الف عین
لائبریرین
مشفقی
رنگوں کا چشمہ سا پھوٹا، ماضی کے اندھے غاروں سے
سرگوشی کے گھنگھرو کھنکے گرد و پیش کی دیواروں سے
یاد کے بوجھل پردے اٹھے، کانوں میں جانی انجانی
لوچ بھری آوازیں آئیں جیسے کوئی ایک کہانی
دور پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا پھولوں سے کہتا ہو
جیسے جھرنا قطرہ قطرہ رِس رِس کر بہتا رہتا ہو
مدت بیتی ان باتوں کو مضطر آج تلک رہتا ہے
دشت ہویدا کا دیوانہ تند بگولوں سے کہتا ہے
آگ ہے میرے پاؤں کے نیچے دُکھ سے چور مری نس نس ہے
ایک دفعہ دیکھا ہے اس کو ایک دفعہ کی اور ہوس ہے!
***