مزمل شیخ بسمل
محفلین
داغِ غم روز ازل ہی مل گیا
تن میں جان آنے سے پہلے دل گیا
کوچۂ قاتل میں اپنا دل گیا
خاک میں ملنے کا رستہ مل گیا
خواب میں آنکھیں جو تلووں سے ملیں
بولے اُف اٗف پاؤں میرا چھل گیا
اٹھ کہ جا بیٹھا جو ان کے پاس میں
بولے کچھ مل بیٹھنے سے مل گیا؟
مسکرانے میں کھلا کیا وہ دہن
غنچۂ تصویر گویا کھل گیا
مانگنے پر بوسہ کیا کاٹی زبان
اب دعا دینے سے بھی سائل گیا
کیا ملا مجھ کو ملا کر خاک میں
ہاں لقب عاشق کشی کا مل گیا
وائے قسمت غافل آیا میں امیرؔ
عمر بھر غافل رہا غافل گیا