حسن محمود جماعتی
محفلین
دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں
کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں
بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں
کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ جیسے آنکھوں کی کاجل نمی سے پھیلے ہیں
اُجاڑ راستے محرومِ سایۂ اشجار !
اِنھیں بھی پیش مِری زیست سے جھمیلے ہیں
درِیچے، برہنہ شاخوں کے اب نظاروں سے
مِری طرح ہی جُدائی کا کرب جَھیلے ہیں
انا گئی، کہ ہیں عاجز ہم اپنے دِل سے خلش
ہمارے ہاتھ ، تمنّا میں اُن کی پھیلے ہیں
شفیق خلش
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں
کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں
بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں
کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ جیسے آنکھوں کی کاجل نمی سے پھیلے ہیں
اُجاڑ راستے محرومِ سایۂ اشجار !
اِنھیں بھی پیش مِری زیست سے جھمیلے ہیں
درِیچے، برہنہ شاخوں کے اب نظاروں سے
مِری طرح ہی جُدائی کا کرب جَھیلے ہیں
انا گئی، کہ ہیں عاجز ہم اپنے دِل سے خلش
ہمارے ہاتھ ، تمنّا میں اُن کی پھیلے ہیں
شفیق خلش
(بشکریہ : طارق شاہ )