محسن حجازی
محفلین
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو
پتھروں میں زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے درودیوار سجا کر دیکھو
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو
پتھروں میں زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے درودیوار سجا کر دیکھو
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو