ایس ایس ساگر
لائبریرین
صفحہ 74
پیشگاہ حضور پر نور سے امیر فتح علی اور حمید خاں کو حکم ہوا کہ اپنی جمیت لیجاؤ پُل توڑ دو۔ کشتیاں کھینچ لو۔ کہ فوج اُترنے نہ پاوے۔ دروازہ شہر پناہ کے بند کرا دو۔ سواروں کو روانہ کرو کہ بری صاحب کو لے کر جلد حاضر ہوں اور تمام ملا زمانِ شاہی ازکع تامہ کو حکم حضوری دربار پہنچ جائے۔ کوتوال شہر کو حکم پہنچے کہ دروازہ شہر کا پورا پورا بندوبست رکھے۔ کلکتہ دروازہ پر بذاتِ خود حاضر رہے۔ قلعہ دار صاحب کو حکم پہنچا دو کہ دروازہ قلعہ کی پوری پوری حفاظت رکھیں۔ سوار کو رخصت نوکری والے جلد گھوڑے دوڑا کر شہر میں داخل ہو کر دروازہ راج گھاٹ معمور کرا دیں۔
حسب الحکم تفاشیم فوراً تعمیل حکم ہو گئی۔ سوار جا بجا روانہ ہو گئے مگر یہاں سے جو جمعیت شکست پُل کے واسطے روانہ ہوئی تھی اُس کو حصولِ مطلب میں ناکامی حاصل ہوئی اور بے نیل مرام واپس آنا پڑا۔ ہنوز یہ سلیم گڑھ کے نیچے تھے کہ سامنے ملک الموت کی طرح سوار آتے دکھائی دئیے۔ یہ پُل تک نہ پہنچنے پائے اور وہ پُل کے ادھر اُتر آئے وہاں سے بہزار خرابی اُفتاں و خیزاں گریزاں سوارانِ باغیہ کے آتے آتے انہوں نے جھروکہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ لیا۔ چھتہ میں داخل ہو کر دروازہ ڈیوڑھی معمور کر دیا اور دیوانِ خاص اور تسبیخانہ میں حاضر ہو گئے۔ مگر حضرت قدر قدرت ظلّ اللہ بادشاہ رعیّت پناہ کمال جُرات و تہور کو فرما کے نہایت اوسان اور استقلال سے بجائے خود جس طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 71) مارچ 1857ء میں انگریزوں کو بھی شبہ ہوا کہ اہل قلعہ کا تعلق شاہ فارس سے ہے۔ انہیں ایّام میں جامع مسجد دہلی کے دروازے پر ایک اشتہار چسپاں کیا گیا۔ جس میں شاہِ فارس کے حملہ کی اطلاع دی گئی تھی۔ اشتہارہ ہندہ کا نام محمد صادق لکھا تھا اخبارات میں اس اشتہار کا بہت چرچا ہوا۔ آخر مئی 1857ء میں میرٹھ چھاؤنی میں بہت جوش پھیل گیا۔ (نظؔیر)
پیشگاہ حضور پر نور سے امیر فتح علی اور حمید خاں کو حکم ہوا کہ اپنی جمیت لیجاؤ پُل توڑ دو۔ کشتیاں کھینچ لو۔ کہ فوج اُترنے نہ پاوے۔ دروازہ شہر پناہ کے بند کرا دو۔ سواروں کو روانہ کرو کہ بری صاحب کو لے کر جلد حاضر ہوں اور تمام ملا زمانِ شاہی ازکع تامہ کو حکم حضوری دربار پہنچ جائے۔ کوتوال شہر کو حکم پہنچے کہ دروازہ شہر کا پورا پورا بندوبست رکھے۔ کلکتہ دروازہ پر بذاتِ خود حاضر رہے۔ قلعہ دار صاحب کو حکم پہنچا دو کہ دروازہ قلعہ کی پوری پوری حفاظت رکھیں۔ سوار کو رخصت نوکری والے جلد گھوڑے دوڑا کر شہر میں داخل ہو کر دروازہ راج گھاٹ معمور کرا دیں۔
حسب الحکم تفاشیم فوراً تعمیل حکم ہو گئی۔ سوار جا بجا روانہ ہو گئے مگر یہاں سے جو جمعیت شکست پُل کے واسطے روانہ ہوئی تھی اُس کو حصولِ مطلب میں ناکامی حاصل ہوئی اور بے نیل مرام واپس آنا پڑا۔ ہنوز یہ سلیم گڑھ کے نیچے تھے کہ سامنے ملک الموت کی طرح سوار آتے دکھائی دئیے۔ یہ پُل تک نہ پہنچنے پائے اور وہ پُل کے ادھر اُتر آئے وہاں سے بہزار خرابی اُفتاں و خیزاں گریزاں سوارانِ باغیہ کے آتے آتے انہوں نے جھروکہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ لیا۔ چھتہ میں داخل ہو کر دروازہ ڈیوڑھی معمور کر دیا اور دیوانِ خاص اور تسبیخانہ میں حاضر ہو گئے۔ مگر حضرت قدر قدرت ظلّ اللہ بادشاہ رعیّت پناہ کمال جُرات و تہور کو فرما کے نہایت اوسان اور استقلال سے بجائے خود جس طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 71) مارچ 1857ء میں انگریزوں کو بھی شبہ ہوا کہ اہل قلعہ کا تعلق شاہ فارس سے ہے۔ انہیں ایّام میں جامع مسجد دہلی کے دروازے پر ایک اشتہار چسپاں کیا گیا۔ جس میں شاہِ فارس کے حملہ کی اطلاع دی گئی تھی۔ اشتہارہ ہندہ کا نام محمد صادق لکھا تھا اخبارات میں اس اشتہار کا بہت چرچا ہوا۔ آخر مئی 1857ء میں میرٹھ چھاؤنی میں بہت جوش پھیل گیا۔ (نظؔیر)