محترم، اصل سوال وہیں کا وہیں ہے کہ کیا شہید کا ماتم کرنا چاہیئے یا نہیں۔ اس کا جواب دے دیجئے۔ فلسفہ پر بعد میں بات کرتے ہیں
مکتب تشیّع میں گریہ کرنے ماتم کرنے کا ثواب بیان ہوا ہے اور امام سجّاد ع، امام محمد باقر ع، امام جعفر صادق ع سے بہت ساری روایات اور سیرت ائمہ مروی ہیں۔۔۔۔
اسکے علاوہ بہت ساری روایات اس حوالے سے دور رسول اللہ
کے ملتے ہیں۔۔۔
١۔ سیرت پیغمبر ۖ
تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ا ورتابعین مرنے والوں اورشہداء و... پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرم ۖ کی وفات پر اپنے منہ اور سینہ پر پیٹا ۔(سیرة النبوة ٦: ٧٥؛ مسند احمد ٦: ٢٧٤.(
پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و... کی موت پر گریہ کیا، جس کے چند نمونے یہاں پر ذکرکررہے ہیں:
١( حضرت عبد المطلب پر گریہ کرنا:
جب آنحضرت ۖ کے جدّ بزرگوار حضرت عبد المطلب کی وفات ہوئی تو آپ ۖ نے ان کے فراق میں گریہ کیا ۔حضرت امّ ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
((أنا رأیت رسول اللہ یمشی تحت سریرہ وھویبکی))
میں نے رسول اللہ ( ۖ ( کو دیکھا وہ ان کے جنازے کے ہمراہ روتے ہوئے چل رہے تھے ۔
( تذکرة الخواص : ٧.)
٢( حضرت ابو طالب پر گریہ کرنا:
حامی پیغمبر ۖ ، مومن آل قریش ،سردار عرب حضرت ابوطالب کی وفات پیغمبر ۖ پر سخت ناگوار گذری اس لئے کہ یہ وہ شخصیت تھے جنہوں آنحضرت ۖ کی پرورش کے علاوہ بھی ہر مقام پر ان کی مدد و نصرت کی جس سے دین اسلام کا بول بالا ہو ااور مشرکین مکّہ کو ان کی زندگی میں یہ جرأت نہ ہوسکی کہ آنحضرت ۖ کو نقصان پہنچا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ایسے شفیق چچا کی وفات کی خبر ملی تو حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:
((اذھب فاغسلہ و کفّنہ ووارہ غفراللہ لہ ورحمہ ))
(الطبقات الکبرٰی ،ابن سعد ١:١٢٣.)
جاؤ انہیں غسل و کفن دو اور ان کے دفن کا اہتمام کرو ،خداان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے ۔
٣( حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا پر گریہ کرنا :
مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسالت مآب ۖ اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کیلئے ابواء کے مقام پر پہنچے جیسے ہی ماں کی قبر کے پاس گئے اس قدر روئے کہ ساتھیوں نے بھی گریہ کرنا شروع کردیا ۔
( المستدرک ١:٣٥٧؛ تاریخ المدینہ ،ابن شبّہ ١:١١٨.)
٤( اپنے فرزند ابراہیم پر گریہ کرنا:
خدا وند متعال نے رسول خدا ۖ کو ایک بیٹا عطا کیا تھا جس کا نام ابراہیم رکھا ۔آنحضرت ۖ اس سے شدید محبت کرتے لیکن ایک سال کی عمر میں اس کی وفات ہوگئی جس سے آنحضرت ۖ کو انتہائی صدمہ پہنچا اور اس کے فراق میں گریہ کرنا شروع کیا تو صحابہ کرام نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا
(تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الربّ))( العقد الفرید ٣:١٩.)
آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم ایسی بات نہیں کہتے جو خد ا وند متعال کی ناراضگی کا باعث بنے ۔
٥( حضرت فاطمہ بنت اسد پر گریہ کرنا :
حضرت فاطمہ بنت اسد ،حضرت علی علیہ السّلام کی ماں اور حضرت ابوطالب کی زوجہ محترمہ ،رسول خدا ۖ کے ہاں بہت مقام رکھتی تھیں یہاں تک کہ آنحضرت ۖ انہیں اپنی ماں سمجھتے تھے جب تیسری ہجری میں ان کی وفات ہوئی توآپ سخت اندوہناک ہوئے اور گریہ کیا ۔مؤرخین لکھتے ہیں :
((صلّی علیھا وتمرغ فی قبرھا وبکٰی))
آنحضرت ۖ نے ان پر نماز پڑھی، ان کی قبر میں لیٹے اور ان پر گریہ کیا . ( ذخائر العقبٰی :٥٦.)
٦(حضرت حمزہ پر گریہ کرنا :
آنحضرت ۖ کے چچا حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے جس سے آپ ۖ کوبہت صدمہ ہو ا اور ان پر گریہ کیا ۔سیرہ حلبیہ میں لکھا ہے :
((لمّا رأی النبّی حمزة قتیلا بکٰی ، فلمّا رأی مامثّل بہ شھق))(السیرة الحلبیة ٢:٢٤٧.)
جب پیغمبر ( ۖ ) کو حضرت حمزہ شہید دیکھا تو ان پر گریہ کیا اور جب ان کے بدن کے اعضاء کو کٹا ہوا دیکھا تو دھاڑیں مار کر روئے ۔
امام احمدبن حنبل نقل کرتے ہیں:
جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے شوہروں پر گریہ کرنے والی انصار کی عورتوں سے فرمایا:
(( ولکن حمزة لا بواکی لہ ))
لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔
روای کہتاہے : پیغمبر اکرم ۖ نے تھوڑی دیر آرام کے بعد دیکھا توعورتیں حضرت حمزہ پر گریہ کررہی تھیں۔
ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں۔ (الاستیعاب ١: ٣٧٤.)
٧( اپنے نواسے پر گریہ کرنا :
اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی(منہ بولی ) بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ کہہ کررہے تھے ۔ (سنن نسائی ٤: ٢٢.)
٨(حضرت عثمان بن مظعون پر گریہ کرنا :
آنحضرت ۖ کے بعض صحابہ کرام کا اس دنیا سے جانا بھی آپ پر سخت ناگوار گذرا اور آپ سے صبر نہ ہوسکا ،انہیں اصحاب باوفا میں سے ایک عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیںان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے :
((انّ النبّیۖ قبّل عثمان بن مظعون وھو میّت وھویبکی ))(المستدرک علی الصحیحین ١:٢٦١؛ السنن الکبرٰی ٣:٤٠٧.)
حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛
ایک دن رسول خدا ۖ تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
((یا عمر دعھن فان العین دامعة والنفس مصابة والعھد قریب ((
اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا (المستدرک علی الصحیحین ١: ٣٨١، مسند احمد ٢: ٤٤٤.)
ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرم ۖ میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔
مذید جاننے کیلیے یہ
مضمون پڑھئے