بھینس اور کالی ناتھ سارق میرے حوالہ کرو۔ تعلقدار: کیسی بھینس ۔ کون کالی ناتھ۔ میں: اینجانب سدسے والے سوامی کی بھینس اور کالی ناتھ چور جس کو تم نے گاؤں میں آباد کیا اور
ریختہ صفحہ 252
جس سے چوریاں کراتے ہو اور مال حراممکا کھا کر موٹے ہوئے ہو۔ تعلقدار: کالیا کوئی ہمارے گاؤں میں نہیں آیا نہ بھینس آئی۔ میں نے مخبر سے کہا کہ جواب دے۔ بیجناتھ نے کہا کہ تعلقدار جی میں خود بھینس دیکھ کر گیا تھا اور آپ سے کہہ گیا تھا کہ بھینس جانے نہ پائے یہ چوری کی ہے اور کالیا بھی موجود تھا دونوں کے واسطے آپ سے یہ کہا تھا۔ اور تاکید کر کے گیا تھا کہ خبردار دونو جانے نہ پائیں۔
تعلقدار: جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ پھر میں نے تعلقدار سے کہا کہ تعلقدار صاحب میں آپ سے دوستانہ فہمائش کرتا ہوں کہ آپ اپنی خیر چاہیں تو بھینس منگا دیں۔ ورنہ آپ تو کیا ہیں ٹھاکر صاحب کو بُری بن جائے گی۔ یہ خاص حُکم ہے۔
تعلقدار: اجی حضرت بیسوں افسر گرائی دیکھ لئے ہیں۔ ٹھاکر صاحب پر بُری بنوانےوالا کون ہے۔ اینجانب۔ افسر گرائی کو بھی نہیں دیکھا ہو گا ارنہ اب تک کبھی کی بیڑیاں پڑ گئی ہوتیں۔
تعلقدار : انشاءاللہ اگر میں افسر گرائی ہوں تو کل اتنے وقت آپ کو زیور پہنا دوں گا۔ یہ کہہ کر میں نے گھوڑے پر چار جامے بندھوائے اور وہاں سے روانہ ہوا۔ چار بجے جے پور داخل ہوا۔ اور سیدھا کونسل میں پہنچا۔ اور مخبر اور دو سواران ہمراہی کو اپنے ساتھ لیتا گیا اور جا کر حکام کو سلام کیا۔ نواب فیض علیخاں صاحب نے پوچھا بھینس لائے میں نے ساری کیفیت بیان کی۔ سواران سے دریافت کیا انہوں نے بھی میرے بیان کی تائید کی۔ بیجناتھ مخبر کو بُلوا کر پوچھا
ریختہ صفحہ 253
کہ تُو نے بچشمِ خود بھینس کو دیکھا تھا۔ بیجناتھ مخبر خود بھینس کے پُٹھے پر ہاتھ پھیر کر تعلقدار اور زمینداران کے سپرد کر کے آیا تھا۔ اُس کا اظہار لیا گیا اُس نے اظہار میں بھی یہی بیان کیا۔ نواب صاحب کونسل سے اُٹھ کر مہاراج صاحب کے پاس گئے اور گھڑی بھر کے بعد آ کر حکم سُنایا کہ چہار دبیست جائیں اور ٹھاکر صاحب کے دھوئیں کو گھیر لیں اور کہہ دیں کہ جب تک بھینس اور کالی ناتھ مجرم جے پور نہ آئیگا آپ یہاں سے کہیں نہ جا سکینگے۔ حکم پہنچتے ہی ٹھاکر صاحب نے سوار اور شترسوار دوڑانے شروع کئے کہ دن نکلتے بھینس اور چور تعلقدار اور زمیندار مسل پٹواری سب حاضر ہو جائیں۔ کونسل سے تو یہ کاروائی ہوئی۔ میں اپنے گھر میں آ کر تھکا تھکایا کھانا کھا کر سو رہا۔ دوسرے روز صبح کو چار گھڑی دن چڑھے تک سوتا رہا۔ ہنوز نیند میں تھا کہ ہرکارہ محکمہ گرائی کا پہنچا کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب بلاتے ہیں۔ خیر منہ ہاتھ دھوئے پگڑی باندھی تلوار اور چادر بغل میں دبا کر گرائی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میر احمد علی خاں صاحب کچہری کر رہے ہیں اور وہ تعلقدار صاحب اور پٹیل پٹواری سب موجود ہیں۔میں نے جا کر سپرنٹنڈنٹ صاحب کو سلام کیا ۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے پوچھا تم سےاور تعلقدار صاحب سے کیا گفتگو ہوئی تھی۔ میں نے سب بیان کی۔
سپرنٹنڈنٹ : تم نے کیا کہا تھا
اینجانب : میں نے کہہ دیا تھا کہ اگر میں افسر گرائی ہوں تو کل آپ کو زیور پہنا دوں گا۔
سپرنٹنڈنٹ صاحب: اچھا تو یہ زیوار موجود ہے، اس میں سے جو تعلقدار صاحب کے شان کے موافق ہو وہ اُن کو پہنا دو۔ تم اپنا وعدہ پورا کرو۔ اور بیڑیاں میرے آگے
ریختہ صفحہ 254
ڈلوا دیں میں نے اس میں سے ایک بھاری ڈنڈے دار بیڑی لے کر تعلقدار صاحب کی نذر غزرانی آہنگر نے فوراً پاؤں ڈال کر حلقہ میں کیل مستحکم ٹھونک دی۔ مابقی سب زمینداروں کے بھی بیڑیاں پڑ گئیں، کچہری میں اظہارات ہونے لگے۔ آخر تعلقدار صاحب قبولے کہ وہ بھینس ٹھاکر رنجیت سنگھ جی اجرول کے گاؤں میں ہم نے چلا دی تھی اب بھی وہیں ہے۔ یہ بات سُن کر میں کونس کو پھر دوڑا گیا اور تمام کیفیت بیان کی کہ ابتک بھینس ٹھاکر رنجیت سنگھ جی حاکم کونسل کے گاؤں میں موجود ہے۔ اور ٹاھکر صاحب خود سرِ اجلاس کونسل میں موجود تھے۔ نواب فیض علیخاں صاحب بہادر نے ٹھاکر صاحب سے کہا ۔ واہ واہ ٹھاکر صاحب آپ کونسل کے سردار ہو کر چوروں کی پناہ دہی کرتے ہیں۔ ٹھاکر رنجیت سنگھ جی نے مجھ سے کہا کہ اچھا بھایا اگر میرے گاؤں میں بھینس ہو گی تو کل تیرے گھر پہنچ جائے گی، خاطر جمع کر۔ یہ سُنکر میں حکام کو سلام کر کے گھر کو آیا ۔ دوسرے دن دوپہر کو پھر مجھے گرائی میں بُلوایا گیا۔ جب میں گرائی میں پہنچا تو سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کہا کہ لو بھینس سنبھال لو اور ٹھاکر رنجیت سنگھ کے آدمیوں کو رسید لکھ دو۔میں نے رسید لکھ کر بھینس گرائی میں بھجوا دی اور کونسل میں جا کر نواب صاحب سے عرض کی کہ وہ گاؤ میش مہاراج کے اقبال سے میرے پاس آ گئی ہے۔ اب سرکار کو اختیار ہے جسے چاہے حوالہ کر دیں۔ نواب صاحب میرا اتھ پکڑ کر مہاراجہ صاحب کے پاس لے گئے۔ میں نے جا کر سلام کیا پوچھا بھینس لے آئے ۔ میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔ حضور کے اقبال سے موجود ہے۔ مہاراجہ صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ نواب صاحب میں نے پہلے آپ سے کہہ دیا تھا کہ وہ بھینس پیدا کر کے لائے گا۔ بعد حکم ہوا کہ اُس سوامی کے
ریختہ صفحہ 255
حوالہ کر کے راضی نامہ لے لو۔ سوامی جی کو بلا کر کہا کہ لو تم بھینس لو اور ٹھاکر گوبند سنگھ جی کے نام راضی نامہ کردو۔ سوامی نے راضی نامہ سے انکار کیا۔ اب ٹھاکر صاحب کے وکیل منّت کرت ہیں اور روپیہ دیتے ہیں مگر سوامی کسی طرح راضی نامہ نہیں دیتا۔ اور نہ بھینس لیتا ہے۔ ٹھاکر صاحب نہایت تنگ ہیں غرضکہ میں نے پھر سوامی سے جا کر کہا بھینس تمہاری آ گئی۔ اب تُم راضہ نامہ کیوں نہیں دیتے اُس نے کہا میری بھینس کے سینگ اور دم کاٹ ڈالی ہے۔ بچہ مار ڈالا ہے۔ میں نے کہا کہ اُسی کا تاوان اسّی روپیہ دلاتا ہوں،
سوامی: راضی نامہ نہ دینے کا ایک سبب یہ ہے مجھے کچھ بھینس کی پرواہ نہیں دس بھینس میری چوری جائیں تو میں کبھی فریاد نہ کرتا مگر میرے پاس تمام زمیندارہ کی روز فریاد آتی ہے۔ کسی کے بیل چوری ہو جاتے ہیں کسی کا اونٹ کسی کی بھینس۔ کسی کا غلّہ۔ جب میں نے تنگ آ کر نالش کی ہے جب تک زمیندارہ کی چوری کا بندوبست نہیں ہو گا میں راضی نامہ ہر گز نہ دوں گا۔ یہ کالیا مینہ جس نے میری بھینس چورائی ہےیہی چوری کرتا پھرتا ہے۔ اور کہور کے قصبہ کے اردگرد دیہات میں چوری کرتا ہے۔ اور گاؤں والوں کو تنگ کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قصبہ کہور کے چوکیدارہ میں وہ بھی شامل ہے اس کے بھائی بندوں نے اُسے وراثت سے خارج کر کے نکال دیا۔ اُس کی جو جائداد اور آمدنی۔ غلّہ وغیرہ ہل پیچھے مقرر تھی وہ اوروں نے چھین لی۔ اب وہ انکے چوکیدارہ سے جو دیہات ہیں وہ ان کو لوٹتا ہے اور بڑے بڑے حمایتی دیہات میں رکھتا ہے کبھی علاقہ الور میں بیٹھکر چوری کرتا ہے یا تو سرکار اُسے گرفتار کرے یا اُس کو بٹھا کر اُس کا حصّہ دلائے کہ وہ چوری نہ کرے اور رعیّت
آخری تدوین: