دل کا موسم بہت سہانا ہے - طرحی غزل اصلاح کے لئے

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
ابھی چند مہینے قبل فیس بک پر مصرع طرح "دل کا موسم بہت سہانا ہے"
'فاعلاتن مفاعلن فعلن (مع اجازات)' پر ایک غزل ترتیب دی تھی۔
اصلاح کی غرض سے پیش ہے ۔ غزل کی طوالت کے لئے معافی کا طالب ہوں۔
اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
دیگر اسا تذہ اور احباب محفل کی توجہ کا طالب ہوں۔
--------------------------------
1.حالتِ دل کو کیا چھپانا ہے
خود پہ رونا ہے، خود منانا ہے

2.لہر اک غم کی مجھ سے ٹکرائی
تر بہ تر دل کا آشیانہ ہے
یا پھر ۔۔
تر بہ تر دل پہ مسکرانا ہے
کون سی شکل بہتر ہے؟

3. وہ بھی پر نم، اداس ہیں ہم بھی
رشتہ غم کا ہے اور نبھانا ہے

4. دل کا الماس، آنکھ کا موتی
اک دکھانا ہے، اک چھپانا ہے

5. مسکرا کر وہ پھیرنا نظریں
گرمئیِ شوق کو بڑھانا ہے

6. خدشہ ہائے نہاں دھواں کر کے
آگہی کے دیے جلانا ہے !

7.خوشبوِ یاد یار سے مہکے
دل کا موسم بہت سہانا ہے

8.بیلے، جوہی کے پھول کا جھڑنا
نیند میں اس کا کسمسانہ ہے

9.پتّے کرنوں سے جس طرح کھیلیں
تیرے بندوں کا جھلملانا ہے

10۔ جادوئے حسن ناز کی ضو سے
چاند کو زرد رخ دکھانا ہے

11- جلترنگ سی یہ دھن جو پھوٹے ہے
تیرا خوش ہو کے کھلکھلانا ہے

12- ہجر میں یاد بے وفا کاشف
زہر اب زہر سے بجھانا ہے
یا پھر
زہر کو زہر سے بجھانا ہے
یہاں میرے خیال میں مصرع وزن سے باہر ہو رہا ہے ۔
 
آخری تدوین:
جہاں تک میرا خیال ہے. بجھانا یعنی جیسے خنجر کو ڈبو کر نکالنا اور بجھانا بمعنی' نیوٹرل' کرنا بے اثر کرنا. میں نے دوسرے معنی میں استعمال کیا ہے.
 
کاشف اسرار بھائی سب سے پہلے تو مبارک باد قبول کیجیے اچھی غزل ہے ماشاءاللہ
تر بہ تر دل کا آشیانہ ہے
یا پھر ۔۔
تر بہ تر دل پہ مسکرانا ہے

کاشف بھائی کوئی تیسرا مصرع دیکھ لیں ورنہ کم از کم دوسرا والا مصرع رکھیں کیونکہ آشیانہ کے لیے پہلے مصرع میں کوئی اہتمام نہیں ہے

پتّے کرنوں سے جس طرح کھیلیں
تیرے بندوں کا جھلملانا ہے
کاشف بھائی یہاں بات سمجھ نہیں آرہی ۔ بندوں کا جھلملانا سے کیا مراد ہے ؟ اساتذہ سے پوچھ لیں میرے نزدیک تو خوشی سے جھلملانا تو ایک بات ہے مگر بندوں کا جھلملانا پتہ نہیں کیا ہے -
ہجر میں یاد بے وفا کاشف
زہر اب زہر سے بجھانا ہے
یا پھر
زہر کو زہر سے بجھانا ہے

زہر میں بجھا ہونا تو پتہ ہے مجھے زہر سے بجھانا کو میں نہیں جانتا، اور نہ ہی مصرع اوّل میں اہتمام کیا گیا ہے کہ کسی چیز میں آگ لگی ہوئی ہے اور زہر مائع حالت میں دستیاب ہے -
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم ادب دوست، کاشف کی مراد ’بُندوں‘ سے ہے ’بَندوںُ سے نہیں۔
ویسے پر شعر میں تقریباً کچھ نہ کچھ کمی ہے۔ اس لئے میں نے دوستوں کی غلطی کی ہی نشان دہی کی۔ اور یہاں بھی وہی کر رہا ہوں۔
کاشف ایک بار خود غورسے دیکھیں تو ان کو بھی کچھ کمی کا احساس ہو سکتا ہے کہ بات اتنی واضح نہیں ہو سکی ہے۔
زہر بجھانا سے مراد اسے نیوٹرل کرنا اس وقت ممکن ہے جب کہ اس وضاحت کے لئے خود موجود ہوں!!! عموماً محاوہ زہر میں بجھاناہی ہوتا ہے۔
 
۔1۔
ایک لفظ کے کئی کئی معانی بھی ہو سکتے ہیں، اب اُن میں سے شاعر کون سے معانی لیتا ہے، یہ ہے بنیادی اختیار بھی اور سوال بھی۔ معانی آپ جو بھی منتخب کریں، سیاق و سباق میں اس کا میلان اور اشارہ کسی نہ کسی صورت میں ہونا چاہئے۔
۔2۔
اس سے بھی اہم بات! ایک چیز ہے لفظ سے خیال اخذ کرنا اور پھر اس کو آگے چلانا، دوسری ہے مضمون کو اولیت دے کر اُس کے لئے لفظ لانا۔ ان دونوں میں توازن بہت ضروری ہے۔ الفاظ کے بغیر بھی بات نہیں بنتی اور محض الفاظ سے بھی بات نہیں بنتی۔ شعر بناؤ بگاڑ کے چکر میں پڑ گیا تو شعر نہ رہا، اس پر کیا بحث اور کیا رائے!
۔3۔
علامات، رعایات، مراعات النظیر، اشارات، استعارات ۔۔۔ یا جو بھی نام ان کو دے لیجئے۔ ان میں ایک چیز مشترک ہونی چاہئے اور وہ ہے معنوی فضا یا ماحول۔ آشیاں، گھونسلا؛ یہ گھر کی علامت ہے۔ مگر میں بغیر کوئی معنوی سیاق و سباق بنائے اگر اپنی بیوی کا کہوں کہ وہ گھونسلے میں خوش رہتی ہے تو قاری مجھ پر ہنسے گا۔ مجھے علامتی طور پر اس کو اور کچھ نہ سہی چڑیا کہنا پڑے گا۔
۔4۔
آپ کا قاری بھی لفظ کو میڈیم کے طور پر لیتا ہے، لفظوں کا حسن و قبح آپ کے شعر پر اثرانداز ہوتا ہے، پکی بات! مگر اصل چیز جو آپ کو اپنے قاری تک پہنچانی ہے وہ محسوسات ہیں نہ کہ لفظ۔ محسوسات اگر لفاظی کے بوجھ میں دب گئے تو آپ نے قاری کو کچھ بھی نہیں دیا۔ وہ آپ کی لفظیات کو کیا کرے گا۔
۔5۔
بہ این ہمہ کچھ شعر ہوتے ہیں جنہیں زبان کے شعر کہا جاتا ہے۔ وہاں الفاظ سے معانی لے کر ان کا ایک تانا بانا بناتے ہیں اور اس کو کسی احساس کے گرد بُن دیتے ہیں۔ مگر یہ ایک مشکل کام ہے، اور اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر شعر ماسٹر پیس بن جاتا ہے۔
 
میں اس شعر کو کامیاب نہیں سمجھتا جہاں شاعر کو اپنی لفظیات کی وضاحت کرنی پڑے کہ جی اس کے یہ معانی بھی ہیں، وہ بھی ہیں، اور میں نے فلاں معانی لئے ہیں۔
 
1.حالتِ دل کو کیا چھپانا ہے
خود پہ رونا ہے، خود منانا ہے

محاورہ "کیا چھپانا" مکمل ہو گیا۔ "ہے" زائد۔ دوسرا مصرع جوڑا گیا ہے، اور لفظیات کی فضا بھی برہم ہے۔ خود پر رونا اور چیز ہے خود ہی رونا اور چیز ہے۔ خود پر رونا ہو تو وہاں منانے نہ منانے کی بات ہی نہیں ہوتی۔ خود ہی رونا اور خود ہی منانا؟ تو پھر منانا درست نہ رہا؛ مان جانا یا من جانا درست ہوتا۔
 
2.لہر اک غم کی مجھ سے ٹکرائی
تر بہ تر دل کا آشیانہ ہے
یا پھر ۔۔
تر بہ تر دل پہ مسکرانا ہے
کون سی شکل بہتر ہے؟

پہلا مصرع زیادہ رواں ہو سکتا تھا: غم کی اک لہر ۔۔ ۔۔ الفاظ کی نشست و برخاست میں جتنی ملائمت ہو گی شعر اتنا فصیح بنے گا۔
غم کا ذکر دل کے ساتھ زیادہ جچتا ہے مجھ کی بجائے۔ پھر آشیانہ کہاں سے آ گیا صاحب؟ یا تو اس کے لوازمات بھی لائیے۔ تر بہ تر کے معانی میں غم کا تاثر تھوڑا اور تھکن کا یا مشقت کا تاثر زیادہ بنتا ہے۔
 
3. وہ بھی پر نم، اداس ہیں ہم بھی
رشتہ غم کا ہے اور نبھانا ہے

بندہ پرنم نہیں ہوتا، بھائی! آنکھیں پرنم ہوتی ہیں۔ اور معنوی کمزوری اس میں یہ ہے کہ غم کا رشتہ نبھانے کا عمل کیا اداس ہونے سے پورا ہو گیا؟ یہاں لفظ نبھانا قافیے کی ضرورت کے تحت لایا گیا ہے، شعری ضرورت کچھ اور تھی۔
 
5. مسکرا کر وہ پھیرنا نظریں
گرمئیِ شوق کو بڑھانا ہے

پہلی بات تو ہجوں اور املاء کی نوٹ کر لیجئے۔ گرمئی کوئی لفظ نہیں ہے۔ مئی کے مہینے کا نام دیکھ لیجئے؛ ہم اس کو م ئی پڑھتے ہیں۔ گرمیءِ : گر مِ یے (آپ کا مقصود یہ ہے)۔ یعنی ہمزہ کو ی کے بعد لائیے، پہلے نہیں۔ دوسری بات محاورے کی: نظریں پھیرنا اور نظریں پھیر لینا یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ دوسری بات: ایک ایسا خیال یا مضمون جو بہت زیادہ بیان ہو چکا ہو، اسی کو بیان کرنا ہو تو اُس میں کچھ نیا پن لاتے ہیں؛ بیانیے میں، اظہار میں، لفظیات میں یا کسی اور انداز میں۔ ورنہ بس ایسے ہی ہے۔
 
گرمیٔ ۔۔۔۔ گرمئی ۔۔۔۔۔ دونوں کا فرق دیکھ لیجئے۔
پہلے کی ترتیب (م ی ء) دوسرے کی (م ء ی) ۔۔ گرمیٔ شوق، گرمیٔ محفل پہلی صورت ہے۔ دوسری وہی ہے
ع: مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُرمئی آسماں
 
آخری تدوین:
6. خدشہ ہائے نہاں دھواں کر کے
آگہی کے دیے جلانا ہے !

دھواں سے پہلے لفظ "کو" چاہئے تھا۔ دوسرے یہ کہ مضمون بڑا چھیڑ دیا، الفاظ اتنے تھوڑے ہیں کہ ان میں سما نہیں سکے گا۔ اتنے تھوڑے الفاظ میں "خدشہ ہائے نہاں"؟ یہاں تو الفاظ کو بچانا چاہئے تھا، بھرتی کی یہاں گنجائش کہاں!
 
8.بیلے، جوہی کے پھول کا جھڑنا
نیند میں اس کا کسمسانہ ہے

بیلے کی ے گر گئی، بیل رہ گئی۔ یہ بیل ہی لکھا ہوتا تو جوہی کی بیل عمدہ ترکیب نکل آتی۔ ویسے مجھے نہیں پتہ کہ جوہی کی بیل ہوتی ہے یا جھاڑی۔
جھرنا تو پانی کا ہوتا ہے۔ پھول کا جھرنا بنانے پر تو بہت جان مارنی پڑے گی۔
کسمسانا ۔۔۔ اردو کا مصدر ہے۔ الف آئے گا، نہ کہ ہ ۔۔۔ اس مصرعے کو رواں کیا جا سکتا تھا: اس کا سوتے میں کسمسانا ہے
ع: شاعری خونِ جگر مانگتی ہے
لفظوں کے ساتھ جبر نہ کیا کریں، یہ آپ کا قاری پر جبر ہو گا۔
 
Top