"اتنے شواہد موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری سکیورٹی فورسز نے انیس مارچ کو حلب میں خان الاصل ، انیس مارچ کو دمشق میں اوتیبا، تیرہ اپریل کو حلب میں شیخ مقصود کے مضافات ا ور انتیس اپریل کو صوبہ ادلیب میں سراکب پر حملوں کے دوران محدود مقدار میں زہریلا کیمیائی مواد استعمال کیا"
رپورٹ اقوامِ متحدہ
ان کیمیائی نمونوں کو جن میں خون اور پیشاب کے نمونے شامل ہیں فرانس کے بڑے اخبار ’لا مونڈ‘ کے صحافی شام سے سمگل کر کے باہر لے کر آئے ہیں۔ یہ نمونے شامی دارالحکومت دمشق اور شمالی قصبے سراقب سے حاصل کیے گئے تھے جہاں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے تھے۔
سارین ایک بے رنگ اور بے بو گیس ہے جس کا استعمال کئی ممالک کی جانب سے ممنوع ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ایسی معلومات سامنے آئی ہیں جس میں مارچ اور اپریل میں چار مواقع ایسے تھے جن میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی طرف نشاندہی ہوتی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ب ات کو خارج نہیں کیا جا سکتا کہ باغیوں نے بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہوں۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب شام کے حوالے سے امن کانفرنس کے انعقاد کے لیے تاریخ کا تعین کیا جا رہا ہے۔
جنوری پندرہ سے مئی پندرہ تک کے چار مہینوں میں تفتیش کاروں نے قتلِ عام کے سترہ واقعات کا ریکارڈ تیار کیا ہے۔
اس رپورٹ میں پہلی دفعہ منظم طریقے سے محاصرہ کرنے، کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے اور زبردستی بے گھر کرنے کے واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’اتنے شواہد موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری سکیورٹی فورسز نے انیس مارچ کو حلب میں خان الاصل، انیس مارچ میں دمشق میں اوتیبا، تیرہ اپریل کو حلب میں شیخ مقصود کے مضافات ا ور انتیس اپریل کو صوبہ ادلیب میں سراکب پر حملوں کے دوران محدود مقدار میں کیمیائی مواد استعمال کیا۔‘
لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجود شواہد سے یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ کس قسم کا کیمیائی مواد استعمال کیا گیا اور اس کو کس نے کس طرح استعمال کیا۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی انکوائری کمیشن نے شامی حکومت سےاقوامِ متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں کے ماہرین کو شام میں داخلے کی اجازت دینے کے لیے کہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں کشیدگی ’ظلم اور بربریت کی نئی حدوں کو چھور رہی ہے‘ جو فریقین کی طرف سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہونے کے مترادف ہے۔
ربط: بی بی سی