داڑھی کی شرعی حیثیتواضح رہے کہ مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت ا کا دائمی عمل ہے اور حضورا نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور کبیرہ گناہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔
دین اسلام تو ایک ہی ہے مگر ہر کوئی اس کو اپنے طریکہ سے جیانا چاہتا ہے
اللہ کو جو دین اسلام پسند ہے اس کی کیسی کو فکر ہی نہی
عمران حسینی We're sorry, this video is no longer available.
میں آپ کو ان ویڈیوز کے لنک مہیا کر رہا ہوںعمران حسینی We're sorry, this video is no longer available.
http://www.youtube.com/watch?v=e6He7ecAw10
http://www.youtube.com/watch?v=RVqxCdRG4uo
اس بیان کا تو اپنے آپ سے ہی اختلاف ہے۔ پہلے داڑھی کو واجب قرار دیا اور پھر داڑھی نہ رکھنے کو حرام اور گناہ کبیرہ بنا ڈالا۔ لیکن یہ حضرات داڑھی کی فرضیت میں ایک حدیث بھی نہ لا پائیں گے اور نہ ایک آیت قرآن سے۔ داڑھی سے زیادہ ضروری حکم تو ہر نماز سے پہلے مسواک کا ہے جسے امت پر بوجھ کے پیش نظر سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لازم نہ کیا۔ داڑھی مسنون ہے اور پسندیدہ ہے فرض قطعاَ نہیں۔ اگر کسی کو اختلاف ہے تو ایک حدیث یا آیت جو داڑھی کی "فرضیت" کا حکم لگاتی ہو پیش کردیجئے۔واضح رہے کہ مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت ا کا دائمی عمل ہے اور حضورا نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور کبیرہ گناہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔
نبیل : مجھے اس دھاگے سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اس طرح اسلام کو مذاق بنے سے بچانے لے لیئے بہتر تو یہ ہے کہ اس زمرے کو بند ہی کر دیا جائے کیونکہ بہرحال یہ کوئی تبلیغی فورم نہیں ہے۔ لوگ امر بالمعروف و نہی ان المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور طرح طرح کے سوالات (جن میں مذاق کا پہلو نمایاں ہوتا ہے) شروع ہو جاتے ہیں۔
تمام اسلامی بھائیوں : آپ لوگ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دین کی بات کہیں اور چپ ہو جائیں بحث مت کریں فرض صرف بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ جیسا شاہد میاں کرتے ہیں۔ جسے ماننا ہوگا مان لے گا نہیں تو وہی حیلے بہانے۔ اس دھاگے میں بھی بات پوری ہو چکی ہے۔ جسے ماننا ہے مانے نہیں تو اپنے طور پر معلومات حاصل کرے۔ پکا پکایا حلوہ بھی دو گے تو فرمائش آئے گی کہ نگلوا دو، نگلوا دو تو فرمائش آئے گی کہ ہضم بھی کروا دو۔ باقی آپ سب سمجھ دار ہو۔
السلام علیکم خرم بھائی داڑھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ہے اور روایات کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک سینہ مبارک کو گھیرے ہوا کرتی تھی یعنی سینہ مبارک تک دراز ہوا کرتی تھی حدیث قولی کہ مطابق بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کہ بڑھانے کا حکم دیا ہے لہزا قاعدہ یہی ہے کہ فعل امر کا تقاضا اصل میں وجوب کو چاہنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی بہترین تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ صحابہ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا بخاری کی جس روایت میں داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے وہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروری ہے اور آگے چل کر امام بخاری علیہ رحمہ نے خود حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا اپنا عمل یہ نقل کیا ہے کہ حج یا عمرہ کہ موقع پر ایک مشت سے زائد داڑھی کو تراش دیا کرتے تھے لہزا فقہاء امت نے اس قسم کی تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے داڑھی کہ وجوب کا حکم لگایا ہے اور اسی پر اجماع امت بھی نقل کیا ہے کہ داڑھی میں قبضہ یا ایک مشت واجب ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ اجماع دین کا چوتھا بنیادی ماخذ ہے ۔ ۔ ۔ والسلاماس بیان کا تو اپنے آپ سے ہی اختلاف ہے۔ پہلے داڑھی کو واجب قرار دیا اور پھر داڑھی نہ رکھنے کو حرام اور گناہ کبیرہ بنا ڈالا۔ لیکن یہ حضرات داڑھی کی فرضیت میں ایک حدیث بھی نہ لا پائیں گے اور نہ ایک آیت قرآن سے۔ داڑھی سے زیادہ ضروری حکم تو ہر نماز سے پہلے مسواک کا ہے جسے امت پر بوجھ کے پیش نظر سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لازم نہ کیا۔ داڑھی مسنون ہے اور پسندیدہ ہے فرض قطعاَ نہیں۔ اگر کسی کو اختلاف ہے تو ایک حدیث یا آیت جو داڑھی کی "فرضیت" کا حکم لگاتی ہو پیش کردیجئے۔
آبی بھیا داڑھی کا سنت متواتر ہونے سے کس کافر کو انکار ہے۔ یقیناَ داڑھی سنت متواتر ہے، پسندیدہ ہے اور اسے رکھنا حُب رسول کا ایک جزو ہے۔ لیکن یہ فرض بہرحال نہیں ہے اور نہ اس کا تارک کافر ہے اور نہ اس کے نہ رکھنے کی تعزیر ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عمل سنت یا فرض کی دلیل اس لئے نہیںہوسکتا کہ ہمیں کہیںیہ سند نہیںملتی کہ تمام اصحاب کا یہی عمل تھا۔ اس لئے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عمل کو سنت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ فرائض و سنون نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکمل فرما دئیے۔ ان کے بعد اجماع سے یا کسی اور طریقے سے ان میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ داڑھی بھی متواتر سنت ہے، ننگے سر نماز نہ پڑھنا بھی متواتر سُنت ہے، وضو سے پہلے مسواک کرنا بھی متواتر سُنت ہے، خوش اخلاقی بھی متواتر سُنت ہے، ظہر کی چار سُنت پڑھنا بھی متواتر سُنت ہے، سچ بولنا بھی متواتر سُنت ہے علی ہٰذا القیاس۔ ان تمام سُنن کے ترک پر بھی گناہ کبیرہ کا اطلاق کیا جائے گا اور تعزیر سُنائی جائے گی؟ اگر نہیں تو پھر داڑھی پر ہی اتنی کرم فرمائی کیوں؟ صرف اس لئے کہ ایک طبقہ دین کو اپنی جاگیر بنائے رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لئے ابتداء داڑھی سے شروع کی جاتی ہے کہ لوگوںکو مجبور کیا جائے کہ ان جیسی وضع قطع کی پیروی کی جائے۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک کے ایک مشت ہونے کے بارے میں مجھے تو کبھی کوئی حدیث نہیں ملی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک انتہائی خوبصورت اور متناسب تھی۔ گھنے سیاہ بال لئے ہوئے۔ لیکن اس کی لمبائی ایک مشت تھی یا نہیں اس پر کوئی دلیل نہیں۔ میرے تئیں ایسی کسی بھی دلیل کی غیر موجودی میں داڑھی کے ایک مشت سے کم ہونے پر کوئی بھی بات لگانا انسان کو بے ادبی کے دائرہ میں لا سکتا ہے کہ بہرحال تمام تر فتاوٰی جو اس بارے میں ہیں وہ "قیاس" پر مبنی ہیں اور قیاس کبھی بھی حجت نہیںہونا چاہئے۔السلام علیکم خرم بھائی داڑھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ہے اور روایات کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک سینہ مبارک کو گھیرے ہوا کرتی تھی یعنی سینہ مبارک تک دراز ہوا کرتی تھی حدیث قولی کہ مطابق بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کہ بڑھانے کا حکم دیا ہے لہزا قاعدہ یہی ہے کہ فعل امر کا تقاضا اصل میں وجوب کو چاہنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی بہترین تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ صحابہ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا بخاری کی جس روایت میں داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے وہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروری ہے اور آگے چل کر امام بخاری علیہ رحمہ نے خود حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا اپنا عمل یہ نقل کیا ہے کہ حج یا عمرہ کہ موقع پر ایک مشت سے زائد داڑھی کو تراش دیا کرتے تھے لہزا فقہاء امت نے اس قسم کی تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے داڑھی کہ وجوب کا حکم لگایا ہے اور اسی پر اجماع امت بھی نقل کیا ہے کہ داڑھی میں قبضہ یا ایک مشت واجب ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ اجماع دین کا چوتھا بنیادی ماخذ ہے ۔ ۔ ۔ والسلام