نوید ناظم
محفلین
پوچھتے ہو پتہ دِوانے سے
کیا لگے اس کو آشیانے سے
میں تو اُس کو بھی کھو چکا ہوں اب
یاد آیا مجھے کمانے سے
ہے مِرا بھی خمیر سونے کا
میں نکھر جاؤں گا جلانے سے
میری ہستی نہیں رہے گی بس
اور کیا ہو گا اُس کے جانے سے
مجھ کو سچ بولنے کی عادت ہے
میری بنتی نہیں زمانے سے
درد، غم، آہ، آنسو، کچھ لیجے
ایسے مت جائیے خزانے سے
میری آنکھوں میں کچھ نہیں ہے اب
خواب ہیں بس، وہ بھی پرانے سے
کیا لگے اس کو آشیانے سے
میں تو اُس کو بھی کھو چکا ہوں اب
یاد آیا مجھے کمانے سے
ہے مِرا بھی خمیر سونے کا
میں نکھر جاؤں گا جلانے سے
میری ہستی نہیں رہے گی بس
اور کیا ہو گا اُس کے جانے سے
مجھ کو سچ بولنے کی عادت ہے
میری بنتی نہیں زمانے سے
درد، غم، آہ، آنسو، کچھ لیجے
ایسے مت جائیے خزانے سے
میری آنکھوں میں کچھ نہیں ہے اب
خواب ہیں بس، وہ بھی پرانے سے