دنیا کے تمام انسانوں کو کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، سائنس دانوں کا دعویٰ

نور وجدان

لائبریرین
اوہ تبھی آپ نے لنک تو سٹوڈنٹ پلس کا لگایا لیکن لکھا جیو نیوز
نہیں ،،اس رپورٹر کی رپورٹنگ چوری کرلی ،،حق بنتا تھا۔۔ورنہ کوئی صاحب نیوٹن بنوا کر ،جنس بدلنے کی بات کررہے تھے یوں لگا ابھی سرجری شروع۔۔۔۔۔:D:p:ROFLMAO:
 

فاتح

لائبریرین
نہیں ،،اس رپورٹر کی رپورٹنگ چوری کرلی ،،حق بنتا تھا۔۔ورنہ کوئی صاحب نیوٹن بنوا کر ،جنس بدلنے کی بات کررہے تھے یوں لگا ابھی سرجری شروع۔۔۔۔۔:D:p:ROFLMAO:
شکر کریں کہ سٹوڈنٹ پلس والوں کو اردو نہیں آتی ورنہ انہوں نے کوئی نہ کوئی مقدمہ تو کر ہی دینا تھا آپ پر :laughing:
 

فاتح

لائبریرین
ہم کیا کریں کہ اس سائنسی خبر کا مواد کسی رپوپرٹر نے کل اخبار میں شائع کرنا تھا اور وہ صاحب تو لے کر اڑنچھو! سارا الزام ہمیں: )
یہ توجیہات نہیں چلنے والی تھیں عدالت میں جج کے سامنے :laughing:
اور کل تو ایسے شائع کرنے کا کہہ رہی ہیں جیسے گیلیلیو پر مقدمہ 8 اگست 2015 کو ہی چل کر فارغ ہوا تھا :laughing:
 

نور وجدان

لائبریرین
مجرم ہمیشہ اپنے جرم کو چھوٹا ہی کہتا ہے۔ :ROFLMAO:
جج کے متعلق شنیدن ہے کہ ملحد ہے اور اس کا کیش ترک رسوم ہے

آپ کے شہر میں سابقہ وزیر اعظم گیلانی کا تو فیصلہ ہو نہیں پایا اب تک، آپ کا کہاں سے ہونے لگا
جب گیلانی رہ گیا تو فر "مٹی پاؤ " ۔۔۔

اردو بچی کو فارسی جج کے پاس بھیج رہے.
 

رانا

محفلین
رانا صاحب، آپ کہاں چلے گئے؟ کہیں آپ میں مالویئر تو نہیں آ گیا؟
ہاہاہا۔:p لوڈشیڈنگ سے بڑا مالوئیر کون سا ہے یہاں۔ جب دھاگہ کھولا تو پانچ منٹ بعد لائٹ چلی گئی۔ پھر باہر چلا گیا سوا دو بجے واپس آیا ابھی چند مراسلے پڑھے کہ ڈھائی بجے پھر لائٹ چلی گئی۔ ابھی آئی ہے تو پورا دھاگہ پڑھ سکا ہوں۔:)
لگتاہے کہ دھاگہ کھولتے ہی ہمیں کنٹرول کرنے والے کائنات کے باہر رکھے سپر کمپیوٹرز کے آپریٹرز کو ہدایت ملی ہوگی کہ اس دھاگے کو روکو کہ غلط لوگوں میں کھلنے جارہا ہے۔ آپریٹرز کو ڈی بگ کرنے میں تھوڑا وقت لگ گیا اور دھاگہ آن ائیر چلا گیا تو انہوں نے سوچا کہ چلو دھاگہ کھولنے والے کو ہی تھوڑی دیر دور رکھو یہاں سے۔:ROFLMAO:
 

رانا

محفلین
نہ تو یہ کوئی تازہ خبر ہے اور نہ ہی یہ کوئی سائنس ہے۔
کئی سال پہلے پڑھا تھا ان سائنس فکشن والوں کے اس "مفروضے" کے متعلق۔ بعد میں کچھ ڈاکیومینٹریز میں بھی اس مفروضے کے متعلق بات ہوئی تھی۔
اور ہاں، رابرٹ لارنس کی کتاب کا نام کلوز ٹو ٹرتھ نہیں بلکہ کلوزر ٹو ٹرتھ ہے جو سن 2000 میں شائع ہوئی تھی۔
اور 2000 سے لے کر اب تک اسی نام (کلوزر ٹو ٹرتھ) سے ٹیلی ویژن سیریز چل رہی ہے جس کے اب تک 18 سیزنز آن ایئر آ چکے ہیں جن میں سائنس دان، فلسفی، مذہبی علما، وغیرہ اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں کہ آیا یہ کائنات، مادّہ، انسان، وغیرہ حقیقت ہیں یا نہیں۔
زبردست۔ میرے علم میں تو پہلی بار آئی یہ بات کہ اس پر اتنے لوگ سنجیدگی سے سالوں سے سیریز چلارہے ہیں۔ دلچسپ۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ میٹرکس فلم کی حد تک تو مجھے بہت اچھی لگی تھی۔ جب تک اپ مین نہیں دیکھی تھی تو میں اچھی فلم دیکھنے کا مشورہ مانگنے والوں کو میٹرکس کا نسخہ ہی تجویز کرتا تھا۔:)

مفروضے میں بظاہر دم خم نظر آتا ہے کہ لوگ اس پر کتابیں اور ٹی وی سیریز پر گفتگو کررہے ہیں۔ لیکن شائد دو وجوہ سے۔ ایک تو مفروضہ اپنی ذات میں نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اس پر گفتگو کرنے کے لئے کسی سائنس کا ماہر ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ دوسری وجہ اس کا مقبول عام ہونا اس وجہ سے لگتا ہے کہ اس حوالے سے پیش کئے گئے دلائل بادی النظر میں قابل فہم معلوم ہوتے ہیں کہ ریاضی کی طرح دو اور دو چار کی طرح نتائج دکھائے جاتے ہیں۔ اس لئے مغربی ملکوں کی عوام الناس کے لئے اس میں دلچسپی پیدا ہوجانا کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں معاملہ برعکس ہے۔ ہم یہ ماننے کے باوجود کہ یہ تمام کارخانہ عالم ایک ہستی چلارہی ہے، ایسے لغو نظریات کو رد کردیتے ہیں کیونکہ یہ مالک یوم الدین کے عقیدے کے خلاف ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے جو قضا و قدر کے نام پر ویسے ہی صدیوں سے چل رہی ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب میں کیونکہ مذہب برائے نام ہی ایک فیشن کے طور پر باقی رہ گیا ہے اس لئے وہاں لوگ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں میں اس نظریے کے راہ پانے کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہاں اللہ کے فضل سے بنیاد ہی توحید پر ایمان سے شروع ہوتی ہے۔

ویسےیہ جو فلاسفر اس حوالے سے ریاضی کی دلیل دیتے ہیں کہ ہماری زندگی ریاضی کے اصولوں کے مطابق چلتی ہے تو اس پر قرآن کی ایک آیت مجھے یاد آگئی جو اگر ان فلاسفروں کو پتہ لگ جائے تو وہ اسے اپنی دلیل کے حق میں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔:)
 

رانا

محفلین
اسے "سمیولیشن ہائپوتھیسس" کہا جاتا ہے جس کے تانے بانے کئی صدیاں قبل مسیح کے قدیم یونانی فلسفے میں سکیپٹیکل ہائپوتھیسس سے ملتے ہیں۔
ایسے لا تعداد مفروضے ہیں جو ہر روز کوئی نہ کوئی گھڑ کے لے آتا ہے مثلاً ایک اور مفروضہ بھی مشہور ہے کہ ہمارا سیارہ زمین کسی اور سیارے کا جہنم ہے جہاں ان انسانوں کو لا کر چھوڑ دیا گیا تھا جن کے ڈی این اے میں ناقابل اصلاح خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور وہ شر اور فساد میں بڑھ گئے تھے۔ لیجیے ا س سے آپ کے رویوں والے سوال کا جواب بھی مل گیا۔
کمال ہے بھئی۔ یہ تو نئی نئی معلومات کے پنڈورا باکس کھل رہے ہیں۔ اتنے دلچسپ نظرئیے دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں۔ خواہ مخواہ بندہ ناولوں میں تفریح ڈھونڈتا ہے یہ نظرئیے کسی تفریح سے کم ہیں کیا۔:)
 

رانا

محفلین
رانا بھائی، آپ چونکہ پروگرامر ہیں تو آپ اس سے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔
خدا بطور کمپیوٹر پروگرامر
بہت خوب۔ بعض سوالات دلچسپ تھے اور بعض جوابات۔ مثلا
Q: How come the Age of Miracles Ended?
A: That was the development phase of the project, now we are in the maintenance phase.
Q: Where will I go after I die?
A: Onto a DAT tape.
ایک دلچسپ بات یہاں یاد آگئی کہ ہماری یونیورسٹی میں پروگرامنگ کے سر بدر سمیع نے ایک بار ایک دلچسپ مثال بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ ہر انسان کی تقدیر اگر پہلے سے لکھ دی گئی ہے تو پھر جزا سزا کی کیا توجیہ ہے۔ سامنے کیونکہ سارے ہی کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ کے طلبا بیٹھے تھے انہوں نے مثال دی کہ اللہ میاں نے if else کی کنڈیشنز بنادی ہیں ہر انسان کے لئے۔ جب وہ ایک قدم اٹھاتا ہے کہ اس کے سامنے دو کنڈیشنز ہوتی ہیں۔ ایک if اور دوسری else۔ اگر وہ برائی کے راستے پر قدم اٹھائے گا تو پھر ایسی ہی دو کنڈیشنز سے واسطہ پڑے گا۔ اگر وہ اچھائی کے راستے پر قدم اٹھائے گا تو پھر ویسی ہی دو کنڈیشنز ہیں۔ اس طرح وہ شروع میں ہی درست کنڈیشن کا انتخاب کرتا رہے تو سیدھے راستے پر بہت تیزی سے آگے چلتا ہے۔ لیکن اگر وہ غلط راستے کا انتخاب کرے تو کافی آگے جاکر اگر وہ درست راستے پر چلنا چاہے تو if اور else کی کنڈیشن کی صورت میں اس کے پاس واپسی کا راستہ ہر وقت کھلا ہے ۔ کافی پرانی بات ہے یاداشت کے سہارے بیان کی ہے لیکن مفہوم کچھ یہی تھا ان کا۔
سر نے کچھ زیادہ ہی اس بات کو ’’پروگرامنگ‘‘ پر منطبق کردیا تھا ورنہ یہ معاملہ صرف if else کا نہیں تھا۔ بہرحال نئے ذہنوں کو بات سمجھانے کے لئے ٹھیک ہی تھا۔
 

رانا

محفلین
قرآن صرف دو موجود انسانوں کو جنت سے نکالنے کی بات کرتا ہے۔ جبکہ آپ کا بیان کردہ مفروضہ زیادہ انسانوں میں سے کچھ گمراہ لوگوں کی بات کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اپنے اس مراسلے میں ایک تدوین کی تھی لیکن پھر خیال آیا کہ کوئی سادہ دل کنفیوژ نہ ہوجائے اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ پورا مراسلہ ہی حذف کردیا جائے کہ قرآن کے حوالے سے کسی کے دل میں کنفیوژن پیدا ہونا اچھی بات نہیں۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
صبح سے سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ حقیقت ہو تو ۔۔۔۔
وہ کتنا قابل ماہر ریاضی داں ہوگا جس نے ایسا عظیم کمپیوٹر بناتے اسے اک ایسی " کمانڈ " پر رواں کر دیا ۔
جو تمام دنیا میں موجود انسانوں حیوانوں کو کنٹرول کر رہا ہے ۔۔اسے کسی ریسٹارٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قران پاک کی سورت جن کی آخری آیت یاد آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ( 28 ) جن - الآية 28
تاکہ معلوم فرمائے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور (یوں تو) اس نے ان کی سب چیزوں کو ہر طرف سے قابو کر رکھا ہے اور ایک ایک چیز گن رکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جس نے کائناتوں کی اک اک چیز کو گن رکھتے اک نظام میں رواں کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی خلاق العظیم ہے ۔ اور وہ اپنی حکمت سے خوب آگاہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا بلھے شاہ نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپے پائِیاں کُنڈِیاں، تے آپے کھنچائیں ڈور
ساڈے وَل مُکھڑا موڑ
عرش کُرسی تے بانگاں مِلیاں، مکّے پے گیا شور
بُلھے شاہ! اَساں مرنا ناہیں، مر جاوے کوئ ہور
ساڈے وَل مُکھڑا موڑ

آئ رُت شگوفیاں والی، چِڑیاں چُگّن آئِیاں
اِکناں نُوں جُرّیاں پَھڑ کھاہدا، اِکناں پھاہیں لائیاں
اِکنں آس مُڑن دی آہے، اِک سِیخ کباب چڑھائِیاں
بُلھے شاہ! کیہ وسّ اُنھاں دا جو مار تقدیر پھسائِیاں
جبر و قدر کے فلسفے میں الجھا فلسفی ڈور سلجھانے کی سوچ میں الجھتا الجھاتا چلا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

رانا

محفلین
مجھے تو کوئی شک نہیں اس بات میں کہ کائنات ایک طے شدہ نظام کے تحت کام کر رہی ہے۔ کیونکہ مشاہدہ یہی بتاتا ہے اور مذہب بھی یہی بتاتا ہے۔ البتہ جب ہم انسانی ریوں کی بات کرتے ہیں تو پھر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
رانا اور فاتح صاحب بتائیے کہ تھیوری پیش کرنے والے کے خیال میں کیا انسانوں کے افعال بھی مصنوعی ہیں؟ یعنی انسان سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ اپنی مرضی سے کر رہا ہے لیکن دراصل وہ اپنی مرضی سے نہیں کر رہا ہوتا؟
طے شدہ نظام کے تحت کام کرنا بالکل اور بات ہے، کہ اس طے شدہ نظام کو تو سائنسدان بھی مانتے ہیں۔ لیکن یہ خبر میں پیش کیا گیا مفروضہ بالکل اور بات کہہ رہا ہے ۔ طے شدہ نظام سے مراد ہے کہ ہر واقعہ جو ہوتا ہے وہ سائنس کے قوانین کے مطابق ہوتا ہے جوکسی پہلے واقعہ کا پرفیکٹ نتیجہ ہوتا ہے اور یہی سائنس ہے جس کے قوانین خدا نے ہی تخلیق کیے ہوئے ہیں۔ کافی عرصہ قبل ایک کمپیوٹر سائٹنسٹ نے اسی بنیاد پر یہ بات پیش کی تھی کہ اگر کائنات کی موجودہ حالت کا پوری درستگی کے ساتھ علم ایک بہت بڑے اور پیچیدہ کمپیوٹر میں ڈالا جاسکے تو مستقبل کی بالکل درست حد تک پیشگوئی کی جاسکتی ہے اور اگرآپ اس بات پر غور کریں تو یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ فزکس کا اصول غیر یقینی یہ بتاتا ہے کہ ایک ذرے کی رفتار اور اس کے مقام کا بیک وقت علم حاصل کرنا ناممکن ہے۔کہ ذرے کو دیکھنے کے لئے اس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے اور روشنی کا فوٹون اس ذرے سے ٹکرا کر اس کی رفتار میں تبدیلی پیدا کردے گا۔ یعنی یہ نظری طور پر تو ممکن ہے کہ اگر ہمیں کسی ذرے کی رفتار اور اور اسکے مقام کا بالکل درست علم ہو تو ہم اس ذرے کی اگلی مستقبل کی حالت کی بالکل درست پیشگوئی کرسکتے ہیں لیکن عملی طور پر ناممکن ہے۔ اب اس بات کو قرآن شریف کی اس آیت کی روشنی میں دیکھیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حال کا بھی پورا علم ہے اور مستقبل کا بھی۔ مستقبل کا علم تو سمجھ میں آتا ہے لیکن سوچنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حال کے علم کا اتنی تاکید سے کیوں ذکر کیا کہ حال کا علم تو بندہ سمجھتا ہے کہ اسے بھی ہے۔ لیکن دراصل اللہ تعالیٰ اسی بات کی طرف اشارہ فرما رہا ہے کہ مستقبل کا علم ہونے کے لئے حال کا پورا علم ہونا ناگزیر ہے۔ اور اگر حال کا پورا علم ہوسکے تو مستقبل کی بالکل درست پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔ وہی اصول غیریقینی والی بات آگئی یہاں پر۔ اسی لئے عالم الغیب صرف خدا ہی کی ذات ہے اور اسی کو عالم الغیب ہونا زیبا ہے کہ ہر ایک ذرہ اسی کی تخلیق ہے اور صرف وہی اپنی تخلیق کی کنہ تک سے واقف ہے۔
 
آخری تدوین:
Top