ذوالفقار نقوی
محفلین
دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہا روئے
فلک محو ِ تماشا تھا، نہ کیوں تحت الثریٰ روئے
عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی
کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بار ہا روئے
کسی پتھر کے سینے میں مری آواز یوں گونجے
کہ اِس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدھا روئے
سریرِحجت یزداں، زمیں پر کیا اُتر آیا ؟
اَنا سر پیٹتی آئی، جفاؤں کے خدا روئے
مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا، سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پہ شاہ و گدا روئے
کریں انکار تیری خاک سے ارض و سما نقوی
عبث ہے آنکھ بھر آئے ، یا تیرا نقش ِ پا روئے
ذوالفقار نقوی
فلک محو ِ تماشا تھا، نہ کیوں تحت الثریٰ روئے
عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی
کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بار ہا روئے
کسی پتھر کے سینے میں مری آواز یوں گونجے
کہ اِس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدھا روئے
سریرِحجت یزداں، زمیں پر کیا اُتر آیا ؟
اَنا سر پیٹتی آئی، جفاؤں کے خدا روئے
مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا، سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پہ شاہ و گدا روئے
کریں انکار تیری خاک سے ارض و سما نقوی
عبث ہے آنکھ بھر آئے ، یا تیرا نقش ِ پا روئے
ذوالفقار نقوی
مدیر کی آخری تدوین: