ہربرس ہی عجب گزرتے ہیں
انٹرنٹ کے نگار خانے سے
کیسے کیسے ہنر گزرتے ہیں
بے تکے بےوزن کلاموں کی
محفلیں کئی ایک سجتی ہیں
میڈیا کے سماج سے دن بھر
کیسی پوسٹیں پکارتی ہیں مجھے
"جن میں مربوط بےنوا گھنٹی"
ہر نئی اطلاع پہ بجتی ہے
کس قدر پیارےپیارے لوگوں کے
بد شکل بد قماش کچھ مصرعے
ٹائم لائن پہ پھیل جاتے ہیں
شاعروں کے مزار پر جیسے
فن کے سوکھے ہوئے نشانوں پر
بدوضع شعر ہنہناتے ہیں
پھر دسمبر کے پہلے دن ہیں اور
"ہر برس کی طرح سے اب کے بھی"
بے طرب صفیں باندھتے ہیں یہ
"کیا خبر اس برس کے آخر تک"
شعر اور بےوزن سے مصرعوں سے
کتنے دل اب کے کٹ گئے ہوں گے
کتنے شعراء اپنی قبروں میں
پھڑ پھڑا کر اکڑ گئے ہوں گے
بےبحر شاعری کے جنگل میں
کس قدر ظلم ہوگئے ہوں گے
"ہر دسمبر یہ سوچتا ہوں میں"
"اک دن ایسا بھی تو ہونا ہے"
شاعری کے ہنر کو سونا ہے
بےبحر بے طرب یہ سارے شعر
کب عروض و بحر سمجھتے ہیں
بس دسمبر کی رٹ لگائے ہوئے
سماجی میڈیا کو بھر دیا ہوگا
اور کچھ بےتکے سےمصرعوں سے
ایک دیوان چھپ گیا ہوگا