دنیا کی سب سے جھوٹی عورت

عسکری

معطل
زندہ ہے تو گاں ۔۔۔ مر گئی تو ماں
آسان تشریح ۔۔ 95 فیصد سے زائد لوگوں کو ماں کے مرنے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم ًاس کی خدمت نہ کرسکے۔بعد از مرگ (ماں کے) وہ چانگریں مار مار کر ماں کا رونا روتے ہیں
اور جب ماں زندہ ہوتی ہے تو کئی لوگوں کو اسے گالیاں دیتے بھی سنا گیا ہے ۔۔۔ میں اس کا چشم دید گواہ بھی ہوں
نوٹ ۔ گاں پنجابی زبان میں گائے کو کہتے ہیں ۔۔
ماں باپ کو بھی حالات کو اس نہج پر نہیں لے جانا چاہیے کہ ان کی اولاد ان کو گالیاں دے
 

پردیسی

محفلین
زندہ ہے تو گاں ۔۔۔ مر گئی تو ماں
آسان تشریح ۔۔ 95 فیصد سے زائد لوگوں کو ماں کے مرنے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم ًاس کی خدمت نہ کرسکے۔بعد از مرگ (ماں کے) وہ چانگریں مار مار کر ماں کا رونا روتے ہیں
اور جب ماں زندہ ہوتی ہے تو کئی لوگوں کو اسے گالیاں دیتے بھی سنا گیا ہے ۔۔۔ میں اس کا چشم دید گواہ بھی ہوں
نوٹ ۔ گاں پنجابی زبان میں گائے کو کہتے ہیں ۔۔

یاد رہے کہ میری اس تحریر کا مقصد ماں باپ کی عظیم ہستیوں کے بارے برائی کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس ناہنجاز اولاد کو لتاڑنا مقصود ہے جو ماں باپ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتے ہیں ۔
ماں کس بھی ہو ، کیسی بھی ہو ، بری ہو یا اچھی ۔۔وہ عظیم ہی ہوتی ہے ۔ کیونکہ ماں کا رتبہ ملنا عورت کے لئے سعادت کی بات ہے۔ہاں اگر وہ کچھ غلط کرتی ہے تو (اس کا حساب اس نے خود دینا ہو گا) ۔۔۔۔اس سے اس کی ماں کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا
باقی وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو ماں باپ کی زندگی میں ہی ان کی خدمت کر کے جنت کماتے ہیں
 

عسکری

معطل
یاد رہے کہ میری اس تحریر کا مقصد ماں باپ کی عظیم ہستیوں کے بارے برائی کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس ناہنجاز اولاد کو لتاڑنا مقصود ہے جو ماں باپ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتے ہیں ۔
ماں کس بھی ہو ، کیسی بھی ہو ، بری ہو یا اچھی ۔۔وہ عظیم ہی ہوتی ہے ۔ کیونکہ ماں کا رتبہ ملنا عورت کے لئے سعادت کی بات ہے۔ہاں اگر وہ کچھ غلط کرتی ہے تو (اس کا حساب اس نے خود دینا ہو گا) ۔۔۔ ۔اس سے اس کی ماں کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا
باقی وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو ماں باپ کی زندگی میں ہی ان کی خدمت کر کے جنت کماتے ہیں
لو جی آپ نے تو فیصلہ ہی کر دیا :cool: پائی جان یہ یک طرفہ عدالت ہے ہم بنچ تبدیلی کی درخواست دے رہے ہیں ;)
 
ایسی مائیں بھی دیکھی ہیں جو اپنی اولاد کو وہ اہمیت نہیں دیتی جو دینی چاہیے، کبھی اسے کھلونا بنا کر (بچپن) اس سے دل بھر کر کھیلیں گی، کبھی اسے ہتھیا ر (نوجوانی)بنا کر خاوند اور دوسروں کے خلاف استعمال کریں گی اور کبھی اسے کمائی (جوانی)کا ایک نادر ذریعہ سمجھیں گی، ایسی ماؤں کے نزدیک اپنی ذات کے علاوہ کسی بھی چیز کی اہمیت تو ہوتی ہی نہیں ساری زندگی یہی ڈرامے چلتے ہیں اور بات چلے تو ماں کی ممتا، حقوق اور ماں کی عظمت کے للکارے شروع ہوجاتے ہیں۔:cool:

یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔لیکن کلیہ میں استثنا کو کل نہیں سمجھا جا سکتا ۔
 
ایک ایسی عکاسی جس نے سوئے ہوئے دل کو بیدار کر دیا ۔میں آنسووں کو ضبط نہیں کر پا رہا۔۔۔۔۔
میری پیاری امی تو کہاں ہے۔
امی مجھے تم سے ملنا ہے ۔
ممی امتحان ختم ہوتے ہی میں بہت جلد گھر آ رہا ہوں ۔
 
نیٹ گردی کے دوران عرصہ ہوا یہ اقتباس مجھے ملا تھا ۔جسے میں نے محفوظ کر لیا تھا ۔تنہائی میں اسے پڑھ پڑھ کے نا جانے میں کتنی مرتبہ رویا ہوں آج جب آپ کا یہ دھاگہ دیکھا تو اچانک یاد آیا ۔سوچا کیوں نا محفل میں شیر کر دوں ۔​
علم​
امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے عبادت کی طرح خاموشی اور لگن سے پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہو گئی تھیں، اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہو گی۔ میں یہی سوچتی ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔ امی جی رو رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں:
"مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی، وہ پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آ سکتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے اسے سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے، جانے کب میرا بیٹا گھر آ جائے۔ اسے کریلے بہت پسند ہے نا جی اسی لئے روز پکا لیتی ہوں، سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے اس کی پسند کے کریلے تک نہ بنا کر رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے ہیں نا میری بات"۔ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنی نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی آنکھیں بھی بےدردی سے صاف کرتی جا رہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے آنسو میری آنکھوں میں رہنے آ گئے تھے۔
ڈاکٹر نگہت نسیم کے مضمون "کریلے" سے اقتباس
 

ماہا عطا

محفلین
میری ماں۔۔
ساری خوشیاں،سارے بندھن
سارے آنسو،اور سب غم
سارے رشتے،سارے ناتے
پیار ، وفا اور جذبے سارے
میرں ماں کے اَک آنسو سے
سارے بازی ہار گئے
 

نایاب

لائبریرین
نیٹ گردی کے دوران عرصہ ہوا یہ اقتباس مجھے ملا تھا ۔جسے میں نے محفوظ کر لیا تھا ۔تنہائی میں اسے پڑھ پڑھ کے نا جانے میں کتنی مرتبہ رویا ہوں آج جب آپ کا یہ دھاگہ دیکھا تو اچانک یاد آیا ۔سوچا کیوں نا محفل میں شیر کر دوں ۔​
علم​
امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے عبادت کی طرح خاموشی اور لگن سے پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہو گئی تھیں، اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہو گی۔ میں یہی سوچتی ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔ امی جی رو رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں:
"مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی، وہ پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آ سکتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے اسے سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے، جانے کب میرا بیٹا گھر آ جائے۔ اسے کریلے بہت پسند ہے نا جی اسی لئے روز پکا لیتی ہوں، سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے اس کی پسند کے کریلے تک نہ بنا کر رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے ہیں نا میری بات"۔ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنی نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی آنکھیں بھی بےدردی سے صاف کرتی جا رہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے آنسو میری آنکھوں میں رہنے آ گئے تھے۔
ڈاکٹر نگہت نسیم کے مضمون "کریلے" سے اقتباس


میٹرک کے زمانے کی بات ھے اور وہ دن مجھے آج بھی یاد ھے کہ میں ماں کیساتھ بازار گیا ہوا تھا تو کلائی پہ باندھنے والی ایک گھڑی پر دل آ گیا میں نے ماں سے ضد کی مجھے گھڑٰی خرید کر دیں لیکن گھڑی مہنگی ھونے کے سبب ماں نہ دلوا سکیں اور ھم ضد کرتے روتے روتے ماں کیساتھ گھر آ گئے اور گھر آتے ہی گھر سر پر اُٹھا لیا اُس وقت کی خوش قسمتی یہ تھی کہ والدِ محترم گھر موجود نہ تھے ورنہ اتنا شور مچانے کی مجال ہی نہ ہوتی اور گھڑی کی حسرت صرف حسرت ہی رہ جاتی پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پھر صاحب ھوا کچھ یوں کہ ماں نے کھانہ دیا اور ھم نے انکار کیساتھ ساتھ کھانا بھی اُٹھا مارا وھاں ماں کو تھوڑا غصہ آیا اور آخر کہہ ہی دیا نہیں کھانا نہ کھائو مرو جا کر کہیں تمہارے نخرے اُٹھانے کیلئے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ھیں دفع ھو جائو اور مجھے دوبارہ شکل مت دکھانا تو صاحب انا بھی ہمارے اندر خُدا نے دبا دبا کر شروع سے ہی بھری ہوئی ھے ماں کے یہ الفاظ سننا تھے کہ اُٹھ کھڑے ھوئے اور منہ اُٹھا کر گھر سے چل دیے غالباً چھ سے سات گھنٹے ھم نے جتنی بے فکری سے گُذارے شاید ماں نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ کرب ناک گُذارے ھوں گے اس بات کا اندازہ اُس وقت ھوا جب ھم نے ایک مسجد کے اسپیکر سے اپنی گمشدگی کا اعلان سُنا تو گھر کی جانب رُخ کر لیا راستے میں میرا پھوپھو زاد ملا جو مجھے ہی ڈھونڈنے نکلا تھا مجھے گھر لے گیا جاتے ہی کیا دیکھا ماں ایک ھاتھ میں گھڑی ، ایک ھاتھ میں کھانا اور آنکھوں میں میری نادانی یعنی آنسو لیے بیٹھی میری راہ تک رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی گلے سے لگایا ، ماتھا چومتے ھوئے گھڑی باندھی ، کہا تم نے دوپہر سے کھانا بھی نہیں کھایا کیا حشر کر لیا اپنا اور جو کرنے کا حکم مجھے دیا تھا اپنے اُوپر لے لیا کہتیں اگر میں مر جاندی تے فیر ساری عمر تو گھڑیاں ای پانیاں سی ۔۔
اُس دن ھونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب کبھی یاد آئے تو سارا دن بال نوچنے کو جی کرتا ھے اگر رات میں یاد آئے ساری رات بستر پر نہیں کانٹوں پہ گُزرتی ھے۔ ھاسٹل میں رھتے ھوئے جی کرتا ابھی اُڑ کر ماں کے پاس چلا جائوں اور سر پیٹ پیٹ کر انہی قدموں میں جان دے دوں جب یہ یاد آتا ھے کہ جب ماں جہیز میں ملی ہوئی ہزاروں کی ملکیت رکھنے والی کان کی بالیاں صرف پانچ سو میں بیج کر اُس دن میرے لئے گھڑی لائی تھیں ۔

(اشعر عباس ناصر )
 
میٹرک کے زمانے کی بات ھے اور وہ دن مجھے آج بھی یاد ھے کہ میں ماں کیساتھ بازار گیا ہوا تھا تو کلائی پہ باندھنے والی ایک گھڑی پر دل آ گیا میں نے ماں سے ضد کی مجھے گھڑٰی خرید کر دیں لیکن گھڑی مہنگی ھونے کے سبب ماں نہ دلوا سکیں اور ھم ضد کرتے روتے روتے ماں کیساتھ گھر آ گئے اور گھر آتے ہی گھر سر پر اُٹھا لیا اُس وقت کی خوش قسمتی یہ تھی کہ والدِ محترم گھر موجود نہ تھے ورنہ اتنا شور مچانے کی مجال ہی نہ ہوتی اور گھڑی کی حسرت صرف حسرت ہی رہ جاتی پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پھر صاحب ھوا کچھ یوں کہ ماں نے کھانہ دیا اور ھم نے انکار کیساتھ ساتھ کھانا بھی اُٹھا مارا وھاں ماں کو تھوڑا غصہ آیا اور آخر کہہ ہی دیا نہیں کھانا نہ کھائو مرو جا کر کہیں تمہارے نخرے اُٹھانے کیلئے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ھیں دفع ھو جائو اور مجھے دوبارہ شکل مت دکھانا تو صاحب انا بھی ہمارے اندر خُدا نے دبا دبا کر شروع سے ہی بھری ہوئی ھے ماں کے یہ الفاظ سننا تھے کہ اُٹھ کھڑے ھوئے اور منہ اُٹھا کر گھر سے چل دیے غالباً چھ سے سات گھنٹے ھم نے جتنی بے فکری سے گُذارے شاید ماں نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ کرب ناک گُذارے ھوں گے اس بات کا اندازہ اُس وقت ھوا جب ھم نے ایک مسجد کے اسپیکر سے اپنی گمشدگی کا اعلان سُنا تو گھر کی جانب رُخ کر لیا راستے میں میرا پھوپھو زاد ملا جو مجھے ہی ڈھونڈنے نکلا تھا مجھے گھر لے گیا جاتے ہی کیا دیکھا ماں ایک ھاتھ میں گھڑی ، ایک ھاتھ میں کھانا اور آنکھوں میں میری نادانی یعنی آنسو لیے بیٹھی میری راہ تک رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی گلے سے لگایا ، ماتھا چومتے ھوئے گھڑی باندھی ، کہا تم نے دوپہر سے کھانا بھی نہیں کھایا کیا حشر کر لیا اپنا اور جو کرنے کا حکم مجھے دیا تھا اپنے اُوپر لے لیا کہتیں اگر میں مر جاندی تے فیر ساری عمر تو گھڑیاں ای پانیاں سی ۔۔
اُس دن ھونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب کبھی یاد آئے تو سارا دن بال نوچنے کو جی کرتا ھے اگر رات میں یاد آئے ساری رات بستر پر نہیں کانٹوں پہ گُزرتی ھے۔ ھاسٹل میں رھتے ھوئے جی کرتا ابھی اُڑ کر ماں کے پاس چلا جائوں اور سر پیٹ پیٹ کر انہی قدموں میں جان دے دوں جب یہ یاد آتا ھے کہ جب ماں جہیز میں ملی ہوئی ہزاروں کی ملکیت رکھنے والی کان کی بالیاں صرف پانچ سو میں بیج کر اُس دن میرے لئے گھڑی لائی تھیں ۔

(اشعر عباس ناصر )


میں بھی ہاسٹل میں رہ کر ماں کی یادوں کا مارا ہوں
نایاب بھائی جان اس اقتباس کو پڑھ کر پھر میں آنسو ضبط نہیں کر سکا ۔
واقعی ماں ایسی چیز ہے ،جس کا کوئی بدل نہیں ۔
ابھی بھی بار بار فون کر کے پوچھتی ہے ۔چھٹیاں کب ہو رہی ؟؟؟آ جاو تمہیں دیکھنے کو جی چاہ رہا ؟؟؟
میں چھوٹے سے ہی ہاسٹل میں رہ رہا ہوں اس وقت سے جب 8 یا 9 سال کا تھا
شاید اسی وجہ سے اس طرح کی تحریریں پڑھ کر جذبانتی ہو جایا کرتا ہوں ۔
پہلے تو کوستا تھا کہ مجھے ہاسٹل کیوں بھیجتے ہو اور اب ۔۔۔۔۔۔
بھائی جان اس کیریر اور دنیا میں کچھ بننے کے چکر نے سب کچھ چھین لیا ۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں تو عجیب سا لگتا ہے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ماں کی عظمت کا موثر بیان
پیشکش کے لیے شکریہ
شکریہ سر آپ کا بھی :)

میری ماں دنیا کی سب سے عظیم عورت ہے مگر میرے بچوں کی ماں ؟
کہتے ہیں تو اسی کہانی کو جدّت دے دیتا ہوں۔ کچھ مسئلہ نہیں ہے۔ پانچ منٹ کی مار ہے۔۔۔۔ :p

بہت خُوب ،،ماں جیسی ہستی اس پوری دنیا میں کوئی نہیں
صد ہزار متفق :)

ماں کی عظمت کے باب میں کچھ بھی پڑھنے سے سارا منظر جل تھل ہوجاتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!!!
اپیا میں تو ہر وقت اپنی امی کو یاد کرتا رہتا ہوں۔۔۔ :) میری ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھا شعر بھی میری ماں کے نام ہی ہے
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
کئی بار سوچا کہ امی کو دکھاؤں گا۔ لیکن ہر بار اس ڈر سے کہ ماں کی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے۔ کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

والدین کا کوئی نعم البدل نہیں۔۔۔ اور ماں ہی ایک ایسی چھاں ہے جس کے مہرابان اور شفیق سائے تلے آکر ایسا لگتا ہےجیسے تپتی دوپہر میں سایہ مل گیا ہو۔۔۔
اور ماں کی دعائیں ہی انسان کو کامیاب بناتی ہیں۔۔۔
گڑیا بیماری کا تم پر اچھا اثر ہوا ہے۔۔۔ :)
تفنن برطرف صد متفق :)

(y)
بہت خوب ذوالقرنین۔ آپ ہمیشہ ایک مختلف موضوع سامنے لاتے ہیں۔ :)
یہ آپ کی حوصلہ افزائی ہے۔ :) وگرنہ من آنم کہ من دانم :)
ایسا ہی ہوتا ہے کچھ۔۔۔ :unsure:

ماشا اللہ۔ ماں ۔ اپنی مخلوق کے لئے اللہ کا نادر تحفہ ہے۔شاید اللہ ہی کی محبت کا ایک روپ ہے۔
شکریہ نیرنگ خیال شیئر کرنے کے لئے۔
سر آپ کا بھی شکرگزار ہوں۔ :)

گڈ گڈ۔۔۔ :p

ایک نعتیہ شعر یاد آ رہا ہے کہ
پیار کرتا ہے نیازی یہ زمانہ تجھ سے
یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے۔
اس خوبصورت تحریر کو دیکھ کر ہمیں ایک انگریزی نظم میری ماں یاد آگئی ۔۔جسکا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ جب میری ماں بوڑھی کمزور ہو جائے گی تو میں اپنے مضبوط،توانا بازؤں میں اسے سہارا دوں گی جسطرح اس نے بچپن میں مجھے آسرا دیا تھا ۔۔۔ !
اللہ میاں سبکی ماؤں کو سلامت رکھیں انکی خدمت کر کے صحیح معنوں میں جنت حاصل کرنے کا موقع فراہم فرمائیں ۔آمین۔اثر پزیر تحریر پیش کرنے کا شکریہ نیرنگ خیال ۔جیتے رہیں ۔
بہت خوبصورت شعر ہے اپیا۔۔۔ اور یہ انگلش والی نظم میں نے یقیناً نہیں پڑھی ہوگی۔۔ انگلش جس دن سیکھیں گے پڑھیں گے۔۔۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
میری ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھا شعر بھی میری ماں کے نام ہی ہے
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
کئی بار سوچا کہ امی کو دکھاؤں گا۔ لیکن ہر بار اس ڈر سے کہ ماں کی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے۔ کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

یوں تو یہ شعر ہے ہی لاجواب ! لیکن آپ کی تحریر پڑھ کر آج بہت زیادہ اچھا لگا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یوں تو یہ شعر ہے ہی لاجواب ! لیکن آپ کی تحریر پڑھ کر آج بہت زیادہ اچھا لگا۔

:bighug:
آپ بتائیں کہ کب تھوڑا بہت وقت نکال رہے ہیں محفل کے لیے۔۔۔ :) گھر کی منتقلی تو اختتام پذیر ہو بھی جائے تو کئی چھوٹے چھوٹے کام مہینہ بھر نکلتے رہتے ہیں۔ :)
 

عمراعظم

محفلین
نیٹ گردی کے دوران عرصہ ہوا یہ اقتباس مجھے ملا تھا ۔جسے میں نے محفوظ کر لیا تھا ۔تنہائی میں اسے پڑھ پڑھ کے نا جانے میں کتنی مرتبہ رویا ہوں آج جب آپ کا یہ دھاگہ دیکھا تو اچانک یاد آیا ۔سوچا کیوں نا محفل میں شیر کر دوں ۔​
علم​
امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے عبادت کی طرح خاموشی اور لگن سے پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہو گئی تھیں، اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہو گی۔ میں یہی سوچتی ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔ امی جی رو رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں:
"مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی، وہ پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آ سکتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے اسے سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے، جانے کب میرا بیٹا گھر آ جائے۔ اسے کریلے بہت پسند ہے نا جی اسی لئے روز پکا لیتی ہوں، سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے اس کی پسند کے کریلے تک نہ بنا کر رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے ہیں نا میری بات"۔ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنی نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی آنکھیں بھی بےدردی سے صاف کرتی جا رہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے آنسو میری آنکھوں میں رہنے آ گئے تھے۔
ڈاکٹر نگہت نسیم کے مضمون "کریلے" سے اقتباس
آپ نے تو’رلا ہی دیا۔ مجھے بھی کریلے بہت پسند ہیں لیکن وہ جو میری ماں بناتی تھیں۔ وہ بھی میرے لئے کچھ ایسا ہی اہتمام کرتی تھیں۔ بلکہ جب کبھی ہم بیرون ملک سے گھر آتے وہ ہماری پسند کو دل و جان سے بناتیں اور ہماری واپسی پر بڑی مقدار میں خشک کئے گئے کریلے ہماری بیگم کے حوالے کئے جاتے، بنانے کی ترکیب اور تاکید کے ساتھ۔چونکہ جہاں ہم رہتے تھے وہاں کریلے دستیاب نہیں تھے۔
اللہ میرے والدین کو جنت الفر دوس میں اعلیٰ مقام پر سرفراز فرما ۔ آمین۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہونی چاہیے کہ یقینا" ماں کا رشتہ لا زوال اور نا قا بلِ فراموش ہے، البتہ باپ کی عظمت ، پیار ،جاں فشانی ،محنت اور تربیت کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔در حقیقت ماں اور باپ دونوں مل کر ہی اپنے بچوں کی بہتر نشو و نما اور تربیت کر سکتے ہیں، البتہ دونوں کے کردار اس ذمہ داری کے حصول میں مختلف ہوتے ہیں۔
 
Top