نور وجدان
لائبریرین
نہیں ،،اس رپورٹر کی رپورٹنگ چوری کرلی ،،حق بنتا تھا۔۔ورنہ کوئی صاحب نیوٹن بنوا کر ،جنس بدلنے کی بات کررہے تھے یوں لگا ابھی سرجری شروع۔۔۔۔۔اوہ تبھی آپ نے لنک تو سٹوڈنٹ پلس کا لگایا لیکن لکھا جیو نیوز
نہیں ،،اس رپورٹر کی رپورٹنگ چوری کرلی ،،حق بنتا تھا۔۔ورنہ کوئی صاحب نیوٹن بنوا کر ،جنس بدلنے کی بات کررہے تھے یوں لگا ابھی سرجری شروع۔۔۔۔۔اوہ تبھی آپ نے لنک تو سٹوڈنٹ پلس کا لگایا لیکن لکھا جیو نیوز
شکر کریں کہ سٹوڈنٹ پلس والوں کو اردو نہیں آتی ورنہ انہوں نے کوئی نہ کوئی مقدمہ تو کر ہی دینا تھا آپ پرنہیں ،،اس رپورٹر کی رپورٹنگ چوری کرلی ،،حق بنتا تھا۔۔ورنہ کوئی صاحب نیوٹن بنوا کر ،جنس بدلنے کی بات کررہے تھے یوں لگا ابھی سرجری شروع۔۔۔۔۔
یعنی وہ پیدایشی انگریز ۔۔۔شدید معلوماتی پوسٹ!!شکر کریں کہ سٹوڈنٹ پلس والوں کو اردو نہیں آتی ورنہ انہوں نے کوئی نہ کوئی مقدمہ تو کر ہی دینا تھا آپ پر
ہمیں کیا معلوم، آپ ہی لائی ہیں کہیں سے پکڑ کے ۔۔۔ لنک تو آپ نے ہی دیا تھایعنی وہ پیدایشی انگریز ۔۔۔شدید معلوماتی پوسٹ!!
ویسے وہ انگریز یہاں کیسے آگئے
ہم کیا کریں کہ اس سائنسی خبر کا مواد کسی رپوپرٹر نے کل اخبار میں شائع کرنا تھا اور وہ صاحب تو لے کر اڑنچھو! سارا الزام ہمیں: )ہمیں کیا معلوم، آپ ہی لائی ہیں کہیں سے پکڑ کے ۔۔۔ لنک تو آپ نے ہی دیا تھا
یہ توجیہات نہیں چلنے والی تھیں عدالت میں جج کے سامنےہم کیا کریں کہ اس سائنسی خبر کا مواد کسی رپوپرٹر نے کل اخبار میں شائع کرنا تھا اور وہ صاحب تو لے کر اڑنچھو! سارا الزام ہمیں: )
اِ نے سے جرم پر انا وڈا مقدمہ: )یہ توجیہات نہیں چلنے والی تھیں عدالت میں جج کے سامنے
مجرم ہمیشہ اپنے جرم کو چھوٹا ہی کہتا ہے۔اِ نے سے جرم پر انا وڈا مقدمہ: )
جج کا عقیدہ کیا ہے؟
اور کل تو ایسے شائع کرنے کا کہہ رہی ہیں جیسے گیلیلیو پر مقدمہ 8 اگست 2015 کو ہی چل کر فارغ ہوا تھا
آپ کے شہر میں سابقہ وزیر اعظم گیلانی کا تو فیصلہ ہو نہیں پایا اب تک، آپ کا کہاں سے ہونے لگااخباری نمائندہ تک ہمیں بنا ڈالا۔۔یہ تو ٹرابیونل ÷tribunal والے جج ہیں .. ہمارا فیصلہ شہر میں ہو ..۔
مجرم ہمیشہ اپنے جرم کو چھوٹا ہی کہتا ہے۔
جج کے متعلق شنیدن ہے کہ ملحد ہے اور اس کا کیش ترک رسوم ہے
جب گیلانی رہ گیا تو فر "مٹی پاؤ " ۔۔۔آپ کے شہر میں سابقہ وزیر اعظم گیلانی کا تو فیصلہ ہو نہیں پایا اب تک، آپ کا کہاں سے ہونے لگا
ہاہاہا۔ لوڈشیڈنگ سے بڑا مالوئیر کون سا ہے یہاں۔ جب دھاگہ کھولا تو پانچ منٹ بعد لائٹ چلی گئی۔ پھر باہر چلا گیا سوا دو بجے واپس آیا ابھی چند مراسلے پڑھے کہ ڈھائی بجے پھر لائٹ چلی گئی۔ ابھی آئی ہے تو پورا دھاگہ پڑھ سکا ہوں۔رانا صاحب، آپ کہاں چلے گئے؟ کہیں آپ میں مالویئر تو نہیں آ گیا؟
آپ کے شہر میں سابقہ وزیر اعظم گیلانی کا تو فیصلہ ہو نہیں پایا اب تک، آپ کا کہاں سے ہونے لگا
زبردست۔ میرے علم میں تو پہلی بار آئی یہ بات کہ اس پر اتنے لوگ سنجیدگی سے سالوں سے سیریز چلارہے ہیں۔ دلچسپ۔نہ تو یہ کوئی تازہ خبر ہے اور نہ ہی یہ کوئی سائنس ہے۔
کئی سال پہلے پڑھا تھا ان سائنس فکشن والوں کے اس "مفروضے" کے متعلق۔ بعد میں کچھ ڈاکیومینٹریز میں بھی اس مفروضے کے متعلق بات ہوئی تھی۔
اور ہاں، رابرٹ لارنس کی کتاب کا نام کلوز ٹو ٹرتھ نہیں بلکہ کلوزر ٹو ٹرتھ ہے جو سن 2000 میں شائع ہوئی تھی۔
اور 2000 سے لے کر اب تک اسی نام (کلوزر ٹو ٹرتھ) سے ٹیلی ویژن سیریز چل رہی ہے جس کے اب تک 18 سیزنز آن ایئر آ چکے ہیں جن میں سائنس دان، فلسفی، مذہبی علما، وغیرہ اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں کہ آیا یہ کائنات، مادّہ، انسان، وغیرہ حقیقت ہیں یا نہیں۔
کمال ہے بھئی۔ یہ تو نئی نئی معلومات کے پنڈورا باکس کھل رہے ہیں۔ اتنے دلچسپ نظرئیے دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں۔ خواہ مخواہ بندہ ناولوں میں تفریح ڈھونڈتا ہے یہ نظرئیے کسی تفریح سے کم ہیں کیا۔اسے "سمیولیشن ہائپوتھیسس" کہا جاتا ہے جس کے تانے بانے کئی صدیاں قبل مسیح کے قدیم یونانی فلسفے میں سکیپٹیکل ہائپوتھیسس سے ملتے ہیں۔
ایسے لا تعداد مفروضے ہیں جو ہر روز کوئی نہ کوئی گھڑ کے لے آتا ہے مثلاً ایک اور مفروضہ بھی مشہور ہے کہ ہمارا سیارہ زمین کسی اور سیارے کا جہنم ہے جہاں ان انسانوں کو لا کر چھوڑ دیا گیا تھا جن کے ڈی این اے میں ناقابل اصلاح خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور وہ شر اور فساد میں بڑھ گئے تھے۔ لیجیے ا س سے آپ کے رویوں والے سوال کا جواب بھی مل گیا۔
بہت خوب۔ بعض سوالات دلچسپ تھے اور بعض جوابات۔ مثلا
ایک دلچسپ بات یہاں یاد آگئی کہ ہماری یونیورسٹی میں پروگرامنگ کے سر بدر سمیع نے ایک بار ایک دلچسپ مثال بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ ہر انسان کی تقدیر اگر پہلے سے لکھ دی گئی ہے تو پھر جزا سزا کی کیا توجیہ ہے۔ سامنے کیونکہ سارے ہی کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ کے طلبا بیٹھے تھے انہوں نے مثال دی کہ اللہ میاں نے if else کی کنڈیشنز بنادی ہیں ہر انسان کے لئے۔ جب وہ ایک قدم اٹھاتا ہے کہ اس کے سامنے دو کنڈیشنز ہوتی ہیں۔ ایک if اور دوسری else۔ اگر وہ برائی کے راستے پر قدم اٹھائے گا تو پھر ایسی ہی دو کنڈیشنز سے واسطہ پڑے گا۔ اگر وہ اچھائی کے راستے پر قدم اٹھائے گا تو پھر ویسی ہی دو کنڈیشنز ہیں۔ اس طرح وہ شروع میں ہی درست کنڈیشن کا انتخاب کرتا رہے تو سیدھے راستے پر بہت تیزی سے آگے چلتا ہے۔ لیکن اگر وہ غلط راستے کا انتخاب کرے تو کافی آگے جاکر اگر وہ درست راستے پر چلنا چاہے تو if اور else کی کنڈیشن کی صورت میں اس کے پاس واپسی کا راستہ ہر وقت کھلا ہے ۔ کافی پرانی بات ہے یاداشت کے سہارے بیان کی ہے لیکن مفہوم کچھ یہی تھا ان کا۔
۔۔۔۔۔۔۔قرآن صرف دو موجود انسانوں کو جنت سے نکالنے کی بات کرتا ہے۔ جبکہ آپ کا بیان کردہ مفروضہ زیادہ انسانوں میں سے کچھ گمراہ لوگوں کی بات کر رہا ہے۔
طے شدہ نظام کے تحت کام کرنا بالکل اور بات ہے، کہ اس طے شدہ نظام کو تو سائنسدان بھی مانتے ہیں۔ لیکن یہ خبر میں پیش کیا گیا مفروضہ بالکل اور بات کہہ رہا ہے ۔ طے شدہ نظام سے مراد ہے کہ ہر واقعہ جو ہوتا ہے وہ سائنس کے قوانین کے مطابق ہوتا ہے جوکسی پہلے واقعہ کا پرفیکٹ نتیجہ ہوتا ہے اور یہی سائنس ہے جس کے قوانین خدا نے ہی تخلیق کیے ہوئے ہیں۔ کافی عرصہ قبل ایک کمپیوٹر سائٹنسٹ نے اسی بنیاد پر یہ بات پیش کی تھی کہ اگر کائنات کی موجودہ حالت کا پوری درستگی کے ساتھ علم ایک بہت بڑے اور پیچیدہ کمپیوٹر میں ڈالا جاسکے تو مستقبل کی بالکل درست حد تک پیشگوئی کی جاسکتی ہے اور اگرآپ اس بات پر غور کریں تو یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ فزکس کا اصول غیر یقینی یہ بتاتا ہے کہ ایک ذرے کی رفتار اور اس کے مقام کا بیک وقت علم حاصل کرنا ناممکن ہے۔کہ ذرے کو دیکھنے کے لئے اس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے اور روشنی کا فوٹون اس ذرے سے ٹکرا کر اس کی رفتار میں تبدیلی پیدا کردے گا۔ یعنی یہ نظری طور پر تو ممکن ہے کہ اگر ہمیں کسی ذرے کی رفتار اور اور اسکے مقام کا بالکل درست علم ہو تو ہم اس ذرے کی اگلی مستقبل کی حالت کی بالکل درست پیشگوئی کرسکتے ہیں لیکن عملی طور پر ناممکن ہے۔ اب اس بات کو قرآن شریف کی اس آیت کی روشنی میں دیکھیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حال کا بھی پورا علم ہے اور مستقبل کا بھی۔ مستقبل کا علم تو سمجھ میں آتا ہے لیکن سوچنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حال کے علم کا اتنی تاکید سے کیوں ذکر کیا کہ حال کا علم تو بندہ سمجھتا ہے کہ اسے بھی ہے۔ لیکن دراصل اللہ تعالیٰ اسی بات کی طرف اشارہ فرما رہا ہے کہ مستقبل کا علم ہونے کے لئے حال کا پورا علم ہونا ناگزیر ہے۔ اور اگر حال کا پورا علم ہوسکے تو مستقبل کی بالکل درست پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔ وہی اصول غیریقینی والی بات آگئی یہاں پر۔ اسی لئے عالم الغیب صرف خدا ہی کی ذات ہے اور اسی کو عالم الغیب ہونا زیبا ہے کہ ہر ایک ذرہ اسی کی تخلیق ہے اور صرف وہی اپنی تخلیق کی کنہ تک سے واقف ہے۔مجھے تو کوئی شک نہیں اس بات میں کہ کائنات ایک طے شدہ نظام کے تحت کام کر رہی ہے۔ کیونکہ مشاہدہ یہی بتاتا ہے اور مذہب بھی یہی بتاتا ہے۔ البتہ جب ہم انسانی ریوں کی بات کرتے ہیں تو پھر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
رانا اور فاتح صاحب بتائیے کہ تھیوری پیش کرنے والے کے خیال میں کیا انسانوں کے افعال بھی مصنوعی ہیں؟ یعنی انسان سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ اپنی مرضی سے کر رہا ہے لیکن دراصل وہ اپنی مرضی سے نہیں کر رہا ہوتا؟
غیر منطق کومنطق سے کیسے ماڈل کیا جا سکتا ہے ؟یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں پروگرام ہی غیر منطقانہ طریق پر کیا گیا ہو