قمراحمد
محفلین
دس امیرترین پاکستانی افراد
روزنامہ اُصاوف(سرفراز سید کاکالم)
یہ کالم اکتوبر 2008 میں شائع ہوا
روزنامہ اُصاوف(سرفراز سید کاکالم)
یہ کالم اکتوبر 2008 میں شائع ہوا
ایک معاصرنے اسلام آباد کے ذرائع کے حوالے سے ملک کے دس امیر ترین افراد اور ان کے اثاثوں کی فہرست شائع کی ہے ۔ یہ نام یوں ہیں:
1۔میاں محمد منشا: دو ارب 50کروڑ ڈالر
2۔آصف علی زرداری :ایک ارب80کروڑ ڈالر
3۔ انور پرویز: ایک ارب 50 کروڑ ڈالر
4۔ میاں نوازشریف
میاں شہباز شریف:ایک ارب 40کروڑ ڈالر
5۔صدر الدین ہاشوانی: ایک ارب 10کروڑ ڈالر
6۔نثار سچن: ایک ارب ڈالر
7۔ عبدالرزاق یعقوب: ایک ارب ڈالر
8۔ رفیق حبیب
رشید حبیب: 90کروڑ ڈالر
9۔طارق سہگل' نسیم سہگل: 85کروڑ ڈالر
10۔ دیوان یوسف فاروقی:80کروڑ ڈالر
معاصرکے مطابق یہ اعداد و شمار نیٹ سے لیے گئے ہیں۔ ان کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ ملک کے امیر ترین شخص میاں منشامسلم کمرشل بینک اور پیپر ملوں کے علاوہ دوسرے وسیع کاروبار کے مالک ہیں۔
آصف علی زرداری متعدد شوگر ملوں کے مالک ہیں۔
انور پرویز بیسٹ وے گروپ کے چیئرمین ہیں۔
میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف اتفاق سٹیل ملزاور دوسری صنعتوں کے مالک ہیں۔
صدر الدین ہاشوانی پی سی ہوٹلوں اور میریٹ ہوٹل' متعدد سٹیل ملوں اور کاٹن ملوں کے مالک ہیں۔
نثار سچن معروف سچن گروپ کے مالک ہیں۔
عبدالرزاق یعقوب کا بین الاقوامی سطح پر سونے کا کاروبار ہے اور اے آروائی ٹیلی ویژن کے مالک ہیں۔
رفیق مجیب ورشید حبیب مشہور کاروباری ادارے چلا رہے ہیں۔
یہی صورت حال سہگل برادران اور دیوان گروپ کے مالک دیوان یوسف فاروقی کی ہے۔
ان دس افراد کے ملکیتی اداروں کے اثاثوں کی قیمت تقریباً بارہ ارب85 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ اسے80سے ضرب دیں تو یہ رقم کھربوں میں پہنچ جاتی ہے۔ان اثاثوں میں ان افراد کے بیرون ملک اربوں ڈالروں کے اثاثے شامل نہیں جن کی تفصیلات چھپتی رہتی ہیں! ان میں لندن میں ایک عرصہ سے مقیم الطاف حسین کے اثاثے بھی نہیں دیئے گئے ۔ اخبارات میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق انہیں ہر ماہ پاکستان سے تقریباً ایک ارب روپے کا چندہ بھیجا جاتا ہے۔ یہ رقم بارہ ارب روپے سالانہ بنتی ہے اسے اتنے برسوں سے ضرب دے لیں جب سے وہ پاکستان کو ترک کرکے برطانوی شہری بن چکے ہیں۔ وہ بھارت کا دورہ کر لیتے ہیں مگر پاکستان آنا پسند نہیں کرتے۔ خیر یہ تو ضمنی بات تھی۔ ویسے بھی معاصر عزیز نے جن افراد کی بات کی ہے ان کے اثاثے پاکستان کے اندر ہیں۔ بیرون ملک اثاثوں کی کبھی کوئی مستند تفصیل سامنے نہیں آئی نہ ہی یہ لوگ بتانے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک رسم کے طورپر ارکان اسمبلی کے کچھ ظاہری اثاثے رجسٹر کرادیئے جاتے ہیں اصل اثاثوں کی تفصیل کبھی سامنے نہیں آتی۔
ان اثاثوں کے تذکرہ پر ایک دوست نے میری توجہ مولانا فضل الرحمان کے اثاثوں کی طرف دلائی ہے کہ ان کے والد صاحب کے پاس تو عام سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی ان کا ڈیرہ اسماعیل خاں میں چھوٹا سا گھر تھا، وہاں سے وہ پیدل کچھ فاصلے پر اپنے چھوٹے سے مدرسہ میں جایا کرتے تھے۔ پھر مولانا فضل الرحمان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آگئی کہ وہ انتہائی قیمتی گاڑیوں کے مالک ہیں اورحکومت میں نہ بھی ہوں تو آئے دن ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں، اکثر سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے دورے بھی کرتے ہیں۔ ان کے اثاثوں کی بات بھی کردیجیے۔ اپنے اس دوست کو میں نے وضاحت کی ہے کہ میں اکابرین دین کے بارے میں بات کرتے وقت بہت محتاط رہتا ہوں۔ ان میں کوئی بھی ان لوگوں کی طرح اس طرح کا بڑا صنعت کار یا وسیع کاروبار کا مالک نہیں جن کی فہرست اوپر دی گئی ہے، میں مولانافضل الرحمان کا بھی بہت احترام کرتاہوں وہ ایک بڑی سیاسی و دینی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کی سیاست پر تو بات ہوسکتی ہے مگر ان کے ذاتی معاملات پر بات کرنامناسب نہیں، ہاں وہ خود ہی کسی وقت اپنے اثاثوں کی بات کردیں تو اور بات ہے۔
مجھے اس بات پر بے حد مسرت ہونی چاہیے کہ میرے ملک میں کم ازکم دس ایسے افراد موجود ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت اربوں بلکہ کھربوں روپے تک پہنچتی ہے، مگر عجیب سی بات ہے کہ میں خوش ہونے کی بجائے سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے اس وقت تقریباً پانچ ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے اور ملک کے اندر بارہ ارب ڈالر سے زیادہ اثاثے موجود ہیں جب کہ بیرون ملک اثاثوں کی ملکیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ اخبارات میں بعض افراد کے غیرملکی اثاثے بھی اربوں ڈالروں کے بتائے جاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے تو ہمارے مالیاتی حکام اور مشیروں کو بیرون ملک دربدر صرف پانچ ارب ڈالروں کے لیے کشکول پھیلانے کی کیا ضرورت ہے؟مجھے یقین ہے کہ یہ سارے لوگ نہائت محب وطن ہیں…مگر…!مگر…!انسان خالی ہاتھ چلا جاتا ہے، مال ودولت کے سارے ڈھیر یہیں رہ جاتے ہیں۔ اب ذہن کی اس سوچ کو کیا کہا جائے کہ کیا یہ لوگ صرف پانچ ارب ڈالروں کی قربانی نہیں دے سکتے!
کالم کا لنک:-
http://www.dailyausaf.com/edi_detail.php?id=148&art_id=14