زینب

محفلین
ہا ہا ہا اب دسمبر تو گرمی میں ہی یاد آے گا نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا کے بندہ دسمبرمیںدسمبرکو یادکرےگا;)
 

زینب

محفلین
کھا نا تو تب یاد آتا ھے جب بھوک لگتی ھے آپ اب بھوک،کھانا اور اگست کا جوڑ بتاؤ
 

زینب

محفلین
پھر نھں ھو سکتا کیوں کی یہاں سارا سال بارش تو آتی ہی نھں۔۔۔کوئ اور طریقہ بتائں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زینب

محفلین
میں نے پو چھا تھا جو موجود ھو اسے کیسے یاد کیا جائے جس کے آپ دعو یدار تھے۔۔۔:p
 
کہتے ہیں مینڈک برسات میں باہر نکلتے ہیں۔ حقیقت حال اس سے مختلف نظر آتی ہے۔ اس مخلوق کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو سال کے آخری مہینے، جب سردی عروج پر ہوتی ہے تو جھٹ سے باہر آ جاتی ہے۔ اور آ کر جان کو آ جاتی ہے۔ مینڈک جیسی خوبصورت مخلوق اپنے خوش الحان لہجے میں کس ترنگ اور ڈھنگ سے سر اور تان لگا کر ہمیں محظوظ رکھتی ہے۔ برسات میں آپ کو کبھی بھی، کہیں بھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ ایک دوست اور رہنما شے ہے۔ ہر خطرے کی اور آپ کی آمد سے پہلے یہ آموجود ہوتی ہے۔ برساتی مینڈک اپنے جملہ خواص کے ساتھ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ دسمبری مینڈک بہرطور یہ کارنامہ سرانجام دیتے ہیں۔
نومبر کے آخری ایام ہیں اور قاصدین دسمبر، آمد دسمبر کے رقعے لانا شروع ہو چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم اور آپ سے بھی درخواست ہے کہ حسب توفیق و ذائقہ اپنا حصہ ڈالتے ہوئے یہاں دسمبری شاعری میں اپنا حصہ ڈالیں اور۔۔۔۔ حاصل کریں۔
نوٹ: یہ ہر گز ضروری نہیں کہ دسمبر پر|متعلق کی جانے والی جملہ "شاعری" صرف "خواص" کے لیے ہو۔ "عوام" نے بھی اس میں کچھ حصہ ضرور ڈالا ہو گا تو وہ بھی ضرور پیش کریں۔ لیجیے ابتدا ہم کیے دیتے ہیں۔

بے ﻗﺮﺍﺭ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟﮭﺮﻭنکوں ﺳﮯ
ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺳﮯﻣﻠﻨﮯﮐﯽ
ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ
ﺁﺝ ﮐﻞ ﻧﻮﻣﺒﺮ ﮐﯽ
ﭘﮭﺮﺍﺩﺍﺱ ﺷﺎﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ
ﺩﺳﻤﺒﺮ ﮐﮯ ﺁﻧﮯﻣﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺯﺭﺩ ﺯﺭﺩ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﺱ ﺳﺮﺩ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﭨﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
 
اوّلیں چند دسمبر کے
اوّلیں چند دسمبر کے​
ہربرس ہی عجب گزرتے ہیں​
انٹرنٹ کے نگار خانے سے​
کیسے کیسے ہنر گزرتے ہیں​
بے تکے بےوزن کلاموں کی​
محفلیں کئی ایک سجتی ہیں​
میڈیا کے سماج سے دن بھر​
کیسی پوسٹیں پکارتی ہیں مجھے​
"جن میں مربوط بےنوا گھنٹی"​
ہر نئی اطلاع پہ بجتی ہے​
کس قدر پیارےپیارے لوگوں کے​
بد شکل بد قماش کچھ مصرعے​
ٹائم لائن پہ پھیل جاتے ہیں​
شاعروں کے مزار پر جیسے​
فن کے سوکھے ہوئے نشانوں پر​
بدوضع شعر ہنہناتے ہیں​
پھر دسمبر کے پہلے دن ہیں اور​
"ہر برس کی طرح سے اب کے بھی"​
بے طرب صفیں باندھتے ہیں یہ​
"کیا خبر اس برس کے آخر تک"​
شعر اور بےوزن سے مصرعوں سے​
کتنے دل اب کے کٹ گئے ہوں گے​
کتنے شعراء اپنی قبروں میں​
پھڑ پھڑا کر اکڑ گئے ہوں گے​
بےبحر شاعری کے جنگل میں​
کس قدر ظلم ہوگئے ہوں گے​
"ہر دسمبر یہ سوچتا ہوں میں"​
"اک دن ایسا بھی تو ہونا ہے"​
شاعری کے ہنر کو سونا ہے​
بےبحر بے طرب یہ سارے شعر​
کب عروض و بحر سمجھتے ہیں​
بس دسمبر کی رٹ لگائے ہوئے​
سماجی میڈیا کو بھر دیا ہوگا​
اور کچھ بےتکے سےمصرعوں سے​
ایک دیوان چھپ گیا ہوگا​
(بقلم نیرنگ خیال )​
 
Top