باتاں نئیں کرتے ہم حیدرآبادی
اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو گی۔ گویا زبان نہ ہوئی چوں چوں کا مربہ ہو گیا! کوئی فاضل مصنف سے پوچھے کہ جو محاورے انہوں نے لکھے ہیں ان میں تلگو ، کنڑی، تمل، مراٹھی، ترکی، عبرانی اور پشتو کے کتنے الفاظ ہیں اور ان محاوروں میں برتی جانے والی زبان کی روشنی میں بتائیے کہ دکنی نے گرامر کے کون کون سے اصول ان زبانوں سے اخذ کیے گئے ہیں؟ چلیے، یہ مشکل ہے تو دکنی کی سب سے مشہور، سب سے اہم اور سب سے بڑی کتاب دیوانِ ولی دکنی میں سے ہی بتا دیں۔ میں تو حیران ہوں کہ آخر فاضل مصنف ملیالم، براہوی، بنگالی، ڈوگری، اڑیا، کونکنی، سنتھالی، وغیرہ کو کیوں بھول گئے، آخر زبانوں کے نام ہی تو گنوانے تھے؟
مصنف زبان کو جس قسم کی چیز سمجھتے ہیں اس کے لیے ایک محاورہ میری طرف سے بھی پیشِ خدمت ہے:
کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
زیف
زیف پاشا بھائی ، ذرا ہلّو۔ ذرا دھیرج۔ کئیکو گرم ہوتے پاشا۔
اب کہنے کو سرزمین حجاز کا ایک عربی داں بھی "اردو" کیلئے کہہ سکتا ہے کہ : یہ زبان ہے کہ چوں چوں کا مربہ ؟
کیونکہ بچارے نے O.E.D پڑھ رکھی ہوتی ہے جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ :
Hindustani ... the language of the Muslim conquerers of Hindustan, being a form of Hindi, with a large admixture of Arabic, persian and other foreign elements; also called Urdu, i.e. zaban-urdu
ذرّا سوچیں کہ چوں چوں والا طعنہ سن کر کیا ہم اس "بدو" کے کان کھینچنا شروع کر دیں کہ ابے بتا ! اس میں عربی ، فارسی اور دیگر زبانوں کے کون کون سے الفاظ ہیں؟؟
چند محاوروں میں اگر کسی کو دیگر زبانوں کے الفاظ "نظر" نہ آئیں تو کیا حقیقت کا ہی انکار کر دیا جائے گا یا اپنی کم علمی کا اعتراف کیا جائے؟
ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی اپنے معروف مقالے "اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ" میں مضمون "اردو شعر و ادب میں محاورہ" کے تحت رقمطراز ہیں :
اُردوکی پرورش و پرداخت دکنی زبان کی حیثیت سے صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہوتی رہی یہاں کی اپنی بولیاں دراوڑ نسل کی زبانیں تھیں جن میں ہم مہاراشٹری یا مراٹھی کو بھی صرف نظر نہیں کر سکتے ۔ان بولیوں کا اثردکنی اُردو نے قبول کیا۔ اور دکنی اُردو کے محاورے اور لفظیات پر جو اثرات دکنی بولیوں کے تھے اس کا اثر شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آ گیا۔
بحوالہ :
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
لو جی پاشا۔ یہاں مقالہ نگار بی پاشا تو دو ہاتھ آگے بڑھ گئیں۔ کہا کہ : دکنی بولیوں کے اثرات شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آ گئے۔
زیف پاشا بھائی کو چاہئے کہ ان محترمہ کی بھی خوب کھنچائی کریں۔
بھائی جان۔ آپ تو خواہ مخواہ "نام گنانے" کا طعنہ دینے بیٹھ گئے۔ حالانکہ فاضل مصنف نے واضح طور پر دکنی زبان کے حدود و اربعہ (دکن کی قدیم ترین دراوڑی زبانیں اور شمالی ہند کی آرین زبانیں) کا ذکر خیر کر ہی دیا تھا۔ جبکہ آپ کی گنائی ہوئی زبانیں ان حدود کے باہر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
بنگالی ، اڑیا : آرین (مشرقی ہندوستان)
کونکنی : آرین (جنوبی ہندوستان)
ڈوگری : انڈو یورپین
سنتھالی : Austro- Asiatic
براہوی - گو کہ خاندان ڈراوڑی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ یہ دکنی علاقوں میں نہیں بلکہ پاکستان ، افغانستان اور ایرانی علاقوں میں بولی جانے والی زبان ہے
ملیالی : خاندان بےشک ڈراوڑی ہے مگر دکن کے علاقہ جات (حیدرآباد ، بنگلور ، میسور ، مدراس) میں کیرلہ کا شمار کبھی کسی نے نہیں کیا۔
مان لیا کہ آپ نے دیوانِ ولی دکنی کو خوب اچھی طرح پڑھ لیا ہو۔ مگر افسوس کہ اس معاملے میں اس کا حوالہ قطعاً نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے بجائے دکن کے مشہور شاعر فخر دین نظامی (دَور:1420ء اور مشہور نظم: کدم راؤ پدم راؤ) کا حوالہ دیا جائے گا۔ اس کی وجہ بھی پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی (اردو کا ابتدائی زمانہ ، ص:135) سے سن لیجئے :
حسن شوقی (م:1633ء) کی زبان معاصر دکنی ادیبوں بلکہ نصرتی (عظیم آبادی ، م:1886ء) جیسے بعد کے ادیبوں کی بہ نسبت سنسکرت الفاظ اور تلگو / کنٹرا الفاظ سے خالی ہے۔ اردو میں جنوب کی زبانوں کے نفوذ کی انتہائی مثال تو فخر دین نظامی کا کلام ہے اور خاصی کٹھن مثال کے لئے نصرتی کو پیش کر سکتے ہیں۔ شوقی کے کلام میں فارسیت اتنی تو نہیں جتنی ولی کے یہاں ہے لیکن دکنی شعراء کے اوسط سے کچھ زیادہ ہے۔ ولی کی عام زبان کو "اورنگ آبادی اردو" کہہ سکتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر دکنی عنصر سنسکرت تدبھو پر مشتمل ہے۔
حوالے کے لئے ملاحظہ فرمائیں راقم کے بلاگ کی یہ پوسٹ :
اردو کا ابتدائی زمانہ - ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو
حضور عالی مقام ! آپ اہل علم ہیں۔ اختلاف کا اظہار ضرور کیجئے مگر مہذب دائرے میں رہتے ہوئے اور درست مقام و علمی موضوع پر تاکہ ہم جیسے کم علموں کے علم میں اضافہ ہو سکے۔
ویسے اس موضوع پر اپنا مقالہ لکھنے کا ارادہ آپ کا ہو جائے تو اس سے پہلے ذرّا منہ کا مزا بدلنے یہ مضمون بھی پڑھ لیجئے :
دکنی زبان کی شان
کیا کریں ، ہم حیدرآبادی زیادہ باتاں بھی نئیں کرتے پاشا ورنہ کچھ حوالے مزید ڈھونڈ کر لا دیتے۔ چلئے پرسوں ترسوں سہی۔