رضوان
محفلین
نواب مرزا خان داغ (1831ء۔۔۔۔۔1905ء)
پورا نام نواب مرزا خان اور تخلص داغ ہے۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابھی چھ سال کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خان کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادرشاہ ظفر کے بیٹےمرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلیٰ میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں کے شاگرد تھے۔ لہذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔داغ کی زبان سنوارنے میں ذوق کا یقینا بڑا حصہ ہے۔
جنگ آزادی کے بعد رام پور چلے گئے جہاں انہیں منی بائی حجاب سے محبت ہو گئی ۔ اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ اس معاشقہ کے وقت داغ کی عمر پچاس برس تھی۔
نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد چلے گئے جہاں انہیں دبیر الدولہ، فصیح الملک ، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ فالج کی وجہ سے حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔
زمانہ نے داغ کی خوب قدر کی اور خط و کتابت کے ذریعہ سے تمام ہندوستان سے غزلیں اصلاح کےلیے آتی تھیں۔اقبال نے بھی اسی طرح غزلیں اصلاح کے لیے روانہ کیں۔
داغ کو دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو بلحاظ زبان کہ ان کے ساتھ دہلی اور بالخصوص قلعہ کا روزمرہ ختم ہوگیااور دوسرے لکھنوی شاعری کے آخری اثرات ان کی ذات میں جمع ہو گئے۔ گویا داغ کی غزل میں دہلی اور لکھنو کا امتزاج ہے۔ عشق و عاشقی ان کے لیے ایک سنجیدہ، متین یا مہذب طرز عمل نہیں بلکہ کھیلنے اور چسکے کی چیز ہے۔ انہیں نہ احترام عشق ہے اور نہ پاس ناموس، بس اپنا مطلب نکالنے سے غرض ہے۔ اسی لیے محبوب سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ عاشق جو مومن کے ہاں محض ہرجائی تھا و داغ کے ہاں ہوس پرست بلکہ رنڈی باز کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے ابتذال ، عریانی اور فحاشی سبھی کچھ موجود ہے۔ زبان میں صفائی کے ساتھ ساتھ محاورہ بندی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ جو کہ استاد ذوق کا اثر ہے۔
ان کی چند نمائندہ غزلیں درج ذیل ہیں۔
پورا نام نواب مرزا خان اور تخلص داغ ہے۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابھی چھ سال کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خان کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادرشاہ ظفر کے بیٹےمرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلیٰ میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں کے شاگرد تھے۔ لہذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔داغ کی زبان سنوارنے میں ذوق کا یقینا بڑا حصہ ہے۔
جنگ آزادی کے بعد رام پور چلے گئے جہاں انہیں منی بائی حجاب سے محبت ہو گئی ۔ اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ اس معاشقہ کے وقت داغ کی عمر پچاس برس تھی۔
نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد چلے گئے جہاں انہیں دبیر الدولہ، فصیح الملک ، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ فالج کی وجہ سے حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔
زمانہ نے داغ کی خوب قدر کی اور خط و کتابت کے ذریعہ سے تمام ہندوستان سے غزلیں اصلاح کےلیے آتی تھیں۔اقبال نے بھی اسی طرح غزلیں اصلاح کے لیے روانہ کیں۔
داغ کو دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو بلحاظ زبان کہ ان کے ساتھ دہلی اور بالخصوص قلعہ کا روزمرہ ختم ہوگیااور دوسرے لکھنوی شاعری کے آخری اثرات ان کی ذات میں جمع ہو گئے۔ گویا داغ کی غزل میں دہلی اور لکھنو کا امتزاج ہے۔ عشق و عاشقی ان کے لیے ایک سنجیدہ، متین یا مہذب طرز عمل نہیں بلکہ کھیلنے اور چسکے کی چیز ہے۔ انہیں نہ احترام عشق ہے اور نہ پاس ناموس، بس اپنا مطلب نکالنے سے غرض ہے۔ اسی لیے محبوب سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ عاشق جو مومن کے ہاں محض ہرجائی تھا و داغ کے ہاں ہوس پرست بلکہ رنڈی باز کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے ابتذال ، عریانی اور فحاشی سبھی کچھ موجود ہے۔ زبان میں صفائی کے ساتھ ساتھ محاورہ بندی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ جو کہ استاد ذوق کا اثر ہے۔
ان کی چند نمائندہ غزلیں درج ذیل ہیں۔
يہاں بھي تو وہاں بھي تو زميں تيري فلک تيرا
کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا
صفات و ذات ميں يکتا ہے تو اے واحد مطلق
نہ کوئي تيرا ثاني کوئي مشترک تيرا
جمال احمد و يوسف کو رونق تونے بخشي ہے
ملاحت تجھ سے شيريں حسن شيريں ميں نمک تيرا
ترے فيض و کرم سے نارو نور آپس ميں يکدل ہيں
ثنا گر يک زبان ہر ايک ہے جن و ملک تيرا
کسي کو کيا خبر کيوں شر پيدا کئے تونے
کہ جو کچھ ہے خدائ ميں وہ ہے لاريب کيئے تونے
نہ جلتا طور کيونکر کس طرح موسي نہ غش کھاتے
کہاں يہ تاب و طاقت جلوہ ديکھئے مر ديک تيرا
دعا يہ ہے کہ وقت مرگ اسکي مشکل آساں ہو
زباں پر داغ کے نام آئے يارب يک بہ يک تيرا
کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا
صفات و ذات ميں يکتا ہے تو اے واحد مطلق
نہ کوئي تيرا ثاني کوئي مشترک تيرا
جمال احمد و يوسف کو رونق تونے بخشي ہے
ملاحت تجھ سے شيريں حسن شيريں ميں نمک تيرا
ترے فيض و کرم سے نارو نور آپس ميں يکدل ہيں
ثنا گر يک زبان ہر ايک ہے جن و ملک تيرا
کسي کو کيا خبر کيوں شر پيدا کئے تونے
کہ جو کچھ ہے خدائ ميں وہ ہے لاريب کيئے تونے
نہ جلتا طور کيونکر کس طرح موسي نہ غش کھاتے
کہاں يہ تاب و طاقت جلوہ ديکھئے مر ديک تيرا
دعا يہ ہے کہ وقت مرگ اسکي مشکل آساں ہو
زباں پر داغ کے نام آئے يارب يک بہ يک تيرا