دنیا کا سب سے تنہا درخت
اردو کے درویش صفت شاعر مجید امجدنے کہاتھا:
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
لیکن شاید مجید امجد کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ دنیا میں اس شعر کا سب سے زیادہ حق دار افریقہ کے صحرائے اعظم میں واقع کیکر کا ایک درخت تھا۔
یوں تو دنیا میں اور بھی مشہور درخت گزرے ہیں لیکن افریقہ کے لق و دق صحارا کے بیچوں بیچ ایستادہ اس کیکر کی وجہٴشہرت بڑی مختلف ہے۔ اور وہ یوں کہ اس درخت کوایک منفرد اعزاز حاصل تھا جو دنیا کے کسی اور درخت کے حصے میں نہیں آیا۔
یہ درخت دنیا کا سب سےتنہا درخت تھا۔
اس کے اردگرد چار سوکلومیٹر کے دائرے میں کوئی اور درخت واقع نہیں تھا، اور ہوتا بھی کیسے، کہ یہ خطہٴ زمین کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے دنیا کےبے رحم ترین منطقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ساراسال سفّاک سورج کی کرنیں نیزے کی انّی کی طرح ریت کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ اگر اس علاقے میں ہونے والی بارش کا پوچھیں تواس کی مقدار فارسی کے محاورے کے مطابق، بلبل کے ایک آنسوکے برابر ہے،یعنی سال میں ایک انچ کے لگ بھگ۔
لیکن ایسی بات بھی نہیں ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ ہی سے زندگی کا بیری رہاہو۔ سینکڑوں سال قبل یہاں زرد پھولوں والےخاردارکیکر وں کاایک جھنڈپایاجاتاتھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین پانی اپنا دامن سمیٹتاچلا گیا، اور درخت ایک ایک کرکے سوکھتے چلے گئے۔
سوائے اِس ایک سخت جان کے۔
صحاراکے بے کراں ریتلے سمندر میں یہ چھتنارروشنی کے مینارکی طرح صحراسے گزرتے ہوئے عضالائی کاروانوں کوراستا دکھایا کرتا تھا۔ اس کی شفیق چھاؤں میں جھلسے ہوئے مسافرگھڑی دوگھڑی قیام کرتے تھے اور پھرآغادیز یا بِلما کی راہ لیتے تھے۔ ریت کے اس بے خدوخال آسمان پر یہ درخت قطبی ستارے کی مانند بھٹکے ہوئے راہیوں کو سمتوں کا تعین کروایا کرتاتھا۔
اور رات کے وقت اس کے تنے سے ٹیک لگاکر طوراق قبیلے کے نمک کے سوداگر قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے صحراکے سینے پر پھیلے ہوئے آسیبوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
21مئی 1939ء کو فرانسیسی کمانڈر مشل لیسورد نے اس درخت کو دیکھ کر لکھا:
’’اس درخت کو دیکھ کر مشکل ہی سے یقین آتا ہے۔ آخر اس کے وجود کا راز کیاہے؟ اب تک یہ یہاں سے گزرنے والے اونٹوں کے لاتعداد کاروانوں کے قدموں تلے روندا کیوں نہیں گیا، آخراب تک کوئی بھٹکا ہوا اونٹ اس کے پتے کیوں نہیں چر گیا، اب تک کسی بدّو نے اس کی شاخیں کاٹ کر رات کی صحرائی خنکی سے بچنے کے لیے ہاتھ کیوں نہیں تاپے؟
’’اور اس سوال کا جواب یہ ہےکہ یہاں سے گزرنے والے کاروانوں کے دلوں میں اس کا احترام پایا جاتا ہے۔ وہ اسے متبرک درخت مانتے ہیں اس لیے کوئی اسے نقصان پہنچانے کا تصوربھی نہیں کرسکتا۔‘‘
لیکن رفتہ رفتہ صحارابھی نئی ٹیکنالوجی سے روشناس ہونے لگا اور وہ وقت آگیا جب یہاں گھنٹیاں بجاتے اونٹوں کے قافلے کی جگہ گھرگھراتے ٹرکوں نے لے لی۔ اونٹ توخیر زیادہ سے زیادہ درخت کےپتے چرسکتے تھے، لیکن 1973ء میں ان ٹرکوں میں سے ایک نے درخت تو ٹکر مار دی۔
کہا جاتا ہے کہ ڈرائیور اس وقت نشے میں دھت ہوگا۔ عین ممکن ہے، کیوں کہ چار سو کلومیٹر کے احاطے میں ٹرک کے گزرنے کے لیے اس درخت کے علاوہ بھی کافی گنجائش موجود تھی۔
سخت جان درخت ماحول کی صعوبتیں توسالہاسال تک جھیلتا رہا تھا لیکن اس کی ستم آشنا جڑیں اس بے ہنگم حادثے کی تاب نہ لاسکیں اور یہ زمین پر آرہا۔
درخت کی شفیق چھاؤں کے عادی قافلوں کے لیےدرخت کا سقوط ایک جاں کاہ سانحے سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے اس کا شکستہ تنا اور سوکھی ہوئی شاخیں اٹھا کر نائجیریا کے قومی عجائب گھر میں رکھوادیں۔
کچھ عرصے بعد ایک گمنام فن کار نے اسی مقام پر زنگ خوردہ پائپوں، ایندھن کے ڈبوں اور گاڑیوں کے بے کار پرزوں کو جوڑ کر ایک مجسمہ تعمیر کیا جووہاں سے گزرنے والوں کو صحارا کےاس یکتا درخت کی یاد دلاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس درخت کی موت کا خلا تو بھرنا ممکن نہیں ہے، تاہم یہ درخت ہمیں عالمی تناظرمیں ماحولیات کے سنگین بحران کی طرف سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پچھلے دس برسوں میں ناعاقبت اندیش انسان اتنے درخت کاٹ چکا ہے کہ اگلے چودہ سال تک ہر برس کم ازکم ایک ارب درخت لگائے جائیں تب ہی اس نقصان کا کسی حد تک ازالہ ہوسکے گا۔
اوردنیا کے ہر ہوش مند انسان کو یہ ازالہ کرنے پر بھرپورتوجہ دینی چاہیئے، ورنہ صحرا پھیلتا چلا جائے گا اور ایک دن یہ سرسبز و شاداب دنیا تمام کی تمام ریگستان بن جائے گی۔
اردو کے درویش صفت شاعر مجید امجدنے کہاتھا:
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
لیکن شاید مجید امجد کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ دنیا میں اس شعر کا سب سے زیادہ حق دار افریقہ کے صحرائے اعظم میں واقع کیکر کا ایک درخت تھا۔
یوں تو دنیا میں اور بھی مشہور درخت گزرے ہیں لیکن افریقہ کے لق و دق صحارا کے بیچوں بیچ ایستادہ اس کیکر کی وجہٴشہرت بڑی مختلف ہے۔ اور وہ یوں کہ اس درخت کوایک منفرد اعزاز حاصل تھا جو دنیا کے کسی اور درخت کے حصے میں نہیں آیا۔
یہ درخت دنیا کا سب سےتنہا درخت تھا۔
اس کے اردگرد چار سوکلومیٹر کے دائرے میں کوئی اور درخت واقع نہیں تھا، اور ہوتا بھی کیسے، کہ یہ خطہٴ زمین کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے دنیا کےبے رحم ترین منطقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ساراسال سفّاک سورج کی کرنیں نیزے کی انّی کی طرح ریت کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ اگر اس علاقے میں ہونے والی بارش کا پوچھیں تواس کی مقدار فارسی کے محاورے کے مطابق، بلبل کے ایک آنسوکے برابر ہے،یعنی سال میں ایک انچ کے لگ بھگ۔
لیکن ایسی بات بھی نہیں ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ ہی سے زندگی کا بیری رہاہو۔ سینکڑوں سال قبل یہاں زرد پھولوں والےخاردارکیکر وں کاایک جھنڈپایاجاتاتھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین پانی اپنا دامن سمیٹتاچلا گیا، اور درخت ایک ایک کرکے سوکھتے چلے گئے۔
سوائے اِس ایک سخت جان کے۔
صحاراکے بے کراں ریتلے سمندر میں یہ چھتنارروشنی کے مینارکی طرح صحراسے گزرتے ہوئے عضالائی کاروانوں کوراستا دکھایا کرتا تھا۔ اس کی شفیق چھاؤں میں جھلسے ہوئے مسافرگھڑی دوگھڑی قیام کرتے تھے اور پھرآغادیز یا بِلما کی راہ لیتے تھے۔ ریت کے اس بے خدوخال آسمان پر یہ درخت قطبی ستارے کی مانند بھٹکے ہوئے راہیوں کو سمتوں کا تعین کروایا کرتاتھا۔
اور رات کے وقت اس کے تنے سے ٹیک لگاکر طوراق قبیلے کے نمک کے سوداگر قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے صحراکے سینے پر پھیلے ہوئے آسیبوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
21مئی 1939ء کو فرانسیسی کمانڈر مشل لیسورد نے اس درخت کو دیکھ کر لکھا:
’’اس درخت کو دیکھ کر مشکل ہی سے یقین آتا ہے۔ آخر اس کے وجود کا راز کیاہے؟ اب تک یہ یہاں سے گزرنے والے اونٹوں کے لاتعداد کاروانوں کے قدموں تلے روندا کیوں نہیں گیا، آخراب تک کوئی بھٹکا ہوا اونٹ اس کے پتے کیوں نہیں چر گیا، اب تک کسی بدّو نے اس کی شاخیں کاٹ کر رات کی صحرائی خنکی سے بچنے کے لیے ہاتھ کیوں نہیں تاپے؟
’’اور اس سوال کا جواب یہ ہےکہ یہاں سے گزرنے والے کاروانوں کے دلوں میں اس کا احترام پایا جاتا ہے۔ وہ اسے متبرک درخت مانتے ہیں اس لیے کوئی اسے نقصان پہنچانے کا تصوربھی نہیں کرسکتا۔‘‘
لیکن رفتہ رفتہ صحارابھی نئی ٹیکنالوجی سے روشناس ہونے لگا اور وہ وقت آگیا جب یہاں گھنٹیاں بجاتے اونٹوں کے قافلے کی جگہ گھرگھراتے ٹرکوں نے لے لی۔ اونٹ توخیر زیادہ سے زیادہ درخت کےپتے چرسکتے تھے، لیکن 1973ء میں ان ٹرکوں میں سے ایک نے درخت تو ٹکر مار دی۔
کہا جاتا ہے کہ ڈرائیور اس وقت نشے میں دھت ہوگا۔ عین ممکن ہے، کیوں کہ چار سو کلومیٹر کے احاطے میں ٹرک کے گزرنے کے لیے اس درخت کے علاوہ بھی کافی گنجائش موجود تھی۔
سخت جان درخت ماحول کی صعوبتیں توسالہاسال تک جھیلتا رہا تھا لیکن اس کی ستم آشنا جڑیں اس بے ہنگم حادثے کی تاب نہ لاسکیں اور یہ زمین پر آرہا۔
درخت کی شفیق چھاؤں کے عادی قافلوں کے لیےدرخت کا سقوط ایک جاں کاہ سانحے سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے اس کا شکستہ تنا اور سوکھی ہوئی شاخیں اٹھا کر نائجیریا کے قومی عجائب گھر میں رکھوادیں۔
کچھ عرصے بعد ایک گمنام فن کار نے اسی مقام پر زنگ خوردہ پائپوں، ایندھن کے ڈبوں اور گاڑیوں کے بے کار پرزوں کو جوڑ کر ایک مجسمہ تعمیر کیا جووہاں سے گزرنے والوں کو صحارا کےاس یکتا درخت کی یاد دلاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس درخت کی موت کا خلا تو بھرنا ممکن نہیں ہے، تاہم یہ درخت ہمیں عالمی تناظرمیں ماحولیات کے سنگین بحران کی طرف سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پچھلے دس برسوں میں ناعاقبت اندیش انسان اتنے درخت کاٹ چکا ہے کہ اگلے چودہ سال تک ہر برس کم ازکم ایک ارب درخت لگائے جائیں تب ہی اس نقصان کا کسی حد تک ازالہ ہوسکے گا۔
اوردنیا کے ہر ہوش مند انسان کو یہ ازالہ کرنے پر بھرپورتوجہ دینی چاہیئے، ورنہ صحرا پھیلتا چلا جائے گا اور ایک دن یہ سرسبز و شاداب دنیا تمام کی تمام ریگستان بن جائے گی۔