باز آمد
۔۔۔ ایک مونتاج
تتلیاں ناچتی ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہے
جیسے اک بات ہے جو
کان مں کہنی ہے، خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات!
دھُوپ میں تیزی نہیں
ایسے آتا ہے ہر اِک جھونکا ہَوا کا جیسے
دست شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا
اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے
جیسے میں نیند میں ہوں
عورتیں چرخے لئے بیٹھی ہیں
کچھ کپاس اوٹتی ہیں
کچھ سلائی کے کسی کام میں مصروف ہیں یوں
جیسے یہ کام ہے دراصل ہر اِک شے کی اساس
ایک سے ایک چہل کرتی ہے
کوئی کہتی ہے مری چوڑیاں کھنکیں تو کھنکاری مری ساس
کوئی کہتی ہے بھری چاندنی آتی نہیں راس
رات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر
بات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر
لذت وصل ہے آزار کوئی کہتی ہے
میں تو بن جاتی ہوں بیمار کوئی کہتی ہے
میں بھی گھس آتا ہوں اس شیش محل میں دیکھو
سب ہنسی روک کے کہتی ہیں نکالو اس کو
اِک پرندہ کسی اِک پیڑ کی ٹہنی پہ چہکتا ہے کہیں
ایک گاتا ہوا یوں جاتا ہے دھرتی سے فلک کی جانب
پوری قوت سے کوئی گیند اچھالے جیسے
اِک پھدکتا ہے سر شاخ پہ جس طرح کوئی
آمد فصل بہاری کی خوشی میں ناچے
گوندنی بوجھ سے اپنے ہی جھکی پڑتی ہے
نازنیں جیسے ہے کوئی یہ بھری محفل میں
اور کل ہاتھ ہوئے ہیں پلےا
کوئلیں کو کتی ہیں
جامنیں پکی ہیں آموں پہ بہار آئی ہے
ارغنوں بجتا ہے یکجائی کا
نیم کے پیڑوں میں، جھولے ہیں جدھر دیکھو ادھر
سانولی گاتی ہیں سب لڑکیاں آواز ملا کر ہر سو
اور اس آواز سے گونج اٹھی ہے بستی ساری
میں کبھی ایک کبھی دوسرے جھولے کے قریں جاتا ہوں
ایک ہی کم ہے وہی چہرہ نہیں
آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں کسی سے بڑھ کر
کیوں حبیبہ نہیں آئی اب تک؟
کھکھلا پڑتی ہیں سب لڑکیاں سن کر یہ نام
لو یہ سپنے میں ہیں، اِک کہتی ہے
باؤلی سپنا نہیں شہر سے آئے ہیں ابھی
دوسری ٹوکتی ہے
بات سے بات نکل چلتی ہے
ٹھاٹھ کی آئی تھی بارات چمیلی نے کہا
بینڈ باجا بھی تھا، دیپا بولی
اور دُلہن پہ ہوا کتنا بکھیر
کچھ نہ کچھ کہتی رہیں سب ہی مگر میں نے صرف
اتنا پوچھا وہ ندی بہتی ہے اب بھی کہ نہیں
جس سے وابستہ ہیں ہم اور یہ بستی ساری؟
کیوں نہںس بہتی چمیلی نے کہا
اور وہ برگد کا گھنا پیڑ کنارے اس کے؟
وہ بھی قائم ہے ابھی تک یوں ہی
وعدہ کر کے جو حبیبہ نہیں آتی تھی کبھی
آنکھیں دھوتا تھا ندی میں جا کر
اور برگد کی گھنی چھاؤں میں سو جاتا تھا
ماہ و سال آ کے چلے جاتے ہیں
فصل پک جاتی ہے کٹ جاتی ہے
کوئی روتا نہیں اس موقع پر
حلقہ در حلقہ نہ آہن کو تپا کر ڈھالیں
کوئی زنجیر نہ ہو!
زیست در زیست کا یہ سلسلہ باقی نہ رہے!
بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو
ایک نے گیند جو پھینکی تو لگی آ کے مجھے
میں نے جا پکڑا اسے، دیکھی ہوئی صورت تھی
کس کا ہے میں نے کسی سے پوچھا
یہ حبیبہ کا ہے، رمضانی قصائی بولا
بھولی صورت پہ ہنسی آ گئی اس کی مجھ کو
وہ بھی ہنسنے لگا، ہم دونوں یوں ہی ہنستے رہے
دیر تک ہنستے رہے
تتلیاں ناچتی ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں
جیسے اِک بات ہے جو
کان میں کہنی ہے خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات!
***