"دسمبر" کے حوالے سے کوئی شعر ۔ ۔ ۔ ۔

محسن نقوی کی یہ نظم ان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے ۔ ۔ "جنھیں دسمبر راس نہیں آتا"


"نظم"

"دسمبر مجھے راس نہیں آتا"

کئی سال گزرے

کئی سال بیتے

شب و روز کی گردشوں کا تسلسل

دل و جان میب سانسوں کی پرتیں الٹے ہوئے

زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے

چٹختے ہوئے خواب

آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں

مگر میں اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو

بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر

اب تک وہی جستجو کا سفر کررہا ہوں

گزرتا ہوا سال جیسا بھی گزرا

مگر سال کے آخری دن

نہایت کٹھن ہیں

میرے ملنے والو!

نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے

تو ملنا

کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں

یہ بجھتا ہوا دل

دھڑکتا تو ہے مسکراتا نہیں

دسمبر مجھے راس آتا نہیں


" محسن نقوی"



 
" نظم'

آخری چند دن دسمبر کے


ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خوائشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں

رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے

فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے


کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں

دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں

ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی

ڈائری ایک سوال کرتی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟/
کیا خبر اس برس کے آخر تک

میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے

خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے

ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے

ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے

نام میرا بھی

کٹ گیا ہوگا

(امجد اسلام امجد)



 

حجاب

محفلین
دسمبر کی شاموں میں اتنی دل آویز افسردگی ہے
کہ جی چاہتا ہے
کہیں بیٹھ کے خوب جی بھر کے روئیں
ہواؤں میں یوں چھوٹی چھوٹی
بدلیاں تیرتی پھر رہی ہیں
کہ جیسے کسی کی یاد سے
دل میں ٹھنڈک کی اک لہر سی دوڑ جائے
فِضا اس قدر خوبصورت ہے
جیسے کوئی دوست بیٹھا ہوا
دوست کو اپنے غم کی کہانی سنائے
مگر تم کہاں ہو
تم آؤ
میں بھی تمہیں اپنے غم کی کہانی سناؤں
تم آؤ ہم بھی کہیں بیٹھ کر
خوب جی بھر کے روئیں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

حجاب

محفلین
کہا تھا یہ دسمبر میں
ہمیں تم ملنے آؤ گے
دسمبر کتنے گزرے ہیں
تمہاری راہوں کو تکتے
نجانے کس دسمبر میں
تمہیں ملنے کو آنا ہے
ہماری تو دسمبر نے
بہت اُمیدیں توڑیں ہیں
بڑے سپنے بکھیرے ہیں
ہماری راہ تکتی منتظر پُر نم نگاہوں میں
ساون کے جو ڈیرے ہیں
دسمبر کے ہی تحفے ہیں
دسمبر پھر سے آیا ہے
جو تم اب بھی نہ آئے تو
پھر تم دیکھنا خود ہی
تمہاری یاد میں اب کے
اکیلے ہم نہ روئیں گے
ہمارا ساتھ دینے کو
ساون کے بھرے بادل
گلے مل مل کے روئیں گے
پھر اتنا پانی برسے گا
سمندر سہہ نہ پائے گا
کرو نہ ضد چلے آؤ
رکھا ہے کیا دسمبر میں
دلوں میں پیار ہو تو پھر
مہینے سارے اچھے ہیں
کسی بھی پیارے موسم میں
چپکے سے چلے آؤ
سجن اب مان بھی جاؤ
دسمبر تو دسمبر ہے
دسمبر کا کیا بھروسہ
دسمبر بیت ہی جائے گا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
شمشاد صاحب شاعر کا نام نہیں پتہ مجھے۔۔ ایف ایم سے سنی تھی نظم اور ڈائری میں لکھ لی۔۔
 

ظفری

لائبریرین
رات اس نے پوچھا تھا
تم کو کیسی لگتی ہے
چاندنی دسمبر کی ؟

میں نے کہنا چاہا تھا
سال و ماہ کے بارے میں
گفتگو کے کیا معنی ؟
چاہے کوئی منظر ہو
دشت ہو ، سمندر ہو
جون ہو ، دسمبر ہو
دھڑکنوں ‌کا ہر نغمہ
منظروں پر بھاری ہے
ساتھ جب تمہارا ہو
دل کو اک سہارا ہو
ایسا لگتا ہے جیسے
ایک نشہ سا طاری ہو

لیکن اس کی قربت میں
کچھ نہیں کہا میں نے
تکتی رہ گئی مجھ کو
چاندنی دسمبر کی !
 

ظفری

لائبریرین
الاؤ بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
تیرا خیال مرے طاقوں میں رہتا ہے
بچا کو خود کو گذرنا محال لگتا ہے
تمام شہر میرے راستوں میں رہتا ہے
 

ظفری

لائبریرین
یاد ہے میں کیا تھا، پر اب جانے کیا ہو گیا
آئینے میں شکل دیکھے ، زمانہ ہو گیا
ختم ہوئی ڈائری ، گرتے ہوئے پتے ریاض
آ گیا ماہِ دسمبر، سال بوڑھا ہو گیا
 

ظفری

لائبریرین
عجیب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
" مجھے تُم یاد کرتے ہو ! "
" تمہیں میں یاد کرتی ہوں "
میری باتیں ستاتیں ہیں
میری نیندیں جگاتیں ہیں
میری آنکھیں رُلاتیں ہیں
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش راستے سے
کوئی آواز آتی ہے
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں
تُم اب بھی چھت پر جاتے ہو
فلک کے سب ستاروں کو
میری باتیں سناتے ہو
کتابوں سے تمہارے عشق میں کوئی کمی آئی ؟
یا میری یاد کی شدت سے آنکھوں میں نمی آئی
عجیب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
جواباً اس کو لکھتا ہوں
میری مصروفیت دیکھو ! صبح سے شام آفس میں
چراغِ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دنیا کی
کئی مجبوریاں پاؤں میں بیڑی ڈال رکھتیں ہیں
مجھے بےفکر چاہت سے
بھرے سپنے دکھائی نہیں دیتے
ٹہلنے ، جاگنے ، رونے کی مہلت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ہوا
کتابوں سے شغف میرا ، ویسے ہی قائم ہے
فرق اتنا پڑا ہے اب
انہیں عرصے میں پڑھتا ہوں
تمہیں کس نے کہا پگلی !
تمہیں میں یاد کرتا ہوں !
کہ میں‌ خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری بہت ناکام رہتی ہے
میرے دن رات میں اب تمہاری شام رہتی ہے
میرے لفظوں کی ہر مالا تمہارے نام رہتی ہے
تمہیں کس نے کہا پگلی !
تمہیں میں یاد کرتا ہوں
پرانی بات ہے جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انہیں ہم یاد کرتے ہیں ، جنہیں ہم بھول جاتے ہیں
عجیب پاگل سی لڑکی ہو
میری مصروفیت دیکھو !
تمہیں دل سے بھٌلاؤں تو تمہاری یاد آئے ناں !
تمہیں دل سے بھلانے کی فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں
تمہارے خط کا ایک جملہ
" تمہیں میں یاد آتی ہوں "
میری چاہت کی شدت میں کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتا ہے ، مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار اپنے خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا
عجب پاگل سی لڑکی ہے ، پھر بھی یہ لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو ، تمہیں میں یاد آتی ہوں !!
 
کہا تھا یہ دسمبر میں
ہمیں تم ملنے آؤ گے
دسمبر کتنے گزرے ہیں
تمہاری راہوں کو تکتے
نجانے کس دسمبر میں
تمہیں ملنے کو آنا ہے
ہماری تو دسمبر نے
بہت اُمیدیں توڑیں ہیں
بڑے سپنے بکھیرے ہیں
ہماری راہ تکتی منتظر پُر نم نگاہوں میں
ساون کے جو ڈیرے ہیں
دسمبر کے ہی تحفے ہیں
دسمبر پھر سے آیا ہے
جو تم اب بھی نہ آئے تو
پھر تم دیکھنا خود ہی
تمہاری یاد میں اب کے
اکیلے ہم نہ روئیں گے
ہمارا ساتھ دینے کو
ساون کے بھرے بادل
گلے مل مل کے روئیں گے
پھر اتنا پانی برسے گا
سمندر سہہ نہ پائے گا
کرو نہ ضد چلے آؤ
رکھا ہے کیا دسمبر میں
دلوں میں پیار ہو تو پھر
مہینے سارے اچھے ہیں
کسی بھی پیارے موسم میں
چپکے سے چلے آؤ
سجن اب مان بھی جاؤ
دسمبر تو دسمبر ہے
دسمبر کا کیا بھروسہ
دسمبر بیت ہی جائے گا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
شمشاد صاحب شاعر کا نام نہیں پتہ مجھے۔۔ ایف ایم سے سنی تھی نظم اور ڈائری میں لکھ لی۔۔

بہت خوب حجاب ۔۔ ۔پڑھ کر لگتا ہے اسے کبھی سماعتوں سے گزری ہے
 
عجیب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
" مجھے تُم یاد کرتے ہو ! "
" تمہیں میں یاد کرتی ہوں "
میری باتیں ستاتیں ہیں
میری نیندیں جگاتیں ہیں
میری آنکھیں رُلاتیں ہیں
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش راستے سے
کوئی آواز آتی ہے



بہت خوب، اس نظم نے خلیل اللہ فاروقی کی ایک نظم "اب بھی ہر دسمبر میں" کی یاد دلا دی ہے-
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری بھائی بہت ہی خوبصورت نظم ہے۔
(املا کی ایک غلطی ہے اس میں - کہ میں‌ خود کہ بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں)
 
اب بھی ہر دسمبر میں​
۔ ۔ ۔ ۔ ۔


مجھ سے پوچھتے ہیں لوگ
کس لئے دسمبر میں
یوں اداس پھرتا ہوں

کوئی دکھ چھپاتا ہوں
یا کسی کے جانے کا
سوگ پھر مناتا ہوں

آپ میرے البم کا صفحہ صفحہ دیکھیں گے
آئیے دکھاتا ہوں ضبط آزماتا ہوں

سردیوں کے موسم میں گرم گرم کافی کے
چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
کوئی مجھ سے کہتا تھا
ہائے اس دسمبر میں کس بلا کی سردی ہے
کتنا ٹھنڈا موسم ہےکتنی یخ ہوائیں ہیں

آپ بھی عجب شے ہیں
اتنی سخت سردی میں ہوکے اتنے بےپروا
جینز اور ٹی شرٹ میں کس مزے سے پھرتے ہیں
شال بھی مجھے دی کوٹ بھی اوڑھا ڈالا
پھر بھی کانپتی ہوں میں

چلئیے اب شرافت سے پہں لیجیے سوئیٹر
آپ کے لئے بن لیا تھا دودن میں
کتنا مان تھا اس کو میری ،اپنی چاہت پر

"اب بھی ہر دسمبر میں اس یاد آتی ہے"

گرم گرم کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتی
ہاتھ گال پر رکھے حیرت و تعجب سے
مجھ کو دیکھتی رہتی اور مسکرادیتی
شوخ و شنگ لہجے میںمجھ سے پھر وہ کہتی تھی
اتنے سرد موسم میں آدھی سلیوز کی ٹی شرٹ

"میل شاوانیزم" ہے

کتنی مختلف تھی وہ

سب سے منفرد تھی وہ

(خلیل اللہ فاروقی)

 

حجاب

محفلین
امید ، آپ نے فاروقی صاحب کے پروگرام میں وہ نظم سنی ہوگی ، میں سناتی ہوں ہر دسمبر میں ۔۔۔اس دسمبر میں کال نہیں کی۔۔۔
 
Top