dxbgraphics
محفلین
پچھلے سال اکتوبر میں میں نے اپنی کمپنی پر لیبر ڈپارٹمنٹ میں اپنے ویزہ کے کینسلیشن کے لئے کیس کیا تھا کئی مرتبہ لکھنے کا دل چاہا لیکن پھر سوچا کہ کیس ختم ہونے کے بعد ہی اس پر کچھ لکھا جائے ۔
20 اکتوبر 2010 کو باس کے آفس میں میٹنگ تھی۔ میٹنگ سے فارغ ہوکر باس کو اپنا وعدہ یاد دلایا کہ آپ نے میری تنخواہ بڑھانی ہے تاکہ میں اپنی فیملی کو دبئی لا سکوں۔جس کے ساتھ ہی باس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو کر ناگواری میں بدل گئے۔اور جواب ملا کہ ابھی یہ ممکن نہیں ہے تو میں نے پھر ان کو دوسرا وعدہ یاد دلایا کہ تنخوانہ نہ بڑھا سکنے پر آپ مجھے این او سی دے دیں تاکہ میں دوسری کمپنی میں اپنا ویزہ ٹرانسفر کر سکوں۔تو اس کے ساتھ ہی وہ اپنے دونوں وعدوں سے مکر گئے اور واضح الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر آپ کمپنی چھوڑ کر جائیں گے تو آپ کو کمپنی میں دو مہینے میں ایک نیا بندہ ٹرین کرنا پڑے گا اور اس کے باوجود میں اپ کو این او سی بھی نہیں دونگا اور آپ مجھے پلے سے چار ہزار درہم دینگے۔ وگرنہ تو میں آپ پر پولیس کیس کر دوں گا اور امارات میں آپ کو لائف ٹائم بین کر دونگا۔اور آپ تمام عمر امارات میں کام نہیں کر سکو گے۔ جس پر میں نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو یاد ہو تو اپنی اپوئنٹمنٹ کے پہلے دن آپ کو میں نے ایک بات کہی تھی کہ آپ کے اور میرے درمیان میں اخلاق کی ایک حد ہے جس دن وہ حد پار ہوگئی نہ میں ایمپلائی رہونگا۔ اور نہ آپ ہی ایمپلائر۔ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں۔ میں آپ کی گیدڑ بھبکیوں میں نہیں آنے والا۔ اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے آفس سے نکل گیا۔ راستے میں یہی سوچتے ہوئے جارہا تھا اگر میری تنخواہ بھی نہیں بڑھائی جاتی اور کمپنی نے اگر این او سی بھی نہیں دی ۔ تو لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے چھ مہینے کا بین تو لگنا ہی ہے۔ تو پھر ملائشیا 10 مہینے کے لئے چلاجاونگا کیوں کہ ملائشیا کا ایک سال کا ویزہ ایک دو مہینے پہلے ہی لگواچکا تھا۔ غصے سے چہرہ لال پیلا ہوچکا تھا۔یہ خیال بھی آیا کہ راتوں رات ٹکٹ کٹوا کر ملائشیا چلا جاوں اور صبح کوالالمپور سے باس کو کال کر کے بولوں کہ اب بولو کیا حال ہیں آپ کے۔ وہ اس لئے کہ آفس ایک دن بھی نہ جاوں تو پورا فیبریکٹنگ سٹاف خالی ہاتھ بیٹھا رہتا ہے۔لیکن چند لوگوں کے کیس دیکھ کر یہ فیصلہ بھی ترک کر دیا کیوں کہ اکثر لوگ جب چھٹیوں پر جاتے ہیں تو پیچھے سے ان کے کمپنیاں ان کے ویزے کو کینسل کرواکر ان کے لئے بہت سے مسائل پیدا کر دیتی ہیں اور میں واپسی کا راستہ بند نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر میرے پاس دو ہی آپشن بچے تھے۔ ایک یہ کہ چپ چاپ صبح آفس جا کر اپنا کام کروں یا دوسرا لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلینٹ کر دوں کہ میں نے اس کمپنی میں مزید کام نہیں کرنا لہذا میرا ویزہ کینسل کر دیا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد دوسرا آپشن منتخب کیا اور صبح ہوتے ہی لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلینٹ کر دی۔ اس کے ساتھ ہی کمپنی کو استعفیٰ فیکس کیا اور فیکس کی رسید بھی سنبھال کر رکھ لی۔ استعفیٰ فیکس کرنے کے بعد آفس کے اور باس کے ذاتی میل پر بھی استعفیٰ ای میل کیا اور ساتھ ہی لیبر آفس کے آفیشل ای میل پر بھی سی سی کر دیا۔استعفیٰ دینے کے بعد لیبر کے قانون کے مطابق کمپنی کو ایک مہینے کا ٹائم دینا پڑتا ہے تاکہ کمپنی ایک مہینے میں اپنے لئے دوسرا بندہ ڈھونڈ سکے۔لہذا میں نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر دفتر گیا۔ دو تین دن تک تو باس میں جو کہ فلسطینی ہے ہمت نہیں ہوئی کہ دفتر آتا۔ پھر ایک دو دن بعد اپنے بھائیوں کو بھیج دیا کہ مجھے دفتر سے نکال باہر کیا جائے۔ تو میں نے ان کو کہا کہ اچھا اگر آپ مجھے ایک مہینے کے نوٹس پیریڈ میں کام پر نہیں چھوڑنا چاہتے تو ٹھیک ہے مجھے ایک لیٹر دے دیں کہ آپ کو میری ضرورت نہیں میں جا سکتا ہوں۔ لیکن انہوں نے وہ بھی نہ دی اور مجھے دفتر سے باہر نکال دیا۔ جس کے بعد میں لیبر آفس دوبارہ گیا اور دوسری کمپلینٹ کر دی۔ لیکن ایک کمپلینٹ کے ہوتے ہوئے دوسری کمپلینٹ نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود بھی میں نے کمپلینٹ جو کہ نہیں لی گئی اس کے پیپر میں نے سنبھال کر رکھے۔ جو کہ بعد میں مجھے عدالتی کاروائی میں کام آئے۔ اس کے بعد لیبر نے مجھے دس دن کا وقت دیا اور کمپنی کو بھی ایک لیٹر بھیجا کہ آکر اپنی صفائی کریں۔ کمپنی کا پی آر او بشیر جو کہ انڈین ہے وہ لیبر آفس میں آیا۔ پھر لیبر آفس میں لیڈی انسپکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیوں نوکری چھوڑنا چاہتے ہیں تو میں نے اپنے ساتھ کئے گئے وعدے اور تنخواہ وقت پر نہ ملنے اور کمپلینٹ کی وجہ سے جب کمپنی نے میری تنخواہ بھی روک دی تمام وجوہات سامنے رکھ دیں۔ تو لیڈی انسپکٹر نے کہا کہ آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کرائسس چل رہے ہیں اگر تنخواہ لیٹ ہوجاتی ہے تو آپ تھوڑا صبر کر لیں۔ یہ سنتے ہی میرا پارا اونچا ہوگیا اور لیڈی انسپکٹر پر برس پڑا کہ میڈم میں لیبر آفس میں انصاف مانگنے آیا ہوں نہ کہ اس لئے کہ آپ کمپنی کی وکالت کریں۔ اور رہی بات تنخواہ کی تو میری تنخوا ہ سے کمپنی نہیں چلتی ۔پورے سٹاف کی تنخواہ دے دی گئی ہے صرف میری تنخواہ نہیں دی گئی کہ کیوں کہ میں نے کیس کیا ہے اس لئے۔میرے تلخ رویئے سے لیبر انسپکٹر نے اچانک پینترا بدلا اور کمپنی کے پی آر او پر برس پڑی کہ اگلی پیشی میں آپ اس کے کینسلیشن کے پیپر ۔ سیٹلمنٹ اور واپسی کا ٹکٹ ساتھ لیکر آئیں۔ وگرنہ میں نے جو فیصلہ کر دیا وہ آپ کو ماننا پڑے گا۔ تو پی آر او نے کہا کہ اس کے جانے کے بعد کمپنی دوسرے ڈیزائنر کو لیکر آئے گی اور اس کو کم از کم ایک مہینے کی ٹریننگ بھی دینی پڑے گی۔ جس پر میں نے لیبر آفیسر کو کہا کہ میں اس کمپنی میں اپنے کام کی تنخواہ لیتا ہوں نہ کہ کسی قسم کی ٹریننگ کا۔ اگر ان کو نئے بندے کو ٹرین کرنا ہے تو ان کوٹریننگ کے بدلے مجھے میری فیس دینی پڑے گی۔ تو اور اس کے بدلے میں ان کے نئے ڈیزائنر کو ٹریننگ فراہم کر دونگا۔ تو لیبر انسپکٹر چپ ہوگئی کیوں کہ میں اس سے پہلے لیبرقوانین کا مطالعہ کر چکا تھا اور دو تین باتوں میں ان کو باور کرایا کہ لیبر لاء کے فلاں آرٹیکل کے تحت میرا یہ حق بنتا ہے اور فلان آرٹیکل کے تحت یہ۔ اس کے ساتھ ہی ہم آفس سے نکل آئے۔ پی آر او نے جب میرا رویہ لیبر آفس میں دیکھا تو پھر وہ بولا کہ بھائی مجھ سے خفا ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں بھی ملازم ہوں اور جو کمپنی بولتی ہے مجھے کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتا ہوں۔ اس کے بعد اگلے ہفتے پیشی سے پہلے میرے کینسلیشن کے پیپر تیار ہوئے اور پی آر او نے مجھے فون کیا کہ اپ لیبر آفس آجائیں وہاں جاکر مجھے پتہ چلا کہ میرے بقایا جات جو کہ 4000 درہم ہیں کمپنی نے کاٹ شاٹ کر دو ہزار کر دیئے ہیں تو میں نے اس پر بھی کہا کہ چلو جانے دو ۔ میرا ویزہ کینسل کر دو کیوں کہ میرے پاس دو کمپنیوں کی آفر تھیں ایک ٹورزم کمپنی جو کہ دبئی میں ہی تھی اور دوسری ابوظہبی میں انٹیریئر ڈیکور کمپنی۔ تو اس کے بعد جب ہم امیگریشن پہنچے تو پی آر او نے کہا کہ آپ پاسپورٹ مجھے دے دیں میں ویزہ کینسل کر کے آتا ہوں تو میں نے کہا کہ یہ زحمت کرنے کی ضرورت نہیں میں آپ کے ساتھ خود ہی امیگریشن آفیسر کے پاس جارہا ہوں۔ پاسپورٹ میری ملکیت ہے اور میرے پاس ہی رہیگا تو اس نےمنیجر کو کہ کینیڈین ہے اس کو فون کیا کہ صدیق پاسپورٹ کمپنی کو دینے پر راضی نہیں تو منیجر نے کہا کہ اس کویعنی مجھے یہ بولنے کو کہا کہ امیگریشن میں کمپنی کے پی آر او کے علاوہ کوئی نہیں جاسکتا۔ جس پرمیں نےمشین سے ٹوکن نکالا اور امیگریشن آفیسر کے کمرے میں چلا گیا اور پی آر او کو آنے کے لئے کہا۔ جب میں آگے بڑھا تو پیچھے سے پی آر او صاحب غائب تھے۔ پھر مجھے پی آر او کا فون آیا کہ منیجر نے کہا ہے کہ پاسپورٹ آپ کو ایئر پورٹ پر ملے گا جس دن آپ واپس جائیں گے۔برجستہ جواب دیا کہ پاسپورٹ میری ملکیت ہے منیجر یا کمپنی کو کوئی اختیار نہيں کہ وہ میرا پاسپورٹ رکھیں۔ جس پر اس نے معذرت کی کہ یار میں ملازم ہوں جو کمپنی کہے گی میں وہی کرونگا۔ میں نے پھر کہا کہ میں بھی وہی کرونگا جو میرا حق ہے۔
اتفاق کی بات تھی کہ چند دن پہلے مجھے یہ پتہ لگا کہ چونکہ ہماری منیجر کا شوہر انجینئر تھا اور وہ سپاوٴس ویزے پر تھی اور کمپنی میں بغیر کسی ایگریمنٹ اور ورک پرمٹ کے کام کر رہی تھی تو اگلے دن میں دوبارہ لیبر آفس گیا اور وہاں ایک written کمپلینٹ کر دی کہ فلاں خاتون اتنے دنوں سے کمپنی میں بغیر کمپنی کے ویزے اور لیبر ایگریمنٹ کے کام کر رہی ہے ۔ جس پر لیبر آفس والوں نے مجھے لوکیشن میپ کا مطالبہ کر کے دوبارہ آنے کا کہا لیکن میں نے اسی وقت ان سے پین مانگا فائل سے پیپر نکالا اور ایک منٹ کے اندر ہی ان کو لوکیشن میپ دیا منیجر کا وزٹنگ کارڈ اٹیچ کیا اپنا نام اور دستخط کئے اور پیپر ان کے سامنے رکھ دیئے جس پر حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے انسپکشن سیکشن کے آفیسر نے مسکراتے ہوئے مجھ کہا کہ آپ کی کمپلینٹ نوٹ کر لی گئی ہے اور اب آپ جا سکتے ہیں۔ ٹھیک تین دن بعد لیبر ڈپارٹمنٹ نے کمپنی جاکر منیجر خاتون کو جالیا۔ تو وہ بہت روئی دھوئی تو لیبر ڈپارٹمنٹ نے وارننگ دیتے ہوئے اس کو آفس سے نکالا اور کہا کہ آپ اگر کمپنی میں کام کرنا چاہتی ہیں تو لیگل طریقے سے اپنا لیبر ورک پرمٹ بنوائیں اور خوشی سے کام کریں۔
اس کے چند دن بعد منیجر کینیڈا چلی گئی۔ کیوں کہ میرے کیس کی وجہ سے وہ کمپنی میں کام نہیں کر سکتی تھی۔ ٹھیک دو مہینے بعد واپس آئی تو پھر بھی میرا کیس لگا ہوا تھا۔ اور میں وقتا فوقتا اپڈیٹ ہوتا تھا کہ آیا اس نے کب کمپنی دوبارہ جوائن کرنی ہےکمپنی جوائن کرنےکے بعد پھر اس نے مسینجر رابطے پر بارہا منتیں کیں کہ میں دوبارہ لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلین نہ کروں تو میں نے کہا کہ جب میںinterior ministry کے سرکلر کے مطابق اپنا پاسپورٹ ساتھ رکھ سکتا ہوں تو آپ کون ہوتی ہیں مجھ پر اعتراض کرنے والی کہ میں اپنا پاسپورٹ کمپنی کے حوالے کر دوں۔ لہذا میں اتنا کر سکتا ہوں کہ فلاں تاریخ کو میں کورٹ جاونگا تو میں لیبر آفس بھی ہوکر جاونگا۔ اور آپ کے پاس اتنے دن ہیں ۔ جس کے بعد اس نے اپنا تین سال کا ورک پرمٹ بنوالیا۔
میرے کیس کے عدالت میں منتقل ہونے سے پہلے یہاں دبئی میں ایک معمر خاتون ہیں جو مصر سے ہیں ان سے میں عربی سیکھتا تھا اور وہ میری والدہ کی طرح ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر میں سالانہ چھٹیوں پر جب گھر جاتا تو میرے بیوی بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ جبراً دے دیتی تھیں انہوں نے کہا کہ بیٹا میں ایک دفعہ تمہاری کمپنی سے بات کر کے دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ عدالت کے چکروں میں پڑنے سے اچھا ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہوجائے۔ ان کے پرزور اسرار پر مجھےمجبورا کمپنی کا نمبر ان کو دینا پڑا اور انہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی۔ تو کمپنی نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم این او سی دے دیتے ہیں لیکن اس کے بدلے مجھے چار ہزار درہم کمپنی کو پاس سے دینے پڑیں گے۔ یعنی میرے بقایاجات بھی گئے اور پلے سے چار ہزار اور بھی دوں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ صدیق بیٹا میں تو اس امید سے تھی کہ معاملہ حل ہوجائے گا لیکن اب میں سمجھی کہ آپ نے کیس کرنے کو کیوں ترجیح دی۔ اب میں آپ کو نہیں روکونگی کہ آپ کیس نہ کرو یا مذاکرات کر لو۔
پھرلیبر آفس میں تیسری پیشی کے لئے میں گیا تو پی آر او بھی آگیا تھا اور لیبر انسپکٹر کو بولا کہ باس ابھی تک نہیں آئے۔ جس پر لیبر انسپکٹر نے کیس دبئی کورٹ ٹرانسفر کر دیا۔
امارات میں جب بھی لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلینٹ درج ہوتی ہے تو اس کے بعد تین پیشیاں ہوتی ہیں جس میں دونوں اطراف سے یعنی کمپنی اور ایمپلائی پیش ہوکر معاملات پیش کرتے ہین اور لیبر انسپکٹر دونوں کی سن کر پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ اور اگر تین پیشیوں میں معاملہ حل نہ ہو تو پھر لیبر ڈپارٹمنٹ سے خارج ہوکر عدالت کو منتقل ہوجاتا ہے اور عدالت میں اس کا ٹرائل شروع ہوتا ہے۔ لیبرڈپارٹمنٹ سے عدالت کو کیس منتقل ہونے میں دو مہینے گذر گئے۔ اس کے بعد عدالت میں جاکر وہاں بیس درہم کی فیس جمع کروا کر دوبارہ پیپر بنوائے جاتے ہیں جس میں آپ نے اپنے مطالبات لکھ کر جمع کروانے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پندرہ دن کے بعد جج کے سامنے پیشی ہوتی ہے اور جج پوچھتا ہے کہ آیا کمپنی اس وقت موجود ہے یا کمپنی ختم ہوچکی ہے کیوں کہ اکثر کمپنیاں لوگوں کے پیسے لیکر بھاگ جاتی ہین اور ان کے ملازمین کو بعد میں پولیس سٹیشن اور عدالت کے چکر کھانے پڑتے ہیں تب جاکر ان کے ویزے کینسل ہوتے ہیں
اس کے بعد میں جج کے پاس حاضر ہوا تو جج نے کہا کہ کمپنی چل رہی ہے یا بھاگ گئی ہے تو میں نے کہا کہ چل رہی ہے پھر اس نے پندرہ دن کا وقت دیا پندرہ دن کے بعد میں آیا تو وہاں ایک انسپکٹر نے مجھے پوچھا کہ لوکیشن میپ لائے ہو کمپنی کا تو میں نے کہا کہ یہ کونسی بڑی بات ہے میں ابھی بنا دیتا ہوں۔ اور اسی وقت کاغذ پین لیا اور کمپنی کی لوکیشن بنا کر اس پر عربی میں ہی لینڈ مارک اور تفصیل لکھ دی۔ انسپکٹر نے جب لوکیشن میپ دیکھا تو وہ عدالت کے پیچھے ہی کلاک ٹاور کے قریب علاقہ تھا لہٰذا وہ مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گیا اور کمپنی کے پاس پہنچ کر مجھے کہا کہ اب آ پ جاو اور وہ خود کمپنی میں چلا گیا اور ان کو نوٹس دیا کہ فلاں دن عدالت میں آکر پیروی کریں۔
اور پھر اللہ رحمٰن کا کرنا ایسا ہوا کہ جنوری 2011 کو ایک نیا قانون متعارف ہوا جس کی رو سے جس ایمپلائی نے کمپنی میں دو سال گذارے ہوں تو وہ کمپنی کو اپنی مرضی سے چھوڑ سکتا ہے اور ایمپلائی پر چھ مہینے کا بین یا این او سی کی ضرورت بھی نہیں رہیگی۔ چونکہ میں نے کمپنی میں پونے تین سال گذارے تھے تو اس رو سے میں چھ مہینے کے بین اور این او سی سے مستثنیٰ ہوگیا۔
کیس عدالت میں جانے کے بعد اگر آپ کے پاس کسی بھی کمپنی کی آفر ہے تو عدالت میں دوسری پیشی کے ہوتے ہی کمپیوٹر میں آپ کا نام عارضی ورک پرمٹ کی لسٹ میں آجاتا ہے اور آپ جا کر ٹوکن لیکر کمپیوٹر سے عدالت کی این او سی حاصل کر سکتے ہیں جس کی بناء پر کسی کمپنی کو اگر آپ کی ضرورت ہو تو وہ درج ذیل پانچ چیزوں کو لیبر ڈپارٹمنٹ میں جمع کروا کر آپ کو چھ مہینے کا عارضی ورک پرمٹ ایشو کروادینگی۔
١۔ پاسپورٹ کاپی
۲۔ ویزہ کاپی
۳۔ لیبر کارڈ کاپی
۴۔ این او سی ۔ جو کہ عدالت دوسری پیشی کے بعد مطالبے پر جاری کی جاتی ہے
۵۔ آفر لیٹر۔ اس کمپنی کا جو آپ کو کام پر رکھنا چاہتی ہو۔
میرا ایک چھ مہینے کا ورک پرمٹ ختم ہوگیا ۔ اب میرا دوسرا ورک پرمٹ بنا ہوا ہے۔ چھ مہینے کے عارضی ورک پرمٹ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ چھ مہینے میں اس کمپنی کو جج کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کے لئے یہاں مزید کام کرنا اچھا رہیگا یا نہیں۔ وگرنہ چھ مہینے کے گذر جانے کے بعد نئی این او سی لیکر کسی نئی کمپنی میں بھی جوائن کر سکتے ہیں۔
ابو ظہبی میں دوسری کمپنی جوائن کرنے کے بعدچونکہ اپریل کے آخر میں میرا ویزہ ختم ہونے والا تھا جس کے بعد میں امارات سے باہر کیس ختم ہونے تک نہیں جاسکتا تھا۔ لہٰذا میں نے ڈھائی ہفتوں کی چھٹی لی اور عدالت کی پیشی سے دو دن پہلے کا ٹکٹ کنفرم کر کےپاکستان چلا گیا۔اور سترہ دن بعد واپس دبئی آگیا۔ گھر جانے سے پہلے میں احتیاطً میں امیگریشن آفس گیاتھا اور وہاں وہاں انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ میں جاکر اپنے کیس کے تمام کاغذات انوسٹی گیشن آفیسر کے سامنے رکھتے ہوئے اس سے آگاہ کیا کہ اس طرح میرا کیس عدالت میں چل رہا ہے اور میں ویزہ ختم ہونے سے پہلے گھر جانا چاہتا ہوں آپ ذرا چیک کریں کہ میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں تو نہیں جس پر اس آفیسر نے میرا پاسپورٹ لیکر کمپیوٹر میں میرا ریکارڈ چیک کیا اور کہاکہ تیس دن بعد آپ کا ویزہ ایکسپائر ہوجائیگا اور ان تیس دنوں میں آپ تیس دفعہ بھی آئیں اور جائیں تو بے شک آپ آ جا سکتے ہیں ۔
نئی کمپنی میں جانے سے پہلے میں نے پہلے سے ہی نئے ایمپلائر سے معاملات طے کر لئے تھے کہ اگر میں فیملی امارات نہیں لیکر آتا تو میں ہر تین مہینے بعد پندرہ دن کی چھٹی پر گھر جاونگا جس کو اس نے خوشی خوشی قبول کر لیا بلکہ اس نے مجھے آفر کی کہ آپ جیسے محنت کرنے والے لئے ہماری کمپنی میں بہت کچھ ہے جب تک آپ کا کیس نہیں ختم ہوجاتا آپ عارضی ورک پرمٹ پر کام کرتے رہیں کیس ختم ہونے ہی ایک دن میں اپ کا ویزہ کمپنی میں ٹرانسفر کر دیا جائیگا اور آپ کو فیملی کی سہولت کے لئے گاڑی بھی دے دونگا۔
واپس آکر میں ہر بارہ پندرہ اور کبھی کبھی بیس دن بعد مقررہ تاریخوں پر کیس کو فالو اپ کرتا رہا اور اپنے تمام کاغذات کو سنبھال کر رکھتا ۔
عدالت میں جس دن کمپنی کا وکیل یا کمپنی کا کوئی نمائندہ جج کے سامنے پیش ہوتا ہے تو کمپنی یا کمپنی کا وکیل اعتراضات جج کے حوالے کرتا ہے اور اس کی ایک کاپی مدعی کو بھی دے دی جاتی ہے۔ لیکن منہ سے کوئی بھی نہیں بتاتا کہ اس کا جواب بھی آپ نے اگلی پیشی پر دینا ہے۔
لیکن اللہ بھلا کرے میری والدہ جیسی مصری خاتون کا جو کہ knowledge villageمیں پروفیسر بھی تھیں اور ایک بینک میں لیگل ایڈوائزر بھی تھیں ہر قدم پر میرے تمام کاغذات کو عربی سے انگلش میں ترجمہ کر کے مجھے سمجھاتیں کہ یہاں اس چیز کی ضرورت ہےوغیرہ وغیرہ اور پھر اس کا جواب میں انگریزی میں دے دیتا تھا اور پھر وہ دوبارہ اس کو عربی میں ٹرانسلیٹ کرتی تھیں جو کہ میں جج کو اگلی پیشی پر دی دیتا اور ایک کاپی کمپنی کے وکیل کو۔
ایک ضروری بات ۔ جب آپ کا کیس عدالت میں ہوتا ہے تو آپ کو وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جج کے پاس ایک ترجمان ہوتا ہے جو آپ سے انگریزی یا اردو میں بات کر کے جج کو عربی میں بتاتا ہے۔
اس کے بعد جب فیصلے والا دن آیا تو جج نے مجھ سے کہا کہ آپ تین ہزار لے لیں اور کیس ختم کر دیں جس پر میں نے جج سے تکرار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس فیصلے کو نہیں مانتا لہٰذا فیصلہ دینے کی بجائے ابھی سے میں اپیل کرنا چاہتا ہوں۔ اور پھر جج نے کیس کو دوسری عدالت میں بھیج کر مجھے تین ہفتے بعددوسرے سرکل جانے کو کہا۔ واپسی پر نہ جانے کیوں خیال آیا کہ اگلی پیشی کی تاریخ کا پرنٹ آوٹ لے لوں کیوں کہ ویزہ تو پہلے سے ہی ختم تھا اور عارضی ورک پرمٹ بھی ختم تھا لہٰذا تاریخ کا پرنٹ آوٹ میرے پاس رکھنا لازمی امر تھا۔ تو 118 ونڈو میں جاکر اگلی تاریخ کا پرنٹ آوٹ لیا تو دیکھ کر حیران ہوگیا کہ جج نے مجھے تین ہفتے بعد آنے کو کہا ہے اور کمپیوٹر میں تاریخ دو ہفتے بعد کی ہے۔ وہ پرنٹ آوٹ لیکر میں سیدھا جج کے پاس دوبارہ گیا اور پرنٹ آوٹ اس کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے سوال کیا کہ آپ نے دس دن لیٹ کی تاریخ کیوں دی۔ کیا آپ مجھے غیر حاضر کرنا چاہتے تھے۔ جس پر اس نے کہا کہ نہیں آپ جو کمپیوٹر میں تاریخ ہے اسی تاریخ پر آئیں۔ اس کے بعد میری عادت بن گئی کہ ہر نئی تاریخ ملنے کے بعد 118 ونڈوز میں جاکر اپنا کیس نمبر دیکر اگلی پیشی کی تاریخ کا پرنٹ آوٹ لے لیتا تھا۔اور یوں میرا کیس دوسری عدالت میں چلا گیا۔ یہاں بھی تاریخ پر تاریخ اور پھر چار مہینوں بعد یکم نومبر کو جج صاحب نے فیصلہ کیا کہ کمپنی اپ کو پانچ ہزار درہم دے گی ۔ اس پیشی سے قبل سابقہ باس کا بھائی آیا تھا اور اس نے کہا کہ یار ایک سال ہونے کو ہی اب ختم ہی کر دو کیس تمہارا وقت ضائع ہورہا ہے جس پر میں نے جواب دیا کہ میرا وقت ضائع نہیں ہورہا ہے یہاں تک کہ جب میں دبئی پیش کے لئے آتا ہوں تو میرے آنے جانے کے اخراجات اور چھٹی بھی کمپنی کی طرف سے ہوتی ہے جو کے میری تنخواہ سے نہیں کاٹی جاتی۔ کمپنی کے ڈاکومنٹ اس کو دکھائے تو چکر کھا گیا اور الٹے پیر واپس چلا گیا۔ لیکن سب سے ضروری بات جو اس کو میں نے بتائی وہ یہ کہ جب تمہارے بھائی نے مجھے دہمکی دی تو یہ سب اسی دہمکی کا زور ہے وگرنہ میرے مزاج ایسے ہرگز نہیں ہیں کہ میں کسی کو نقصان کراوں یا کسی کا وقت ضائع کرنے کے لئے اپنا وقت بھی ضائع کروں
اب میرے پاس اور کمپنی کے پاس تیس دن ہیں جس میں ہم اگر چاہیں تو دوبارہ اپیل کر سکتے ہیں وگرنہ تیس دن بعد میں جاکر خود ہی عدالتی کاروائی پوری کر کے اپنا ویزہ کینسل کروالونگا اور نئی کمپنی میں اپنا ویزہ ٹرانسفر کروادونگا۔ اور اس کے بعد فیملی کو یہیں بلوالونگا۔)انشاء اللہ(
ہماری کمپنی میں پہلے بھی ایک انڈین کیس کر چکا تھا اور ایک سال بعد فیصلہ کمپنی کے حق میں ہوا کیوں کہ ثبوت کمپنی کے حق میں تھے۔ اس بار کمپنی کا خیال تھا کہ شاید میرے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا اسی لئے انہوں نے لیبر ڈپارٹمنٹ میں کیس کو فالو اپ نہیں کیا جس کا نقصان انہی کو اٹھانا پڑاکیوں کہ لیبر ڈپارٹمنٹ میں ان کو فائدہ تھا۔ جبکہ عدالت میں کیس کے جانے سے ان کو نقصان ہوا۔ وہ یہ کہ امارات کے قوانین کے مطابق جس کمپنی کے خلاف لیبر ڈپارٹمنٹ میں کیس ہوگاوہ کمپنی اپنے ملازمین کے ویزے تو کینسل کرواسکتی ہےلیکن نئے ملازمین کے لئے ویزے نہیں نکال سکتی ۔ اور یوں کمپنی ایک سال تک بغیر ڈیزائنر کے باہر سے فری لانس۔ اور کبھی کبھی باس کا بھائی جو ڈیزائنر ہے اپنی کمپنی چھوڑ کر وہاں جاکر وہاں کے کام نبٹایا کرتاہے۔ میری باری پر بھی انہوں نے یہی نسخہ آزمایا اور لیبر میں لیٹ کرواکر عدالت میں کیس لے آئے لیکن ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسے بھی قوانین ہیں جن کی رو سے کیس کرنے والے کہیں بھی نوکری کر سکتے ہیں۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کیس میں میرا بھی وقت اس حساب سے ضائع ہوا کہ اگر کیس ختم ہوگیا ہوتا تو آج میں اپنی فیملی کیساتھ یہاں پرگذار چکا ہوتا۔ لیکن دیر آیا درست آیا۔
درج بالا مضمون لکھتے وقت اس میں بہت ساری باتیں شاید رہ گئی ہوں کیوں کہ ایک سال اور دس دن کو تحریر میں لانا اتنا آسان نہیں ہے میرے لئے اور میں ایک لکھاری بھی نہیں ہوں۔ لہذا اگر کسی بھائی نے کچھ پوچھنا ہو تو ذپ ارسال کر دیں میں اپنی معلومات کے مطابق کوشش کرونگا کہ اس کا جواب دے سکوں
20 اکتوبر 2010 کو باس کے آفس میں میٹنگ تھی۔ میٹنگ سے فارغ ہوکر باس کو اپنا وعدہ یاد دلایا کہ آپ نے میری تنخواہ بڑھانی ہے تاکہ میں اپنی فیملی کو دبئی لا سکوں۔جس کے ساتھ ہی باس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو کر ناگواری میں بدل گئے۔اور جواب ملا کہ ابھی یہ ممکن نہیں ہے تو میں نے پھر ان کو دوسرا وعدہ یاد دلایا کہ تنخوانہ نہ بڑھا سکنے پر آپ مجھے این او سی دے دیں تاکہ میں دوسری کمپنی میں اپنا ویزہ ٹرانسفر کر سکوں۔تو اس کے ساتھ ہی وہ اپنے دونوں وعدوں سے مکر گئے اور واضح الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر آپ کمپنی چھوڑ کر جائیں گے تو آپ کو کمپنی میں دو مہینے میں ایک نیا بندہ ٹرین کرنا پڑے گا اور اس کے باوجود میں اپ کو این او سی بھی نہیں دونگا اور آپ مجھے پلے سے چار ہزار درہم دینگے۔ وگرنہ تو میں آپ پر پولیس کیس کر دوں گا اور امارات میں آپ کو لائف ٹائم بین کر دونگا۔اور آپ تمام عمر امارات میں کام نہیں کر سکو گے۔ جس پر میں نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو یاد ہو تو اپنی اپوئنٹمنٹ کے پہلے دن آپ کو میں نے ایک بات کہی تھی کہ آپ کے اور میرے درمیان میں اخلاق کی ایک حد ہے جس دن وہ حد پار ہوگئی نہ میں ایمپلائی رہونگا۔ اور نہ آپ ہی ایمپلائر۔ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں۔ میں آپ کی گیدڑ بھبکیوں میں نہیں آنے والا۔ اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے آفس سے نکل گیا۔ راستے میں یہی سوچتے ہوئے جارہا تھا اگر میری تنخواہ بھی نہیں بڑھائی جاتی اور کمپنی نے اگر این او سی بھی نہیں دی ۔ تو لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے چھ مہینے کا بین تو لگنا ہی ہے۔ تو پھر ملائشیا 10 مہینے کے لئے چلاجاونگا کیوں کہ ملائشیا کا ایک سال کا ویزہ ایک دو مہینے پہلے ہی لگواچکا تھا۔ غصے سے چہرہ لال پیلا ہوچکا تھا۔یہ خیال بھی آیا کہ راتوں رات ٹکٹ کٹوا کر ملائشیا چلا جاوں اور صبح کوالالمپور سے باس کو کال کر کے بولوں کہ اب بولو کیا حال ہیں آپ کے۔ وہ اس لئے کہ آفس ایک دن بھی نہ جاوں تو پورا فیبریکٹنگ سٹاف خالی ہاتھ بیٹھا رہتا ہے۔لیکن چند لوگوں کے کیس دیکھ کر یہ فیصلہ بھی ترک کر دیا کیوں کہ اکثر لوگ جب چھٹیوں پر جاتے ہیں تو پیچھے سے ان کے کمپنیاں ان کے ویزے کو کینسل کرواکر ان کے لئے بہت سے مسائل پیدا کر دیتی ہیں اور میں واپسی کا راستہ بند نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر میرے پاس دو ہی آپشن بچے تھے۔ ایک یہ کہ چپ چاپ صبح آفس جا کر اپنا کام کروں یا دوسرا لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلینٹ کر دوں کہ میں نے اس کمپنی میں مزید کام نہیں کرنا لہذا میرا ویزہ کینسل کر دیا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد دوسرا آپشن منتخب کیا اور صبح ہوتے ہی لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلینٹ کر دی۔ اس کے ساتھ ہی کمپنی کو استعفیٰ فیکس کیا اور فیکس کی رسید بھی سنبھال کر رکھ لی۔ استعفیٰ فیکس کرنے کے بعد آفس کے اور باس کے ذاتی میل پر بھی استعفیٰ ای میل کیا اور ساتھ ہی لیبر آفس کے آفیشل ای میل پر بھی سی سی کر دیا۔استعفیٰ دینے کے بعد لیبر کے قانون کے مطابق کمپنی کو ایک مہینے کا ٹائم دینا پڑتا ہے تاکہ کمپنی ایک مہینے میں اپنے لئے دوسرا بندہ ڈھونڈ سکے۔لہذا میں نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر دفتر گیا۔ دو تین دن تک تو باس میں جو کہ فلسطینی ہے ہمت نہیں ہوئی کہ دفتر آتا۔ پھر ایک دو دن بعد اپنے بھائیوں کو بھیج دیا کہ مجھے دفتر سے نکال باہر کیا جائے۔ تو میں نے ان کو کہا کہ اچھا اگر آپ مجھے ایک مہینے کے نوٹس پیریڈ میں کام پر نہیں چھوڑنا چاہتے تو ٹھیک ہے مجھے ایک لیٹر دے دیں کہ آپ کو میری ضرورت نہیں میں جا سکتا ہوں۔ لیکن انہوں نے وہ بھی نہ دی اور مجھے دفتر سے باہر نکال دیا۔ جس کے بعد میں لیبر آفس دوبارہ گیا اور دوسری کمپلینٹ کر دی۔ لیکن ایک کمپلینٹ کے ہوتے ہوئے دوسری کمپلینٹ نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود بھی میں نے کمپلینٹ جو کہ نہیں لی گئی اس کے پیپر میں نے سنبھال کر رکھے۔ جو کہ بعد میں مجھے عدالتی کاروائی میں کام آئے۔ اس کے بعد لیبر نے مجھے دس دن کا وقت دیا اور کمپنی کو بھی ایک لیٹر بھیجا کہ آکر اپنی صفائی کریں۔ کمپنی کا پی آر او بشیر جو کہ انڈین ہے وہ لیبر آفس میں آیا۔ پھر لیبر آفس میں لیڈی انسپکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیوں نوکری چھوڑنا چاہتے ہیں تو میں نے اپنے ساتھ کئے گئے وعدے اور تنخواہ وقت پر نہ ملنے اور کمپلینٹ کی وجہ سے جب کمپنی نے میری تنخواہ بھی روک دی تمام وجوہات سامنے رکھ دیں۔ تو لیڈی انسپکٹر نے کہا کہ آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کرائسس چل رہے ہیں اگر تنخواہ لیٹ ہوجاتی ہے تو آپ تھوڑا صبر کر لیں۔ یہ سنتے ہی میرا پارا اونچا ہوگیا اور لیڈی انسپکٹر پر برس پڑا کہ میڈم میں لیبر آفس میں انصاف مانگنے آیا ہوں نہ کہ اس لئے کہ آپ کمپنی کی وکالت کریں۔ اور رہی بات تنخواہ کی تو میری تنخوا ہ سے کمپنی نہیں چلتی ۔پورے سٹاف کی تنخواہ دے دی گئی ہے صرف میری تنخواہ نہیں دی گئی کہ کیوں کہ میں نے کیس کیا ہے اس لئے۔میرے تلخ رویئے سے لیبر انسپکٹر نے اچانک پینترا بدلا اور کمپنی کے پی آر او پر برس پڑی کہ اگلی پیشی میں آپ اس کے کینسلیشن کے پیپر ۔ سیٹلمنٹ اور واپسی کا ٹکٹ ساتھ لیکر آئیں۔ وگرنہ میں نے جو فیصلہ کر دیا وہ آپ کو ماننا پڑے گا۔ تو پی آر او نے کہا کہ اس کے جانے کے بعد کمپنی دوسرے ڈیزائنر کو لیکر آئے گی اور اس کو کم از کم ایک مہینے کی ٹریننگ بھی دینی پڑے گی۔ جس پر میں نے لیبر آفیسر کو کہا کہ میں اس کمپنی میں اپنے کام کی تنخواہ لیتا ہوں نہ کہ کسی قسم کی ٹریننگ کا۔ اگر ان کو نئے بندے کو ٹرین کرنا ہے تو ان کوٹریننگ کے بدلے مجھے میری فیس دینی پڑے گی۔ تو اور اس کے بدلے میں ان کے نئے ڈیزائنر کو ٹریننگ فراہم کر دونگا۔ تو لیبر انسپکٹر چپ ہوگئی کیوں کہ میں اس سے پہلے لیبرقوانین کا مطالعہ کر چکا تھا اور دو تین باتوں میں ان کو باور کرایا کہ لیبر لاء کے فلاں آرٹیکل کے تحت میرا یہ حق بنتا ہے اور فلان آرٹیکل کے تحت یہ۔ اس کے ساتھ ہی ہم آفس سے نکل آئے۔ پی آر او نے جب میرا رویہ لیبر آفس میں دیکھا تو پھر وہ بولا کہ بھائی مجھ سے خفا ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں بھی ملازم ہوں اور جو کمپنی بولتی ہے مجھے کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتا ہوں۔ اس کے بعد اگلے ہفتے پیشی سے پہلے میرے کینسلیشن کے پیپر تیار ہوئے اور پی آر او نے مجھے فون کیا کہ اپ لیبر آفس آجائیں وہاں جاکر مجھے پتہ چلا کہ میرے بقایا جات جو کہ 4000 درہم ہیں کمپنی نے کاٹ شاٹ کر دو ہزار کر دیئے ہیں تو میں نے اس پر بھی کہا کہ چلو جانے دو ۔ میرا ویزہ کینسل کر دو کیوں کہ میرے پاس دو کمپنیوں کی آفر تھیں ایک ٹورزم کمپنی جو کہ دبئی میں ہی تھی اور دوسری ابوظہبی میں انٹیریئر ڈیکور کمپنی۔ تو اس کے بعد جب ہم امیگریشن پہنچے تو پی آر او نے کہا کہ آپ پاسپورٹ مجھے دے دیں میں ویزہ کینسل کر کے آتا ہوں تو میں نے کہا کہ یہ زحمت کرنے کی ضرورت نہیں میں آپ کے ساتھ خود ہی امیگریشن آفیسر کے پاس جارہا ہوں۔ پاسپورٹ میری ملکیت ہے اور میرے پاس ہی رہیگا تو اس نےمنیجر کو کہ کینیڈین ہے اس کو فون کیا کہ صدیق پاسپورٹ کمپنی کو دینے پر راضی نہیں تو منیجر نے کہا کہ اس کویعنی مجھے یہ بولنے کو کہا کہ امیگریشن میں کمپنی کے پی آر او کے علاوہ کوئی نہیں جاسکتا۔ جس پرمیں نےمشین سے ٹوکن نکالا اور امیگریشن آفیسر کے کمرے میں چلا گیا اور پی آر او کو آنے کے لئے کہا۔ جب میں آگے بڑھا تو پیچھے سے پی آر او صاحب غائب تھے۔ پھر مجھے پی آر او کا فون آیا کہ منیجر نے کہا ہے کہ پاسپورٹ آپ کو ایئر پورٹ پر ملے گا جس دن آپ واپس جائیں گے۔برجستہ جواب دیا کہ پاسپورٹ میری ملکیت ہے منیجر یا کمپنی کو کوئی اختیار نہيں کہ وہ میرا پاسپورٹ رکھیں۔ جس پر اس نے معذرت کی کہ یار میں ملازم ہوں جو کمپنی کہے گی میں وہی کرونگا۔ میں نے پھر کہا کہ میں بھی وہی کرونگا جو میرا حق ہے۔
اتفاق کی بات تھی کہ چند دن پہلے مجھے یہ پتہ لگا کہ چونکہ ہماری منیجر کا شوہر انجینئر تھا اور وہ سپاوٴس ویزے پر تھی اور کمپنی میں بغیر کسی ایگریمنٹ اور ورک پرمٹ کے کام کر رہی تھی تو اگلے دن میں دوبارہ لیبر آفس گیا اور وہاں ایک written کمپلینٹ کر دی کہ فلاں خاتون اتنے دنوں سے کمپنی میں بغیر کمپنی کے ویزے اور لیبر ایگریمنٹ کے کام کر رہی ہے ۔ جس پر لیبر آفس والوں نے مجھے لوکیشن میپ کا مطالبہ کر کے دوبارہ آنے کا کہا لیکن میں نے اسی وقت ان سے پین مانگا فائل سے پیپر نکالا اور ایک منٹ کے اندر ہی ان کو لوکیشن میپ دیا منیجر کا وزٹنگ کارڈ اٹیچ کیا اپنا نام اور دستخط کئے اور پیپر ان کے سامنے رکھ دیئے جس پر حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے انسپکشن سیکشن کے آفیسر نے مسکراتے ہوئے مجھ کہا کہ آپ کی کمپلینٹ نوٹ کر لی گئی ہے اور اب آپ جا سکتے ہیں۔ ٹھیک تین دن بعد لیبر ڈپارٹمنٹ نے کمپنی جاکر منیجر خاتون کو جالیا۔ تو وہ بہت روئی دھوئی تو لیبر ڈپارٹمنٹ نے وارننگ دیتے ہوئے اس کو آفس سے نکالا اور کہا کہ آپ اگر کمپنی میں کام کرنا چاہتی ہیں تو لیگل طریقے سے اپنا لیبر ورک پرمٹ بنوائیں اور خوشی سے کام کریں۔
اس کے چند دن بعد منیجر کینیڈا چلی گئی۔ کیوں کہ میرے کیس کی وجہ سے وہ کمپنی میں کام نہیں کر سکتی تھی۔ ٹھیک دو مہینے بعد واپس آئی تو پھر بھی میرا کیس لگا ہوا تھا۔ اور میں وقتا فوقتا اپڈیٹ ہوتا تھا کہ آیا اس نے کب کمپنی دوبارہ جوائن کرنی ہےکمپنی جوائن کرنےکے بعد پھر اس نے مسینجر رابطے پر بارہا منتیں کیں کہ میں دوبارہ لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلین نہ کروں تو میں نے کہا کہ جب میںinterior ministry کے سرکلر کے مطابق اپنا پاسپورٹ ساتھ رکھ سکتا ہوں تو آپ کون ہوتی ہیں مجھ پر اعتراض کرنے والی کہ میں اپنا پاسپورٹ کمپنی کے حوالے کر دوں۔ لہذا میں اتنا کر سکتا ہوں کہ فلاں تاریخ کو میں کورٹ جاونگا تو میں لیبر آفس بھی ہوکر جاونگا۔ اور آپ کے پاس اتنے دن ہیں ۔ جس کے بعد اس نے اپنا تین سال کا ورک پرمٹ بنوالیا۔
میرے کیس کے عدالت میں منتقل ہونے سے پہلے یہاں دبئی میں ایک معمر خاتون ہیں جو مصر سے ہیں ان سے میں عربی سیکھتا تھا اور وہ میری والدہ کی طرح ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر میں سالانہ چھٹیوں پر جب گھر جاتا تو میرے بیوی بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ جبراً دے دیتی تھیں انہوں نے کہا کہ بیٹا میں ایک دفعہ تمہاری کمپنی سے بات کر کے دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ عدالت کے چکروں میں پڑنے سے اچھا ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہوجائے۔ ان کے پرزور اسرار پر مجھےمجبورا کمپنی کا نمبر ان کو دینا پڑا اور انہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی۔ تو کمپنی نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم این او سی دے دیتے ہیں لیکن اس کے بدلے مجھے چار ہزار درہم کمپنی کو پاس سے دینے پڑیں گے۔ یعنی میرے بقایاجات بھی گئے اور پلے سے چار ہزار اور بھی دوں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ صدیق بیٹا میں تو اس امید سے تھی کہ معاملہ حل ہوجائے گا لیکن اب میں سمجھی کہ آپ نے کیس کرنے کو کیوں ترجیح دی۔ اب میں آپ کو نہیں روکونگی کہ آپ کیس نہ کرو یا مذاکرات کر لو۔
پھرلیبر آفس میں تیسری پیشی کے لئے میں گیا تو پی آر او بھی آگیا تھا اور لیبر انسپکٹر کو بولا کہ باس ابھی تک نہیں آئے۔ جس پر لیبر انسپکٹر نے کیس دبئی کورٹ ٹرانسفر کر دیا۔
امارات میں جب بھی لیبر ڈپارٹمنٹ میں کمپلینٹ درج ہوتی ہے تو اس کے بعد تین پیشیاں ہوتی ہیں جس میں دونوں اطراف سے یعنی کمپنی اور ایمپلائی پیش ہوکر معاملات پیش کرتے ہین اور لیبر انسپکٹر دونوں کی سن کر پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ اور اگر تین پیشیوں میں معاملہ حل نہ ہو تو پھر لیبر ڈپارٹمنٹ سے خارج ہوکر عدالت کو منتقل ہوجاتا ہے اور عدالت میں اس کا ٹرائل شروع ہوتا ہے۔ لیبرڈپارٹمنٹ سے عدالت کو کیس منتقل ہونے میں دو مہینے گذر گئے۔ اس کے بعد عدالت میں جاکر وہاں بیس درہم کی فیس جمع کروا کر دوبارہ پیپر بنوائے جاتے ہیں جس میں آپ نے اپنے مطالبات لکھ کر جمع کروانے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پندرہ دن کے بعد جج کے سامنے پیشی ہوتی ہے اور جج پوچھتا ہے کہ آیا کمپنی اس وقت موجود ہے یا کمپنی ختم ہوچکی ہے کیوں کہ اکثر کمپنیاں لوگوں کے پیسے لیکر بھاگ جاتی ہین اور ان کے ملازمین کو بعد میں پولیس سٹیشن اور عدالت کے چکر کھانے پڑتے ہیں تب جاکر ان کے ویزے کینسل ہوتے ہیں
اس کے بعد میں جج کے پاس حاضر ہوا تو جج نے کہا کہ کمپنی چل رہی ہے یا بھاگ گئی ہے تو میں نے کہا کہ چل رہی ہے پھر اس نے پندرہ دن کا وقت دیا پندرہ دن کے بعد میں آیا تو وہاں ایک انسپکٹر نے مجھے پوچھا کہ لوکیشن میپ لائے ہو کمپنی کا تو میں نے کہا کہ یہ کونسی بڑی بات ہے میں ابھی بنا دیتا ہوں۔ اور اسی وقت کاغذ پین لیا اور کمپنی کی لوکیشن بنا کر اس پر عربی میں ہی لینڈ مارک اور تفصیل لکھ دی۔ انسپکٹر نے جب لوکیشن میپ دیکھا تو وہ عدالت کے پیچھے ہی کلاک ٹاور کے قریب علاقہ تھا لہٰذا وہ مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گیا اور کمپنی کے پاس پہنچ کر مجھے کہا کہ اب آ پ جاو اور وہ خود کمپنی میں چلا گیا اور ان کو نوٹس دیا کہ فلاں دن عدالت میں آکر پیروی کریں۔
اور پھر اللہ رحمٰن کا کرنا ایسا ہوا کہ جنوری 2011 کو ایک نیا قانون متعارف ہوا جس کی رو سے جس ایمپلائی نے کمپنی میں دو سال گذارے ہوں تو وہ کمپنی کو اپنی مرضی سے چھوڑ سکتا ہے اور ایمپلائی پر چھ مہینے کا بین یا این او سی کی ضرورت بھی نہیں رہیگی۔ چونکہ میں نے کمپنی میں پونے تین سال گذارے تھے تو اس رو سے میں چھ مہینے کے بین اور این او سی سے مستثنیٰ ہوگیا۔
کیس عدالت میں جانے کے بعد اگر آپ کے پاس کسی بھی کمپنی کی آفر ہے تو عدالت میں دوسری پیشی کے ہوتے ہی کمپیوٹر میں آپ کا نام عارضی ورک پرمٹ کی لسٹ میں آجاتا ہے اور آپ جا کر ٹوکن لیکر کمپیوٹر سے عدالت کی این او سی حاصل کر سکتے ہیں جس کی بناء پر کسی کمپنی کو اگر آپ کی ضرورت ہو تو وہ درج ذیل پانچ چیزوں کو لیبر ڈپارٹمنٹ میں جمع کروا کر آپ کو چھ مہینے کا عارضی ورک پرمٹ ایشو کروادینگی۔
١۔ پاسپورٹ کاپی
۲۔ ویزہ کاپی
۳۔ لیبر کارڈ کاپی
۴۔ این او سی ۔ جو کہ عدالت دوسری پیشی کے بعد مطالبے پر جاری کی جاتی ہے
۵۔ آفر لیٹر۔ اس کمپنی کا جو آپ کو کام پر رکھنا چاہتی ہو۔
میرا ایک چھ مہینے کا ورک پرمٹ ختم ہوگیا ۔ اب میرا دوسرا ورک پرمٹ بنا ہوا ہے۔ چھ مہینے کے عارضی ورک پرمٹ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ چھ مہینے میں اس کمپنی کو جج کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کے لئے یہاں مزید کام کرنا اچھا رہیگا یا نہیں۔ وگرنہ چھ مہینے کے گذر جانے کے بعد نئی این او سی لیکر کسی نئی کمپنی میں بھی جوائن کر سکتے ہیں۔
ابو ظہبی میں دوسری کمپنی جوائن کرنے کے بعدچونکہ اپریل کے آخر میں میرا ویزہ ختم ہونے والا تھا جس کے بعد میں امارات سے باہر کیس ختم ہونے تک نہیں جاسکتا تھا۔ لہٰذا میں نے ڈھائی ہفتوں کی چھٹی لی اور عدالت کی پیشی سے دو دن پہلے کا ٹکٹ کنفرم کر کےپاکستان چلا گیا۔اور سترہ دن بعد واپس دبئی آگیا۔ گھر جانے سے پہلے میں احتیاطً میں امیگریشن آفس گیاتھا اور وہاں وہاں انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ میں جاکر اپنے کیس کے تمام کاغذات انوسٹی گیشن آفیسر کے سامنے رکھتے ہوئے اس سے آگاہ کیا کہ اس طرح میرا کیس عدالت میں چل رہا ہے اور میں ویزہ ختم ہونے سے پہلے گھر جانا چاہتا ہوں آپ ذرا چیک کریں کہ میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں تو نہیں جس پر اس آفیسر نے میرا پاسپورٹ لیکر کمپیوٹر میں میرا ریکارڈ چیک کیا اور کہاکہ تیس دن بعد آپ کا ویزہ ایکسپائر ہوجائیگا اور ان تیس دنوں میں آپ تیس دفعہ بھی آئیں اور جائیں تو بے شک آپ آ جا سکتے ہیں ۔
نئی کمپنی میں جانے سے پہلے میں نے پہلے سے ہی نئے ایمپلائر سے معاملات طے کر لئے تھے کہ اگر میں فیملی امارات نہیں لیکر آتا تو میں ہر تین مہینے بعد پندرہ دن کی چھٹی پر گھر جاونگا جس کو اس نے خوشی خوشی قبول کر لیا بلکہ اس نے مجھے آفر کی کہ آپ جیسے محنت کرنے والے لئے ہماری کمپنی میں بہت کچھ ہے جب تک آپ کا کیس نہیں ختم ہوجاتا آپ عارضی ورک پرمٹ پر کام کرتے رہیں کیس ختم ہونے ہی ایک دن میں اپ کا ویزہ کمپنی میں ٹرانسفر کر دیا جائیگا اور آپ کو فیملی کی سہولت کے لئے گاڑی بھی دے دونگا۔
واپس آکر میں ہر بارہ پندرہ اور کبھی کبھی بیس دن بعد مقررہ تاریخوں پر کیس کو فالو اپ کرتا رہا اور اپنے تمام کاغذات کو سنبھال کر رکھتا ۔
عدالت میں جس دن کمپنی کا وکیل یا کمپنی کا کوئی نمائندہ جج کے سامنے پیش ہوتا ہے تو کمپنی یا کمپنی کا وکیل اعتراضات جج کے حوالے کرتا ہے اور اس کی ایک کاپی مدعی کو بھی دے دی جاتی ہے۔ لیکن منہ سے کوئی بھی نہیں بتاتا کہ اس کا جواب بھی آپ نے اگلی پیشی پر دینا ہے۔
لیکن اللہ بھلا کرے میری والدہ جیسی مصری خاتون کا جو کہ knowledge villageمیں پروفیسر بھی تھیں اور ایک بینک میں لیگل ایڈوائزر بھی تھیں ہر قدم پر میرے تمام کاغذات کو عربی سے انگلش میں ترجمہ کر کے مجھے سمجھاتیں کہ یہاں اس چیز کی ضرورت ہےوغیرہ وغیرہ اور پھر اس کا جواب میں انگریزی میں دے دیتا تھا اور پھر وہ دوبارہ اس کو عربی میں ٹرانسلیٹ کرتی تھیں جو کہ میں جج کو اگلی پیشی پر دی دیتا اور ایک کاپی کمپنی کے وکیل کو۔
ایک ضروری بات ۔ جب آپ کا کیس عدالت میں ہوتا ہے تو آپ کو وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جج کے پاس ایک ترجمان ہوتا ہے جو آپ سے انگریزی یا اردو میں بات کر کے جج کو عربی میں بتاتا ہے۔
اس کے بعد جب فیصلے والا دن آیا تو جج نے مجھ سے کہا کہ آپ تین ہزار لے لیں اور کیس ختم کر دیں جس پر میں نے جج سے تکرار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس فیصلے کو نہیں مانتا لہٰذا فیصلہ دینے کی بجائے ابھی سے میں اپیل کرنا چاہتا ہوں۔ اور پھر جج نے کیس کو دوسری عدالت میں بھیج کر مجھے تین ہفتے بعددوسرے سرکل جانے کو کہا۔ واپسی پر نہ جانے کیوں خیال آیا کہ اگلی پیشی کی تاریخ کا پرنٹ آوٹ لے لوں کیوں کہ ویزہ تو پہلے سے ہی ختم تھا اور عارضی ورک پرمٹ بھی ختم تھا لہٰذا تاریخ کا پرنٹ آوٹ میرے پاس رکھنا لازمی امر تھا۔ تو 118 ونڈو میں جاکر اگلی تاریخ کا پرنٹ آوٹ لیا تو دیکھ کر حیران ہوگیا کہ جج نے مجھے تین ہفتے بعد آنے کو کہا ہے اور کمپیوٹر میں تاریخ دو ہفتے بعد کی ہے۔ وہ پرنٹ آوٹ لیکر میں سیدھا جج کے پاس دوبارہ گیا اور پرنٹ آوٹ اس کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے سوال کیا کہ آپ نے دس دن لیٹ کی تاریخ کیوں دی۔ کیا آپ مجھے غیر حاضر کرنا چاہتے تھے۔ جس پر اس نے کہا کہ نہیں آپ جو کمپیوٹر میں تاریخ ہے اسی تاریخ پر آئیں۔ اس کے بعد میری عادت بن گئی کہ ہر نئی تاریخ ملنے کے بعد 118 ونڈوز میں جاکر اپنا کیس نمبر دیکر اگلی پیشی کی تاریخ کا پرنٹ آوٹ لے لیتا تھا۔اور یوں میرا کیس دوسری عدالت میں چلا گیا۔ یہاں بھی تاریخ پر تاریخ اور پھر چار مہینوں بعد یکم نومبر کو جج صاحب نے فیصلہ کیا کہ کمپنی اپ کو پانچ ہزار درہم دے گی ۔ اس پیشی سے قبل سابقہ باس کا بھائی آیا تھا اور اس نے کہا کہ یار ایک سال ہونے کو ہی اب ختم ہی کر دو کیس تمہارا وقت ضائع ہورہا ہے جس پر میں نے جواب دیا کہ میرا وقت ضائع نہیں ہورہا ہے یہاں تک کہ جب میں دبئی پیش کے لئے آتا ہوں تو میرے آنے جانے کے اخراجات اور چھٹی بھی کمپنی کی طرف سے ہوتی ہے جو کے میری تنخواہ سے نہیں کاٹی جاتی۔ کمپنی کے ڈاکومنٹ اس کو دکھائے تو چکر کھا گیا اور الٹے پیر واپس چلا گیا۔ لیکن سب سے ضروری بات جو اس کو میں نے بتائی وہ یہ کہ جب تمہارے بھائی نے مجھے دہمکی دی تو یہ سب اسی دہمکی کا زور ہے وگرنہ میرے مزاج ایسے ہرگز نہیں ہیں کہ میں کسی کو نقصان کراوں یا کسی کا وقت ضائع کرنے کے لئے اپنا وقت بھی ضائع کروں
اب میرے پاس اور کمپنی کے پاس تیس دن ہیں جس میں ہم اگر چاہیں تو دوبارہ اپیل کر سکتے ہیں وگرنہ تیس دن بعد میں جاکر خود ہی عدالتی کاروائی پوری کر کے اپنا ویزہ کینسل کروالونگا اور نئی کمپنی میں اپنا ویزہ ٹرانسفر کروادونگا۔ اور اس کے بعد فیملی کو یہیں بلوالونگا۔)انشاء اللہ(
ہماری کمپنی میں پہلے بھی ایک انڈین کیس کر چکا تھا اور ایک سال بعد فیصلہ کمپنی کے حق میں ہوا کیوں کہ ثبوت کمپنی کے حق میں تھے۔ اس بار کمپنی کا خیال تھا کہ شاید میرے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا اسی لئے انہوں نے لیبر ڈپارٹمنٹ میں کیس کو فالو اپ نہیں کیا جس کا نقصان انہی کو اٹھانا پڑاکیوں کہ لیبر ڈپارٹمنٹ میں ان کو فائدہ تھا۔ جبکہ عدالت میں کیس کے جانے سے ان کو نقصان ہوا۔ وہ یہ کہ امارات کے قوانین کے مطابق جس کمپنی کے خلاف لیبر ڈپارٹمنٹ میں کیس ہوگاوہ کمپنی اپنے ملازمین کے ویزے تو کینسل کرواسکتی ہےلیکن نئے ملازمین کے لئے ویزے نہیں نکال سکتی ۔ اور یوں کمپنی ایک سال تک بغیر ڈیزائنر کے باہر سے فری لانس۔ اور کبھی کبھی باس کا بھائی جو ڈیزائنر ہے اپنی کمپنی چھوڑ کر وہاں جاکر وہاں کے کام نبٹایا کرتاہے۔ میری باری پر بھی انہوں نے یہی نسخہ آزمایا اور لیبر میں لیٹ کرواکر عدالت میں کیس لے آئے لیکن ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسے بھی قوانین ہیں جن کی رو سے کیس کرنے والے کہیں بھی نوکری کر سکتے ہیں۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کیس میں میرا بھی وقت اس حساب سے ضائع ہوا کہ اگر کیس ختم ہوگیا ہوتا تو آج میں اپنی فیملی کیساتھ یہاں پرگذار چکا ہوتا۔ لیکن دیر آیا درست آیا۔
درج بالا مضمون لکھتے وقت اس میں بہت ساری باتیں شاید رہ گئی ہوں کیوں کہ ایک سال اور دس دن کو تحریر میں لانا اتنا آسان نہیں ہے میرے لئے اور میں ایک لکھاری بھی نہیں ہوں۔ لہذا اگر کسی بھائی نے کچھ پوچھنا ہو تو ذپ ارسال کر دیں میں اپنی معلومات کے مطابق کوشش کرونگا کہ اس کا جواب دے سکوں