دل عجب ایک بیتِ احزاں ہے (غزل برائے اصلاح)

غدیر زھرا

لائبریرین
دل عجب ایک بیتِ احزاں ہے
ماتمِ ہجر سے جو لرزاں ہے

نقدِ جاں ان سے کیا وصولیں گے
حسن نازاں ہے جنس ارزاں ہے

جب پتنگے میں جاں نہیں باقی
واسطے کس کے شمّع سوزاں ہے

پس زمانے سے کیا وہ پائے گا
اصل سے اپنی جو گریزاں ہے

موت ہر آن ہے تعاقب میں
زندگی ہر دم افتاں خیزاں ہے

(زہرا)
 
عمدہ۔ بہت خوب غزل ہے اور کیونکہ اصلاح سخن میں موجود ہے اس لیے مزید تادیبی کارروائی کے لیے متعلقہ محکمہ جات کے افسران کا انتظار فرمائیے۔ :battingeyelashes:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ۔
کئی جگہوں پر بہتری کی گنجائش ہے ۔
نقدِ جاں ان سے کیا وصولیں گے
حسن نازاں ہے جنس ارزاں ہے
ابلاغ نہیں ہوپایا ۔ نقدِ جاں کے بجائے قیمتِ جاں کا محل ہے ۔ دوسرے مصرع میں شاید آپ جنسِ ارزاں کہنا چاہ رہی ہیں ۔ لیکن اضافت لگانے کے بعد بھی ابہام برقرار رہتا ہے ۔

جب پتنگے میں جاں نہیں باقی
واسطے کس کے شمّع سوزاں ہے
دوسرا مصرع رواں نہیں ۔ اس کو یوں کردیکھئے : شمع کس کے لئے فروزاں ہے
پس زمانے سے کیا وہ پائے گا
اصل سے اپنی جو گریزاں ہے
پہلے مصرع میں پس کے بجائے اِس لگا دیجئے
موت ہر آن ہے تعاقب میں
زندگی ہر دم افتاں خیزاں ہے
افتاں کا الف بری طرح گر رہا ہے ۔ یہ مصرع بدل دیجئے ۔

ٹیگ کرنے اور غزل پڑھوانے کا پھر بہت بہت شکریہ۔ اچھی کاوش ہے ! آپ کے لئے بہت داد!
 
جی جی سر اپنی کم علمی کا پہلے اظہار کیا ہے۔
واسطے کس کے شمع سوزاں ہے

اس میں شمع کی ع گر جاتی ہے کیا مجھے یہ سمجھ نہیں
شمع کا درست وزن فاع ہے۔ درد کا شعر ہے
سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال کہ کچھ گفتگو کریں
 
اچھی کاوش ہے۔
قوافی میں ایطائے خفی ہے اور افتاں کا الف نہیں دبایا جا سکتا۔
میں تو سمجھ نہیں پایا کہ ایطاء کیسے ہوا احزاں اور لرزاں میں ۔احزاں تو ایک مستقل لفظ ہے(اگرچہ حزن کی جمع ہے )

غالب کا بھی تو ایک شعر ہے
بس کہ دشوار ہے ہر کا م کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں تو سمجھ نہیں پایا کہ ایطاء کیسے ہوا احزاں اور لرزاں میں ۔احزاں تو ایک مستقل لفظ ہے(اگرچہ حزن کی جمع ہے )

غالب کا بھی تو ایک شعر ہے
بس کہ دشوار ہے ہر کا م کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
غالب کے شعر میں بھی تو ایطاء ہو سکتا ہے۔ ایطاء کوئی بہت بڑی خطا نہیں۔ بعض اوقات کسی عیب کو بقیہ خوبی سے نا قابل احساس بنا دیا جاتا ہے۔ یہی تو قدرت شعری ہے۔
 
  1. غالب کے شعر میں بھی تو ایطاء ہو سکتا ہے۔ ایطاء کوئی بہت بڑی خطا نہیں۔ بعض اوقات کسی عیب کو بقیہ خوبی سے نا قابل احساس بنا دیا جاتا ہے۔ یہی تو قدرت شعری ہے۔
    کیا آپ ایطاء کی تعریف بیان کرنے کی زحمت گوارا فرمائیں گے ؟
    اور یہ آپ نے کیا فرمایا کہ ایطا کوئی بڑی خطا نہیں ہے ؟
    جنابِ والا ! ایک ماہر عروض کا قول میں نے سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے کہ ایطا عیوب فوافی میں سے ایک فحش عیب ہے۔
 
میں تو سمجھ نہیں پایا کہ ایطاء کیسے ہوا احزاں اور لرزاں میں ۔احزاں تو ایک مستقل لفظ ہے(اگرچہ حزن کی جمع ہے )

غالب کا بھی تو ایک شعر ہے
بس کہ دشوار ہے ہر کا م کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اول تو میں معذرت خواہ ہوں کہ چند مصروفیات کی بنا پر وقت پر آپ کے سوال کا جواب نہیں دے پایا.
اب اصل بات کی جانب آتے ہیں، احزاں اور لرزاں میں “زاں“ کی تکرار موجود ہے جس طرح دانا اور بینا میں نا کی تکرار ہے، زاں مکمل لفظ نہیں مگر اس کے باوجود اس کی تکرار بھلی معلوم نہیں ہوتی.
اسے ایطائے خفی کہتے ہیں. یہ ایطائے جلی یعنی مکمل لفظ کی تکرار جتنا سخت عیب نہیں اور اساتذہ کے کلام میں بھی کہیں کہیں پایا جاتا ہے، جیسا کہ غالب کے مذکورہ شعر میں ہے. بہرحال نشاندہی ضروری اور اجتناب مستحسن ہے.
 
Top