جناب سید محمد نقوی صاحب نے اپنے دادا مرحوم کا کلام شامل کیا تھا ۔ تو میں نے سوچا میں بھی اپنے دادا مرحوم کا کچھ کلام پیش کروں اور نقوی صاحب نے بھی شامل کرنے کا کہا تھا ۔
غم حیات کی خاطر پلٹ کے آئے ہیں ۔
نکل گئے تھے بہت دور یاد یار کے ساتھ ۔
مجموعہ کا نام "غمِ حیات "
شائنگ پبلشر وکٹوریہ گنج لکھنو ۔
دھوکے نمودِ صبح کے رہ رہ کے کھائے ہیں
سو مرتبہ چراغ جلائے بُجھَائے ہیں
خونِ جگر کے ساتھ جو آنکھوں میں آئے ہیں
اکثر ان آنسوؤں نے بھی نغمے سُنائے ہیں
بڑھنے نہیں دیئے کبھی دُنیا کے حوصلے
جب کوئی چوٹ کھائی ہے ہم مسکرائے ہیں
کیا کرتے زندگی کو ضرورت اسی کی تھی
کچھ دھوکے جان بوجھ کے بھی ہم نے کھائے ہیں
یہ اور بات ہے کہ توجہ نہ ہو مگر
بے راہ جب چلے ہیں قدم ڈگمگائے ہیں
بس اشکِ غم بس اپنے ہی دامن پہ اکتفا
کیا واسطہ ہے اُن سے جو دامن پرائے ہیں
کیا پوچھتے ہو لذتِ پیکارِ زندگی
خود ہم نے چھیڑ چھیڑ کے فتنے جگائے ہیں
بے اختیار رونے پہ طعنہ نہ دیجئے
جب تک بھی مسکرا سکے ہم مُسکرائے ہیں
زنداں کا در تو کھل نہ سکا آج تک مگر
ہم نے بہ قدر حوصلہ روزن بنائے ہیں ۔
سید نواب افسر لکھنوی
غم حیات کی خاطر پلٹ کے آئے ہیں ۔
نکل گئے تھے بہت دور یاد یار کے ساتھ ۔
مجموعہ کا نام "غمِ حیات "
شائنگ پبلشر وکٹوریہ گنج لکھنو ۔
دھوکے نمودِ صبح کے رہ رہ کے کھائے ہیں
سو مرتبہ چراغ جلائے بُجھَائے ہیں
خونِ جگر کے ساتھ جو آنکھوں میں آئے ہیں
اکثر ان آنسوؤں نے بھی نغمے سُنائے ہیں
بڑھنے نہیں دیئے کبھی دُنیا کے حوصلے
جب کوئی چوٹ کھائی ہے ہم مسکرائے ہیں
کیا کرتے زندگی کو ضرورت اسی کی تھی
کچھ دھوکے جان بوجھ کے بھی ہم نے کھائے ہیں
یہ اور بات ہے کہ توجہ نہ ہو مگر
بے راہ جب چلے ہیں قدم ڈگمگائے ہیں
بس اشکِ غم بس اپنے ہی دامن پہ اکتفا
کیا واسطہ ہے اُن سے جو دامن پرائے ہیں
کیا پوچھتے ہو لذتِ پیکارِ زندگی
خود ہم نے چھیڑ چھیڑ کے فتنے جگائے ہیں
بے اختیار رونے پہ طعنہ نہ دیجئے
جب تک بھی مسکرا سکے ہم مُسکرائے ہیں
زنداں کا در تو کھل نہ سکا آج تک مگر
ہم نے بہ قدر حوصلہ روزن بنائے ہیں ۔
سید نواب افسر لکھنوی