"دسمبر" کے حوالے سے کوئی شعر ۔ ۔ ۔ ۔


" دسمبر "
حوالے سے کوئی شعر، کوئی نظم، کوئی غزل ۔ ۔۔آپ بھی لکھیے


"قطعہ"

تری یاد اور برف باری کا موسم
سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں ایک دسمبر اکیلے ۔ ۔ ۔


 

ظفری

لائبریرین
دسمبر ہی صحیح نہیں ہے تو عنوان کیا صحیح کیا جائے ۔ بہت سے چاہنے والے اسی ماہ بچھڑ گئے یعنی دنیا میں نہیں رہے ۔ جو دنیا میں ہیں وہ بھی اسی ماہ کی برکت سے نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ یعنی اب ان سے کوئی ملاقات نہیں اور نہ ہی ملاقات کا امکان ہے ۔ اور ستم تو یہ ہے کہ میری پیدائش بھی اسی ماہ کی ہے ۔ اب کیا کیا جائے ۔ :)
 
دسمبر ہی صحیح نہیں ہے تو عنوان کیا صحیح کیا جائے ۔ بہت سے چاہنے والے اسی ماہ بچھڑ گئے یعنی دنیا میں نہیں رہے ۔ جو دنیا میں ہیں وہ بھی اسی ماہ کی برکت سے نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ یعنی اب ان سے کوئی ملاقات نہیں اور نہ ہی ملاقات کا امکان ہے ۔ اور ستم تو یہ ہے کہ میری پیدائش بھی اسی ماہ کی ہے ۔ اب کیا کیا جائے ۔ :)


ارے ۔ ۔ ۔ ۔ دسمبر تو بہت اچھا ہوتا ہے ۔ ۔ زندگی کی بے ثباتی کا یقین دلاتا ہوا ۔ انسان کے لئے سوچ کے در کھولتا ہوا ۔ ۔ ۔

دسمبر تو بہت کھنچتا ہے اپنی طرف ۔ ۔ ۔
 
" قطعہ"
خنک رات میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے
ترے آنے کی امید بھی ہو چلی معدوم !
نئے برس کا اہتمام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
آج ثناء اللہ بھائی نے دسمبر کے عنوان سے ایک غزل پوسٹ کی تھی، وہی لکھ دیتا ہوں۔

ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

آنگن میں اُتر آئی ہے مانوس سی خوشبو
یادوں کا اژدہام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

خاموشیوں کا راج ہے ،خزاں تاک میں ہے
اداسی بھی بہت عام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
نئے برس کا اہتمام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

خُنک رت میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تم آؤ تو مرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
نئے رُت تو سرِ بام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے​
 
آج ثناء اللہ بھائی نے دسمبر کے عنوان سے ایک غزل پوسٹ کی تھی، وہی لکھ دیتا ہوں۔

ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

آنگن میں اُتر آئی ہے مانوس سی خوشبو
یادوں کا اژدہام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

خاموشیوں کا راج ہے ،خزاں تاک میں ہے
اداسی بھی بہت عام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
نئے برس کا اہتمام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

خُنک رت میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تم آؤ تو مرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
نئے رُت تو سرِ بام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے​

بہت اچھی غزل ہے
 

حجاب

محفلین
محبت کے دسمبر میں
اچانک جیسے تپتا جون آیا ہے
تمہارا خط نہیں آیا نہ کوئی فون آیا ہے
تو کیا تم کھو گئے اجنبی چہروں کے جنگل میں
مسافر مل گیا کوئی ، کسی منزل کسی پل میں
عقیدت کے سنہرے پھول
چپکے سے کسی نے باندھ ڈالے آ کے آنچل میں
یکایک موڑ کوئی آگیا چاہت کی منزل میں
خیال وعدہء برباد بھی تم کو نہیں آیا
تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یاد بھی تم کو نہیں آیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

سارہ خان

محفلین
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
 

سارہ خان

محفلین
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اُس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا
پل بھرمہک اُٹھا

دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کئے ذرّے ستارے ہیں
گل و بلبل ، مہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمہ سُناتی ہے
دسمبر! ہم سےمت پوچھہ ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے
محبّت برف جیسی ہے یہاں، اور دھوپ کھیتوں میں اُگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو۔۔ شب کے
سارے سپنے راکھہ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سُنہرے خواب بُنتے ہیں پھر
اُن خوابوں میں جیتے ہیں
اُنہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی۔۔
دسمبر! اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
 

عیشل

محفلین
الاؤ بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
تیرا خیال میرے طاقچوں میں رہتا ہے
بچا کے خود کو گذرنا محال لگتا ہے
تمام شہر میرے راستوں میں رہتا ہے
 

عیشل

محفلین
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گذر گیا
جو بات معتبر تھی،وہ سر سے گذر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اُتر گیا
 
محبت کے دسمبر میں
اچانک جیسے تپتا جون آیا ہے
تمہارا خط نہیں آیا نہ کوئی فون آیا ہے
تو کیا تم کھو گئے اجنبی چہروں کے جنگل میں
مسافر مل گیا کوئی ، کسی منزل کسی پل میں
عقیدت کے سنہرے پھول
چپکے سے کسی نے باندھ ڈالے آ کے آنچل میں
یکایک موڑ کوئی آگیا چاہت کی منزل میں
خیال وعدہء برباد بھی تم کو نہیں آیا
تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یاد بھی تم کو نہیں آیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

بہت خوب حجاب
 
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اُس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا
پل بھرمہک اُٹھا

دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کئے ذرّے ستارے ہیں
گل و بلبل ، مہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمہ سُناتی ہے
دسمبر! ہم سےمت پوچھہ ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے
محبّت برف جیسی ہے یہاں، اور دھوپ کھیتوں میں اُگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو۔۔ شب کے
سارے سپنے راکھہ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سُنہرے خواب بُنتے ہیں پھر
اُن خوابوں میں جیتے ہیں
اُنہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی۔۔
دسمبر! اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا


بہت اچھی نظم ہے سارہ
 
Top