حسیب نذیر گِل
محفلین
ہم نے یہ ایک عجیب غلط فہمی قائم کر لی ہے کہ پاکستان دنیا کا کوئی ایسا انوکھا ملک ہے جہاں ہولناک کرپشن ہے ،جرائم پیشہ سیاست دان ہیں،ڈوبتی معیشت ہے اور ٹوٹا ہوا ریاستی ڈھانچہ ہے۔ہم نے کسی طوطے کی طرح یہ رٹ لیا ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ ہی زوال پذیر ہے جبکہ باقی پوری دنیا توچین کی بانسری بجا رہی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں وہاں قانون کی بالا دستی قائم ہے،عام آدمی بازار میں سونا اچھالتا گذر جاتا ہے اورکسی کی مجال نہیں کہ آنکھ اٹھا کے دیکھے ،لوگ دکانوں کو تالے لگائے بغیر بے فکری سے لمبی تان کے سو جاتے ہیں ،ان کی نیند کے دوران اگر کوئی گاہک آ جائے تو وہ خود ہی چیز خرید کر پیسے مالک کے گلے میں ڈال کے چلا جاتا ہے ۔کوئی سڑک پر سوتا ہے نہ کسی کا بچہ بھوک سے مرتا ہے ۔ہر ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہے ،وہاں کا ہر سٹوڈنٹ آئن سٹائن اور نیوٹن بن کر نکلتا ہے ۔سرکاری دفاتر میں سائل کا مسئلہ چٹکی بجاتے حل کر دیا جاتا ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ہمیں ناکام ریاستوں کی عالمی درجہ بندی کا بھی شدت سے انتظار رہتا ہے کیونکہ اس نام نہاد درجہ بندی میں پاکستان ٹاپ ٹین کے آس پاس فال کرتا ہے۔ اس اشارئیے سے ہمیں اپنے موقف کے حق میں ایک اور دلیل مل جاتی ہے اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ پاکستان تو فیل ہو گیا لیکن ہم پاس ہو گئے ! حقیقت خاصی دلچسپ ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کا موازنہ اپنے ہمسایوں سے کرنا چاہئے نہ کہ امریکہ اور یورپ سے کیونکہ جو شخص کچی آبادی میں رہتا ہو وہ اپنے ساتھ والی جھونپڑی سے مقابلہ کرے گا نہ کہ ڈیفنس کے خواب دیکھے گا۔اس لئے امریکہ اور یورپ کی مثالیں رہنے دیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہاں بھی ملٹی نیشنلز کی بدمعاشیوں سے لے کر بچوں سے زیادتی تک اور آزادی کے نام پر عورتوں کی تذلیل سے لے کر کنزیومر فراڈ تک ہر قسم کا اعلی پائے کا جرم ہوتا ہے ،ہمیں نہ جانے کیوں یہ”خوش فہمی“ ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے ۔ انڈیا کی بات کرتے ہیں ۔ہم انڈیا کوصرف اس کی فلموں کی نظر سے دیکھتے ہیں ،یہ نہیں جانتے کہ جس ممبئی میں یہ فلمیں بنتی ہیں وہاں کی طوائفوں کی مفلسی کا یہ حال ہے کہ وہ جسم کے بعد اب اپنے ہونے والے بچے بھی بیچ رہی ہیں تاکہ اس ”ایڈوانس“ سے اپنے لئے روٹی خرید سکیں ۔شائد کسی نے انہیں مدرز ڈے کی افادیت کے بارے میں نہیں بتایا!اسی ممبئی میں دنیا کی سب سے بڑا slumہے جبکہ دلی میں اڑھائی لاکھ لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں ،پاکستان میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔جو لوگ بھارت کی معیشت اور اداروں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ،وہ شائد یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں ریاستی عملداری کا یہ حال ہے کہ 10ریاستوں کے 182اضلاع میں ماؤ باغی سرگرم ہیں اور بھارت کے جنگلات کے پانچویں حصے پر ان کا قبضہ ہے،دیگر علاقوں میں چلنے والی آزادی کی تحاریک اس کے علاوہ ہیں۔بھارت میں41.6% لوگ( 50کروڑ زندہ انسان) خط غربت سے نیچے محض سوا ڈالر فی دن کے حساب سے زندہ ہیں۔اور رہی یہ دلیل کہ پچھلی دہائیوں میں بھارت اور چین میں خط غربت سے نکلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو Global Hunger Indexکی رپورٹ کے مطابق انڈیا ان تین ملکوں میں سے ایک ہے جہاں 1996سے2011کے دوران یہ اعشاریہ 22.9سے23.7تک بڑھ گیا جبکہ پاکستان نے اس دوران بہتری دکھائی۔بھارتی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی شائننگ انڈیا میں 16لاکھ ایڈز کے مریض ہیں ۔ ہمارے جو سیکولر دوست اس بات پر بھنگڑے ڈالتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کا حال پاکستان سے بہتر ہے انہیں چاہئے کہ مشہور زمانہ ”سچر رپورٹ“ ایک مرتبہ دوبارہ پڑھ لیں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ محض اقلیتی صدر لگا دینے سے حقائق کی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی۔ریاستی سطح پر گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے قابل فخر کارنامے تو انڈیا کے ماتھے کا جھومر ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی ”دلچسپ“ ہے کہ مسلمانوں کی حالت زار دیگر اقلیتوں سے بھی گئی گذری ہے،بھارتی سول سروس میں ان کا حصہ فقط 3%ہے ۔ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ٹی وی پر صرف شاہ رخ خان یا سیف علی خان ایسے ”مسلمان“ نظر آتے ہیں جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے گھروں میں مورتیوں کی پوجا نہ ہو تو بال ٹھاکرے خود ان کی مزاج پرسی کرے (جنہیں یقین نہ ہو وہ شاہ رخ خان کی زندگی پر بنی فلم دیکھ لے)۔بھارتی ریاست اتر پردیش، جس کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے ،کی اسمبلی کے 403ارکان میں سے 189کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں اور یہی حال پوری بھارتی پارلیمنٹ کا ہے۔وہاں کے کرپشن سکینڈل، ٹیلی کام اور بوفورس، دیگ کے دو ایسے دانے ہیں جن پر پاکستانی بھائی فقط رشک ہی کر سکتے ہیں ۔ آج کل ہمیں بنگلہ دیش کی ترقی پر بھی بڑا پیار آیا ہوا ہے ،ذرا اس کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ڈھاکہ شہر میں 6لاکھ سائیکل رکشہ ہیں جسے دو پسلی والا غریب بنگالی ایک دھوتی اور بنیان پہن کر چلاتا ہے اور 4آدمیوں کا وزن ڈھوتا ہے۔وہاں ٹریفک، سائیکل رکشا کی وجہ سے بلاک ہوتا ہے اور ہمارے ہاں گاڑیوں کی وجہ سے ۔بنگلہ دیش کا کل بجٹ پاکستان سے آدھا بھی نہیں ،وہاں بجلی کی مانگ 6000میگاواٹ اور پیداوار 4000میگاواٹ جبکہ ہماری مانگ 16,000میگا واٹ سے بھی زیادہ ہے ۔وہاں تیل کی مانگ ایک لاکھ بیرل یومیہ جبکہ پاکستان میں4.25لاکھ بیرل روزانہ۔ہم یہاں لیپ ٹاپ مفت بانٹ رہے ہیں اور بنگالی بھائی سائیکل رکشے میں جتے ہوئے ہیں ۔ ناکام ریاستوں کے اعشارئیے کا لطیفہ بھی سن لیں ۔جن ممالک کو پاکستان کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے ان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور وہاں ریاستی عملداری نام کی کوئی چیز نہیں جیسے کہ صومالیہ،چاڈ ،سوڈان،ڈی آر کونگو،ہیٹی،زمبابوے وغیرہ۔اگرپاکستان کو کراچی یا بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ ان دوٹکے کے ملکوں میں تو کراچی جیسا جدید اور میٹرو پولیٹن شہر تو دور کی بات سیالکوٹ کے پائے کا بھی کوئی شہر نہیں ۔حد یہ ہے کہ اس اعشارئیے میں پاکستان کا مقام یمن،نائجیریا،برما ،ایتھوپیا ،یوگنڈا،بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی گیا گذرا دکھایا جاتاہے جبکہ پاکستان کا میڈیا ،عدلیہ اورسول انتظامیہ کا تانہ بانہ ان ممالک کے مقابلے میں قابل رشک ہے ۔سچی بات تو ہے کہ ہمارا المیہ صرف فوجی آمریت ہے،اگر ہماری تاریخ میں سے مارشل لا حکومتوں کے ادوار نکال دئیے جائیں تو آج تشدد ،فرقہ واریت اور دہشت گردی کے جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے،ان کا سایہ بھی ہم پر کبھی نہ پڑتا۔تیغوں کے سائے بجائے پھر ہم دیگوں کے سائے میں پل کر جوان ہوتے!
از :یاسر پیرزادہ -بشکریہ جنگ
از :یاسر پیرزادہ -بشکریہ جنگ