دھڑلے

اس لفظ کو اور اسکے استعمال کو سمجھنے کی خاطر ہم نے کئی پاپڑ بیلے ہیں "دھڑلے" یوسفی نے اسے 'زرگزشت' میں اس ٍڈھنگ سے استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔۔ "میں نے بھی انواع و اقسام کے دھڑلے خود نکالے ہیں۔۔۔"
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے جس دھڑلے سے آپ نے یہ دھاگہ شروع کیا ہے اس سے تو یوں ہی گمان ہوتا ہےکہ آپ اس بارے میں خوب جانتے ہیں اور یہ انتظام صرف ہم ایسے ڈرے سہمے (امتحان سے بھاگے ہوئے) لوگوں کا امتحان لینے کے لئے ہی کیا گیا ہے۔ :D

ویسے مذاق برطرف ہمارے ہاں "دھڑلے" سے زیادہ "ڈھڑلے سے" مستعمل ہے یعنی "زور سے" اور "اعلانیہ" کوئی کام کرنا۔

دھڑلے کا مطلب بھی رعب اور بہادری وغیرہ کے ہی نکلتے ہیں۔

چھوٹاغالبؔ نے یہاں پر یہ لفظ استعمال کیا ہے اُنہیں بھی بلا لیا جائے۔
 
اس لفظ کو اور اسکے استعمال کو سمجھنے کی خاطر ہم نے کئی پاپڑ بیلے ہیں "دھڑلے" یوسفی نے اسے 'زرگزشت' میں اس ٍڈھنگ سے استعمال کیا ہے۔۔۔ ۔۔۔ "میں نے بھی انواع و اقسام کے دھڑلے خود نکالے ہیں۔۔۔ "
مکرمی حجاز صاحب!

عرض ہے کہ اردو زباندانی میں مزاح نگاروں کو بطورَ سند استعمال کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ظالم الفاظ کے ساتھ کچھ اس طرح ٹھٹھوّل کرجاتے ہیں کہ ہم اور آپ جو مبتدیانِ محض ٹھہرے، ہماری مجال ہی کیا، البتہ بڑے بڑے جغادری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

آمدم برسرِ مطلب۔ آپ نے اس لفظ کو مکمل سیاق و سباق کے ساتھ نہیں دیکھا ورنہ خود ہی سمجھ جاتے کہ’’ دھڑلّے نکالنا‘‘ کا کیا مفہوم ہے ۔ ’’دھڑلّے سے‘‘ کا مطلب تو وہی ہے جو برادرم محمداحمد بھائی نے لکھا ہے، یعنی
ویسے جس دھڑلے سے آپ نے یہ دھاگہ شروع کیا ہے اس سے تو یوں ہی گمان ہوتا ہےکہ آپ اس بارے میں خوب جانتے ہیں اور یہ انتظام صرف ہم ایسے ڈرے سہمے (امتحان سے بھاگے ہوئے) لوگوں کا امتحان لینے کے لئے ہی کیا گیا ہے۔ :D

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی "زور سے" اور "اعلانیہ" کوئی کام کرنا۔

دھڑلے کا مطلب بھی رعب اور بہادری وغیرہ کے ہی نکلتے ہیں۔

اب ہم جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب کا مکمل اقتباس نقل کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
’’ راولپنڈی میں مخدومی کرنل محمد خان سے ملاقات ہوئی۔ خلافِ معمول کچھ نڈھال ، تھکے تھکے سے نظر آئے۔پوچھا’’ نصیبِ دشمناں ، طبیعت ناساز ہے؟‘‘ فرمایا’’ دن بھر دھڑلّے نکالتا رہا ہوں۔‘‘ پوچھا‘‘ کیا مطلب؟‘” فرمایا’’ کتاب پر نظرِ ثانی کررہا ہوں۔ ایک کرم فرما نے دھڑلّے شماری کرکے بتایا ہے کہ آپ نے یہ لفظ ۳۷ مرتبہ استعمال کیا ہے۔ صبح سے ۲۵ دھڑلّے تو نکال چکا ہوں ۔ بقیہ کو کان پکڑکے نکالنے لگا تو رونے مچلنے لگے۔ ‘‘ اس واقعے کا ذکر اس لیکے بھی ضروری ہوگیا کہ کہ میں نے بھی انواع و اقسام کے دھڑلّے خود نکالے ہیں ۔ لاکھ جی کڑا کیا ۔ تاہم کچھ جڑیں، چند شاخیں، چند شگوفے کہ مرجھاچلے تھے، امیدِ بہار میں شجرِ انا سے پیوست ہوگئے۔‘‘

حجاز صاحب۔ لوگوں پر ہنسیے لیکن جو شخص خود پر ہنس رہا ہو اس سے ڈریئے۔ یوسفی صاحب نے خود زبان پر اس درجہ عبور کے باوجود اپنی زبان دانی کا کچھ اس انداز میں مذاق اڑایا ہے۔
’’یوں تو میں بھی ٹھیٹ اہلِ زبان ہوں، بشرطیکہ زبان سے مراد مارواڑی زبان ہو۔‘‘

ایک اور جگہ رقمطراز ہیں۔
’’ایک دِن بکراہت استفسار فرمایا’“ روکن سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا۔دلی کا ہوگا، یا مارواڑی ڈھیلا۔‘” عرض کیا ’’ وہ چیز جو سودا خریدنے کے بعد دکاندار اوپر سے مفت دیدے۔‘‘ فرمایا’’ اسے تو لکھنؤ میں گھاتا کہتے ہیں۔‘‘ عرض کیا ’’ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا‘‘ حکم ہوا’’ گھر جاکر اپنی اہلِ زبان اہلیہ سے پوچھ لیجیے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گی کجھے منظور ہوگا۔‘‘ میں حلف اُٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ جمیل صاحب نے انھیں ثالث محض اس بناء پر بنایا کہ انھیں سوفیصد یقین تھا کہ وہ فیصلہ بہر صورت میرے خلاف ہی کریں گی۔ ورنہ وہ اپنی بیگم کو بھی حکم بنا سکتے تھے۔ خیر، میں نے شام کو بیگم سے پوچھا ’’ تم نے لفظ روکن سنا ہے؟‘‘ بولیں’’ ہاں! ہاں! ہزار بار!‘‘ جی خوش ہوگیا۔ کچھ دیر بعد سند کو مزید معتبر بنانے کے لیے پوچھا ’’ تم نے یہ لفظ کہاں سنا؟‘” بولیں’’ تمہی کو بولتے سنا ہے۔‘”

خوش رہیے۔
 

یوسف-2

محفلین
عرض ہے کہ اردو زبان دانی میں مزاح نگاروں کو بطورِ سند استعمال کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ظالم الفاظ کے ساتھ کچھ اس طرح ٹھٹھوّل کرجاتے ہیں کہ ہم اور آپ جو مبتدیانِ محض ٹھہرے، ہماری مجال ہی کیا، البتہ بڑے بڑے جغادری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

خلیل بھائی! گو فرمایا تو آپ نے سو فیصد درست ہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ (ہم :eek: ) مزاح نگاروں کے ساتھ بڑا ظلم بھی کیا ہے۔:D سارے عالم میں رسوا کر کے رکھ دیا ہے کہ ۔ ۔ ۔انشائیہ ”ذکر اُس پری وش“ کا میں، اس احقر نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا: مردم شناس تو سارے ہی ہوتے ہیں، لیکن خانم شناس صرف اور صرف ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔۔۔ ڈرتے ڈرتے اسی لئے کہ کہیں کوئی ”ادب نواز“ یہ فتویٰ نہ جاری کردے کہ اردو میں خانم شناس کوئی اصطلاح ہے ہی نہیں :eek:
 

شمشاد

لائبریرین
مکرمی حجاز صاحب!

اب ہم جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب کا مکمل اقتباس نقل کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ خوش رہیے۔

اقتباس تو آپ نے دے دیا لیکن سیاق کہاں ہے؟ میرا مطلب ہے کتاب کا نام بھی دینا چاہیے تھا ناں۔
 
شمشاد بھائی معذرت کہ ہم سے یہ گستاخی سرزد ہوئی۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ بھی سلسلہء یوسفیہ کے مرید ہیں۔
ویسے سیاق تو مہدی نقوی حجاز نے اپنے پہلے پیغام میں ہی دے دیا تھا۔
بہر حال ۔ یہ پیراگراف یوسفی صاحب کی کتاب زرگزشت کے دیباچے سے منقول ہے۔:)
لیکن ہماری سمجھ میں دھڑلے کو نکالنا نہیں آیا جناب۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انشائیہ ”ذکر اُس پری وش“ کا میں، اس احقر نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا: مردم شناس تو سارے ہی ہوتے ہیں، لیکن خانم شناس صرف اور صرف ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔۔۔ ڈرتے ڈرتے اسی لئے کہ کہیں کوئی ”ادب نواز“ یہ فتویٰ نہ جاری کردے کہ اردو میں خانم شناس کوئی اصطلاح ہے ہی نہیں :eek:

:haha:
 

یوسف-2

محفلین
لیکن ہماری سمجھ میں دھڑلے کو نکالنا نہیں آیا جناب۔
’’ راولپنڈی میں مخدومی کرنل محمد خان سے ملاقات ہوئی۔ خلافِ معمول کچھ نڈھال ، تھکے تھکے سے نظر آئے۔پوچھا’’ نصیبِ دشمناں ، طبیعت ناساز ہے؟‘‘ فرمایا’’ دن بھر دھڑلّے نکالتا رہا ہوں۔‘‘ پوچھا‘‘ کیا مطلب؟‘” فرمایا’’ کتاب پر نظرِ ثانی کررہا ہوں۔ ““

اس اقتباس کے ”پس منظر“ میں ”دھڑلے نکالنا“ سے مراد کتاب کے متن سے غیر فصیح و غیر ادبی الفاظ و اصطلاح کو ”باہر نکالنا “ہے۔ یعنی وہ الفاظ جو قبل ازیں ”دھڑلے سے“ (ادب کے قواعد و ضوابط کے تحت نہیں بلکہ زور زبردستی سے) شامل متن کردئے گئے تھے۔
 

جاسمن

لائبریرین
مکرمی حجاز صاحب!

عرض ہے کہ اردو زباندانی میں مزاح نگاروں کو بطورَ سند استعمال کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ظالم الفاظ کے ساتھ کچھ اس طرح ٹھٹھوّل کرجاتے ہیں کہ ہم اور آپ جو مبتدیانِ محض ٹھہرے، ہماری مجال ہی کیا، البتہ بڑے بڑے جغادری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

آمدم برسرِ مطلب۔ آپ نے اس لفظ کو مکمل سیاق و سباق کے ساتھ نہیں دیکھا ورنہ خود ہی سمجھ جاتے کہ’’ دھڑلّے نکالنا‘‘ کا کیا مفہوم ہے ۔ ’’دھڑلّے سے‘‘ کا مطلب تو وہی ہے جو برادرم محمداحمد بھائی نے لکھا ہے، یعنی


اب ہم جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب کا مکمل اقتباس نقل کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
’’ راولپنڈی میں مخدومی کرنل محمد خان سے ملاقات ہوئی۔ خلافِ معمول کچھ نڈھال ، تھکے تھکے سے نظر آئے۔پوچھا’’ نصیبِ دشمناں ، طبیعت ناساز ہے؟‘‘ فرمایا’’ دن بھر دھڑلّے نکالتا رہا ہوں۔‘‘ پوچھا‘‘ کیا مطلب؟‘” فرمایا’’ کتاب پر نظرِ ثانی کررہا ہوں۔ ایک کرم فرما نے دھڑلّے شماری کرکے بتایا ہے کہ آپ نے یہ لفظ ۳۷ مرتبہ استعمال کیا ہے۔ صبح سے ۲۵ دھڑلّے تو نکال چکا ہوں ۔ بقیہ کو کان پکڑکے نکالنے لگا تو رونے مچلنے لگے۔ ‘‘ اس واقعے کا ذکر اس لیکے بھی ضروری ہوگیا کہ کہ میں نے بھی انواع و اقسام کے دھڑلّے خود نکالے ہیں ۔ لاکھ جی کڑا کیا ۔ تاہم کچھ جڑیں، چند شاخیں، چند شگوفے کہ مرجھاچلے تھے، امیدِ بہار میں شجرِ انا سے پیوست ہوگئے۔‘‘

حجاز صاحب۔ لوگوں پر ہنسیے لیکن جو شخص خود پر ہنس رہا ہو اس سے ڈریئے۔ یوسفی صاحب نے خود زبان پر اس درجہ عبور کے باوجود اپنی زبان دانی کا کچھ اس انداز میں مذاق اڑایا ہے۔
’’یوں تو میں بھی ٹھیٹ اہلِ زبان ہوں، بشرطیکہ زبان سے مراد مارواڑی زبان ہو۔‘‘

ایک اور جگہ رقمطراز ہیں۔
’’ایک دِن بکراہت استفسار فرمایا’“ روکن سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا۔دلی کا ہوگا، یا مارواڑی ڈھیلا۔‘” عرض کیا ’’ وہ چیز جو سودا خریدنے کے بعد دکاندار اوپر سے مفت دیدے۔‘‘ فرمایا’’ اسے تو لکھنؤ میں گھاتا کہتے ہیں۔‘‘ عرض کیا ’’ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا‘‘ حکم ہوا’’ گھر جاکر اپنی اہلِ زبان اہلیہ سے پوچھ لیجیے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گی کجھے منظور ہوگا۔‘‘ میں حلف اُٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ جمیل صاحب نے انھیں ثالث محض اس بناء پر بنایا کہ انھیں سوفیصد یقین تھا کہ وہ فیصلہ بہر صورت میرے خلاف ہی کریں گی۔ ورنہ وہ اپنی بیگم کو بھی حکم بنا سکتے تھے۔ خیر، میں نے شام کو بیگم سے پوچھا ’’ تم نے لفظ روکن سنا ہے؟‘‘ بولیں’’ ہاں! ہاں! ہزار بار!‘‘ جی خوش ہوگیا۔ کچھ دیر بعد سند کو مزید معتبر بنانے کے لیے پوچھا ’’ تم نے یہ لفظ کہاں سنا؟‘” بولیں’’ تمہی کو بولتے سنا ہے۔‘”

خوش رہیے۔
:D:ROFLMAO:
 

جاسمن

لائبریرین
عرض ہے کہ اردو زباندانی میں مزاح نگاروں کو بطورَ سند استعمال کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ظالم الفاظ کے ساتھ کچھ اس طرح ٹھٹھوّل کرجاتے ہیں کہ ہم اور آپ جو مبتدیانِ محض ٹھہرے، ہماری مجال ہی کیا، البتہ بڑے بڑے جغادری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
زبردست!
 
Top