نور وجدان
لائبریرین
سگریٹ کو انسان کے استعارے کے طور پر بھی استعمال کیا ہو تب بھی ابلاغ نہیں ہوتا اس بات کا کسی بھی طرح۔
تسلیم خم !
سگریٹ کو انسان کے استعارے کے طور پر بھی استعمال کیا ہو تب بھی ابلاغ نہیں ہوتا اس بات کا کسی بھی طرح۔
لیزی ویزی بھیااصل مراسلے تک جاؤ تیر کے نشان پر کلک کر کے اور وہاں تفصیل پڑھو
اصل مراسلے تک جاؤ تیر کے نشان پر کلک کر کے اور وہاں تفصیل پڑھو
لیزی ویزی بھیا
اس کے متعلق تفصیل سے لکھا تھا ایک مراسلہ لیکن بھلا ہو اردو ویب کے ہوسٹنگ سرور کا جس کے ڈاؤن ہونے کی وجہ سے وہ مراسلہ بھی ارسال نہ ہوا اور نہ ہی محفوظ رہا ورنہ اس میں کافی تفصیل موجود تھیمیں سوچ رہی تھی کہ یہ کیسے ورک کرتا ہے ۔ اب کچھ کچھ سمجھ آیا ہے نئی بات پتا چلی ۔
کافی معلوماتی مراسلہ ہوتا کیونکہ نیٹ پر زیادہ معلومات مجھے نہیں ملیںاس کے متعلق تفصیل سے لکھا تھا ایک مراسلہ لیکن بھلا ہو اردو ویب کے ہوسٹنگ سرور کا جس کے ڈاؤن ہونے کی وجہ سے وہ مراسلہ بھی ارسال نہ ہوا اور نہ ہی محفوظ رہا ورنہ اس میں کافی تفصیل موجود تھی
اس موضوع پر ایک دھاگا کھول لیتا ہوں ذرا فراغت میںکافی معلوماتی مراسلہ ہوتا کیونکہ نیٹ پر زیادہ معلومات مجھے نہیں ملیں
سگریٹ کا دھواں
عمارت سے نکلتا ہے
آنکھوں میں چبھا بہت
کھانس کر حلق زخمی
ٹی بی کا مرض لگا کر
انسان کو کر رہا ہے بیمار
پھیپھڑوں میں جگہ بنا کر
عمارت کر رہا ہے خراب
دھواں بلند ہے بہت
اڑا کر لے کر جائے گا
اور باقی عمارت کی
بچی کچھی راکھ میں
ملے گا فقط ایک سگریٹ۔۔۔۔!!!
ولسلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب سے میں نثمیں بھی کہوں گی بشرطیکہ آپ ایسی ہی اصلاح کا بیرہ اٹھا لیں اچھی ہے بہت آپ کی محنت کا رنگ نظر آرہا ہے ۔۔اللہ آپ کو توفیق اور ہمت دےالسلام علیکم! آپ کی نثم سے ماخوذ نثم تحریر کی۔ اس میں بہت کام باقی ہے۔ نمونے کے طور پر حاضر
سگریٹ !اور خون کی سرخی کو سیاہی سے بدلنے لگی ہے
جو اس کی رگِ جاں کا اٹوٹ انگ ہے
اب اس کے دھویں کی جھلک
اُس کی آنکھوں کے بدلتے رنگ سے بھی عیاں ہونے لگی ہے
پہلےوہ تنہا رات بھر کھانستا رہتاتھا
اب اسکی ننھی گڑیابھی ساتھ کھانستی ہے
پھر بھی اس کے انگلیوں میں
نئی سگریٹ دبی ہے۔۔۔۔!!!
جو کچھ میں پڑھنے کے بعد سوچ رہا تھا اس کی بہت اچھی عکاسی کردی آپ کے اس جواب نے .....گو کہ یوں بھی میں نثریوں کا بہت زیادہ شیدائی تو نہیں لیکن اگر اسے علامتی افسانہ بھی سمجھا جائے تو اس کا درست مطلب اخذ کرنے سے قاصر ہوں۔
آپ کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ اچھا لکھ سکتی ہو لیکن لکھتی نہیں ہو۔
خیالات ہر شخص کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں، بعض کے ہاں عمدہ اور بعض کے ہاں عامیانہ لیکن لکھاری یا اچھا لکھاری وہ ہوتا ہے جو اپنے خیالات قاری کے ذہن تک منتقل کر سکے یعنی درست انداز میں قاری یا سامع کو اپنا ما فی الضمیر بتا سکے۔
ابلاغ ایک بنیادی صفت ہے جو کسی شعر یا نثر میں ہونی چاہیے۔
اس کے بعد مرحلہ آتا ہے صنائع یعنی خوبیوں کا۔ یوں تو نومولود بچے بھی رو کر اپنی بھوک یا تکلیف کا احساس دلا دیتے ہیں بلکہ انسانوں پرہی کیا موقوف جانور بھی ایک دوسرے سے کمیونی کیٹ کرتے ہیں۔ ایک ادیب یا شاعر کا کلام عام انسانوں یا عوام کالانعام سے کہیں بہتر ہونا چاہیے۔ اس میں راست سے بڑھ کر استعارے اور تشبیہات ہونی چاہییں۔ معنوی حسن کے ساتھ ساتھ صوتی تاثر بھی قائم رہنا چاہیے۔ شاعر تو جب اپنی شاعری میں نصیحتیں کرتا ہے یا معاشرتی مسائل کا حل پیش کرتا ہے تو بھی وہ استعارے کے حسن کے ساتھ کرتا ہے کہ پڑھنے والے کے منہ کا ذائقہ کرکرا نہ ہو اور اس کے کلام میں اثر ہو۔
اب اپنی اس نثری کو خود دیکھو اور جائزہ لو کہ کیا اس میں یہ خوبیاں موجود ہیں؟ کیا یہ اعلیٰ کلام کے درجے پر فائز ہوتی ہے؟
ولسلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب سے میں نثمیں بھی کہوں گی بشرطیکہ آپ ایسی ہی اصلاح کا بیرہ اٹھا لیں اچھی ہے بہت آپ کی محنت کا رنگ نظر آرہا ہے ۔۔اللہ آپ کو توفیق اور ہمت دے