دس محرم الحرام عاشورہ کے دن کیا کیا کام کرنے چاھئیں ایک مسلمان کو اِس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں
الیاس قادری صاحب نے جو باتیں بیان کی ہیں ان کی
خاص دس محرم سے کوئی فضیلت نہیں۔ یہ نیک کام ہر روز کیے جاسکتے ہیں بلکہ کرنے چاہیئں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محرم کے مہینہ کی جو عبادت ثابت ہے وہ محرم کے پورے مہینے میں بکثرت روزے رکھنا ہے۔
عاشورے کے دن کے روزے کے متعلق ایک بات جو اب بھی بیان کی جاتی ہے کہ صرف دس تاریخ کو روزہ نہ رکھنا بلکہ نو دس یا دس گیارہ محرم کو روزہ رکھنا ہے۔ وجہ اس کی یہ حدیث ہے کہ دس محرم کو یہودی روزہ رکھتے ہیں اس لیے تشبہ بالیہود سے بچنے کے لیے دس سے پہلے یا بعد میں ایک روزہ اور رکھ لو۔ آج کل یہود نہ دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں نہ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ چوں کہ اب تشبہ بالیہود کی علت ختم ہوچکی ہے چناں چہ اگر کوئی صرف دس محرم کا روزہ بھی رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے اور چاہے تو نو یا گیارہ کا ملا کر دو روزے بھی رکھ سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رمضان المبارک کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب روزوں سے افضل ہیں۔‘‘ (مسلم: کتاب الصيام: باب فضل صوم المحرم؛۱۱۶۳)
عاشوراء کا روزہ بے انتہا فضیلت کا حامل ہے۔حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یوم عاشوراء کے روزے کے تعلق سے امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیں گے۔‘‘ (ترمذی: الحث علی صوم یوم عاشوراء، حدیث:۷۵۲)
ایک روایت میں عاشوراء کے روزہ کی فضیلت یوں بیان کی گئی: ’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دن روزہ کا ارادہ کرتے ہوں اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں۔مگر اس دن یعنی یوم عاشوراء کو اور اس مہینہ یعنی ماہ رمضان کو دوسرے دن اور دوسرے مہینہ پر فضیلت دیتے تھے۔(بخاری: باب صیام یوم عاشوراء،حدیث:۱۹۰۲)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشوراء کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘ (مسلم : کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام؛ ۱۱۶۲)
عاشوراء، عشر سے ہے جس کے معنی ہیں دس ۔ اسی لیے محرم کی دسویں تاریخ کو عاشوراء کہا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی مشرکین عرب عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش کے لوگ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں قریش دسویں محرم کا روزہ کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے جو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں قریش نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جو ان پر بڑا گراں گزرا تو ان سے کہا گیا کہ تم لوگ عاشورا ءکا روزہ رکھو یہ تمہارے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ پھر اس وقت سے قریش عاشوراء کا روزہ رکھنے لگے۔ (فتح الباری: ۴؍۷۷۳، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء)
مشرکین مکہ کے علاوہ مدینہ کے یہود بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور اس دن عید مناتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’اس دن تم لوگ روزہ کیوں رکھتے ہو؟‘‘ تو وہ کہنے لگے یہ بہت بڑا دن ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی، فرعون اور اس کی قوم کو غرق آب کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت موسی علیہ السلام سے موافقت کی وجہ سے ہم تم سے زیادہ یہ روزہ رکھنے کے حقدار ہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ (مسلم:١١٣٠)
تاہم جب رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘ (مسلم، حدیث نمبر :١١٢٥)