مہدی نقوی حجاز
محفلین
اس لفظ کو اور اسکے استعمال کو سمجھنے کی خاطر ہم نے کئی پاپڑ بیلے ہیں "دھڑلے" یوسفی نے اسے 'زرگزشت' میں اس ٍڈھنگ سے استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔۔ "میں نے بھی انواع و اقسام کے دھڑلے خود نکالے ہیں۔۔۔"
تو اس میں مضائقہ کیا ہو؟یہ تو بڑی دھڑلے والی بات ہوئی
آپ ہمیں کچھ سمجھائیے گا بھی کہ ہم سے فقط بازی ہی کرتے رہیے گامضائقہ تو کچھ نہیں بس دھڑلے بازی ہے
جب حاضر ہونے کی مشقت اٹھا ہی لی ہے تو کچھ آسودگی خاطر بھی کیجے گا۔السلام علیکم۔۔۔ ۔!
حاضر ہیں بھائی۔
مکرمی حجاز صاحب!اس لفظ کو اور اسکے استعمال کو سمجھنے کی خاطر ہم نے کئی پاپڑ بیلے ہیں "دھڑلے" یوسفی نے اسے 'زرگزشت' میں اس ٍڈھنگ سے استعمال کیا ہے۔۔۔ ۔۔۔ "میں نے بھی انواع و اقسام کے دھڑلے خود نکالے ہیں۔۔۔ "
ویسے جس دھڑلے سے آپ نے یہ دھاگہ شروع کیا ہے اس سے تو یوں ہی گمان ہوتا ہےکہ آپ اس بارے میں خوب جانتے ہیں اور یہ انتظام صرف ہم ایسے ڈرے سہمے (امتحان سے بھاگے ہوئے) لوگوں کا امتحان لینے کے لئے ہی کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی "زور سے" اور "اعلانیہ" کوئی کام کرنا۔
دھڑلے کا مطلب بھی رعب اور بہادری وغیرہ کے ہی نکلتے ہیں۔
مکرمی حجاز صاحب!
اب ہم جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب کا مکمل اقتباس نقل کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ خوش رہیے۔
لیکن ہماری سمجھ میں دھڑلے کو نکالنا نہیں آیا جناب۔شمشاد بھائی معذرت کہ ہم سے یہ گستاخی سرزد ہوئی۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ بھی سلسلہء یوسفیہ کے مرید ہیں۔
ویسے سیاق تو مہدی نقوی حجاز نے اپنے پہلے پیغام میں ہی دے دیا تھا۔
بہر حال ۔ یہ پیراگراف یوسفی صاحب کی کتاب زرگزشت کے دیباچے سے منقول ہے۔
انشائیہ ”ذکر اُس پری وش“ کا میں، اس احقر نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا: مردم شناس تو سارے ہی ہوتے ہیں، لیکن خانم شناس صرف اور صرف ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔۔۔ ڈرتے ڈرتے اسی لئے کہ کہیں کوئی ”ادب نواز“ یہ فتویٰ نہ جاری کردے کہ اردو میں خانم شناس کوئی اصطلاح ہے ہی نہیں
’’ راولپنڈی میں مخدومی کرنل محمد خان سے ملاقات ہوئی۔ خلافِ معمول کچھ نڈھال ، تھکے تھکے سے نظر آئے۔پوچھا’’ نصیبِ دشمناں ، طبیعت ناساز ہے؟‘‘ فرمایا’’ دن بھر دھڑلّے نکالتا رہا ہوں۔‘‘ پوچھا‘‘ کیا مطلب؟‘” فرمایا’’ کتاب پر نظرِ ثانی کررہا ہوں۔ ““لیکن ہماری سمجھ میں دھڑلے کو نکالنا نہیں آیا جناب۔
مکرمی حجاز صاحب!
عرض ہے کہ اردو زباندانی میں مزاح نگاروں کو بطورَ سند استعمال کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ظالم الفاظ کے ساتھ کچھ اس طرح ٹھٹھوّل کرجاتے ہیں کہ ہم اور آپ جو مبتدیانِ محض ٹھہرے، ہماری مجال ہی کیا، البتہ بڑے بڑے جغادری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
آمدم برسرِ مطلب۔ آپ نے اس لفظ کو مکمل سیاق و سباق کے ساتھ نہیں دیکھا ورنہ خود ہی سمجھ جاتے کہ’’ دھڑلّے نکالنا‘‘ کا کیا مفہوم ہے ۔ ’’دھڑلّے سے‘‘ کا مطلب تو وہی ہے جو برادرم محمداحمد بھائی نے لکھا ہے، یعنی
اب ہم جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب کا مکمل اقتباس نقل کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
’’ راولپنڈی میں مخدومی کرنل محمد خان سے ملاقات ہوئی۔ خلافِ معمول کچھ نڈھال ، تھکے تھکے سے نظر آئے۔پوچھا’’ نصیبِ دشمناں ، طبیعت ناساز ہے؟‘‘ فرمایا’’ دن بھر دھڑلّے نکالتا رہا ہوں۔‘‘ پوچھا‘‘ کیا مطلب؟‘” فرمایا’’ کتاب پر نظرِ ثانی کررہا ہوں۔ ایک کرم فرما نے دھڑلّے شماری کرکے بتایا ہے کہ آپ نے یہ لفظ ۳۷ مرتبہ استعمال کیا ہے۔ صبح سے ۲۵ دھڑلّے تو نکال چکا ہوں ۔ بقیہ کو کان پکڑکے نکالنے لگا تو رونے مچلنے لگے۔ ‘‘ اس واقعے کا ذکر اس لیکے بھی ضروری ہوگیا کہ کہ میں نے بھی انواع و اقسام کے دھڑلّے خود نکالے ہیں ۔ لاکھ جی کڑا کیا ۔ تاہم کچھ جڑیں، چند شاخیں، چند شگوفے کہ مرجھاچلے تھے، امیدِ بہار میں شجرِ انا سے پیوست ہوگئے۔‘‘
حجاز صاحب۔ لوگوں پر ہنسیے لیکن جو شخص خود پر ہنس رہا ہو اس سے ڈریئے۔ یوسفی صاحب نے خود زبان پر اس درجہ عبور کے باوجود اپنی زبان دانی کا کچھ اس انداز میں مذاق اڑایا ہے۔
’’یوں تو میں بھی ٹھیٹ اہلِ زبان ہوں، بشرطیکہ زبان سے مراد مارواڑی زبان ہو۔‘‘
ایک اور جگہ رقمطراز ہیں۔
’’ایک دِن بکراہت استفسار فرمایا’“ روکن سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا۔دلی کا ہوگا، یا مارواڑی ڈھیلا۔‘” عرض کیا ’’ وہ چیز جو سودا خریدنے کے بعد دکاندار اوپر سے مفت دیدے۔‘‘ فرمایا’’ اسے تو لکھنؤ میں گھاتا کہتے ہیں۔‘‘ عرض کیا ’’ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا‘‘ حکم ہوا’’ گھر جاکر اپنی اہلِ زبان اہلیہ سے پوچھ لیجیے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گی کجھے منظور ہوگا۔‘‘ میں حلف اُٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ جمیل صاحب نے انھیں ثالث محض اس بناء پر بنایا کہ انھیں سوفیصد یقین تھا کہ وہ فیصلہ بہر صورت میرے خلاف ہی کریں گی۔ ورنہ وہ اپنی بیگم کو بھی حکم بنا سکتے تھے۔ خیر، میں نے شام کو بیگم سے پوچھا ’’ تم نے لفظ روکن سنا ہے؟‘‘ بولیں’’ ہاں! ہاں! ہزار بار!‘‘ جی خوش ہوگیا۔ کچھ دیر بعد سند کو مزید معتبر بنانے کے لیے پوچھا ’’ تم نے یہ لفظ کہاں سنا؟‘” بولیں’’ تمہی کو بولتے سنا ہے۔‘”
خوش رہیے۔
زبردست!عرض ہے کہ اردو زباندانی میں مزاح نگاروں کو بطورَ سند استعمال کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ظالم الفاظ کے ساتھ کچھ اس طرح ٹھٹھوّل کرجاتے ہیں کہ ہم اور آپ جو مبتدیانِ محض ٹھہرے، ہماری مجال ہی کیا، البتہ بڑے بڑے جغادری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔