گزرتے سال کا نوحہ
دسمبر جانے والا ہے
دکھائوں گا
میں اس کے انت میں
کچھ تلخ تصویریں
کہیں بچے،بلکتے بھوک سے بچے
سسکتی آرزوئیں مامتائوں کی
کہیں فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے مزدور بیچارے
گدائوں کی صدائیں جن میں دردو سوز شامل ہے
کہیں ٹھٹھری ہوئی شب
اور
کچھ ٹوٹے ہوئے خیمے
جہاں انسان بستے ہیں
کہیں سیلاب کے مارے
کہیں حالات کے مارے
کہیں بے رحم رسموں کے
برستے تازیانےِ ہیں
کہیں بچوں کی محنت اور
منظر کارو کاری کے
بہت سی وارداتیں خودکشی کی ہیں
کہیں مظلوم ہے عورت
کوئی خاوند ستائی ہے
کہیں ہوتا تشدد ہے
کہیں آہیں کراہیں ہیں
کہیں اِفلاس کے مارے
کہیں زردار ہیں اسراف پر مائل
سیاسی شعبدہ بازوں کی مصنوعی اداکاری
عدالت کے سٹالوں میں لگی انصاف کی بولی
کہیں ایوان میں لگتے ہوئے سودے
کہیں چٹی دلالوں کا چلن تھانے کچہری میں
کوئی کچرے میں ہے روزی کا متلاشی
کسی کے ہاتھ میں بستہ
کسی کے ہاتھ میں کاسہ
کہیں اشیائے خوردو نوش
گوداموں میں پوشیدہ ہے
کہیں مہنگائی کا ماتم
کہیں منظر جرائم کے
انہیں اب کون روکے گا
نکل آیا ہے اک اہلِ قلم ارشؔد
مجاہد کی طرح لینے
قلم سے کام نیزے کا
وہ محوِ جنگ رہتا ہے
وہ لڑتا ہے مسلسل ان عذابوں سے
چلو تم بھی معاون اس کے بن جائو
ارشد تونسوی