رضوان

محفلین
نواب مرزا خان داغ (1831ء۔۔۔۔۔1905ء)

پورا نام نواب مرزا خان اور تخلص داغ ہے۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابھی چھ سال کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خان کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادرشاہ ظفر کے بیٹےمرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلیٰ میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں کے شاگرد تھے۔ لہذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔داغ کی زبان سنوارنے میں ذوق کا یقینا بڑا حصہ ہے۔

جنگ آزادی کے بعد رام پور چلے گئے جہاں انہیں منی بائی حجاب سے محبت ہو گئی ۔ اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ اس معاشقہ کے وقت داغ کی عمر پچاس برس تھی۔

نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد چلے گئے جہاں انہیں دبیر الدولہ، فصیح الملک ، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ فالج کی وجہ سے حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔

زمانہ نے داغ کی خوب قدر کی اور خط و کتابت کے ذریعہ سے تمام ہندوستان سے غزلیں اصلاح کےلیے آتی تھیں۔اقبال نے بھی اسی طرح غزلیں اصلاح کے لیے روانہ کیں۔

داغ کو دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو بلحاظ زبان کہ ان کے ساتھ دہلی اور بالخصوص قلعہ کا روزمرہ ختم ہوگیااور دوسرے لکھنوی شاعری کے آخری اثرات ان کی ذات میں جمع ہو گئے۔ گویا داغ کی غزل میں دہلی اور لکھنو کا امتزاج ہے۔ عشق و عاشقی ان کے لیے ایک سنجیدہ، متین یا مہذب طرز عمل نہیں بلکہ کھیلنے اور چسکے کی چیز ہے۔ انہیں نہ احترام عشق ہے اور نہ پاس ناموس، بس اپنا مطلب نکالنے سے غرض ہے۔ اسی لیے محبوب سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ عاشق جو مومن کے ہاں محض ہرجائی تھا و داغ کے ہاں ہوس پرست بلکہ رنڈی باز کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے ابتذال ، عریانی اور فحاشی سبھی کچھ موجود ہے۔ زبان میں صفائی کے ساتھ ساتھ محاورہ بندی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ جو کہ استاد ذوق کا اثر ہے۔

ان کی چند نمائندہ غزلیں درج ذیل ہیں۔




يہاں بھي تو وہاں بھي تو زميں تيري فلک تيرا
کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا

صفات و ذات ميں يکتا ہے تو اے واحد مطلق
نہ کوئي تيرا ثاني کوئي مشترک تيرا

جمال احمد و يوسف کو رونق تونے بخشي ہے
ملاحت تجھ سے شيريں حسن شيريں ميں نمک تيرا

ترے فيض و کرم سے نارو نور آپس ميں يکدل ہيں
ثنا گر يک زبان ہر ايک ہے جن و ملک تيرا

کسي کو کيا خبر کيوں شر پيدا کئے تونے
کہ جو کچھ ہے خدائ ميں وہ ہے لاريب کيئے تونے

نہ جلتا طور کيونکر کس طرح موسي نہ غش کھاتے
کہاں يہ تاب و طاقت جلوہ ديکھئے مر ديک تيرا

دعا يہ ہے کہ وقت مرگ اسکي مشکل آساں ہو
زباں پر داغ کے نام آئے يارب يک بہ يک تيرا
 

رضوان

محفلین
تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا
يا نبي خوب ہوا خوب ہوا خوب ہوا

شب معراج يہ کہتے تھے فرشتے باہم
سخن طالب و مطلوب ہوا خوب ہوا

حشر ميں امت عاصي کا ٹھکانا ہي نہ تھا
بخشوانا تجھے مر غوب ہوا خوب ہوا

تھا سبھي پيش نظر معرکہ کرب و بلا
صبر ميں ثاني ايوب ہوا خوب ہوا

داغ ہے روز قيامت مري شرم اسکے ہاتھ
ميں گناہوں سے جو محجوب ہوا خوب ہوا​
 

رضوان

محفلین
ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھا

نہ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھا

نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھا

پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کليم ديکھوں تو جب بھي خوش تھے
ہم اس کي آنکھوں کے صدقے جس نے وہ جلوہ يوں بے حجاب ديکھا

يہ دل تو اے عشق گھر ہے تيرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تالا ديکھا ، تجھي کو خانہ خراب ديکھا

جو تجھ کو پايا تو کچھ نہ پايا، يہ خاکداں ہم نے خاک پايا
جو تجھ کو ديکھا تو کچھ نہ ديکھا ، تما م عالم خراب ديکھا
 

رضوان

محفلین
بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہيں
ہم بھي ديکھيں تو اسے ديکھ کے کيا کہتے ہيں

ہم تصور ميں بھي جو بات ذرا کہتے ہيں
سب ميں اڑ جاتي ہے ظالم اسے کيا کہتے ہیں

جو بھلے ہيں وہ بروں کو بھي بھلا کہتے ہيں
نہ برا سنتے ہيں اچھے نہ برا کہتے ہيں

وقت ملنے کا جو پوچھا تو کہا کہہ ديں گے
غير کا حال جو پوچھا تو کہا کہتے ہيں

نہيں ملتا کسي مضمون سے ہمارا مضمون
طرز اپني ہے جدا سب سے جدا کہتے ہيں

پہلے تو داغ کي تعريف ہوا کرتي تھي
اب خدا جانے وہ کيوں اس کو برا کہتے ہيں
 

رضوان

محفلین
کعبے کي سمت جا کے مرا دھيان پھر گيا
اس بت کو ديکھتے ہي بس ايمان پھر گيا

محشر میں داد خواہ جو اے دل نہ تو ہوا
تو جان لے يہ باتھ سے ميرا پھر گيا

چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ ميرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گيا

رونق جو آ گئي پسينے سے موت کے
پاني ترے مريض پر اک آن پھر گيا

گريے نے ايک دم ميں بنا دي وہ گھر کي شکل
ميري نظر ميں صاف بيابان پھر گيا

لائے تھے کوئے يار سے ہم داغ کو ابھي
لو اس کي موت آئي وہ نادان پھر گيا
 

رضوان

محفلین
غضب کيا تيرے وعدے کا اعتبار کيا
تمام رات قيامت کا انتظار کيا

کسي طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کيا
مري وفا نے مجھے خوب شرمسار کيا

وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال انديش
انہوں نے وعدہ کيا اس نے اعتبار کيا

نہ اس کے دل سے مٹايا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پريشاں مرا غبار کيا

تري نگاہ کے تصور ميں ہم نے اے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھري کو پيار کيا

ہوا ہے کوئي مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے ترا شيوہ اختيار کيا

نہ پوچھ دل کي حقيقت مگر يہ کہتے ہيں
وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کيا

وہ بات کر جو کبھي آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کيا تو بڑا تو نے افتخار کيا
 

رضوان

محفلین
خواب ميں بھي نہ کسي شب وہ ستم گر آيا
وعدہ ايسا کوئي جانے کہ مقرر آيا

مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کي توبہ
لے ليا دوڑ کے جب سامنے ساغر آيا

غير کے روپ ميں بھيجاہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نيا بھيس بدل کر آيا

سخت جاني سے مري جان بچے گي کب تک
ايک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آيا

داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے ليا عشق ميں جو ہم کو ميسر آيا

عشق تاثير ہي کرتا ہے کہ اس کافر نے
جب مرا حال سنا سنتے ہي جي بھر آيا

اس قدر شاد ہوں گويا کہ ملي ہفت اقليم
آئينہ ہاتھ ميں آيا کہ سکندر آيا

وصل ميں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک ديکھ تو يہ کون مرے گھر آيا

راہ ميں وعدہ کريں جاؤں ميں گھر پر تو کہيں
کون ہے، کس نے بلايا اسے، کيونکر آيا

داغ کے نام سے نفرت ھے، وہ جل جاتے ھيں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آيا
 

رضوان

محفلین
اب دل ہے مقام بے کسي کا
يوں گھر نہ تباہ ہو کسي کا

کس کس کو مزا ہے عاشقي کا
تم نام تو لو بھلا کسي کا

پھر ديکھتے ہيں عيش آدمي کا
بنتا جو فلک مير خوشي کا

گلشن ميں ترے لبوں نے گويا
رس چوم ليا کلي کلي کا

ليتے نہيں بزم ميں مرا نام
کہتے ہيں خيال ہے کسي کا

جيتے ہيں کسي کي آس پر ہم
احسان ہے ايسي زندگي کا

بنتي ہے بري کبھي جو دل پر
کہتا ہوں برا ہو عاشقي کا

ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہيں
منہ پر نہیں نام بھي ہنسي کا

اتنا ہي تو بس کسر ہے تم ميں
کہنا نہيں مانتے کسي کا

ہم بزم ميں ان کي چپکے بيٹھے
منہ ديکھتے ہيں ہر آدمي کا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنيمت
سارا سودا ہے جيتے جي کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمي کا

روکيں انہيں کيا کہ ہے غنيمت
آنا جانا کبھي کبھي کا

ايسے سے جو داغ نے نباہي
سچ ہے کہ يہ کام تھا اسي کا
 

رضوان

محفلین
يہ قول کسي کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

يہ قول کسي کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
وہ کچھ نہيں کہتا ہے کہ ميں کچھ نہیں کہتا

سن سن کر ترے عشق ميں اغيار کے طعنے
مير اہي کليجا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

ان کا يہي سننا ہے کہ وہ کچھ نہيں سنتے
ميرا يہي کہنا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

خط ميں مجھے اول تو سنائي ہيں ہزاروں
آخر ميں يہ لکھا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

پھٹتا ہے جگر ديکھ کے قاصد کي مصيبت
پوچھوں تو يہ کہتا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

يہ خوب سمجھ ليجئے غمار وہي ہے
جو آپ سے سے کہتا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

تم کو يہي شاياں ہے کہ تم ديتے ہو دشنام
مجھ کو يہي زيبا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

مشتاق بہت ہيں مرے کہنے کے پر اے داغ
يہ وقت ہي ايسا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
 

رضوان

محفلین
ديکھو جو مسکراکے تم آغوش نقش پا
گستاخيوں کرے لب خاموش نقش پا

پائي مرے سراغ سے دشمن نے راہ دوست
اے بيخودي مجھے نہ رہا ہوش نقش پا

ميں خاکسار عشق ہوں آگاہ راز عشق
ميري زباں سے حال سنے گوش نقش پا

آئے بھي وہ چلے بھي گئے مري راہ سے
ميں نا مراد والہ و مدہوش نقش پا

يہ کون ميرے کوچہ سے چھپ کر نکل گيا
خالي نہيں ہے فتنوں سے آغوش نقش پا

يہ داغ کي تو خاک نہيں کوئے يار ميں
اک نشہ وصال ہے آغوش نقش پا
 

رضوان

محفلین
زباں ہلاؤ تو ہو جائے فيصلہ دل کا
اب آ چکا ہے لبوں پر معاملہ دل کا

خدا کے واسطے کر لو معاملہ دل کا
کہ گھر کے گھر ہي ميں ہو جائے فيصلہ دل کا

تم اپنے ساتھ ہي تصوير اپني لے جاؤ
نکال ليں گے کوئي اور مشغلہ دل کا

قصور تيري نگہ کا ہے کيا خطا اس کي
لگاوٹوں نے بڑھا يا ہے حوصلہ دل کا

شباب آتے ہي اسے کاش موت بھي آتي
ابھارتا ہے اسي سن ميں ولولہ دل کا

جو منصفي ہے جہاں ميں تو منصفي تيري
اگر معاملہ ہے تو معاملہ دل کا

ملي بھي ہے کبھي عاشقي کي داد دنيا ميں
ہوا بھي ہے کبھي کم بخت فيصلہ دل کا

ہماري آنکھ ميں بھي اشک گرم ايسے ہيں
کہ جن کے آگے بھرے پاني آبلہ دل کا

ہوا نہ اس سے کوئي اور کانوں کان خبر
الگ الگ ہي رہا سب معاملہ دل کا

اگر چہ جان پہ بن بن گئي محبت ميں
کسي کے منہ پر نہ رکھا غلہ دل کا

ازل سے تا بہ ابد عشق ہے اس کے لئے
ترے مٹائے مٹے گا نہ سلسلہ دل کا

کچھ اور بھي تجھے اے داغ بات آتي ہے
وہي بتوں کي شکايت وہي گلہ دل کا
×××××××××××××××××××××××××××××××××
بنتي ہے بري کبھي جو دل پر
کہتا ہون برا ہو عاشقي کا

ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہيں
منہ پر نہیں نام بھي ہنسي کا

اتنا ہي تو بس کسر ہے تم ميں
کہنا نہيں مانتے کسي کا

ہم بزم ميں ان کي چپکے بيٹھے
منہ ديکھتے ہيں ہر آدمي کا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنيمت
سارا سودا ہے جيتے جي کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمي کا

روکيں انہيں کيا کہ ہے غنيمت
آنا جانا کبھي کبھي کا

ايسے سے جو داغ نے نباہي
سچ ہے کہ يہ کام تھا اسي کا

 

رضوان

محفلین

آئينہ تصوير کا تيرے نہ لے کر رکھ ديا
بو سے لينے کيلئے کعبے ميں پتھر رکھ ديا

ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ ديا
پھر کليجا رکھ ديا دل رکھ ديا سر رکھ ديا

زندگي ميں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر ميں تنہا مجھے ياروں نے کيونکر رکھ ديا

ديکھئے اب ٹھوکريں کھاتي ہے کس کس کي نگاہ
روزن ديوار ميں ظالم نے پتھر رکھ ديا

زلف خالي ہاتھ خالي کس جگہ ڈھونڈيں اسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ ديا

داغ کي شامت جو آئي اضطراب شوق ميں
حال دل کمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ ديا
 

رضوان

محفلین
کس نے کہا کہ داغ وفا دار مرگيا
وہ ہاتھ مل کے کہتے ہيں کيا يار مر گيا

دام بلائے عشق کي وہ کشمکش رہي
اک ايک پھڑک پھڑک کے گرفتار مرگيا

آنکھيں کھلي ہوئي پس مرگ اس لئے
جانے کوئي کہ طالب ديدار مرگيا

جس سے کيا ہے آپ نے اقرار جي گيا
جس نے سنا ہے آپ سے انکار مرگيا

کس بيکسي سے داغ نے افسوس جان دي
پڑھ کر ترے فراق کے اشعار مرگيا
 

رضوان

محفلین

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کرکے مجھے ہر کسي سے پوچھتے ہيں
يہ کام کس نے کيا ہے يہ کام کس کا تھا

وفا کريں گے نباہيں گے بات مانيں گے
تمہيں بھي ياد ہے کچھ يہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا

اگر چہ ديکھنے والے ترے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زير بام کس کا تھا

ہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرہء نا تمام کس کا تھا

گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہيں داغ بے وفا نکا
يہ پوچھے ان سے کوئي يہ غلام کس کا تھا

 

رضوان

محفلین
کيا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ ديکھوں
پھر بھي يہ کہوں جلوہ جاناں نہيں ديکھا

محشر ميں وہ نادم ہوں خدا يہ نہ دکھائے
آنکھوں نے کبھي اس کو پشيماں نہيں ديکھا

ہر چند ترے ظلم کي کچھ حد نہيں ظالم
پر ہم نے کسي شخص کو نالاں نہيں رکھا

ملتا نہيں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا
تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہيں ديکھا

لو اور سنو کہتے ہيں وہ ديکھ کے مجھ کو
جو حال سنا تھا وہ پريشان نہيں ديکھا

کيا پوچھتے ہو کون ہے يہ کس کي ہے شہرت
کيا تم نے کبھي داغ کا ديوان نہيں ديکھا
 

رضوان

محفلین
محبت ميں کرے کيا کچھ کسي سے ہو نہيں سکتا
مرا مرنا بھي تو ميري خوشي سے ہو نہيں سکتا

کيا ہے وعدہ فردا انہوں نے ديکھئے کيا ہو
يہاں صبر و تحمل آج ہي سے ہو نہيں سکتا

چمن ميں ناز بلبل نے کيا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کيا کہتي ہے ہو نہيں سکتا

نہ رونا ہے طريقہ کا نہ ہنسنا ہے سليقےکا
پريشاني ميں کوئي کیا جي سکے ہو نہيں سکتا

ہوا ہوں اس قدر محجوب عرض مدعا کرکے
اب تو عذر بھي شرمندگي سے ہو نہيں سکتا

خدا جب دوست ہے اے داغ کيا دشمن سے انديشہ
ہمارا کچھ کسي کي دشمني سے ہو نہيں سکتا
 

رضوان

محفلین
لے چلا جان مري روٹھ کے جانا تيرا
ايسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تيرا

تو جو اے زلف پريشان رہا کرتي ہے
کس کے اجڑے ہوئے دل ميں ہے ٹھکانا تيرا

اپني آنکھوں ميں کوند گئي بجلي سي
ہم نہ سمجھے کہ يہ آنا ہے کہ جانا تيرا
 

رضوان

محفلین
ستم ہي کرنا جفا ہي کرنا نگاہ الفت کبھي نہ کرنا
تمھيں قسم ہے ہمارے سر کي ہمارے حق ميں کمي نہ کرنا

ہماري ميت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا رہے پاس آبرو بھي نہيں ہماري ہنسي نہ کرنا

کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہي نہيں يہ رسميں
وہاں ہے وعدے کي بھي يہ صورت کبھي تو کرنا کبھي نہ کرنا

نہيں ہے کچھ قتل انکا آساں يہ سخت جاں ہيں بري بلا کے
قضا کو پہلے شريک کرنا يہ کام اپني خوشي نہ کرنا

مري تو ہے بات زہران کو وہ ان کے مطلب ہي کي نہ کيوں ہو
کہ ان سے جو التجا سے کہنا غضب ہے ان کو وہي نہ کرنا

وہ ہے ہمارا طريق الفت کہ دشمنوں سے بھي مل کے چلنا
يہ ايک شيوہ ترا ستمگر کہ دوست سے دوستي نہ کرنا

ہم ایک رستہ گلي کا اس کي دکھا کے اس کو ہوئے پشيماں
يہ حضرت خضر کو جتا دو کسي کي تم رہبري نہ کرنا

بياں درد فراق کيا کہ ہے وہاں اپني يہ حقيقت
جو بات کرني تو نالہ کرنا نہيں تو وہ بھي کبھي نہ کرنا

مدار ہے نا صحو تمھي پر تمام اب اس کي منصفي کا
ذرا تو کہنا خدا لگي بھي فقط سخن پروري نہ کرنا
 

ساجداقبال

محفلین
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

ارے آپ نے داغ کی ایک بہت اچھی غزل تو شامل ہی نہیں کی، چلیں میں ہی شامل کر دیتا ہوں۔

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا

ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
 

محمد وارث

لائبریرین
اصل پوسٹ

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں

شمع رُو آپ گو ہوئے لیکن
لطفِ سوز و گداز کیا جانیں

کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں

جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب
یہ مزہ پاک باز کیا جانیں

حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں

جن کو اپنی خبر نہیں اب تک
وہ مرے دل کا راز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
 
Top