دکنی محاورات مع تشریح - تبصرے و تجاویز

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ عندلیب۔ یہ سلسلہ جاری رکھیئےگا۔

یہ محاورہ “ کام کی نہ کاج کی، دشمن اناج کی“ مؤنث کے لیے جبکہ یہاں “کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا“ مذکر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
 

زیف سید

محفلین
دکنی محاورات مع تشریح
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

دکن کی قدیم ترین دراوڑی زبانیں تلگو ، کنڑی ، تمل ، اور شمالی ہند کی آرین زبانیں مراٹھی ، برج بھاشا ، ہندی ، سنسکرت کے علاوہ حاکموں کی زبان فارسی عربی ، عبرانی ، پشتو ، ترکی ، ان تمام زبانوں کی آمیزش سے سے ایک نئی زبان دکنی وجود میں آئی

اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو گی۔ گویا زبان نہ ہوئی چوں چوں کا مربہ ہو گیا! کوئی فاضل مصنف سے پوچھے کہ جو محاورے انہوں نے لکھے ہیں ان میں تلگو ، کنڑی، تمل، مراٹھی، ترکی، عبرانی اور پشتو کے کتنے الفاظ ہیں اور ان محاوروں میں برتی جانے والی زبان کی روشنی میں بتائیے کہ دکنی نے گرامر کے کون کون سے اصول ان زبانوں سے اخذ کیے گئے ہیں؟ چلیے، یہ مشکل ہے تو دکنی کی سب سے مشہور، سب سے اہم اور سب سے بڑی کتاب دیوانِ ولی دکنی میں سے ہی بتا دیں۔ میں تو حیران ہوں کہ آخر فاضل مصنف ملیالم، براہوی، بنگالی، ڈوگری، اڑیا، کونکنی، سنتھالی، وغیرہ کو کیوں بھول گئے، آخر زبانوں کے نام ہی تو گنوانے تھے؟

مصنف زبان کو جس قسم کی چیز سمجھتے ہیں اس کے لیے ایک محاورہ میری طرف سے بھی پیشِ خدمت ہے:

کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا

زیف
 

حیدرآبادی

محفلین
باتاں نئیں کرتے ہم حیدرآبادی

اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو گی۔ گویا زبان نہ ہوئی چوں چوں کا مربہ ہو گیا! کوئی فاضل مصنف سے پوچھے کہ جو محاورے انہوں نے لکھے ہیں ان میں تلگو ، کنڑی، تمل، مراٹھی، ترکی، عبرانی اور پشتو کے کتنے الفاظ ہیں اور ان محاوروں میں برتی جانے والی زبان کی روشنی میں بتائیے کہ دکنی نے گرامر کے کون کون سے اصول ان زبانوں سے اخذ کیے گئے ہیں؟ چلیے، یہ مشکل ہے تو دکنی کی سب سے مشہور، سب سے اہم اور سب سے بڑی کتاب دیوانِ ولی دکنی میں سے ہی بتا دیں۔ میں تو حیران ہوں کہ آخر فاضل مصنف ملیالم، براہوی، بنگالی، ڈوگری، اڑیا، کونکنی، سنتھالی، وغیرہ کو کیوں بھول گئے، آخر زبانوں کے نام ہی تو گنوانے تھے؟

مصنف زبان کو جس قسم کی چیز سمجھتے ہیں اس کے لیے ایک محاورہ میری طرف سے بھی پیشِ خدمت ہے:

کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا

زیف
زیف پاشا بھائی ، ذرا ہلّو۔ ذرا دھیرج۔ کئیکو گرم ہوتے پاشا۔ :rolleyes:
اب کہنے کو سرزمین حجاز کا ایک عربی داں بھی "اردو" کیلئے کہہ سکتا ہے کہ : یہ زبان ہے کہ چوں چوں کا مربہ ؟
کیونکہ بچارے نے O.E.D پڑھ رکھی ہوتی ہے جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ :
Hindustani ... the language of the Muslim conquerers of Hindustan, being a form of Hindi, with a large admixture of Arabic, persian and other foreign elements; also called Urdu, i.e. zaban-urdu
ذرّا سوچیں کہ چوں چوں والا طعنہ سن کر کیا ہم اس "بدو" کے کان کھینچنا شروع کر دیں کہ ابے بتا ! اس میں عربی ، فارسی اور دیگر زبانوں کے کون کون سے الفاظ ہیں؟؟

چند محاوروں میں اگر کسی کو دیگر زبانوں کے الفاظ "نظر" نہ آئیں تو کیا حقیقت کا ہی انکار کر دیا جائے گا یا اپنی کم علمی کا اعتراف کیا جائے؟
ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی اپنے معروف مقالے "اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ" میں مضمون "اردو شعر و ادب میں محاورہ" کے تحت رقمطراز ہیں :
اُردوکی پرورش و پرداخت دکنی زبان کی حیثیت سے صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہوتی رہی یہاں کی اپنی بولیاں دراوڑ نسل کی زبانیں تھیں جن میں ہم مہاراشٹری یا مراٹھی کو بھی صرف نظر نہیں کر سکتے ۔ان بولیوں کا اثردکنی اُردو نے قبول کیا۔ اور دکنی اُردو کے محاورے اور لفظیات پر جو اثرات دکنی بولیوں کے تھے اس کا اثر شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آ گیا۔
بحوالہ : اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

لو جی پاشا۔ یہاں مقالہ نگار بی پاشا تو دو ہاتھ آگے بڑھ گئیں۔ کہا کہ : دکنی بولیوں کے اثرات شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آ گئے۔
زیف پاشا بھائی کو چاہئے کہ ان محترمہ کی بھی خوب کھنچائی کریں۔ ;)

بھائی جان۔ آپ تو خواہ مخواہ "نام گنانے" کا طعنہ دینے بیٹھ گئے۔ حالانکہ فاضل مصنف نے واضح طور پر دکنی زبان کے حدود و اربعہ (دکن کی قدیم ترین دراوڑی زبانیں اور شمالی ہند کی آرین زبانیں) کا ذکر خیر کر ہی دیا تھا۔ جبکہ آپ کی گنائی ہوئی زبانیں ان حدود کے باہر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
بنگالی ، اڑیا : آرین (مشرقی ہندوستان)
کونکنی : آرین (جنوبی ہندوستان)
ڈوگری : انڈو یورپین
سنتھالی : Austro- Asiatic
براہوی - گو کہ خاندان ڈراوڑی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ یہ دکنی علاقوں میں نہیں بلکہ پاکستان ، افغانستان اور ایرانی علاقوں میں بولی جانے والی زبان ہے
ملیالی : خاندان بےشک ڈراوڑی ہے مگر دکن کے علاقہ جات (حیدرآباد ، بنگلور ، میسور ، مدراس) میں کیرلہ کا شمار کبھی کسی نے نہیں کیا۔

مان لیا کہ آپ نے دیوانِ ولی دکنی کو خوب اچھی طرح پڑھ لیا ہو۔ مگر افسوس کہ اس معاملے میں اس کا حوالہ قطعاً نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے بجائے دکن کے مشہور شاعر فخر دین نظامی (دَور:1420ء اور مشہور نظم: کدم راؤ پدم راؤ) کا حوالہ دیا جائے گا۔ اس کی وجہ بھی پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی (اردو کا ابتدائی زمانہ ، ص:135) سے سن لیجئے :
حسن شوقی (م:1633ء) کی زبان معاصر دکنی ادیبوں بلکہ نصرتی (عظیم آبادی ، م:1886ء) جیسے بعد کے ادیبوں کی بہ نسبت سنسکرت الفاظ اور تلگو / کنٹرا الفاظ سے خالی ہے۔ اردو میں جنوب کی زبانوں کے نفوذ کی انتہائی مثال تو فخر دین نظامی کا کلام ہے اور خاصی کٹھن مثال کے لئے نصرتی کو پیش کر سکتے ہیں۔ شوقی کے کلام میں فارسیت اتنی تو نہیں جتنی ولی کے یہاں ہے لیکن دکنی شعراء کے اوسط سے کچھ زیادہ ہے۔ ولی کی عام زبان کو "اورنگ آبادی اردو" کہہ سکتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر دکنی عنصر سنسکرت تدبھو پر مشتمل ہے۔
حوالے کے لئے ملاحظہ فرمائیں راقم کے بلاگ کی یہ پوسٹ : اردو کا ابتدائی زمانہ - ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو

حضور عالی مقام ! آپ اہل علم ہیں۔ اختلاف کا اظہار ضرور کیجئے مگر مہذب دائرے میں رہتے ہوئے اور درست مقام و علمی موضوع پر تاکہ ہم جیسے کم علموں کے علم میں اضافہ ہو سکے۔
ویسے اس موضوع پر اپنا مقالہ لکھنے کا ارادہ آپ کا ہو جائے تو اس سے پہلے ذرّا منہ کا مزا بدلنے یہ مضمون بھی پڑھ لیجئے :
دکنی زبان کی شان

کیا کریں ، ہم حیدرآبادی زیادہ باتاں بھی نئیں کرتے پاشا ورنہ کچھ حوالے مزید ڈھونڈ کر لا دیتے۔ چلئے پرسوں ترسوں سہی۔ :)
 

زیف سید

محفلین
پاشا بھائی، بہت بہت شکریہ کہ آپ نے وقت نکال کر یہ پوسٹ لکھی۔تاہم آپ کی اس بات سے حیرت ہوئی:

حضور عالی مقام ! آپ اہل علم ہیں۔ اختلاف کا اظہار ضرور کیجئے مگر مہذب دائرے میں رہتے ہوئے

ارے پاشا صاحب، اگر کسی بات سے اختلاف کا اظہار تہذیب کا دامن چھوڑنے کے مترادف ہے تو خاکسار ضرور اس جرم کا مرتکب ہوا ہے۔اور ویسے بھی اگر میں نے کوئی خلافِ تہذیب بات لکھی ہوتی تو موڈریٹر حضرات ضرور اس کو نکال باہر کرتے۔

حضورِ والا، زندہ زبانیں دوسری زبانوں سے الفاظ قبول کرتی رہتی ہیں، اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ کہہ دینا کہ دکنی دراوڑی اور انڈویورپی زبانوں کے اختلاط سے بنی ہے، لسانیات کے تمام اصولوں کی نفی ہے۔ میں اس بات سے انکار نہیں کر رہا کہ دکنی یا اردو میں کسی اور زبان سے الفاظ نہیں ہیں، مجھے صرف اس بات پر اعتراض ہے ہے کہ اگر کسی زبان میں کسی اور زبان کے کچھ الفاظ آ جائیں تو کہہ دیا جائے کہ یہ زبان اس زبان سے نکلی ہے یا بنی ہے۔ فاضل مصنف نے لکھا تھا:

ان تمام زبانوں کی آمیزش سے سے ایک نئی زبان دکنی وجود میں آئی۔۔۔

مجھے صرف اس بات سے اختلاف ہے۔

چند مثالوں سے بات سمجھاتا ہوں۔ قرآن میں سنسکرت کے چند الفاظ آئے ہیں۔ تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ عربی سنسکرت اور دوسری زبانوں کے اختلاط سے بنی ہے؟ انگریزی نے اردو سے کئی الفاظ لیے ہیں، جنگل، شیمپو، پاجامہ، خاکی، لُوٹ، وغیرہ۔ تو کیا یہ کہنا درست ہے کہ انگریزی اردو سے نکلی ہے؟

آپ نے جو حوالہ جات عنایت فرمائے ہیں ان میں مجھے کہیں بھی یہ دعویٰ نظر نہیں آیا کہ دکنی دراوڑی اور شمالی زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ اس لیے میں نے جو سوال اٹھایا تھا وہ ایک بار پھر حاضر ہے:


کوئی فاضل مصنف سے پوچھے کہ جو محاورے انہوں نے لکھے ہیں ان میں تلگو ، کنڑی، تمل، مراٹھی، ترکی، عبرانی اور پشتو کے کتنے الفاظ ہیں اور ان محاوروں میں برتی جانے والی زبان کی روشنی میں بتائیے کہ دکنی نے گرامر کے کون کون سے اصول ان زبانوں سے اخذ کیے ہیں؟


اگر آپ اس کا جواب عنایت کر سکیں ۔۔۔ خاص طور پرگرامر کے کون کون سے اصول والی بات ۔۔۔ تو میں بڑے خلوص سے آپ کی بات مان کر اپنے موقف سے دست بردار ہو جاؤں گا۔ویسے بھی آپ حیدرآبادی ہیں، دکنی ہیں، اپنی زبان کے بارے میں یقینا مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے۔ اور ہاں، اس سوال کو محاوروں سے ہٹ کر تمام دکنی زبان پر محیط سمجھیئے۔

زیف
 

ابن جمال

محفلین
میری ذاتی رائے ہے کہ موڈریٹر حضرات اس بحث کو اک الگ دھاگہ میں منتقل کردیں تاکہ عندلیب صاحبہ دکن کے محاورت تسلسل کے ساتھ شیئر کرتی رہیں اوران حضرات کی بحث بھی جاری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ابن جمال بھائی آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے یہ نیا دھاگہ “دکنی محاورات مع تشریح - تبصرے و تجاویز“ کے نام سے بنا دیا گیا ہے۔ یہاں اراکین اپنی اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
 
Top