دامِ ظلمت سے مرے دل کو چھڑایا جائے

ابن رضا

لائبریرین
عرض کیا ہے

دامِ ظلمت سے مرے دل کو چھڑایا جائے
کوئی مہتاب لبِ بام بلایا جائے

حسرتِ دید کا اتنا سا تقاضا ہے فقط
رُخ سے چلمن کو بہر طور ہٹایا جائے

اُن کا یوں صرفِ نظر کرنا سر آنکھوں پر ہے
ہاں مگر اس کا سبب بھی تو بتایا جائے

ٹوٹ جائے نہ کہیں عزمِ شکیبائی مرا
کب تلک آپ کو احساس دلایا جائے؟

وہ اگر ترکِ مراسم پہ ہی آمادہ ہیں
تو یہ فرمان سرِ بزم سنایا جائے

لوگ بے لوث محبت کا سبق بھول چکے
اشک اب خونِ وفا پر نہ بہایا جائے

میں نے پہلے ہی کئی زخمِ کہن پالے ہیں
دوستو اور نہ اب مجھ کو ستایا جائے

آپ لاتے جو نہیں ہم کو رضاؔ خاطر میں
کیوں نہ پھر آپ کو آئینہ دِکھایا جائے

برائے توجہ اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب
الف عین صاحب
و دیگر احباب

http://www.aruuz.com/mypoetry/poetry/1223
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ ۔بہت اچھے ۔۔۔۔رضا بھائی ۔
آمادہ کا "مد" یہاں "ہ" سے زیادہ قیمتی لگ رہا ہے۔ "وہ ہے آمادہ" ۔ کر کے دیکھیں ۔لفظی اعتبار سے شاید بہتر لگے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
واہ ۔بہت اچھے ۔۔۔۔رضا بھائی ۔
آمادہ کا "مد" یہاں "ہ" سے زیادہ قیمتی لگ رہا ہے۔ "وہ ہے آمادہ" ۔ کر کے دیکھیں ۔لفظی اعتبار سے شاید بہتر لگے۔
پسند آوری کا شکریہ!
درست فرمایا سید بادشاہ، سلامت رہیے۔


وہ ہے آمادہ اگر ترکِ مراسم کے لیے​
وہ اگر ترکِ مراسم پہ کمر بستہ ہیں
تَو یہ فرمان سرِ بزم سنایا جائے
 
آخری تدوین:
دامِ ظلمت سے مرے دل کو چھڑایا جائے
کوئی مہتاب لبِ بام بلایا جائے
جتنی اچھی غزل کہی ہے، مطلع بھی تو اتنا بلکہ اس سے بڑھ کر اچھا کہئے نا! بادی النظر میں یہ شعر خوب ہے مگر پوری غزل کے تناظر میں اس کو خوب تر ہونا چاہئے۔
 
حسرتِ دید کا اتنا سا تقاضا ہے فقط
رُخ سے چلمن کو بہر طور ہٹایا جائے
حسرت کا کوئی تقاضا نہیں ہوتا۔ یوں کہئے کہ "آرزو کی بھی آرزو نہ رہی" وہ حسرت ہوتی ہے۔
"اتنا سا" اور "بہر طور" آپس میں لگا نہیں کھا رہے۔ "کسی طور" کو دیکھ لیجئے۔
 
اُن کا یوں صرفِ نظر کرنا سر آنکھوں پر ہے
ہاں مگر اس کا سبب بھی تو بتایا جائے
پہلے مصرعے میں زبان کی لطافت پر لفظ "ہے" اثر انداز ہو رہا ہے۔ یہاں "پہ مگر" اچھا لگتا مگر وہ مصرع ثانی میں آ گیا ہے۔
مضمون اچھا ہے، الفاظ کی دروبست میں تھوڑی بہت تبدیلی کرنے سے مضمون کی چستی بھی بڑھ سکتی ہے اور لطافتِ بیان بھی۔
 
ٹوٹ جائے نہ کہیں عزمِ شکیبائی مرا
کب تلک آپ کو احساس دلایا جائے؟
شکیبائی اور عزم ملتی جلتی بات ہے، سلیس زبان میں دیکھیں تو صبر کا عزم؟ صبر تو خود ایک عزم ہے۔
دوسرے مصرعے کا لہجہ کچھ تلخ نہیں ہو گیا؟ پہلے مصرعے کا تقاضا ہے کہ دوسرے مصرعے میں کوئی ایسی صورت ہو جو عزم کے ٹوٹنے کا سبب بن سکتی ہو۔
مجھے یقین ہے آپ اس شعر کو بہتر کر لیں گے۔
 
وہ اگر ترکِ مراسم پہ کمر بستہ ہیں
تَو یہ فرمان سرِ بزم سنایا جائے
سید عاطف علی کے تبصرے سے لگتا ہے کہ اس شعر میں آپ کوئی تبدیلی کر چکے ہیں؛ کہ وہاں لفظ "آمادہ" مذکور ہے۔ اگر میرا اندازہ درست ہے تو "کمربستہ" کی نسبت لفظ "آمادہ" یہاں بہتر ہوتا، یا "مُصِر" وغیرہ۔
تَو یہ فرمان سرِ بزم سنایا جائے
تو میں واوِ مجہول ہے، واوِ لین نہیں۔
 
لوگ بے لوث محبت کا سبق بھول چکے
اشک اب خونِ وفا پر نہ بہایا جائے
ترکیب "خونِ وفا" کا لفظی ترجمہ دھوکا دے گیا شاید۔ وفا کا خون بمعنی قتل؟ اردو محاورے میں خون بمعنی قتل یا موت (خون کرنا، خون ہونا، خون ہو جانا، محبت کا خون، وفا کا خون؛ وغیرہ) درست ہے۔ فارسی ترکیب میں یہ معانی محلِ نظر ہیں۔ سیدھا سیدھا "قتلِ وفا" لکھئے۔ پہلا مصرع چست ہو سکتا تھا: اب ہے بے لوث محبت کا سبق یاد کسے، کس کو بے لوث محبت کا سبق یاد رہا، وغیرہ۔ یا پھر اس کو سیدھا محبوب پر فٹ کیجئے: وہ تو بے لوث محبت کا سبق بھول چکے؛ کچھ نہ کچھ بہتری ہو رہے گی۔
 
آخری تدوین:
آپ لاتے جو نہیں ہم کو رضاؔ خاطر میں
کیوں نہ پھر آپ کو آئینہ دِکھایا جائے
یوں لگتا ہے محب آخر کار تنگ آ کر یا جیسے بھی محبوب کی ہجو پر اتر آیا ہے۔ آئینہ دکھانے کا مفہوم مخاطب کو اس کی بری صفت یا برا عمل دکھانا ہوتا ہے؛ اگر یہ کرنا ہی ٹھہرا تو پھر اس برائی کا کوئی اشارہ تو دیجئے: بے وفائی، جھوٹے وعدے، غیروں سے شناسائی وغیرہ وغیرہ کتنا کچھ کہا جا سکتا ہے۔
 
پسند آوری کا شکریہ!
درست فرمایا سید بادشاہ، سلامت رہیے۔


وہ ہے آمادہ اگر ترکِ مراسم کے لیے
وہ اگر ترکِ مراسم پہ کمر بستہ ہیں
تَو یہ فرمان سرِ بزم سنایا جائے

لفظ "آمادہ" کو ذرا سا آگے پیچھے کر کے ہ کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ "وہ اگر ترکِ مراسم پہ ہی آمادہ ہے"
بہر حال، پسند آپ کی اظہار آپ کا۔
 
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے۔ آپ کا شعر اب اس مرحلے پر آ چکا ہے جہاں آپ کو زبان و بیان کی صحت کا عالمانہ سطح پر لحاظ رکھنا ہو گا۔
محاورہ، روزمرہ وغیرہ ہمیشہ ہر درجے پر اعتناء طلب ہوتے ہیں، شروع میں ذرا کہہ لیجئے رعایت مل جاتی ہے کہ چلئے صاحب نومشق ہیں۔
آپ کو اب یہ رعایت نہیں ملنی چاہئے، کہ اب آپ کا کہا کسی دوسرے کے لئے معیار بھی ہو سکتا ہے۔
 
محترم ابن رضا صاحب
ایک عمدہ غز ل کے لیئے داد حاضر ہے۔
"حسرتِ دید " والے شعر میں "اتنا سا" اور "فقط" کا ایک ہی مصرع میں اختلاط کچھ عجیب سا لگا۔
کل ملا کر غزل پسند آئی۔
ماشا اللہ
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوبصورت داد قبول فرمائیے۔۔۔
بہت نوازش۔ سلامت رہیے۔
پسند آوری کا شکریہ
واہہہہہہہہہہ
بہت خوب
بہت دعائیں
بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے۔ شاہ جی بہت نوازش۔ آپ کی غیرحاضری محسوس ہوتی رہتی ہے۔
بہت عمدہ ابن رضا بھائی!
دشمنو پسند فرمانے کے لیے بہت شکریہ
محترم ابن رضا صاحب
ایک عمدہ غز ل کے لیئے داد حاضر ہے۔
"حسرتِ دید " والے شعر میں "اتنا سا" اور "فقط" کا ایک ہی مصرع میں اختلاط کچھ عجیب سا لگا۔
کل ملا کر غزل پسند آئی۔
ماشا اللہ
پسند آوری اور تبصرےکا بہت شکریہ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے۔ آپ کا شعر اب اس مرحلے پر آ چکا ہے جہاں آپ کو زبان و بیان کی صحت کا عالمانہ سطح پر لحاظ رکھنا ہو گا۔
محاورہ، روزمرہ وغیرہ ہمیشہ ہر درجے پر اعتناء طلب ہوتے ہیں، شروع میں ذرا کہہ لیجئے رعایت مل جاتی ہے کہ چلئے صاحب نومشق ہیں۔
آپ کو اب یہ رعایت نہیں ملنی چاہئے، کہ اب آپ کا کہا کسی دوسرے کے لئے معیار بھی ہو سکتا ہے۔

استادِ محترم آپکی تجاویز و ہدایات پر عمل کے بعد نظرِ ثانی کے لیے حاضر ہوتا ہوں۔ تاہم آپ کی شفقت اور حوصلہ افزائی کے لیے بہت ممنون ہوں سلامت رہیے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top