مسجد
دور، برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹّی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آ کے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دُعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہںس رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے
یا ابابیل کوئی آمد سرما کے قریب
اس کو مسکن کے لیے ڈھونڈ لیا کرتی ہے
اور محراب شکستہ میں سمٹ کر پہروں
داستاں سرد ممالک کی کہا کرتی ہے
ایک بوڑھا گدھا دیوار کے سائے میں کبھی
اونگھ لیتا ہے ذرا بیٹھ کے جاتے جاتے
یا مسافر کوئی آ جاتا ہے، وہ بھی ڈر کر
ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے آتے آتے
فرش جاروب کشی کیا ہے سمجھتا ہی نہیں
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
اب مصلیٰ ہے نہ منبر، نہ مؤذن نہ امام!
آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صدائے جبریل
اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے گی بنیاد
کھو گئی دشت فراموش میں آوازِ خلیل
چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے گزر جاتا ہے
ڈال دیتے ہیں ستارے دھُلی چادر اپنی
اس نگار دل یزداں کے جنازے پہ بس اِک
چشم نم کرتی ہے شبنم یہاں اکثر اپنی
ایک میلا سا، اکیلا سا، فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو، کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے، مگر ایک بجھا کرتا ہے!
تیز ندی کی ہر اِک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی!
***